بدھ، 21 اپریل، 2021

گمنام گاؤں کا آخری مزار

 جب ہم کوئی کتاب خرید کرتے ہیں تو ہمارے ذہن میں اس کتاب کے حوالے اک تخیل ہوتا ہے کہ یہ کتاب کس موضوع پر ہے اور اس میں کس قسم کا مواد پڑھنے کو ملے گا، مثلاً جب آپ کسی کی سوانح عمری خریدتے ہیں تو آپ کو معلوم ہوتا ہے کہ اس میں اس شخصیت کے حوالے سے بات ہوگئی۔ اس کی ناکامی اور کامیابی کے فیصلے اور ان کی وجوہات پر بات ہوگئ، غرض آپ کو ہر زبان میں ہر اقسام کی کتب مل جاتی ہیں جن کو آپ خرید کرتے ہیں مگر آپ نے کبھی ایسا نہیں سوچا ہوگا کہ جو کتاب میں خرید رہا ہوں وہ میری ہی زندگی کے بارے میں ہو سکتی ہے۔ گمنام گاؤں کا آخری مزار میں نے دو وجہ سے خریدی۔ اول کہ یہ بک کارنر جہلم نے شائع کی ہے اور دوم کہ یہ راؤف کلاسرہ صاحب کی تحریر ہے۔ کتاب خرید تو لی مگر منیر نیازی صاحب کی طرح " ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں" ۔ اس کتاب نے میرے ساتھ بہت سفر کیا ، میری نیت تھی کہ جب موقع ملا اس کو تھوڑا تھوڑا پڑھ کر ختم کر لوں گا مگر جب پڑھنا شروع کیا تو معلوم ہوا کہ جناب یہ جگ بیتی نہیں آب بیتی ہے اور اس میں جیسل کلاسرہ کی نہیں دولت پور کی کہانیاں شامل ہیں۔

اس کتاب کی تقریباً ہر کہانی کا تعلق کلاسرہ صاحب کے گاؤں جیسل کلاسرہ سے ہے مگر جب میں نے عام لوگوں کی یہ عام سی کہانیاں پڑھنا شروع کی تو معلوم ہوا یہ تو میری زندگی کے خاص لوگوں کی خاص کہانیاں ہیں وہ خاص لوگ جن کا تعلق دولت پور سے ہے اور جن کو راؤف کلاسرہ صاحب اسلام آباد میں بیٹھ کر یاد کرتے ہیں اور میں جہلم۔ معلوم نہیں یاد کرتے ہیں یا ماتم کرتے ہیں۔

اگر کلاسرہ صاحب اپنے چچا میرو کمہار کو یاد کرتے ہیں تو مجھے بھی "چاچا مینو موچی" یاد آتا ہے جس کا گھر دولت پور کے مشرقی راستہ پر تھا۔ جو تھے تو دادا جی کے دوست مگر ہم بھی اپنے والد کی نقل میں ان کو چچا ہی بلاتے تھے۔ اور جو آتے جاتے "پتر کی حال اے، تے ابے دی سنا" کہ کر خیریت معلوم کرتے تھے۔ جو اگر دوسری جماعت میں پڑھنے والے "نکے مرجا صاب" کو اٹھا کر اگر منہ چومتے تو میرے حقیقی چچا سخاوت بیگ شور مچا دیتے کہ "مینو نے تیرا منہ پلیت کر دتا اے ، اس نے پہلاں چمڑے نوں ہتھ لایا سی اس واستے ادے ہتھ پلیت سن" اور میں اپنے نھنے ہاتھوں سے مینو کا منہ نوچ لیتا مگر وہ پھر بھی دوبارہ پیار سے منہ ضرور چومتا۔ اور جب تک مینو چاچا گاؤں میں رہا گاؤں کے ہر چکر میں اک بڑے سے پتھر پر سلیٹی سے میرا پاؤں ضرور "اوکرتا" اور بعد میں کبھی زری کھسہ کبھی گرگابی یا پھر کھیڑی جہلم پہنچ جاتی۔

یا پھر مینو نائی جو کہ گاوں میں ہمارا "سیپی" تھا ، اس نے ہر غمی خوشی میں کھانا پکانا ہوتا تھا۔ اس کے پاس اک ہی استرا تھا جس کو وہ وٹی پر تیز کر کے سارے گاؤں والوں کی شیو اور حجامت بناتا تھا۔ جو صرف اس لیے میرے بال کاٹتا تھا کہ "میرا دل کردا اے کہ اپنے پوترے دے وال منا" میں ان کا پوترہ تھا کیونکہ وہ راجے پھپھرے دے بھرا بنے ہو سن ، اور مجھ شہری بابو کے سارے پف اس لیے خراب ہو جاتے تھے کہ میں چاچے مینو نائی کی محبت کو انکار نہیں کر سکتا تھا۔

گمنام گاوں کا آخری مزار وہ کتاب ہے جو آپ کے اندر دفن پرانی یادیں کہیں یا پھر قبریں کھود دیتی ہے جو کہ ہمارے اندر دفن ہوگئی تھیں اور گزرتے وقت کے ساتھ ان پر مصروفیات کی اتنی دھول جم گئی تھی کہ ان کے نشانات تک گم ہو گئے تھے ، اپنے سگے تو یاد آے ہی مگر وہ بھی یاد آئے جن سے کوئی خونی رشتہ نہیں تھا مگر سب سے قریبی وہ ہی تھے۔

چاچا گلا ہٹی آلا، جس کی دوکان سے جب بھی جاؤ تو دودھ مکھن والی ٹافی ملتی تھی کہ راجے پھپھرے دا پوترا تے فیر میرا وہی پوترا ہی اے۔ حاجی جہانداد خان جو گاؤں کے واحد ڈاکٹر تھے کیونکہ میڈیکل کور سے پینشن یافتہ تھے مگر دوکان کریانہ کی کرتے تھے۔ ان کی دوکان میں پہلی دفعہ پنکھا دیکھا جو کپڑوں اور چادر سے بنا تھا جس کی رسی کھینچتے تھے تو کپڑے سے ہوا آتی تھی ان کی وفات کی بعد ان کا بیٹا بابا رشید ان کی دوکان پر بیٹھا۔ اگرچہ ابو سے بھی کم عمر ہوں گئے مگر رشتہ ایسا تھا کہ ہم بابا جی رشید بلاتے تھے۔ وہ بھی جوانی میں ہی فوت ہوگئے۔ افضل تنگر جو ہمارے لیے کیا سارے جہاں کیلیے بابا ابھا تھا ،تو ابھی کل کہ بات ہے۔ سرئے راہ ہونے والی وہ ملاقات کسے معلوم تھی کہ آخری ملاقات ہے۔ اک معاملے میں جب بات ہوئی تو کہنے لگے "پتر اسی مرنے تک تعبدار، مر گئے تے تسی جانو تے پچھلے جانن" چاچا خدا بخش ترکھان جو لکڑی میں نہ صرف رنگ بھرتا تھا بلکہ اس میں خوبصورتی کی روح پھونک دیتا تھا۔ اک بار چارپائی کی ٹھکائی پلر کے ساتھ بیٹھ کر شروع کی اور ساتھ دادا جی سے گپیں لگانا شروع کر دئیں جب کام مکمل ہو تو دیکھا کہ پلر چارپائی کے درمیان آ گیا ہے۔

انگریزی کی اک کہاوت پڑھی تھی جس کا مفہوم تھا " مجھے یہ تو معلوم تھا کہ جب میں اپنے ماضی کے دکھ یاد کرو گا تو مجھے ہنسی آ جائے گئی مگر مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ جب میں ماضئ کی خوشیاں یاد کروں گا تو تو پڑوں گا" کلاسرہ صاحب آپ نے رولا دیا۔

راؤف کلاسرہ صاحب اگر ۱۰ روپے دے کر وی سی آر ہر فلم دیکھتے تھے تو کیا میں نے نہیں دیکھیں!!! اور کلاسرہ صاحب آپ کی طرح گھر والوں سے چوری ہی دیکھی تھیں اور پکڑنے جانے پر آپ کو تو کچھ بھی نہ کہا گیا ہمیں کپڑے دھونے والے "سوٹے" سے پینٹی پڑی تھی۔

جب کبھی گاؤں میں خوشی کا موقع آتا تو وی سی آر پنڈی سید پور سے ضرور منگوایا جاتا۔ معلوم نہیں کلاسرہ صاحب آپ نے کبھی کسی موٹر سائیکل سے پڑول نکال کر کورے نوٹ سے وی سی آر کا ہیڈ بھی صاف کیا ہے یا نہیں!!!

بعد میں چاچا زمان سمور نے میڈل ایسٹ سے وی سی آر اور دو فلمیں گاؤں بھیج دیں اور وہ دو فلمیں ہم نے اپنے بھائی صفدر سمور کی مہربانی سے اتنی بار دیکھیں اتنی بار دیکھیں کہ ان کا ہر لفظ ہر گانا ہر ڈئیلاگ اور اداکاروں کی ہر حرکت زبانی یاد ہوگئی تھی۔ مگر چونکہ ان کے پیسے نہیں دینے پڑتے تھے اس لیے ان کو ہی بار بار دیکھا جاتا تھا۔

راؤف کلاسرہ صاحب جب آپ کو لیہ کالج کی کرسیاں یاد آتی ہیں تو مجھے بھی اپنا سلول کالج یاد آتا ہے۔ آپ کو اگر آپ کے استاد نے انگلش اس طرز پر پڑھائی کہ پتئ چلتا تھا کہ شیکسپیر بول رہا ہے تو ریاض ڈار صاحب ہم کو بھی غالب کے اشعار اسی طرح پڑھاتے تھے کہ غالب بھی کیا بیاں کرتا ہو گا۔ پرنسپل فیاض بخاری صاحب جن اک اتنا رعب تھا کہ جب وہ راونڈ پر نکلتے تو طالب علم تو اک طرف اساتذہ ہوشیار باش ہو جاتے تھے۔ راؤف کلاسرہ صاحب آپ نے اگر انگلش جی ایم صاحب سے پڑھی ہے تو ہم نے بھی توفیق صاحب سے پڑھی تھی جن نے اک دن اس لیے ٹھکائی کر دی کہ بہت دن سے نہیں ہوئی اور مجھے ڈر ہے کہ تم خراب نہ ہو جاؤ۔

یادیں ہیں کہ بہا لے جانے کے درپہ ہیں جذبات نقطہ عروج پر ہیں مگر الفاظ ہیں کہ مل ہی نہیں رہے۔ کس کس کو یاد کرو۔ کن الفاظ میں یاد کرو۔ وہ دوست جو آج نہیں ہیں ان کا ذکر تک نہیں اور جو ہیں وہ غم روزگار نے گم کر رکھے ہیں۔

معلوم نہیں کہ اس کتاب نے جذباتی استحسال کیا ہے یا تسکین دی ہے۔ راؤف کلاسرہ صاحب کو دعائیں دینی ہیں یا درد پرانے جگانے پر کوسنا ہے۔ آپ یہ کتاب ضرور پڑھ کر مجھے بھی بتائیے گا۔


بدھ، 14 اپریل، 2021

زندہ رود

 

