جب ہم کوئی کتاب خرید کرتے ہیں تو ہمارے ذہن میں اس کتاب کے حوالے اک تخیل ہوتا ہے کہ یہ کتاب کس موضوع پر ہے اور اس میں کس قسم کا مواد پڑھنے کو ملے گا، مثلاً جب آپ کسی کی سوانح عمری خریدتے ہیں تو آپ کو معلوم ہوتا ہے کہ اس میں اس شخصیت کے حوالے سے بات ہوگئی۔ اس کی ناکامی اور کامیابی کے فیصلے اور ان کی وجوہات پر بات ہوگئ، غرض آپ کو ہر زبان میں ہر اقسام کی کتب مل جاتی ہیں جن کو آپ خرید کرتے ہیں مگر آپ نے کبھی ایسا نہیں سوچا ہوگا کہ جو کتاب میں خرید رہا ہوں وہ میری ہی زندگی کے بارے میں ہو سکتی ہے۔ گمنام گاؤں کا آخری مزار میں نے دو وجہ سے خریدی۔ اول کہ یہ بک کارنر جہلم نے شائع کی ہے اور دوم کہ یہ راؤف کلاسرہ صاحب کی تحریر ہے۔ کتاب خرید تو لی مگر منیر نیازی صاحب کی طرح " ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں" ۔ اس کتاب نے میرے ساتھ بہت سفر کیا ، میری نیت تھی کہ جب موقع ملا اس کو تھوڑا تھوڑا پڑھ کر ختم کر لوں گا مگر جب پڑھنا شروع کیا تو معلوم ہوا کہ جناب یہ جگ بیتی نہیں آب بیتی ہے اور اس میں جیسل کلاسرہ کی نہیں دولت پور کی کہانیاں شامل ہیں۔
اس کتاب کی تقریباً ہر کہانی کا تعلق کلاسرہ صاحب کے
گاؤں جیسل کلاسرہ سے ہے مگر جب میں نے عام لوگوں کی یہ عام سی کہانیاں پڑھنا شروع
کی تو معلوم ہوا یہ تو میری زندگی کے خاص لوگوں کی خاص کہانیاں ہیں وہ خاص لوگ جن
کا تعلق دولت پور سے ہے اور جن کو راؤف کلاسرہ صاحب اسلام آباد میں بیٹھ کر یاد
کرتے ہیں اور میں جہلم۔ معلوم نہیں یاد کرتے ہیں یا ماتم کرتے ہیں۔
اگر کلاسرہ صاحب اپنے چچا میرو کمہار کو یاد کرتے ہیں
تو مجھے بھی "چاچا مینو موچی" یاد آتا ہے جس کا گھر دولت پور کے مشرقی
راستہ پر تھا۔ جو تھے تو دادا جی کے دوست مگر ہم بھی اپنے والد کی نقل میں ان کو
چچا ہی بلاتے تھے۔ اور جو آتے جاتے "پتر کی حال اے، تے ابے دی سنا" کہ
کر خیریت معلوم کرتے تھے۔ جو اگر دوسری جماعت میں پڑھنے والے "نکے مرجا
صاب" کو اٹھا کر اگر منہ چومتے تو میرے حقیقی چچا سخاوت بیگ شور مچا دیتے کہ
"مینو نے تیرا منہ پلیت کر دتا اے ، اس نے پہلاں چمڑے نوں ہتھ لایا سی اس
واستے ادے ہتھ پلیت سن" اور میں اپنے نھنے ہاتھوں سے مینو کا منہ نوچ لیتا
مگر وہ پھر بھی دوبارہ پیار سے منہ ضرور چومتا۔ اور جب تک مینو چاچا گاؤں میں رہا
گاؤں کے ہر چکر میں اک بڑے سے پتھر پر سلیٹی سے میرا پاؤں ضرور "اوکرتا"
اور بعد میں کبھی زری کھسہ کبھی گرگابی یا پھر کھیڑی جہلم پہنچ جاتی۔
یا پھر مینو نائی جو کہ گاوں میں ہمارا
"سیپی" تھا ، اس نے ہر غمی خوشی میں کھانا پکانا ہوتا تھا۔ اس کے پاس اک
ہی استرا تھا جس کو وہ وٹی پر تیز کر کے سارے گاؤں والوں کی شیو اور حجامت بناتا
تھا۔ جو صرف اس لیے میرے بال کاٹتا تھا کہ "میرا دل کردا اے کہ اپنے پوترے دے
وال منا" میں ان کا پوترہ تھا کیونکہ وہ راجے پھپھرے دے بھرا بنے ہو سن ، اور
مجھ شہری بابو کے سارے پف اس لیے خراب ہو جاتے تھے کہ میں چاچے مینو نائی کی محبت
کو انکار نہیں کر سکتا تھا۔
گمنام گاوں کا آخری مزار وہ کتاب ہے جو آپ کے اندر
دفن پرانی یادیں کہیں یا پھر قبریں کھود دیتی ہے جو کہ ہمارے اندر دفن ہوگئی تھیں