ڈاکٹر جاوید اقبال پر کالم لکھنے کا ارادہ متزلزل ہورہا تھا۔ اپنی کتاب ”زندہ اقبال“ کے سلسلے میں رہنمائی حاصل کرنے کیلئے میری ان سے فقط دو ملاقاتیں ہوئی تھیں۔ ڈاکٹر صاحب نے شفقت کا اظہار کرتے ہوئے کتاب کا مطالعہ کیا اور حوصلہ افزائی کیلئے خط لکھا۔ کالم بن نہیں پارہا تھا۔ یہ میرا وہم ہے خیال ہے یا خواب ہے کہ رات سوتے ہوئے یوں محسوس ہوا کہ جیسے ڈاکٹر جاوید اقبال کہہ رہے ہوں کہ میرے بارے میں خوشامدانہ اور جذباتی کالم لکھے جارہے ہیں۔ میری شناخت ”زندہ ردو“ اور ”اپنا گریباںچاک“ ہیں۔ اس احساس اور وسوسے نے میرا ارادہ پختہ کردیا۔ ڈاکٹر جاوید اقبال کی کتاب ”زندہ رود“دو جلدوں پر مشتمل ہے اور علامہ اقبال کی مکمل سوانح حیات ہے۔ تحقیق پر مبنی یہ مستند اور یادگار کتاب نسل درنسل زندہ رہنے والی کتب میں شمار ہوتی ہے۔ اس کتاب میں ڈاکٹر صاحب نے علامہ اقبال کی زندگی کی آخری رات کے بارے میں تحریر کیا ہے۔” آخری رات انکی چار پائی گول کمرے میں بچھی تھی۔ عقیدت مندوں کا ہجوم تھا میں کوئی نو بجے کے قریب اس کمرے میں داخل ہوا تو پہچان نہ سکے۔ پوچھا ”کون ہے“ میں نے جواب دیا ”میں جاوید ہوں“ہنس پڑے اور بولے ”جاوید بن کر دکھا تو جانیں“۔ پھر اپنے قریب بیٹھے ہوئے چوہدری محمد حسین سے مخاطب ہوئے ”چوہدری صاحب اسے جاوید نامہ کے آخیر میں وہ دعا، خطاب بہ جاوید ضرور پڑھوا دیجئے گا“۔ ڈاکٹر جاوید اقبال اپنے عظیم والد کی خواہش کےمطابق عمر بھر جاوید بننے کی کوشش کرتے رہے مگر برگد کے سایے سے باہر نہ نکل سکے۔ خطاب بہ جاوید تیرہ بند پر مشتمل فارسی کی طویل نظم ہے جس کے آخری شعر کا ترجمہ یہ ہے۔ ”اے کہ تو جاوید میری بے قرار جان کیلئے تسکین کا باعث ہے تو اگر رقص جاں سے تسکین حاصل کرلے پھر میں تجھے دین مصطفی کا راز بتاں گا اور میں تیرے لیے قبر کے اندر بھی دعا کرتا رہونگا“۔پاکستان کی تاریخ کا المیہ ہے کہ ہم جذباتی رنگ آمیزی بلکہ رنگ بازی کرکے عظیم شخصیتوں کے کردار اور پیغام کو ہی مسخ کردیتے ہیں۔ دانشور اور مورخ علامہ اقبال کے تصور اور فکر کو اپنے اپنے مخصوص ایجنڈے کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کرتے رہے مگر ڈاکٹر جاوید اقبال نے علامہ اقبال کا دفاع کیا۔ انکے فکر اور فلسفے کو پرکھا، جانچا اور اسے اصل ہی¿ت میں نئی نسلوں کے سامنے پیش کیا۔ یہ کوئی معمولی کام نہیں تھا۔ وہ علامہ کے تصور ریاست کے بارے میں لکھتے ہیں۔ ”اقبال کے تصور ریاست کیمطابق صرف پارلیمنٹ کو ہی اجتہاد کا عمل جاری رکھنے کا اختیار ہے۔ اراضی کی ملکیت کی حد اس قدر مقرر کردی جائے جو جاگیردار خود کاشت کرسکے زرعی انکم ٹیکس عام انکم ٹیکس کی شرح کے مطابق نافذ کیا جائے۔ بے زمین کاشت کاروں کو سرکاری اراضی آسان قسطوں پر دی جائے۔ قرآنی احکام کےمطابق امیروں کی دولت میں غریبوں کا حصہ ہے جو ضرورت سے زائد ہے۔ وہ غریبوں کو دے دیا جائے۔ مزدوروں کی کم از کم اجرت، پنشن، طبی اخراجات، رہائش اور بچوں کی تعلیم کیلئے قانون سازی کی جاسکتی ہے۔ اسلامی فلاحی قوانین (زکوٰة، عشر) اور وراثت کے قوانین سختی سے نافذ کیے جائیں“۔[زندہ رود صفحہ 485] ڈاکٹر جاوید اقبال پاکستان کے عظیم محقق، دانشور اور قانون دان تھے۔ وہ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے جج کے منصب پر فائز رہے۔ پاکستان کی آزادی اور قیام کیلئے علامہ اقبال کی جدوجہد تاریخ کا حصہ ہے۔ استحصالی حکمران اشرافیہ نے ان کے عظیم فرزند (جن کی اپنی شناخت تھی) کی وفات پر تعزیت بھی ضروری نہ سمجھی۔ اس افسوسناک رویے سے اندازہ ہوتا ہے کہ حکمران اشرافیہ کس حد تک زوال پذیر ہوچکی ہے۔ چیف جسٹس پاکستان انور ظہیر جمالی جنازے کے موقع پر منیب اقبال اور ولید اقبال کے ہمراہ کھڑے رہے۔ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ جسٹس منظور احمد ملک تدفین کے موقع پر بھی موجود تھے۔ گورنر پنجاب ملک محمد رفیق رجوانہ جنازے میں شریک ہوئے۔ عمران خان نے گھر پر جاکر تعزیت کی۔ وزیراعلیٰ پنجاب اور وزیراعظم پاکستان نے تعزیت کیلئے فون بھی نہ کیا۔ دولت کے پجاریوں کو عقل و دانش سے کیا واسطہ اور نہ ہی انکے اس سنگدلانہ رویے سے مرحوم کا مرتبہ کم ہوا۔علامہ اقبال نے کہا تھا۔


 

اپنی عظمت سےاگر یہ با خبر ہوں آج بھی

پھر قلندر،خان اورسلطان  تینوں ایک ہیں

جس جگہ انسان کو کوئی ہم زباں ملتا نہ ہو

بحرو بر ہو، شہر ہو، ہر آن تینوں ایک ہیں

شک نہیں اس میں کہ اندھے جوہری کے سامنے

سنگِ خارا لعل اور مرجان تینوں ایک ہیں

حضرت رحمان باباؒ

مصنف : ڈاکٹر جاوید اقبال

تبصرہ: قیوم نظامی



منگل، 13 اپریل، 2021

اپنا گریباں چاک

 ڈاکٹر جاوید اقبال کا ہائی کورٹ لاہور کے چیف جسٹس کے عہدے سے باسٹھ برس کی عمر میں 1986ء میں ریٹائر منٹ ہوتے ہی اسی روز سپریم کورٹ کے جج کی حیثیت سے تقرر عمل میں آیا۔ انھوں نے ملک اور بیرون ملک کئی سمیناروں میں حصہ لیا۔ اتنے ممالک کا سرکاری سطح پر دورہ کیا کہ اقبال سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔علامہ اقبال، نظام حیدرآباد آصف سابع میرعثمان علی خاں کے دورِ حکومت میں حیدرآباد دکن میں ہائی کورٹ کا جج بننا چاہتے تھے مگر یہ ممکن نہ ہوسکا مگر جاوید اقبال نے یہ کارنامہ انجام دیا کہ پاکستان کی عدالتِ عالیہ کے منصب جلیلہ سے وابستہ رہے۔ جاوید اقبال نے کئی بار عمرے کیے۔ حرمین شریفین کی زیارت سے مشرف ہوئے مگر اقبال یہ آرزو اپنے سینے میں لے کر اس دنیا سے گزرگئے اپنی ناکام آرزو کو انھوں نے جو شعری پیرایہ دیا ہے وہ یادگار بے مثال ہے۔’’اپنا گریباں چاک ‘‘ میں ڈاکٹر جاوید اقبال نے پاکستان اور بیرون پاک سیاسی صورتِ حال کا جو نقشہ کھینچا اس سے ان کی سیاسی بصیرت کا اندازہ ہوتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف انھوں نے انتخابات میں حصہ لیا اور فرزند اقبال ہونے کے باوجود شکست کھائی۔ اس کے باوجود بھٹو نے انھیں اپنے ساتھ رکھا۔ اسی طرح یہ جنرل صیاء الحق کے کٹر اسلامی رویے سے نالاں تھے اس کے باوجود انھیں اہم مواقع پر جنرل ضیاء الحق یاد فرمایا کرتے تھے اور ان سے مشورے طلب کرتے تھے۔ غرض ڈاکٹر جاوید اقبال نے بڑی کامیاب زندگی گزاری اور ان کے اپنے خیال میں یہ کامیابی انھوں نے اپنے بل پر اپنی قابلیتوں کے سہارے حاصل کی ہے۔ ان کی کامیابیوں میں اقبال کا کوئی حصہ نہیں۔جاوید اقبال کی پیدائش 1924ء کی ہے اور علامہ اقبال نے 1938ء میں وفات پائی۔ گویا جس وقت باپ کا انتقال ہوا بیٹا صرف چودہ برس کا تھا۔ ڈاکٹر جاوید نے بڑی صاف گوئی سے کام لیتے ہوئے بعض انکشافات بھی کیے۔ کہتے ہیں :۔’’ماہ رمضان میں گھر میں والدہ اور دیگر خواتین روزے رکھتیں اور قرآن شریف کی تلاوت کرتیں۔ گھر کے ملازم بھی روزے رکھتے۔ البتہ میرے والد علامہ اقبال شاذ و نادر ہی روزہ رکھتے تھے اور جب رکھتے تھے تو ہر چند گھنٹوں کے بعد علی بخش کو بلوا کر پوچھتے کہ افطاری میں کتنا وقت باقی ہے۔گھر کی خواتین کو نماز پڑھتے دیکھنا مجھے یاد نہیں۔ والد کو کبھی کبھار فجر کی نماز پڑھتے ضرور دیکھا ہے۔جہاں تک میری ذات کا تعلق ہے مجھے ماں باپ نے کبھی نماز پڑھنے یا روزہ رکھنے کے لیے مجبور نہیں کیا۔ مجھے نہانے سے سخت نفرت تھی لیکن عید کی شب گر م پانی سے والدہ نہلاتیں اور میں بڑے شوق سے نہاتا۔ صبح اٹھ کر نئے کپڑے پہنے جاتے۔کلائی پر باندھنے کے لیے مجھے ایک سونے کی گھڑی دی جاتی جو افغانستان کے بادشاہ نادرشاہ نے مجھے تحفے کے طور پر بھیجی تھی۔ایک دو مرتبہ والد اور والدہ کے ساتھ سیالکوٹ بھی گیا تھا۔ تب میرے دادا بقید حیات تھے۔۔۔ ان کا نام شیخ نور محمد تھا مگر شیخ نتھو کہلاتے تھے اس لیے کہ ان کی ولادت پر (ان کی) والدہ نے انھیں نا ک میں نتھ پہنا دی تھی۔ ان کی پیدائش سے پہلے ان کے والدین کے ہاں گیارہ لڑکے پیدا ہوئے مگر پیدا ہوتے ہی مرجایا کرتے تھے ، صرف یہی بچے اور لمبی عمر پائی۔ آپ کسی مدرسے کے پڑھے ہوئے نہیں تھے ‘‘خود اپنی پیدائش کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے ڈاکٹر جاوید اقبال لکھتے ہیں :’’میری ولادت سے کچھ ماہ پیشتر میرے والد سر ہند تشریف لے گئے۔ شیخ احمد سر ہندی کے مزار پر حاضری دی اور دعا کی کہ اگر اﷲ تعالیٰ نے انھیں اولادِ نرینہ سے نوازا تو اسے ساتھ لے کر ان کی خدمت میں حاضر ہوں گے۔ چنانچہ جب میں تقریباً دس برس کا ہوا (29 جون 1934ء) تو مجھے ہمراہ لے کر سر ہند شیخ احمد کی بارگاہ میں حاضر ہوئے ‘‘جاوید اقبال کو لے کر مذکورہ مزار پر منت پوری کرنے کا ذکر علامہ اقبال کے ایک مکتوب میں بھی ملتا ہے جو 1934ء میں لکھا گیا تھا۔ گویا مرنے سے چار برس پہلے تک بھی وہ مزاروں پر حاضری کے قائل تھے۔اپنی جنم پتری کے بارے میں ڈاکٹر جاوید اقبال نے لکھا ::’’میرے والد کے ایک ہندودوست راجہ سر نریندر ناتھ نے انھیں میری جنم پتری بنوانے کی صلاح دی اور اس سلسلے میں اپنی خدمات پیش کیں۔ میرے والد نے میری ولادت کی تاریخ کے ساتھ، صحیح وقت کی تفصیل بھی انھیں مہیا کردی…شاید جنم پتری یہ معلوم کرنے کے لیے بنوائی گئی کہ مستقبل میں ان کا بیٹا اسلام کی نشاۃ ثانیہ میں کوئی نمایاں کردار ادا کرنے کے قابل ہوتا ہے یا نہیں ؟‘‘آگے چل کر یہی بیٹا کہتا ہے :::’’میں تو اپنے سال ولادت یعنی 1924ء کو عالم اسلام کے لیے نہایت اہم سال سمجھتا ہوں کہ اسی سال ترکی میں خلافت یعنی مسلم سیاسی نظام میں مطلق العنانیت کے فرسودہ تصور کا خاتمہ ہوا‘‘یہ وہی خلافت ہے جس کی بقا کے لیے مولانا محمد علی شوکت علی کے ساتھ ساری ملت نے تن من دھن کی بازی لگائی تھی اور گاندھی جی نے بھی ہم نوائی کی تھی۔ یہ وہی اقبال ہے جس نے کبھی کہا تھا۔•ستارہ کیا مری تقدیر کی خبردے گا۔۔۔وہ خود فراخیِ افلاک میں ہے خوار و زبوں!ڈاکٹر جاوید اقبال اپنی والدہ سردار بیگم کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ان کا انتقال 23 ،مئی 1935ء کو بیالیس سال کی عمر میں ہوا جب وہ گیارہ سال کے اوران کی بہن منیرہ پانچ سال کی تھیں۔ مرنے سے پہلے سردار بیگم نے علامہ اقبال کی ایما پر تھوڑے سے پس و پیش کے بعد جاوید منزل اپنے بیٹے جاوید کے نام ہبہ کردی۔ علامہ اقبال نے ایک کرایہ نامہ تحریر کیا اور تین کمروں میں رہائش کا پیشگی کرایہ ہرماہ کی اکیس تاریخ کو ادا کر دیا کرتے تھے۔آگے چل کر حکومت پاکستان نے ’’جاوید منزل‘‘ منہ مانگے دام دے کر خرید لی اور جنرل ضیاء الحق کے حکم پر رقم ادا کردی گئی اور اس میں اقبال میوزیم کا افتتاح بھی جنرل ضیاء الحق ہی نے کیا۔ جاوید منزل کی فروخت سے جو معقول رقم حاصل ہوئی اس سے ڈاکٹر جاوید اقبال نے ایک عالی شان مکان تعمیر کروایا جہاں وہ تاحیات مقیم رہے۔ علامہ اقبال نے جو مکان اپنی بیوی کے نام پر تعمیر کیا تھا اور جسے انھوں نے جاوید کے نام ہبہ کروایا تھا وہی جاوید کے نئے مکان کی بنیاد بنا۔علامہ اقبال کی پہلی بیوی سے دوبچے ہوئے آفتاب اقبال اور معراج بیگم (جو جوانی میں فوت ہوگئیں)۔ اس طرح شاید اقبال اپنی جائیداد کو پہلی بیوی کی اولاد سے محفوظ رکھنا چاہتے تھے۔ چنانچہ انھوں نے اسے دوسری بیوی سردار بیگم (والدہ جاوید) کے نام پر خریدا اور پھر سر دار بیگم کے مرنے سے پہلے اسے جاوید کے نام ہبہ بھی کروا دیا تا کہ آگے چل کر کوئی مسئلہ وراثت کھڑا ہونے نہ پائے۔ ویسے شریعت کے مطابق باپ اپنے کسی بچے کو اپنی جائیداد سے بے دخل نہیں کر سکتا۔ علامہ اقبال اپنے بڑے بیٹے آفتاب اقبال سے نالاں ضرور تھے اور آفتاب نے بھی علامہ کی زندگی اجیرن کر رکھی تھی۔ یہ تلخ حقیقت بھی اپنی جگہ ہے۔ڈاکٹر جاوید اقبال نے اپنی خودنوشت سوانح کے تیرھویں باب میں علامہ اقبال کے نام ایک بہت ہی معلوماتی ’’دوسرا خط‘‘ لکھا ہے جس میں انھوں نے اپنے والد کے عقائد پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ #_مثلاً ۱۔ آپ (علامہ اقبال) کی رائے خاندانی منصوبہ بندی سے متعلق قانون سازی کے حق میں ہے۔ (صفحہ 282) ۲۔ آپ (اقبال) ایک سے زائد ازدواج (ازواج) کے امتناع کو شرعاً جائز قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ معاشرتی حالات کو پیش نظر رکھتے ہوئے اسلامی ریاست کا سربراہ کسی بھی قرآنی حکم یا اجازت کی تعویق، تحدید یا توسیع کرسکتا ہے۔ ( صفحہ 282)۳۔ مولانا شبلی( نعمانی) کی طرح آپ (علامہ اقبال) مسلمانوں میں فری مارکیٹ اکانومی FREE MARKET ECONOMY کے فروغ کی خاطر بینکو ں کے منافع کو ربوا (سود) کے زمرے میں نہیں لاتے۔ (صفحہ 282) ۴۔ علامہ اقبال کے نزدیک جنت اور دوزخ مقامات نہیں بلکہ احوال یا کیفیات ہیں․․․ ( صفحہ 282) ۵۔ اقبال کے خیال میں توجنت بھی مستقل عشرت کدہ یا مسلسل عیش و آرام کا کوئی مقام نہیں بلکہ انسان موت کے بعد اگر چاہے تو حیات کا تسلسل ختم کرکے ہمیشہ کے لیے نیست و نابود ہوسکتا ہے۔ ایسی روحانی خودکشی کا اسے اختیار ہے۔ (صفحہ 318)۔ ۶۔ علامہ اقبال کا قول ہے ’’بدی کی اپنی ایک تعلیمی حیثیت ہے ،نیک لوگ عموماً بے وقوف ہوتے ہیں ‘‘(اپنی سادہ لوحی کے سبب) (صفحہ 254)مخفی مباد نظا م دکن آصف جاہ سابع میر عثمان علی خاں کے دورِ حکومت میں ایک تحصیلدار کی ماہانہ تنخواہ د س بارہ روپے (حالی) سے زیادہ نہیں ہوا کرتی تھی۔ خوش حالی کے اس دور میں اتنے مشاہرے میں وہ عیش کیا کرتا تھا۔ علا مہ اقبال کا اپنے بچوں کی آیا (گورنس) کو ماہانہ پچاس روپے تنخواہ دینا گویا حاتم کی قبر پر لات مارنا تھا۔اپنی بیوی کے انتقال کے بعد علامہ اقبال نے اپنے بچوں کی نگہداشت کے لیے ایک جرمن خاتون ڈورسِ کو ماہانہ پچاس روپے پراپنے گھر رکھا جن کی بہن علی گڑھ یونیورسٹی میں بیالوجی کے پروفیسر کی اہلیہ تھیں۔ ان سے ملنے ڈورس آئی تھیں۔ مگر پروفیسر رشید احمد صدیقی کی ترغیب پر وہ علامہ اقبال کے بچوں کی گورنس بن کر لاہور آگئیں۔ اس طرح اقبال کے گھر کا ماحول ،رہن سہن مغربی انداز کا ہو گیا۔ بچے بہت خوش ہوئے۔ اقبال چونکہ جرمن زبان جانتے تھے وہ ڈورس سے جرمن ہی میں گفتگو کیا کرتے تھے۔ اپنی بیٹی منیرہ سے بھی کہتے تھے کہ جرمن زبان سیکھے۔اقبال کے بھائی نے منیرہ کے لیے ایک چھوٹا سا برقع (غالباً مقنع) تحفتاً بھیجا تو ڈورس سخت غصے میں آئیں۔ اقبال ہنس دیئے اور فرمایا ’’میرے بڑے بھائی نے یوں منیرہ کے لیے اپنی محبت کا اظہار کیا ہے۔ آپ ان کا تحفہ رکھ لیں۔ ضروری نہیں کہ منیرہ یہ برقع (مقنع) اوڑھے اور میں تو یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ جب منیرہ بڑی ہوگی تو خواتین میں پردہ رہے گا بھی یا نہیں ‘‘۔ یہ غالباً مقنع تھا جو چھوٹی بچیوں کو بطورِ تربیت شرعی گھرانوں میں پہنا یا جاتا ہے۔ ڈاکٹر جاوید نے لکھا: ’’منیرہ کے لیے وہ ننھا سا برقع اچھا خاصہ تماشا تھا۔ وہ برقع پہنے گھر میں ادھر ادھر بھاگتی پھرتی۔ جتٰی کہ اس بھاگ دوڑ میں برقع پھٹ کرنا کارہ ہوگیا۔ ‘‘ڈورس کے بحیثیت گورنس تقرر سے پہلے کوئی مسلم خاتون بھی رجوع ہوئی تھیں مگر اُس برقع پوش خاتون کی شرط تھی کہ اقبال اس سے نکاح پڑھوالیں مگر اقبال نے اسے ہنس کر ٹال دیا۔ جاوید اقبال لکھتے ہیں: ’’وہ نہایت رجعت پسند قسم کی مسلمان لگتی تھیں۔ برقع پوش تھیں۔ منیرہ نے انھیں دیکھتے ہی مسترد کردیا تھا‘‘ غالباً وہ دیندار خاتون ایک غیر محرم کے ساتھ ایک ہی چھت کے تلے رہنے کا کوئی شرعی جواز چاہتی تھیں۔ لیکن اقبال آخری عمر میں کوئی خطرہ مول لینا نہیں چاہتے تھے۔ مغربی تعلیم کے مدرسوں میں پڑھنے والے بچوں نے خود بھی اس خاتون کو رد کر دیا۔وہ اقبال جس نے اکبر اعظم کی طرح ایک بزرگ کے مزار پر جاکر ایک بیٹے کے لیے منت مانگی اور منت پوری کرنے کے لیے اپنے بیٹے کو لے کر شیخ احمد سرہندی کے مزار پر حاضری بھی دی، وہ اقبال جس نے بچوں کی خاطر کوئی دوسرا نکاح نہیں کیا بلکہ تعدد ازدواج پر امتناع کو شرعاً جائز قرار دیا تھا، وہ اقبال جس نے ڈاکٹروں کے مشورے کے باوجود وی آنا (آسٹریا) جاکر اپنے گلے کی تکلیف کا علاج کروانا پسند نہیں کیا کہ اس طرح (اپنے علاج پر) روپیہ خرچ کرکے وہ اپنے بچوں کی آئندہ بہتر زندگی کا حق غصب کرنا نہیں چاہتا تھا بلکہ بھوپال کے نواب کی پیش کش قبول کرکے بجلی کے جھٹکوں کے ذریعے مفت علاج کرواتا رہا، وہ اقبال جو جاوید منزل کا مالک ہوتے ہوئے بھی، جاوید کو ہرماہ پابندی سے کرایہ ادا کرتا تھا، وہ اقبال جو یہ چاہتا تھا کہ اس کا بیٹا باضابطہ DISCIPLINED زندگی گزار کر سرخ رو ٹھیرے۔ایسے صاحبِ ایثار باپ کے فرزند ڈاکٹر جاوید اقبال فرماتے ہیں ::: ’’والد کی وفات کے بعد میں ان کے نافذ کردہ ڈسپلن سے آزاد ہوگیا۔ جن باتوں سے انھوں نے منع کررکھا تھا میں نے بڑی رغبت سے ان میں سے ہر ایک کو اپنایا۔ صحیح و غلط میں غلط۔ اور نیکی و بدی میں۔ بدی کا رستہ منتخب کرنا بہتر سمجھا۔ اگر سرِ شام گھر میں موجود رہنے کا حکم تھا تو میں آدھی رات سے پہلے گھر میں قدم نہ رکھتا تھا۔ اگر سینما دیکھنا منع تھا تو ہر روز دو دو بلکہ تین تین شو دیکھتا۔ روز مرہ کے باورچی خانے کا حساب لکھتے وقت پیسوں میں گھپلا کرتا۔ رنگ برنگی ریشمی قمیصیں، مہنگے ولایتی بوٹ اور یورپی انداز کے سلے ہوئے سوٹ، نکٹائیاں، اوورکوٹ، دستانے، اور فلٹ ہیٹ زیب تن کرتا، مے نوشی، یورپی طرز کے رقص، اور رات کے کھانے کے لیے معروف جگہوں (پر جاتا)۔ ‘‘اور تو اور جاوید اقبا ل کو بہت گراں گزرتا ہے جب لوگ انھیں علامہ اقبال کے حوالے سے یاد کرتے ہیں۔ ان کی انا کو ٹھیس لگتی ہے۔ انہوں نے کتاب کے پیش لفظ میں صاف صاف لکھا: ’’میں عمر میں پاکستان سے بڑا ہوں۔ میرے والد علامہ محمد اقبال ایک عظیم شاعر، فلسفی اور تصورِ پاکستان کے خالق سمجھے جاتے ہیں۔ ان کے فرزند ہونے کی حیثیت سے زندگی کے مختلف ادوار میں میرا ردرعمل مختلف رہا ہے۔ ۔ بچپن میں باپ کے حوالے سے پہچانا گیا تو میں نے برا نہیں مانا کیونکہ مجھے علم ہی نہیں تھا کہ وہ کون ہیں اور کیا کرتے ہیں۔ ۔ جوان ہوا تب بھی باپ کے حوالے سے پہچانا گیا۔ یہ میرے لیےپد رم سلطان بود کی بنا پر فخر کا مقام تھا۔ ۔ زندگی میں اچھا برا مقام پیدا کیا تب بھی باپ کے حوالے سے پہچانا گیا تو مجھے برا لگا۔ یہ میری ’’انا‘‘ کی نشوونما میں مداخلت تھی۔ ۔ اب بوڑھا ہوچکا ہوں، تب بھی باپ کے حوالے سے میری شناخت ہوتی ہے۔ عجیب اتفاق ہے میرے والد کے پرستاروں نے مجھے بڑا ہونے نہیں دیا۔بہرحال میں نے کن حیلوں سے ایک بہت بڑے درخت کے سائے سے نکل کر اپنا مقام پیدا کرنے کی کوشش کی یہی میری داستان حیات ہے۔ علامہ اقبال سے تعلق کو بوجھ سمجھنے والے فرزند کے تعلیمی مدارج کا یہ حال ہے کہ ساتویں جماعت میں فیل، نویں جماعت میں فیل، ایف۔ اے تھرڈ کلاس پاس، بی۔ اے دوسرے درجے میں کامیاب، ایم۔ اے فیل، بارایٹ لا فیل، (دونوں دوسری بار کامیاب) انتخابات میں ذوالفقارعلی بھٹو کے بالمقابل ناکام۔اتنی ناکامیوں کے باوجود وہ ہائی کورٹ کے جج بنائے گئے اور جس دن ریٹائر ہوئے اسی دن سپریم کورٹ کے جسٹس بنائے گئے۔ کیا میرٹ کی بنیاد پر یہ ممکن تھا علامہ اقبال کے فرزند ہونے کے ’’رعایتی نشانات‘‘ ہی تو ان کے کام آئے۔ پوری کتاب میں اپنے باپ کی اتنی تعریف نہیں جتنی ڈاکٹر جاوید اقبال اپنی بیوی ناصرہ کی شان میں کرتے ہیں یہاں تک کہ جاوید منزل کی (حکومت کے ہاتھ بیچ کر) حاصل شدہ رقم سے تعمیر کردہ دو منزلہ عمارت بھی ناصرہ بیگم کے نام ہبہ کردی۔ حکومتِ برطانیہ نے اقبال کے فکرو فن کے اعتراف میں انھیں ’’سر‘‘ کے خطاب سے سرفراز فرمایا تھا جس کا ذکر ڈاکٹر جاوید نے کہیں نہیں کیا حالانکہ ٹیگور کی طرح اقبال نے سر کے خطاب سے دست برداری کا اعلان نہیں کیا تھا۔جگن ناتھ آزاد ۔۔کو سلام کرنے کو جی چاہتا ہے جنھیں نہ صرف علامہ اقبال کا تقریباً کلام حفظ تھا بلکہ وہ اقبال کے حوالے سے پہچانے جانے پر نازاں بھی تھے۔ ایسے وقت جب کہ ہندوستان میں اقبال کا نام لینا بھی جرم کے مماثل تھا ،جگن ناتھ آزاد نے سرکاری سطح پر علامہ کی شاعرانہ حیثیت کا احساس کروایا۔ ’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘‘ کو ترانے کا درجہ دلایا جو آج بھی برقرار ہے۔ بہ ذاتِ خود وہ جیسے بھی شاعر رہے ہوں، علامہ اقبال جیسے برگد کے زیرِ سایہ سانس لینے ہی میں زندگی سمجھتے تھے۔علامہ اقبال کے پرستاراور ہم جلیس راجہ حسن اختر کے بیٹے محمود اختر کیانی کی اقبال سے عقیدت کا یہ حال تھا کہ وہ انھیں اپنا تایا سمجھتے تھے اور اگر کوئی ناہنجار کسی بھی سطح پر اقبال کے خلاف کسی قسم کی تنقید کرتا تو مرنے مارنے پر تیار ہوجاتے۔ (گھنگھرو ٹوٹ گئے۔۔ قتیل شفائی)’’اقبال کی خامیاں‘‘ تلاش کرنے والے لبھورام جوش ملسیانی کی ہمت نہیں ہوتی تھی کہ وہ کتابچہ اپنے نام سے شائع کروائے تاہم جس کا دنداں شکن جواب شمس الرحمن فاروقی نے دیا۔ کشمیر کے ڈاکٹر بشیر احمد نحوی سے لے کر جنوبی ہند کے سید احمد ایثار، بہادر یارجنگ ،مضطرمجاز اور رؤف خیر تک اقبال کے چاہنے والوں کا ایک قافلہ ہے جو راوں دواں ہے۔ میرا تو خیال ہے کہ علامہ اقبال سے پہلے بھی کوئی ’’خداے سخن‘‘ نہیں اور اقبال کے بعد شاعری کا دعویٰ کرنا، نبوت کا دعویٰ کرنے کے برابر ہے۔ زیادہ سے زیادہ اولیائے غزل اور اوصیائے نظم ہو سکتے ہیں۔

کتاب : اپنا گریباں چاک

مصنف: جاوید اقبال

تبصرہ:ڈاکٹر رؤف

اردو صفحہ



پیر، 12 اپریل، 2021

شہاب نامہ

 

یو توپاکستان کی افسرِ شاہی سے وابستہ کئی لوگ ایسے گزرےہیں، جنہیں مسندِ شعر و ادب نے عزّت و اکرام کی خلعتِ اَن مول عطا کی۔ تاہم، بالخصوص جن دو ادیبوں نےاپنی تحریروں سے اُردو دنیا میں غیر معمولی شہرت و مقبولیت حاصل کی، اُن میں مختار مسعود اور قدرت اللہ شہاب شامل ہیں۔اوّل الذّکر اُردو ادب میں اپنے جداگانہ اسلوب کے باعث اس حد تک منفرد حیثیت کے حامل قرار پائےکہ ’’آوازِ دوست‘‘ اور دیگر تخلیقات میں تحریر کیے گئے جملے کے جملے ’’اقوالِ زرّیں‘‘ کی حیثیت حاصل کر گئے،جب کہ ثانی الذکر کی خودنوشت’’ شہاب نامہ‘‘ نے ایک عہد کی جادو بھری داستان ہوتے ہوئے ادب و سیاست کے قارئین کی دنیا میں مقبولیت کے جھنڈے گاڑدئیے۔گرچہ یہ حقیقت اپنی جگہ موجود رہی کہ خودنوشت کے متن کو بہت سے مقامات پر ناقدین نے افسانوی قرار دیا کہ جس میں موقع محل کی مناسبت سے رنگ آمیزی نہ صرف یہ کہ ہرگز باعثِ تعجب نہیں ہوتی،بلکہ بعض مواقع پر مبالغہ آرائی زیبِ داستاں کے لیے ایک کارِمستحسن قرارپاتی ہے۔خود قدرت اللہ شہاب کی حیثیت یہ بن گئی کہ تقسیمِ ہند کے بعد جب نئی مملکت، پاکستان کا قیام عمل میں آیا تو کارِ حکومت چلانے کے لیے جن لوگوں کی خدمات کی اشد ضرورت پیش آئی ،اُن میں سے ایک قدرت اللہ شہاب بھی تھے۔ پچاس کے عشرے کے آخر سے اُنہیں افسرِ شاہی کاانتہائی اثر و رسوخ کا حامل افسر گردانا جانے لگا ۔ہندوستان کی سینٹرل یونی وَرسٹی، مدھیہ پردیش سے ڈاکٹر محمّد نوشاد عالم نے ’’اُردو خودنوشت سوانح حیات : آزادی کے بعد‘‘ کے عنوان سے مقالہ تحریر کیا،جس میں ایک مقام پرمصنّف نے ’’شہاب نامہ‘‘ پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا ہے ’’قیامِ پاکستان کے بعد مصنّف ،اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے اور پاکستان کے تین سربراہان ،جنرل غلام محمّد،اسکندر مرزا اور ایوب خان کے پرنسپل سیکریٹری رہنے کا موقع ملا۔اس آپ بیتی میں ان سربراہان کی ذاتی زندگی سے ایسے پردہ اٹھایا گیا ہے کہ تاریخ کی کسی دوسری کتاب میں اس کی مثالیں ملنی مشکل ہیں۔ ‘‘ یہی نہیں ، بلکہ یہاں تک ہوا کہ ایّوب خاں سے قدرت اللہ شہاب کی ذہنی قُربت اس حد تک بڑھی کہ نام وَر شاعر ،حفیظ ؔ جالندھری نے کہہ دیا؎ ’’جب کہیں انقلاب ہوتا ہے …قدرت اللہ شہاب ہوتا ہے۔‘‘یہ شاعرانہ کلام مُلک کے اوّلین مارشل لا کے پسِ منظر میں کہا گیا۔یہ تاثّر صرف حفیظؔ جالندھری ہی تک محدود نہیں رہا،بلکہ پاکستان کے ایک اور قد آور شاعر، سیّد محمد جعفری ؔ نے بھی مذکورہ مارشل لا کے سلسلے میں کہا تھا؎’’یہ سوال و جواب کیا کہنا…صدرِ عالی جناب کیا کہنا … کیا سکھایا ہے، کیا پڑھایا ہے… قدرت اللہ شہاب کیا کہنا۔‘‘تابوت میں آخری کیل کے مصداق عہد ساز مزاح نگار،ابنِ انشاء نے ایک کالم کا عنوان ہی یوں رکھا’’قدرت اللہ شہاب کی باتیں ایسی ہیں ،جیسے خواب کی باتیں۔‘‘کہے گئے اشعار میںچاہے کسی حد تک مبالغہ آرائی کا عُنصر ہی کیوں نہ شامل ہو،سچّی بات وہی ہے کہ جسے خواجہ حیدر علی آتشؔ نے بیان کیا تھا؎’’سُن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا…کہتی ہے تجھ کو خلقِ خدا غائبانہ کیا‘‘۔بات یہیں تک ہی رہتی ،تب بھی غنیمت تھا، پاکستان کے تیسرے فوجی حکمراں، جنرل ضیاء الحق کی بھی یہی خواہش تھی کہ قدرت اللہ شہاب کی وسیع خدمات اور تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اُن کو حکومت میں اہم ذمّے داری سونپی جائے،مگر قدرت اللہ شہاب کی ضعیفی اور انتہا درجے کی عدم دل چسپی کی وجہ سے یہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔با اثر اور مختلف حکمرانوں کو متاثّر کرنے والے، قدرت اللہ شہاب 26 فروری 1917 ءکو گلگت میں پیدا ہوئے۔والدہ کا نام کریماں بی بی اور والد کا نام عبداللہ تھا،جو کم سِنی میں یتیم ہوگئےتھے ،مگر ایک ستم اور ہوا کہ دورِ یتیمی میں داخل ہوتے ہی یہ بھی معلوم ہوا کہ بال بال نہ صرف قرض میں جکڑاہوا ہے، بلکہ جو کچھ بھی زمین ہے اور جس مکان میں قیام ہے، وہ مہاجن کے پاس گِروی ہے۔ اُسی دن سے عبداللہ نے ارادہ کر لیا کہ اپنے زورِ بازو سے آگے بڑھنا ہے ۔چمکور میں اسکول ہی نہ تھا۔وہاں سے میلوں دور واقع، ضلع انبالہ کے اسکول میں داخلہ لیا اور یہ سچّی لگن اور محنت ہی تھی کہ پورے انبالہ میں میٹرک کے امتحان میں اوّل آئے۔اُن دنوں سرسیّدکی علی گڑھ تحریک کا اثر پورے ہندوستان پر تھا۔ لدھیانہ، مشرقی پنجاب کی ’’انجمن مفید عام‘‘ بھی ایک ایسی ہی تنظیم تھی، جو پیغامِ سر سیّد کی ترویج میں منہمک تھی۔ اُس تنظیم کا ایک رکن چمکور آیا اور جب اسے علم ہوا کہ ایک مسلمان نے پورے ضلعے میں میٹرک میں اوّل پوزیشن حاصل کی ہے ،تو وہ عبداللہ کو اپنے ساتھ لے کر سر سیّد کی خدمت میں حاضر ہوا۔سر سیّد کے دماغ میں صرف قوم کے لوگوں کی تعلیم کا سودا سمایا ہوا تھا۔جب اُنہیں ایک ہونہار اور ذہین طالب ِ علم کے بارے میں اطلاع ملی تو بے حد خوش ہوئے ۔دراصل وہ ذہین اور تعلیم یافتہ نوجوانوں کو قوم کی قسمت سنوارنے کا سب سے بڑا ہتھیار سمجھتے تھے اور علی گڑھ یونی وَرسٹی کا مقصدِ اعلیٰ و اُولیٰ بھی یہی تھا کہ زیادہ سے زیادہ نوجوان اعلیٰ تعلیم حاصل کر کے ہندوستان کے مسلمانوں کی طاقت میں اضافے کا سبب بنیں۔ مولانا ظفر علی خاں نے اسی لیے کہا تھا؎’’سوادِ اعظمِ اسلام کی نگاہِ اُمید …لگی ہوئی ہے علی گڑھ کے نوجوانوں پر‘‘۔ سر سیّد احمد خاں نے نوجوان عبداللہ کی صرف ہمّت افزائی ہی نہیں،بلکہ رہنمائی بھی کی ۔ علی گڑھ ہی میں رہتے ہوئے عبداللہ نے انگریزی، عربی،فارسی،ریاضی،فلسفےجیسے مضامین میں مہارت بہم پہنچائی اور وہیں سے بی اے کی تعلیم امتیازی عنوان سے مکمّل کی ۔سر سیّد نے ہم دردی اور عنایت کا سلسلہ اس طرح دراز کیا کہ اُن کی وساطت سے برطانیہ جا کر آئی سی ایس کرنے کے لیے وظیفہ بھی مل گیا۔اُن کی عنایتیں اپنی جگہ،عبداللہ کی والدہ نے بیٹے کو ولایت بھیجنے سے صاف انکار کر دیا کہ بیٹے کی طویل جدائی اُنہیں حد سے زیادہ شاق تھی۔مزید براں، ولایت بھیجنے کے سلسلے میں بدشگونی یا توہمّات اُن کی راہ دیکھنے پر مُصر تھیں،سو عبداللہ نے سرسیّد کو نہ جانے کے فیصلے سے آگاہ کر دیا۔ وہ ایک ذہین نوجوان کی تیز رفتار ترقّی کے توسّط سے قوم کی ترقّی کی باتیں سوچ رہے تھے،سو انکار سے نہ صرف کبیدہ خاطر ہوئے،بلکہ عبداللہ سے یہ تک کہہ دیا کہ’’ میری نظروں ہی سے دُور نہ ہو جاؤ، بلکہ علی گڑھ ہی سے اپنا بوریا بستر اس طرح گول کر جاؤ کہ میں آئندہ کبھی تمہاری شکل بھی نہ دیکھ سکوں۔‘‘عبداللہ وہاں سے چلے اور گلگت کا سفر اختیار کیا،جہاں کلرکی سے ایک نئے مستقبل کا آغاز کیا۔یہی وہ جگہ بھی قرار پائی کہ جہاں کچھ عرصے کے بعد انتظامی طور پر اُن کی تعلیم،لیاقت اور مستقل مزاجی کے باعث کشمیر راج کی طرف سے اُنہیں گورنر بنا دیا گیا۔برسوں اس عہدے پر کام کیا اور سبکدوشی کے بعد ’’انجمن اسلامیہ، جمّوں‘‘ کے اعزازی سیکریٹری کے طور پر خدمات انجام دینے لگے۔یہی وہ دن بھی تھے کہ تین بیٹے اور تین بیٹیوں کے باپ عبداللہ، اپنے بیٹے قدرت اللہ پر سب سے زیادہ بھروسا کرنے لگے اور اُن کی صحبت میںرہ کر قدرت اللہ بھی بہت سے اُمور میں غیر معمولی طور پر طاق ہو چلے۔ قدرت اللہ شہاب کی عُمر کے ابتدائی چند سال گلگت میں گزرے، پھر والد کو جمّوں و کشمیر جانا پڑا،سو تعلیم کا بنیادی سلسلہ جموں میں واقع، اکبر اسلامیہ ہائی اسکول میں طے کیا۔چوتھا ہی درجہ تھا کہ پلیگ یا طاعون کی بھیانک وبا پھیل گئی،کوئی دن ایسا نہ ہوتا، جب دس، پندرہ لوگ لقمۂ اجل نہ بنتے۔گھر والوں نے طاعون کی وبا کے تیزی سے پھیلنے اور اُس سے ہونے والی پے در پے اموات کے باعث فیصلہ کیا کہ بچّوں کو وہاں سے سری نگر روانہ کر دیا جائے،سو جمّوں سے سری نگر آمد ہو ئی۔عنفوانِ شباب آتے آتے اُس زمانے کی دو بھیانک بیماریاں طاعون اور ہیضہ اُن کے مشاہدے سے نہ صرف گزر چکی تھیں،بلکہ یہ بھی معلوم ہوا کہ بحران یا آفت کے زمانے میں کس طرح اعصاب مضبوط رکھتے ہوئے کام کرنا چاہیے۔سری نگر میں بھی کچھ ہی وقت گزارا جا سکا اور وہاں سے ریاستِ مشرقی پنجاب میں واقع، ضلع رپناگرکی تحصیل چمکور جائے قیام قرار پائی،جہاں زیادہ ترآبادی سکھوں پر مشتمل تھی۔چمکور میں ٹھکانہ ،ایک سو چار برس بوڑھی دادی کا گھر تھا۔محلّے میں زیادہ تر سکھوں کے گردوارے تھے،مگرمسلمانوں کی ایک خانقاہ بھی موجود تھی۔ اسی کے ساتھ مقامی طور پر اقتدار کی رسّہ کشی بھی اپنا رنگ دکھانے پر آمادہ رہتی ۔یہاں بی اے ایس جے ایچ خالصہ ہائی اسکول میں داخل کروایا گیا۔ اسکول کے اساتذہ میں ہیڈ ماسٹر سوراج سنگھ کے علاوہ فارسی کے پنڈت سری رام ، انگریزی کے پنڈت جگن ناتھ، جغرافیہ و تاریخ کے ماسٹر تارا سنگھ،اُردو کے ماسٹر منگل سنگھ تھے،جو ریاضی بھی پڑھایا کرتے۔ تمام دیگر طلبہ کی طرح قدرت اللہ شہاب بھی اُن سے بےحد ڈرتے تھےکہ وہ ذرا ذرا سی بات پر طلبہ کی اس طرح دُھنائی کرتے کہ اُن کی جان خشک ہو جاتی۔ایک دن تو یوں بھی ہوا کہ قدرت اللہ شہاب بھی اُن کے خوف سے اسکول کے بجائے کھیتوں کی طرف نکل گئے۔وہاں اُن کی دادی کا وفادار ملازم ستّر برس کا کرم دین موجود تھا،جس نے تنبیہ کی کہ آئندہ کبھی اسکول سے غائب نہ ہونا۔مگر اگلی بار بھی ایساہی ہوا،جس کےنتیجے میںکرم دین سے مار بھی کھانی پڑی۔ اس کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ کرم دین اور چمکور کے ایک ہندو بنیے کے درمیان طے پانے والے سودے کی تکمیل کے نتیجے میں قدرت اللہ شہاب کو اُردو ادب کی چند شاہ کار کتابیں پڑھنے کا یوں موقع ملا کہ اُنہوں نے چاچا کرم دین کی اسلام دوستی پر مبنی جذبے کو خالصہ اسکول کے غیر اسلامی ماحول کے خلاف اُکسا کر کچھ وقت کے لیے اسکول سے غیر حاضر رہنے کی اجازت لے کر’’آبِ حیات‘‘،’’مراۃ العروس‘‘، ’’ایامیٰ‘‘، ’’رویائے صادقہ‘‘، ’’فتح اندلس‘‘، ’’فسانۂ آزاد‘‘ اور اسی پائے کی چند اور کتابیں پڑھ ڈالیں اور جب اسکول جانا شروع کیا ،تو وہاں منعقد ہونے والے سکھوں کے سالانہ تہوار’’سنگھ سبھا‘‘میں ’’بابا گورو نانک ‘‘ پر مذکورہ کتابوں کی مدد سے ایسا شان دار مضمون پڑھا کہ سب ہی حیران رہ گئے۔یہی نہیں مضمون کے اختتام پر بابا گورونانک کے لیے ایک منظوم قصیدہ بھی پڑھا۔بس پھر کیا تھا، پورے اسکول میں اُن کے نام کا ڈنکا بج گیا۔ ’’شاباش شاباش‘‘اور ’’جواب نہیں‘‘ کے شور میں مہاراجہ پٹیالہ نے خوش ہو کراپنی جیب سے ملکۂ وکٹوریہ کی مورت والا چاندی کا ایک روپیا عطا کر دیا۔اس کام یابی نے حوصلے اس طرح بلند کیے کہ دل خود شاعری کی دیوی پر قربان ہو اٹھا۔ اوّل رونق جمویؔ اور پھر جعفر چمکوریؔ تخلّص رکھ کر طبع آزمائی بھی شروع کر دی۔اسکول میں ایک شعر اتنا مشہور ہوا کہ کیا استاد، کیا شاگرد سب ہی کی زبانوں پر چڑھ گیا؎’’یہ ایسا عجب شہر چمکور ہے… کہ ثانی نہیں، جس کا لاہور ہے‘‘۔ کلام میں غزلیں بھی شامل ہونے لگیں؎ ’’مِرے منہ پہ زلفیں گرانے کو آ جا… مِری بات بگڑی بنانے کو آ جا… تِری یاد کی گھنٹیاں بج رہی ہیں… مِرے دل کی دنیا بسانے کو آ جا ۔ ‘‘اسکول ہی کے زمانے سےقدرت اللہ شہاب لکھنے پڑھنے میں طاق تھے۔ اُردو، انگریزی دونوں ہی زبانیں متاثّر کرتیں اور وہ کچھ نہ کچھ لکھنے کی دُھن میں لگے رہتے۔1932-33ء میں میٹرک کا امتحان دیا اور اگلی تعلیمی منازل میں قدم رکھا۔پرنس آف ویلز کالج،جمّوں میں بھی نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں میں برابر حصّہ لیتے رہے۔ذہانت کی کمی نہ تھی،سو اساتذہ اور طلبہ دونوں ہی کے پسندیدہ قرار پاتے۔کچھ ہی وقت میں کالج کی لائبریری میں شیکسپیئر سے لے کر برنارڈ شا تک سب ہی کچھ پڑھ ڈالا۔ تاہم، جس نے سب سے زیادہ متاثّر کیا وہ’’ Sir Pelham Grenville Wodehouse ‘‘ تھے۔ دوستیاں بھی خوب خوب اور جلد جلد ہو جاتیں۔1934-35ءمیں ایف ایس سی کے امتحان میں بھی کام یابی حاصل کر لی۔ اُنہی دنوں لندن میںایک عالمی تحریری مقابلہ منعقد ہورہا تھا، توکسی کو بتائے بغیر ہی مقابلے میں حصّہ لینے کا ارادہ بھی کر لیا۔ لکھنے کا شوق تو تھا ہی،سو اپنی صلاحیت اور قسمت آزماتے ہوئے اپنی ایک تحریر روانہ کر دی اور اُس وقت خوشی کی انتہا نہ رہی، جب اُن کی تحریر کو اوّل انعام کا مستحق گردانا گیا۔جگہ جگہ اس کا چرچا ہونے لگا۔مختلف علاقوں سے اہم لوگوں نے تہنیتی پیغامات بھیجے۔خود کالج نے بھی اس انداز میں سراہا کہ ایک بڑی تقریب کا انعقاد کیا گیا، اساتذہ اور طلبہ نے تعریفی کلمات ادا کیے اور کالج کے ہال میں اُن کی ایک بڑی تصویر آویزاں کر دی گئی۔حیدرآباد کے وزیرِاعظم ،سر اکبر حیدری کی جانب سے بھی توصیفی خط موصول ہوا۔ اس مقابلے نے اُن کے اعتماد میں بے پناہ اضافہ کیا۔ 1936-37ء میں گریجویشن بھی کر لیا۔گرچہ ریاستِ کشمیر کی طرف سے اُن کے لیے برطانیہ میں فاریسٹری کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے وظیفے کی پیش کش بھی کی گئی تھی۔تاہم ، مہاراجا کشمیر کے بارے میں اچھا تاثّر نہ رکھنے والے قدرت اللہ شہاب نے اپنا مستقبل بہتر بنانے کی غرض سے گورنمنٹ کالج،لاہور میں ایم اے انگریزی کے لیے داخلہ لے لیا۔ خیال یہی تھا کہ اُس کے بعد کسی بھی کالج میں لیکچرار کے طور پر ملازمت مل جائے گی اور یوں مستقبل درخشاں ہو جائے گا۔تعلیم کی اتنی منازل طے کرنے اور ارد گرد کے حالات پر نظر رکھنے سے قدرت اللہ شہاب کو یہ بات تواچھی طرح معلوم ہو چُکی تھی کہ آگے بڑھنے کے لیے مسلمانوں کا اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونا ضروری ہے۔مُلک میں سیاسی محاذ پر ایک بھونچال کی سی کیفیت تھی۔ کانگریس،مسلم لیگ اور انگریزسرکار ایک دوسرے کے مقابلے پر تھیں۔ اوّل الذّکر دو بڑی جماعتیں آخر الذکر کو کسی بھی قیمت اپنے دیس سے باہر نکالنے کے لیے سیاسی حکمتِ عملی مرتّب کرنے میں مگن تھیں،چناںچہ کبھی کبھی وہ ایک دوسرے کی حمایت اور کبھی ایک دوسرے کی مخالفت کر کے اس مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کرتیں۔ سیاسی سطح پر ایک سے ایک رہنما موجود تھا اور یہ صورت ہندو اور مسلمان دونوں قیادتوں میں موجود تھی۔یہی صُورتِ حال ادبی سطح پر بھی دیکھی جا سکتی تھی کہ اُفقِ ادب، ستاروں سے مسلسل جگمگاتا نظر آتا ۔کوئی یہ گمان بھی نہ کرتا کہ یہ کواکب جیسے نظر آتے ہیں، اُس کے علاوہ بھی کچھ اور ہو سکتے ہیں۔ یہی وہ زمانہ بھی تھا یعنی 1938 ءکا ،جب زیرک اور معاملہ فہم، قدرت اللہ شہاب نے مختصر نویسی کی صورت میں بہ اندازِ روزنامچہ اہم واقعات پر مبنی ڈائری لکھنا شروع کی۔اب قلم انگریزی اور اُردو میں بہت رواں ہو چُکا تھا۔1939ءمیں مشہور بین الاقوامی شاعر،کیٹس کی کئی نظموں کو اُردو کا پیرہن عطا کیا۔ترجمہ اس حد تک تخلیق کا رنگ رکھتا تھا کہ مولانا صلاح الدین احمد کے ’’ادبی دنیا‘‘ کی زینت بھی بنا۔کیٹس کے علاوہ شیلے کی نظمیں بھی ترجمہ کی گئیں۔شاید پہلی محبت پر مبنی اوّلین افسانہ ’’چندراوتی‘‘ بھی اُنہی دنوں کی یادگار تھا،جسے اختر شیرانی کے پرچے ’’رومان‘‘ میں شایع بھی کروایا۔1939-40 ءمیں گورنمنٹ کالج، لاہور سے ایم اے انگریزی کا امتحان بھی کام یابی سے پاس کر لیا۔اسی اثنا خیال آیا کہ کیوں نہ انڈین سوِل سروس کے امتحان میں قسمت آزمائی جائے۔ اگر کام یاب ہو گئے، تو وارے نیارے،وگرنہ ایم اے انگریزی کی سند بھی مستقبل بہتر بنانے کے لحاظ سے کچھ کم نہ تھی۔ لیاقت اور ذہانت کے ساتھ محنت بھی کی اور اللہ نے یہ نتیجہ دیا کہ آئی سی ایس کے امتحان میں سُرخ روئی حاصل کی۔قدرت اللہ شہاب جب 1941 ء میں انڈین سوِل سروس کے لیے منتخب ہوئے ، تو جمّوں و کشمیر کی تاریخ کے وہ پہلے مسلمان تھے،جواُس اعلیٰ سول سروس کا حصّہ بننے جا رہے تھے۔خود آئی سی ایس یا انڈین سوِل سروس کے بارے میں قدرت اللہ شہاب نے ’’شہاب نامہ ‘‘ میں ’’صاحب،بنیا اور مَیں‘‘ کے عنوان سے بہت مختصر،پُر اثر اور پُر ازمعنی تبصرہ کیا ہے۔وہ لکھتے ہیں’’آئی سی ایس نے لوٹ کھسوٹ میں جنم لیا۔مار دھاڑ میںپروان چڑھی۔ سلطنت آرائی میں عروج پایااور برّ ِصغیر میں آزادی کے نزول کے ساتھ ہی دَم توڑدیا۔‘‘ سروس میں پہنچنے کے بعد جس جگہ تعینات کیا گیا ، اُس میں اوّل ہندوستان کی ریاست ، بہارکا ضلع بھاگل پور تھا کہ جہاں 1942 ء میں خاصے فسادات بھی ہوئے۔ 1943ءمیں اُنہیں بنگال بھیج دیا گیا۔اگلے چار برس ہندوستان کی سیاسی زندگی میں گویابھونچال کی حیثیت رکھتے تھے۔ قدرت اللہ شہاب کو ایک ذمّے دار اعلیٰ افسر ہونے کے ناتے تقریباً تمام ہی بڑے سیاسی رہنماؤں کو قریب سے دیکھنے اور جاننے کا موقع ملا۔ان میں سرِ فہرست تو قائداعظم اور گاندھی جی تھے۔اُڑیسہ میں ڈپٹی ہوم سیکریٹری کے طورپر کام کرتے ہوئے اُن کے ہاتھ چند ایسی سرکاری دستاویزات لگیں، جن کی رُو سے کانگریس حکمراں ، مسلمانوں کواعلیٰ عُہدوں سےمحروم کرنے کے ایک منصوبے پر عمل کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔ وہ یہ دستاویز لے کر دہلی پہنچے ، قائدِاعظم سے ملاقات کی اوراُن کو پیش کر کے واپس چلے آئے۔ایک سرکاری افسر ہوتے ہوئے دُور دراز کا سفر اختیار کر کے قائداعظم سے محض اس بِنا پر ملاقات کرنا کہ اُنہیں مسلمانانِ ہند کے سلسلے میں کانگریس کے ممکنہ مسلم زیادتی کےرویّے سے باخبر کیا جائے،اس بات کا بیّن ثبوت تھا کہ قدرت اللہ شہاب میں کسی خطرے کو بھانپ کر اُس کے مطابق فیصلہ کرنے کی غیر معمولی قوّت بدرجۂ اتم موجود تھی۔ قائداعظم اور گاندھی جی کے علاوہ جن سیاست دانوںکو دیکھااُن میں لیاقت علی خاں،جواہر لال نہرو کے ساتھ مسلم لیگ اور کانگریس کے لگ بھگ سارے ہی سربرآوردہ رہنماشامل تھے۔یہی نہیں، اعلیٰ انگریز افسران اور حکومتِ برطانیہ کی ہدایت پر لندن سے آنے والے سفارتی اہل کاروں سے بھی ہر وقت کا ساتھ رہا۔پاکستان کا قیام عمل میں آیا، تواگست 1947ءمیں قدرت اللہ شہاب کو نئی دہلی سے آغاہلالی کی جانب سے ایک خط موصول ہوا جس کے مطابق اُنہیں پاکستان کی وزارتِ تجارت میں انڈر سیکریٹری مقرّر کیے جانے کی اطلاع کے ساتھ ہی کراچی پہنچ کر عہدہ سنبھالنے کا حکم دیا گیا تھا۔یہ حکم نامہ یوں محسوس ہوا ،گویا پاکستان نے اُنہیں کوئی عہدہ نہیں ،سلطنت تھما دی ہو۔پاکستان کے اوّلین دارالحکومت، کراچی میں پہلی پوسٹنگ انڈر سیکریٹری امپورٹ اینڈ ایکسپورٹ کے طور پر ہوئی۔قدرت اللہ شہاب نے کوشش کی کہ عُہدے کی مناسبت سے کام کی سوجھ بوجھ پیدا کی جائے اور یہ کوشش کام یاب بھی رہی۔وزارت، آئی آئی چندریگرکی تھی ، جواُن کی صلاحیت سے بہت متاثّر تھے۔پاکستان کے قیام کے اوّلین دنوں ہی میں ایک دل چسپ واقعہ یہ بھی پیش آیا کہ قدرت اللہ شہاب نے اپنی بیمہ پالیسی ختم کر کے پیسے لیے اور اُسی رقم سے ایک پرانی گاڑی خریدلی۔مگر گاڑی کے سودے میں وہ دھوکا کھا گئے اور خریدی جانے والی گاڑی نے پریشان کرنا شروع کر دیا۔یہ بھی اتفاق ہوا کہ کشمیر ی رہنما چوہدری غلام عبّاس قائدِاعظم سے ملنے کراچی آئے اور قدرت اللہ شہاب کی ناکارہ گاڑی ہی میں بیٹھ کر اُن سے ملاقات کو پہنچے۔ گاڑی نے مہمانوں کو کسی نہ کسی طرح گورنر جنرل ہاؤس تک پہنچا ہی دیا۔ اُنہی دنوں، جب ہندوستان سے لُٹے پِٹے مہاجرین کی آمد کا سلسلہ جاری تھا،قدرت اللہ شہاب کے ایک عزیز دوست کو بھی کراچی آنا تھا،سو اپنے دوست کی تلاش میں مہاجرین کیمپس کو کھنگالنا بھی ایک مستقل کام بن گیا۔دوست تو نہ مل سکا،البتہ مہاجرین کی دُکھ بھری زندگی اور کہانیاں سن سن کر اس قدر متاثر ہوئے کہ ’’یا خدا‘‘ کے عنوان سے ایک طویل افسانہ ’’نیا دَور‘‘ کے ’’فسادات نمبر‘‘ کی زینت بنا اور شہرت کی بلندیاں طے کر گیا۔اگلے ہی برس 1948 ءمیں کراچی سے اس کو کتابی شکل میں شایع کر دیا گیا اور اُسے بھی ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔پٹنہ یونی وَرسٹی، بہار (ہندوستان ) سے ظفر سعید نے 1989ءمیں’’تقسیمِ ہند اور اُردو افسانہ ‘‘کے موضوع پر ڈاکٹریٹ کی سند حاصل کی۔ انہوں نے اپنے مقالے میں’’یاخدا‘‘ پر تفصیلی اظہارِ خیال کیا ہے۔ ڈاکٹر ظفر سعید ایک مقام پر تحریر کرتے ہیں ’’بظاہر فساد کا موضوع ایک ہے اور اکہرا ہے، مگر اس کے متعدّد پہلو ہیں اور مجموعی طور پر ایک سنگین المیہ ہے، جس سے ایک پوری نسل دو چار ہوئی اوراس کے اثرات بعد کی نسل پر بھی برابر مرتّب ہوتے رہے۔ فسادات کے وہی افسانے دامنِ دل کو کھینچتے ہیں ،جن میں انسان کی انفرادی اور تہذیبی زندگی کا یہی زبردست المیہ پیش ہو ا ہے۔ وہ افسانے جن میں ماحول کا جبر در و کرب کاایک لامتناہی سلسلہ چھوڑ گیا ہے، اردو افسانوی ادب میں قابلِ قدر اضافہ ہیں۔ جن کی اہمیت و افادیت سے ہم کبھی پہلو تہی نہیں کر سکتے۔ایسی ہی ایک کہانی قدرت اللہ شہاب کی تصنیف ’’یا خدا‘‘ ہے ،جو فسادات پر اردو کی چند بہترین کہانیوں میں شمار ہونے کے لائق ہے‘‘۔1948 ءمیں حکومتِ پاکستان کی جانب سے آزاد کشمیرکی نو منتخب کابینہ کا نظم و نسق سنبھالنے کی ذمّےداری تفویض کی گئی ۔ وہ آزاد کشمیر کے پہلے سیکریٹری جنرل مقرّر ہوئے۔ اُن کے بعد سیکریٹری جنرل کی جگہ چیف سیکریٹری کے عہدے نے لے لی۔ 1951ءمیں پاکستان کے اوّلین وزیراعظم، لیاقت علی خاں کی شہادت ہوئی تو قدرت اللہ شہاب پشاور میں ن۔ م۔ راشد کے یہاں ٹھہرے ہوئے تھے۔ پورا مُلک اس خبر سے دم بخود رہ گیا۔جب غلام محمّد گورنر جنرل ہوئے، تو قدرت اللہ شہاب کو1954 ءکے آخر میں اُن کا سیکریٹری مقرّر کردیا گیا۔کچھ عرصے بعد اُنہیں وزارتِ اطلاعات و نشریات میں فارن پبلسٹی کا انچارج ڈپٹی سیکریٹری تعینات کر دیا گیا۔چند برس اسی عہدے پر کام کیا۔ مشتاق گورمانی وزیرِداخلہ و اطلاعات بنائے گئے۔ دو ماہ کے اندر ہی قدرت اللہ شہاب کو اطلاعات سے حکومت پنجاب میں ضلع جھنگ کا ڈپٹی کمشنر مقرّر کر دیا گیا۔ یہ اسی تعیناتی کا زمانہ تھا ، جب اُردو کے ممتاز ترین افسانہ نگار،سعادت حسن منٹو کو قدرت اللہ شہاب تبدیلیِ آب و ہوا کی غرض سے لاہور سے جھنگ لے کر آئے۔اُن کی منٹو سے پرانی یاد اللہ تھی۔ تاہم ،منٹو وہاں زیادہ نہ رُک سکے۔ جھنگ سے وہ ایک تربیتی کورس کےسلسلےمیں چھے ماہ کے لیےہالینڈ بھیج دئیے گئے۔ جب اسکندر مرزانے عنانِ اقتدار سنبھالی،تو اپنے سیکریٹری کے طورپر قدرت اللہ شہاب ہی کو خدمات جاری رکھنے کا حکم دیا۔یوں قدرت اللہ شہاب کو ایک اور حکومتی سربراہ کے ساتھ براہِ راست کام کرنے کا موقع ملا۔ایسا ہی کچھ فیلڈ مارشل ایوّب خاں نے بھی کیا کہ جب 1958 ءمیں اسکندر مرزا کو چلتا کر کے خود اقتدار سنبھالا ،تو سیکریٹری کے طور پر قدرت اللہ شہاب سے یہ کہہ کر کام جاری رکھنے کا کہا گیا’’ہم فوجی لوگ ہر بات کی تحقیق کر لینے کے عادی ہیں۔ ہم نے انکوائری کر لی ہے۔ تم کسی چیز میں ملوث نہیں ہو۔ اس لیے مَیںنے تم کو اپنا سیکریٹری مقرّر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘‘یوں دن گزرتے گئے اورقدرت اللہ شہاب فوجی حکمراں کے نزدیک ہوتے گئے۔ نِت نئے مارشل لا قوانین اب ہر طرح کی آزادیوں کو سلب کرنے کے درپے نظر آنے لگے۔ اُنہی دنوں ادیبوں کا ایک وفد قدرت اللہ شہاب سے ملاقات کے لیے آیا۔ ملنے والوں میں اُن کے دوست زیادہ تھے۔ وہاںتجویز پیش کی گئی کہ پورے پاکستان سے ادیبوں کوجمع کیا جائے اور ایک کنونشن منعقد کر کے ادب اور ادیبوں کی فلاح کے لیے کام کیا جائے۔ چناںچہ 8 دسمبر 1958 ءکو آٹھ کنوینرز (قدرت اللہ شہاب ، قراۃ العین حیدر،جمیل الدین عالی،ابن الحسن،ابنِ سعید،غلام عبّاس،عبّاس احمد عبّاسی،ضمیر الدین احمد ) کے دستخطوں سے ایک بیان جاری کیا گیا۔اور 29،30اور 31جنوری 1959 ء ء کو کراچی میں ’’آل پاکستان رائٹرزکنونشن‘‘ کا انعقاد ہوا۔ اپنی نوعیت کے اس اوّلین کنونشن میں مشرقی و مغربی پاکستان سے چوٹی کے212 ادیب اور شاعر مثبت اور منفی احساسات کے ساتھ شریک ہوئے۔ کنونشن کا کچھ اور نتیجہ نکلا ہو یا نہ نکلا ہو،یہ ضرور ہوا کہ ’’پاکستان رائٹرز گلڈ‘‘ کی بنیاد پڑگئی۔ اتفاقِ رائے سے قدرت اللہ شہاب کو سیکریٹری جنرل منتخب کیا گیا اور اُن پر ذمّے داری عائد کی گئی کہ وہ کنونشن کے تیسرے اور آخری روز صدرِ مملکت ایّوب خاں کو لے کر آئیں گے۔ گرچہ ا یّوب خاں یا دیگر اعلیٰ حکومتی ارکان ،جن میں غالب تعداد فوجی افسران پر مشتمل تھی،ادب کو سُود و زیاں کی میزان میں گھاٹے کا سودا سمجھتے تھے،مگر قدرت اللہ شہاب نے اُس بھاری پتھر کو محض چوم کر چھوڑ ہی نہیں دیا،بلکہ کمالِ ہنر مندی سے مُلک کے اوّلین چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کو نہ صرف تقریب میں شرکت کرنے پر آمادہ کیا،بلکہ اُنہیں سامعین کی صفوں لا بٹھایا ۔ جب بابائے اُردومولوی عبدالحق ،ڈاکٹر جاوید اقبال اور دیگر ادیبوں کی تقاریر ختم ہو گئیں، تو صدر کو تقریر کرنے پر بھی راضی کر لیا۔ اُسی دورِ ایّوبی میں جب میاں افتخار الدین کے ادارے ’’پروگریسیو پیپرز لمیٹیڈ ‘‘ کو مارشل لا حکم کے تحت سرکاری تحویل میں لیا گیا ،تو اُس ساری کارروائی کو جواز بخشنے کے لیے اُسی اخبار کے اداریے کا سہارا لیا گیا اور وہ اداریہ تحریر کرنے والے قدرت اللہ شہاب تھے۔تجزیہ نگاروں نے اس قسم کی آرا کا بھی اظہار کیا کہ اس عنوان سے ایسے کئی کام ،جن میں مُلک کے دارالحکومت کے طور پر اسلام آباد کا انتخاب،مُلک کو ’’اسلامک ریپبلک پاکستان‘‘ قرار دِلوانا،1962ءکے آئین کے پسِ پشت اصل قوّتِ محرّکہ ہونا،’’ناپسندیدہ پریس اینڈ پبلیکیشنز آرڈیننس‘‘کا نفاذوغیرہ قدرت اللہ شہاب ہی کے ذہنِ زرخیز و شاداب کا شاخسانہ تھے ۔وزارتِ اطلاعات میں تواتر سے اگلے کئی برس کام کرنے کے بعد 1963ء میں ہالینڈ میں سفیر بنا کر بھیج دئیے گئے۔1968 ءمیں قدرت اللہ شہاب ’’یونیسکو ایگزیکٹو بورڈ‘‘ کے رکن کے طور پر وابستہ ہوئے۔ غرض اُن کی ذاتی ترقّی کا سفر استقامت اورمستقل مزاجی سے جاری رہا۔ اُن کی زندگی کا ایک رُخ’’ روحانیات‘‘ بھی تھا۔اُردو کے ایک نام وَر محقق،مشفق خواجہ کا تحریر کردہ ’’خامہ بگوش کے قلم سے‘‘ اسّی اور نوّے کے عشرے میں شایع ہونے والابہت مقبول اخباری کالم کا ایک سلسلہ تھا،جس میں ادبی معاملات پر اُن کے قلم سے بہت تیکھی تحریریں سامنے آتیں ۔ اسی ذیل میں اُنہوں نے ’’شخصی خاکے یا دوستوں کے غلط نامے‘‘ کے عنوان سے قدرت اللہ شہاب کی زندگی کے اُس رُخ کے بارے میں ،جو روحانیات سے تعلق رکھتا ہے، کچھ یوں اظہارِ خیال کیا’’قدرت اللہ شہاب میں بے شمار خوبیاںتھیں،مگر خامیاںصرف تین تھیں۔ ابنِ انشاء،اشفاق احمد اور ممتاز مفتی۔ قدرت اللہ شہاب گرچہ بڑے بڑے عہدوں پر فائز رہے ،مگر اپنے مخصوص مزاج کی وجہ سے اُن میں عہدے داروں والی خُو بُو پیدا نہ ہو سکی۔ سوِل سروس کے اراکین اُنہیں ہمیشہ آؤٹ سائڈر سمجھتے رہے۔ اس صورتِ حال کی وجہ سے ان کی زندگی میں جو مجلسی خلاپیدا ہوا، اُسے انہوں نے ادب سے پُر کرنے کی کوشش کی ۔ادب اُن کی زندگی میں آیا تو اہلِ ادب سے بھی شناسائی ہوئی، یوں تو متعدّد ادیبوں سے اُن کے تعلقات تھے ،لیکن ممتاز مفتی،اشفاق احمد اورابنِ انشاء ادب کے راستے ان کی ذاتی زندگی میں بھی داخل ہو گئے۔ ان تینوں کی وجہ سے قدرت اللہ شہاب کی تنہائی ختم ہوئی اور شہاب کی وجہ سے ان تینوں کی بہت سی محرومیوں کا ازالہ ہوا۔ یہ تینوں شہاب صاحب سے ملنے سے پہلے بے روزگار یا کم روزگار تھے ، بعد میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہوئے۔ اس کے جواب میں ان تینوں نے شہاب کو وہ منصب عطا کیا ،جو صرف برگزیدہ نفوس ہی کو حاصل ہوتا ہے ۔یعنی اچھے خاصے بیوروکریٹ قدرت اللہ شہاب کو’’ ولی اللہ‘‘ بنا دیا اور اُن سے ایسے ایسے واقعات منسوب کیے ،جو صوفیا اور اولیاء ہی کے تذکروں میں پڑھنے میں آتے ہیں۔ ‘‘مشفق خواجہ کی اس بات کا کچھ ثبوت ممتاز مفتی کی کتاب ’’لبّیک ‘‘ کے مطالعے سے ملتا ہے۔ ’’قدرت کا تبادلہ‘‘ کی سُرخی کے تحت ممتاز مفتی ایک مقام پر اپنے حجِ بیت اللہ کے لیے جانے کی کوششوں کا ذکر کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں’’انہی دنوں اتفاق سے ایک درویش آ گئے ۔ انہوں نے قدرت کو مشورہ دیا کہ کیوں نہ آپ سفیر بن کر کچھ عرصے کے لیے مُلک سے باہر چلے جائیں،قدرت اللہ کو یہ بات قابلِ قبول نظر آئی۔ ان کی خواہش تھی کہ کوئی دور کی جگہ ہو، چھوٹا سا مُلک۔اتفاق سے ہالینڈ کی سفارت خالی تھی، لہٰذا صدر(ایّوب)نے انہیں ہالینڈ کا سفیر بنا کر بھیج دیا۔ قدرت کے جانے کے بعد میرے نزدیک حج کا سارا منصوبہ ہی ڈھیر ہو کر رہ گیا، ایک سنّاٹا چھا گیا۔ خواب آنے بند ہو گئے۔ مستوں نے مجھے سرِ راہ ٹوکنا چھوڑ دیا۔ فقیر خاموش ہو گئے اور میں گویا ایک خلا میں ٹانگ دیا گیا۔ ‘‘ کہانی کہنے کا ڈھنگ قدرت اللہ شہاب کو خوب معلوم تھا۔اسی لیے حقیقت اور افسانے کے درمیان رنگ آمیزی اس کمال کی ہوتی کہ قاری کو یہ گمان ہی نہ ہو پاتا کہ کب حقیقت نے افسانے کا رُوپ دھارا اور کب اور کیسے افسانہ حقیقت میں ڈھل گیا۔یہ بات اُن کی لازوال خودنوشت ’’شہاب نامہ‘‘ پر بھی صادق آتی ہے کہ جس میں مصنّف نے تقسیم سے پہلے کے ہندوستان اور تقسیم کے بعد کی نئی مملکت پاکستان کے اوّلین دو عشروں کا آنکھوں دیکھا احوال مقتدر حلقوں کے ایک طاقت وَر کردار کی حیثیت سے کچھ اس خوبی سے بیان کیا کہ اُسے پڑھ کر یہ رائے قائم کرنا مشکل محسوس ہوتا ہے کہ مصنّف نے واقعات کے بیان میں کمال دکھایا ہے یا کردار نگاری کی عکّاسی میں اپنے ہُنر کا غیر معمولی اظہار کیا ہے۔اُردو کی ایک نام وَر مصنّفہ، ممتاز شیریں نے قدرت اللہ شہاب کے افسانوں کا بہت گہرائی سے تجزیہ کیا ہے۔ وہ ’’معیار‘‘ میں اس ضمن میں یوں رقم طراز ہیںکہ’’شہاب کا فن خاموش فن ہے۔ فن میں مقصد اس طرح ڈھکا رہتا ہے کہ ہم اُسے دیکھے بغیر محسوس کر سکتے ہیں، اس سے اثر لے سکتے ہیں۔ ان کے افسانوں میں ہمیشہ ایک اخلاقی نظریہ ہوتا ہے ،جو وعظ اور نصیحت نہیں بنتا بلکہ افسانے کے جسم میں پنہاں ہوتا ہے ،لیکن جسے ہم محسوس کر لیتے ہیں۔ ’’تلاش‘‘،’’غریب خانہ‘‘،’’جگ جگ ‘‘،’’سب کا مالک‘‘ اور ’’اسٹینو گرافر‘‘میں یہ احساس موجود ہے۔ شہاب میں سماجی شعور پہلے بھی تھا اور اب یہ شعور بڑھتا جا رہا ہے۔ اس موقعے پر ’’یا خدا‘‘ کی تخلیق کوئی معمولی کام یابی نہیں۔ ’’یا خدا‘‘ فسادات پر اب تک چھپے افسانوں میں بلاشبہ بہترین ہے۔ یہ ان افسانوں میں سے ہے، جن کا موضوع وقتی ہونے کے باوجود، دیر پااثر کرتا ہے۔ اگر ایسے افسانے بھی کچھ اصلاح نہ کر سکیں، تو پھر افادی ادب کی باتیں کرنا بے کارہے۔ ‘‘احمد بشیر نے اپنے تحریر کردہ خاکوں ’’جو ملے تھے راستے میں‘‘ قدرت اللہ شہاب پر تحریر کیے گئے طویل اور دل چسپ خاکے’’پیر و مرشد ،قدرت اللہ شہاب‘‘ کا اختتام ان جملوں پر کیا ہے’’مَیں نے غلط کہا کہ کتاب مجھے پسند نہیں آئی۔ یہ میں نے جل کر کہا تھا،کیوں کہ یہ ایک کتاب مجھ پر حاوی ہو گئی تھی، حالاں کہ مَیں نے اس سے پہلے بہت سی اچھی کتابیں پڑھی ہیں۔ ‘‘کم عُمری ہی سے کام یابیاں سمیٹنے والے، نمایاں کار کردگی دِکھانے والے قدرت اللہ شہاب، 24 جولائی 1986 ءکو اسلام آباد میں ابدی سفر پر روانہ ہوگئے۔ قدرت اللہ شہاب کی اہلیہ ،عفّت شہاب نے اپنے شوہر کا ہر پَل ساتھ دیا۔ اُن کی ایک ہی اولاد ،ثاقب شہاب شعبۂ طِب سے وابستہ ہیں۔ راول پنڈی میڈیکل کالج،یونی وَرسٹی آف پنجاب سے فارغ التّحصیل ڈاکٹر ثاقب شہاب نے اپنے نام وَر باپ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے شعبۂ طب میں نہ صرف نام پیدا کیا،بلکہ اپنے والد اور اپنی دھرتی کی نیک نامی کا بھی باعث قرار پائے۔ وہ 2012 ءمیں کینیڈا کی ریاست، Saskatchewan کے چیف میڈیکل آفیسر بنائے گئےاور تا حال اِسی عہدے پر فائز ہیں۔قبل ازیں، و2009ء سے 2012ء تک ڈپٹی چیف میڈیکل ہیلتھ آفیسر کے طور پر خدمات انجام دیتے رہے۔ ’’رائل کالج آف فزیشنز ،کینیڈا کے Public Health and Preventive Medicineکے فیلو ہونے کے علاوہ Royal College of Physicians, UKکے ممبر بھی رہے۔ دنیا بھر میں تباہی پھیلانے والا COVID-19جو ’’کورونا وائرس‘‘ کے نام سے جانا جاتا ہے اور جس نے جدید تاریخ میں ہلاکتوں کی نئی تاریخ رقم کر دی ہے،کینیڈا کو بھی بری طرح متاثر کر گیا۔ تاہم،مصیبت کی اس گھڑی میں ڈاکٹر ثاقب شہاب کینیڈین شہریوں کے لیے اُمید اور حوصلے کی روشن ترین کرن بن کر سامنے آئےہیں۔ اُنہوں نے مصیبت زدہ کینیڈین کے لیے ایسی بے مثال خدمات انجام دیں کہ اُن کا نام کینیڈا میں گھر گھر لیا جا رہا ہے، وہ ایک سلیبریٹی کا درجہ حاصل کر چُکے ہیں۔ لوگوں نے اُن کی محبت میں نہ صرف اُن کے انداز و اطوار کو اپنانا شروع کردیا ہے، بلکہ اپنے آپ کو فخریہ ’’شہاب اسکواڈ‘‘ کے طور پر متعارف کروانے لگےہیں۔ ایک شخص نے ٹوئیٹ کیاکہ’’ایک دن آئے گا، جب ہم پہلے کی طرح جینا شروع کردیں گے اور اُس دن میںڈاکٹر شہاب سے مصافحہ کرنا اپنے لیے باعثِ فخر سمجھوںگا۔ ‘‘ عبداللہ صاحب کی اَن تھک محنت سے قدرت اللہ شہاب کی غیر معمولی ذہانت اور وہاں سے ثاقب شہاب کی انسانیت کے لیے دی جانے والی بے لوث خدمات نے نسل در نسل روشن چراغوں کا ایک سلسلہ قائم کررکھا ہے۔

صنف : قدرت اللہ شہاب

تبصرہ: قمر عباس



اتوار، 11 اپریل، 2021

مریم جمیلہ ۔۔۔۔ مغرب کی بے باک ناقد

 

گزشتہ صدی سے مغربی تہذیب نے اگرچہ اہل مشرق کی زندگیوں کو کافی زیادہ متاثر کیا ہے۔ تاہم عالم اسلام کے مفکرین نے مغرب کی تہذیبی بنیادوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ خود مغرب سے عالم اسلام کو ایسے افراد ملے جنہوں نے نہ صرف اپنی تہذیب کے کمزور پہلوؤں سے لوگوں کو آگاہ کیا بلکہ دلائل سے ثابت کیاکہ اسلام کی تہذیب کس طرح مغربی تہذیب سے بہتر ہے۔ جہاں مغرب سے عالم اسلام کو محمد پکتھال، محمد اسد اور مراد باف مین جیسے جلیل رجال ملے، وہی خواتین میں مریم جمیلہ جیسی عظیم خاتون بھی ملیں۔ اسلام قبول کرنے سے قبل مریم جمیلہ کا نام مارگریٹ مارکوش تھا۔ ۱۹۳۴ء میں جرمنی کے یہودی خاندان میں پیدا ہوئیں۔ تلاش حق کے کے بعد نہ صرف اسلام قبول کیا بلکہ ہجرت بھی کی۔ مریم جمیلہ نے جہاں اپنے کردار سے اسلام کی دعوت کوپیش کیا، وہیں ۳۴کتابیں اور ۲۰۰ سے زائد کتابوں پر تبصرہ بھی کیا۔ مریم جمیلہ کی تحریر کی خاص بات یہ ہے کہ وہ بات دلائل سے کرتی ہیں لیکن کہیں بھی معذرت خواہانہ لہجہ اختیار نہیں کرتی۔ چونکہ مغربی تہذیب میں پلی بڑی تھی لہذا مغرب کے سراب سے واقف تھی۔اسی عظیم خاتوں کی زندگی پر ۴۸ صفحات پر مشتمل زیر تبصرہ کتاب ’’مریم جمیلہ مغرب کی بے باک ناقد‘‘ وادی کشمیر کے نوجوان اسکالر مجتبیٰ فاروق نے لکھی ہے۔ عزیزی مجتبی فاروقؔ ہندوستان کے مشہور تحقیقی ادارہ ’تحقیق و تصنیف اسلامی علی گڑھ ‘سے وابستہ ہیں۔آئے دن موصوف کے مضامین برصغیر کے مختلف جرائد اور رسائل اوروادی کے مؤقراخباروں بالخصوص ’کشمیرعظمٰی‘اور’مومن‘ میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔زیر تبصرہ کتاب کو مصنف نے دو ابواب میں تقسیم کیا ہے۔ باب اول میں حیات و خدمات اور باب دوم میں مریم جمیلہ کے اہم افکار کا جائزہ پیش کیا ہے۔موصوفہ کے بچپن کے بارے میں وہ لکھتے ہیں کہ اُنہیں بچپن سے ہی تلاش حق تھی، لکھتے ہیں: ’’مارگیٹ بچپن ہی سے متلاشی ذہنیت، سنجیدہ اور حساس واقع ہوئی تھیں۔ وہ ہر وقت لائبریری میں کتابوں کے ڈھیرمیں غرق رہتی تھیں۔ ‘‘(صفحہ ۹ )موصوفہ نے حق کی تلاش میں اپنے آبائی مذہب یہودیت اور دیگر مذاہب کا مطالعہ کیا لیکن ذہنی تسکین نہ ملی۔ تلاش ِ حق میں انہوں نے عربوں کی تاریخ پڑھنی شروع کی وہ لکھتی ہے، ’’عربوں کی تاریخ اور تہذیب و ثقافت کے متعلق پبلیک لائبریریوں میں جس قدر کتابیں ملیں، میں نے پڑھ ڈالیں، باوجود ان کتابوں کے اکثر مضامین کا لب و لہجہ بڑی حد تک معاندانہ تھا۔ان کتابوں کے مطالعہ سے یقین ہو گیا کہ عربوں کے خلاف یہودیوں کا پروپگنڈا یکسر نا انصافی پر مبنی ہے۔ ‘‘(صفحہ ۱۰ )۔ ۱۹۵۳ء میں موصوفہ سخت بیمار ہوتی ہے انہیں محسوس ہوتا ہے کہ وہ زندگی کے آخری ایام گزار رہی ہے لیکن اس دوران بھی ان کی حق کی تلاش جاری رہتی ہے۔ عزیزی مجتبیٰ فاروق اپنے کتاب میں مریم جمیلہ کے حوالے سے لکھتے ہیں۔’’ مجھے لگ رہا تھا کہ میں سمند ر میں تیر رہی ہوں۔ کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کروں اور کہاں جاؤں؟ میری حا لتِ زار پرنہ اصلاح یافتہ یہودیت، نہ بنیاد پرست یہودیت اور نہ اتھیکل کلچر اور بہایت نے کوئی تسکین اور دلاسہ دیا۔‘‘( صفحہ ۱۱ ) اس دوران انہوں کے قرآن کریم کا مطالعہ شروع کر دیا پہلے انہیں ایک عیسائی عالم کا ترجمہ کیا ہوا قرآن ملا لیکن جلد ہی انہیں مشہور نو مسلم اور عظیم مترجم محمد مرڈیوک پکتھال کا ترجمہ ملا۔ مصنف لکھتے ہیں ’’ تلاش حق کے دوران ان کو ایک دن ایک دکا ن پر محمد مرڈیوک پکتھال کا ترجمہ قرآن ملا اس کے دیبایچہ اور متن کو پڑھ کر وہ بے حد متاثر ہوئیں اور ان کو وحی الٰہی سے حقیقی آگاہی ہوئی۔ (صفحہ ۱۲ )اس ترجمہ سے انہوں نے خوب استفادہ کیا اور ساتھ ہی عبداللہ یوسف علی اور مولانا عبدلماجد دریا آبادی کے تراجم کا بھی مطالعہ کیا۔ ساتھ ہی مشہور نو مسلم محمد اسد کی کتا ب Road to Maccaکا مطالعہ کیا قبول حق کی اس کہانی سے وہ اسلام کی بہت قریب آئی اس کے بعد انہوں نے سیرت کا بھی گہرائی سے مطالعہ کیا۔ قرآن پاک کے بارے میں مریم جمیلہ کی سوچ کاتزکرہ کرتے ہئے مصنف لکھتے ہیں۔ ’’ اس نے میری زندگی کے اُن تمام سوالوں کا جواب فراہم کر دیا جن کا مجھے کہیں جواب اور نہیں مل سکتا تھا۔‘‘(صفحہ ۱۴ ) اس دوران اِن کو عالم اسلام کے عظیم مفکر مولانا مودودیؒ کا ایک مضمون زند گی بعد موت کا ترجمہ Life After Deathپڑھنے کا موقع ملا۔ مضمون سے وہ بہت متاثر ہوئی اور مولانا مودودی سے رابطہ قائم کیا۔ موصوفہ نے مولانا کو کئی خطوط لکھئے۔ جن کا مولانا نے تفصیلی سے جواب دیا۔ یہ خطوط کتابی صورت میں دستیا ب ہے۔ ۲۴ مئی ۱۹۶۱؁ء کو مارگیٹ مارکوس نے قبول اسلام کااعلان کیا اور اپنا نام مریم جمیلہ پسند کیا۔ مریم جمیلہ قبولِ حق کے بعد کہتی ہے ’’ میں نے اسلام اپنے آباء و اجداد کے میراث اور قوم سے نفرت کی بنیاد پر قبول نہیں کیا، بلکہ میری خواہش کے پیچھے تکمیل کا جذبہ کار فر ما تھا۔‘‘(صفحہ ۱۶ ) وہ مزید لکھتی ہے ’’ میں نے قریب المرگ مذہب کو چھوڑ کو ایک ایسے متحرک، آفاقی اور انقلابی مذہب کو اختیار کیا ہے جو عالم گیر اقتدارِ اعلیٰ سے کم تر کسی چیز پر قناعت نہیں کر تا۔ ‘‘(صفحہ۱۶ )مولانا مودودی ؒ نبض شناش تھے انہوں نے مریم جمیلہ کے خطوط سے ہی اندازہ کیا تھا کہ اس بچی میں کافی صلاحیتیں ہیں اور ان صلاحیتوں کے پروان چڑنے اور مغربی تہذیب کو جواب دینے کے لیئے اُنہیں پُرسکون ماحول کی ضرورت ہے۔ اس بات کے پیش نظر مولانا، مریم جمیلہ کو پاکستان ہجرت کرنے کی دعوت دیتے ہیں جو کہ مریم جمیلہ قبول کرتی ہے۔ مجتبیٰ فاروق لکھتے ہیں ’’ اسلام کی خاطر ہجرت اپنے آپ میں ایک بہت بڑی قربانی ہے جو اس عظیم خاتون نے دورِ حاضر میں پیش کی۔ انہوں نے اسلام کی خاطر سب کچھ ترک کر دیا، گھر کی آسائشیں چھوڑ دیں۔ زیب و ذینت سے منہ موڑا۔ ظاہری چمک دمک سے لیس مغربی تہذیب کو ٹھکرایا۔ مغربی فکرو عمل سے بے نیازی کی راہ اپنائی۔ انہوں نے نہ صرف اپنا ملک، اپنی زبان اور اپنے وطن کو خیر باد کہا بلکہ سب سے بڑھ کر اپنے والدین اور اعزا و اقرباء کو چھوڑا۔‘‘( صفحہ ۱۸ )قبول حق کے بعد انہوں نے مثالی زندگی گزاری وہ پیکر عمل تھی۔ مولانا مودودی ؒ کے مشورے پر ان کا نکاح جماعت اسلامی کے ایک کارکن محمد یوسف خان سے ہوا۔ جن کے عقد میں پہلے سے ہی ایک بیوی تھی لیکن عمل کی اس پیکر خاتون نے مثالی ازدواجی زندگی گزاری۔ اُن کی بیٹی مایہ خانم کہتی ہے ’’وہ اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کے لیے فکر مند رہتی اور اس کام کو سب سے اہم سمجھتی تھیں۔ ‘‘(صفحہ ۲۱ ) ۳۱ اکتوبر ۲۰۱۲؁ ء کو ۷۸ سال کی عمر میں اُن کا انتقال ہوا اور ان کی وصیت کے مطابق اُن کی تدفین اُن کے سوکن کے پا س کی گئی۔ باب اول میں ہی عزیزی مجتبیٰ فاروق نے مریم جمیلہ کی لکھی ہوئی ۱۷ کتابوں کا مختصر تعارف بھی خوبصورت طریقے سے پیش کیا ہے۔باب دوم میں مصنف نے مریم جمیلہ کے افکار کا مختصرمگر بھر پور جائزہ ۸ ذیلی عنوان کے تحت لیا ہے۔موصوفہ کے فکری کارناموں کا جائزہ لیتے ہوئے مصنف لکھتے ہیں ’’ انہوں نے اپنی تحریروں میں کبھی معذرت خواہانہ انداز اختیار نہیں کیا، ہمیشہ باطل افکار و نظریات کے خلاف اقدامی رُخ اختیار کیا۔ ان کی تمام تحریریں مصلحت پسندی سے پاک ہیں۔ وہ ایسی داعیہ اور مصنفہ ہیں جنہوں نے ایک طرف مغربی تہذیب کی نظریاتی اور فکری بنیادوں پر انتہائی بے باکی سے حملے کیے تو دوسری طرف بہترین قوتِ استدلال کے ذریعے اسلام کی نظریاتی اور فکر ی بنیادوں کی قرآن و سنت پر مبنی تشریح و توضیح کی۔ تیسری جانب انہوں نے عصرِ حاضر کے سلگتے ہوئے مسائل کا حل پیش کیا۔‘‘(صفحہ ۲۷)اُس وقت عالم اسلام جدیدیت سے کافی مرعوب تھا۔ موصوفہ ہمیشہ عالم اسلا م کی مغرب سے متاثر ہونے والے مفکرین سے ہمیشہ نالاں تھیں اور انہوں نے اُن کی کُھل کر تنقید بھی کی۔ وہ لکھتی ہے ’’ یہ تمام جدیدیت پسند اپنے اپنے حالات کے ادنیٰ درجے کی پیدوار ہیں۔ اس پر مستزادیہ کہ احساس کم تری میں مبتلا ہیں۔ اسی سبب سے وہ مغربی سامراجیت کے پنجۂ استبداد کی تذلیل کو قبول کرنے کے بعد مشرق پر پوری طرح چھا گئے۔ ‘‘(صفحہ ۴۲ )

مریم جمیلہ جدیدیت سے مرعوب مفکرین کو مشورہ دیتی ہے۔’’ ہمیں نہ صرف دفاعی پوزیشن میں رہنے سے گریز کرنا چاہئے، بلکہ اقدامی انداز اختیار کرنا چاہئے اور قرآن و سنت کو حکم بنا کر مسائل کا حل پیش کرنا چاہئے۔ یہی وہ واحد علاج ہے جو نوعِ انسانی کو تباہی اور اجتمائی خود کشی سے بچا سکتا ہے۔‘‘(صفحہ ۴۳ )حالانکہ وہ ٹکنالوجی کے خلاف نہ تھی مگر انہیں مغرب کی فکری زعم میں مبتلا ہونا پسند نہ تھا مصنف پروفیسر جان وول لکھتے ہیں۔ ’’ مریم جمیلہ ٹکنالوجی سے استفادہ کی حامی ہیں، لیکن جدیدیت پسندوں کے فکری مغالطوں کے خلاف ہیں۔‘‘(صفحہ۸ ۲ )موصوفہ چاہتی تھی کی امت اعلیٰ تعلیم حاصل کریں لیکن یہ تعلیم انہیں اسلام سے دور نہ کریں ’’ مریم جمیلہ کا خیال ہے کہ قرآن و حدیث کی تعلیمات سائنس اور ٹکنالوجی کی راہ میں حائل نہیں ہیں، چنانچہ وہ علم کی ہر شاخ کو حاصل کرنے کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’’ حقائق پر مبنی علم نوع انسانی کی مشترکہ میراث ہے۔ اس میں امریکہ اور یورپ کی بالادستی ہے۔ ‘‘(صفحہ ۳۸ )مسلمانوں کا نظام تعلیم کیساہو نا چاہئے اس سلسلے میں موصوفہ چاہتی تھی۔’’سب سے پہلے مساجد کو خصوصی اہمیت دینی چاہئے۔ جہاں سے ہم بچوں اور جوانوں کو تعلیم دے سکیں۔ دوسری بات یہ کہ تعلیمی اداروں میں عربی زبان کو ترجیحی بنیادوں پر پڑھانا چاہئے اور اس کو قومی زبان کی حیثیت دینے کے ساتھ ذریعہ بیان Media of instruction بھی بنانا چاہئے۔ ہر بچے کو نہ صرف تجوید اور تلاوت بلکہ قرآنی آیتوں کو معنی و مفہوم بھی سکھانا چاہئے۔ تیسری بات یہ کہ قرآن کو پورے نصاب میں مرکزی حیثیت حاصل ہونی چاہئے اور دوسرے مضامین کو قرآن کے نظریہ کے مطابق پڑھانا چاہئے، تاکہ مذہب اور سیکولرزم (مادیت) کے درمیان فرق کو دور کیا جاسکے۔ اس طرح سے پورا نصاب تعلیم مکمل طور پر ہم آہنگ بن جائے گا۔(صفحہ ۳۷ ) عزیزی مجتبیٰ فاروق نے موصوفہ کے فکری کام کا جائزہ لیتے ہوئے اُن کی اسلامی تہذیب کے بارے میں بھی قاری کو آگاہ کیا ہے۔ ’’ اسلام ایک آفاقی دین ہے۔ اس کے دروازے تمام بنی نوع انسان کے لیے کھلے ہوئے ہیں۔ یہاں دیگر مذاہب کے علم برداروں کے برعکس ہمیں پیشہ وار مبلغین کی ضرورت نہیں، بلکہ ہر مسلمان بہ جائے خود ایک مبلغ ہے۔ ‘‘(صفحہ ۳۳ ) موصوفہ یہ جانتی تھی کہ علمائے کرام کو اُمت کی تعمیر میں اہم رول نبھانا ہے لیکن موجودہ دور کے علماء سے انہیں شکوہ بھی تھا۔’’ جب مغرب کی مادی برتری ظاہر ہو گئی تب علماء سے ایک فاش غلطی ہوئی کہ وہ مغربی فکر و تہذیب کا مقابلہ کرنے کے بجائے باہمی مسلکی اختلافات میں اُلجھ گئے۔ ‘‘(صفحہ۴۳ ) موجودہ حالات میں وہ علماء کو اپنے ذمہ داری یا د دلاتے ہوئے لکھتی ہے ’’ وہ فروعی مسائل کو بالائے طاق رکھ کر اُمت کے نازک حالات کو بھانپ کر قرآن و حدیث کی روشنی میں امت مسلمہ کی بھر پور رہنمائی کریں۔‘‘( صفحہ ۴۴ ) اور ساتھ ہی وہ علماء کرام کو اپنے عظیم ماضی کی یاد بھی دلاتی ہے۔ ’’ ہماری تاریخ مین علماء ہمیشہ عیش و عشرت اور راحت و طمانیت کی زندگی سے دور اور صبر و استقامت کے ساتھ شدائد و آلام برداشت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ امام ابوحنیفہ ؒ، امام مالک ؒ، امام شافعیؒ، امام احمد بن حنبلؒ، امام ابن تیمیہؒ، اور شیخ مجدد الف ثانی ؒ جیسی عبقری شخصیات نے اہل باطل کے غلط افکار کی توثیق کرنے سے صاف انکار کردیا تھا۔ اسی کردار کو آج بھی ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ ‘‘(صفحہ۴۴)مصنف نے مریم جمیلہ کے اہم افکار کے تحت عورت اور اسلام، اسلامی تہذیب اور مغربی تہذیب کا بھی مختصر جائزہ لیا ہے۔ اتنے مختصر صفحات اور عام فہم اسلوب میں عالم اسلام کی مایہ ناز عالمہ اور مجاہدہ کی زندگی اور افکار کا جائزہ لینا مصنف کا کمال ہے۔ مصنف مبارکباد کے مستحق ہے ان کی یہ کتاب ہندوستان کے مشہور اور معتبر ادارہ مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز نئی دہلی سے شائع ہوئی ہے۔ امید ہے یہ کتاب ہاتھوں ہاتھ لی جائے گی

سہیل بشیر کار

دلیل ڈاٹ کام