اور گزرتے وقت کے ساتھ ان پر مصروفیات کی اتنی دھول جم گئی تھی کہ ان کے نشانات تک
گم ہو گئے تھے ، اپنے سگے تو یاد آے ہی مگر وہ بھی یاد آئے جن سے کوئی خونی رشتہ
نہیں تھا مگر سب سے قریبی وہ ہی تھے۔
چاچا گلا ہٹی آلا، جس کی دوکان سے جب بھی جاؤ تو دودھ
مکھن والی ٹافی ملتی تھی کہ راجے پھپھرے دا پوترا تے فیر میرا وہی پوترا ہی اے۔
حاجی جہانداد خان جو گاؤں کے واحد ڈاکٹر تھے کیونکہ میڈیکل کور سے پینشن یافتہ تھے
مگر دوکان کریانہ کی کرتے تھے۔ ان کی دوکان میں پہلی دفعہ پنکھا دیکھا جو کپڑوں
اور چادر سے بنا تھا جس کی رسی کھینچتے تھے تو کپڑے سے ہوا آتی تھی ان کی وفات کی
بعد ان کا بیٹا بابا رشید ان کی دوکان پر بیٹھا۔ اگرچہ ابو سے بھی کم عمر ہوں گئے
مگر رشتہ ایسا تھا کہ ہم بابا جی رشید بلاتے تھے۔ وہ بھی جوانی میں ہی فوت ہوگئے۔
افضل تنگر جو ہمارے لیے کیا سارے جہاں کیلیے بابا ابھا تھا ،تو ابھی کل کہ بات ہے۔
سرئے راہ ہونے والی وہ ملاقات کسے معلوم تھی کہ آخری ملاقات ہے۔ اک معاملے میں جب
بات ہوئی تو کہنے لگے "پتر اسی مرنے تک تعبدار، مر گئے تے تسی جانو تے پچھلے
جانن" چاچا خدا بخش ترکھان جو لکڑی میں نہ صرف رنگ بھرتا تھا بلکہ اس میں
خوبصورتی کی روح پھونک دیتا تھا۔ اک بار چارپائی کی ٹھکائی پلر کے ساتھ بیٹھ کر
شروع کی اور ساتھ دادا جی سے گپیں لگانا شروع کر دئیں جب کام مکمل ہو تو دیکھا کہ پلر
چارپائی کے درمیان آ گیا ہے۔
انگریزی کی اک کہاوت پڑھی تھی جس کا مفہوم تھا "
مجھے یہ تو معلوم تھا کہ جب میں اپنے ماضی کے دکھ یاد کرو گا تو مجھے ہنسی آ جائے
گئی مگر مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ جب میں ماضئ کی خوشیاں یاد کروں گا تو تو پڑوں
گا" کلاسرہ صاحب آپ نے رولا دیا۔
راؤف کلاسرہ صاحب اگر ۱۰ روپے دے کر
وی سی آر ہر فلم دیکھتے تھے تو کیا میں نے نہیں دیکھیں!!! اور کلاسرہ صاحب آپ کی
طرح گھر والوں سے چوری ہی دیکھی تھیں اور پکڑنے جانے پر آپ کو تو کچھ بھی نہ کہا
گیا ہمیں کپڑے دھونے والے "سوٹے" سے پینٹی پڑی تھی۔
جب کبھی گاؤں میں خوشی کا موقع آتا تو وی سی آر پنڈی
سید پور سے ضرور منگوایا جاتا۔ معلوم نہیں کلاسرہ صاحب آپ نے کبھی کسی موٹر سائیکل
سے پڑول نکال کر کورے نوٹ سے وی سی آر کا ہیڈ بھی صاف کیا ہے یا نہیں!!!
بعد میں چاچا زمان سمور نے میڈل ایسٹ سے وی سی آر اور
دو فلمیں گاؤں بھیج دیں اور وہ دو فلمیں ہم نے اپنے بھائی صفدر سمور کی مہربانی سے
اتنی بار دیکھیں اتنی بار دیکھیں کہ ان کا ہر لفظ ہر گانا ہر ڈئیلاگ اور اداکاروں
کی ہر حرکت زبانی یاد ہوگئی تھی۔ مگر چونکہ ان کے پیسے نہیں دینے پڑتے تھے اس لیے
ان کو ہی بار بار دیکھا جاتا تھا۔
راؤف کلاسرہ صاحب جب آپ کو لیہ کالج کی کرسیاں یاد
آتی ہیں تو مجھے بھی اپنا سلول کالج یاد آتا ہے۔ آپ کو اگر آپ کے استاد نے انگلش
اس طرز پر پڑھائی کہ پتئ چلتا تھا کہ شیکسپیر بول رہا ہے تو ریاض ڈار صاحب ہم کو
بھی غالب کے اشعار اسی طرح پڑھاتے تھے کہ غالب بھی کیا بیاں کرتا ہو گا۔ پرنسپل
فیاض بخاری صاحب جن اک اتنا رعب تھا کہ جب وہ راونڈ پر نکلتے تو طالب علم تو اک
طرف اساتذہ ہوشیار باش ہو جاتے تھے۔ راؤف کلاسرہ صاحب آپ نے اگر انگلش جی ایم صاحب
سے پڑھی ہے تو ہم نے بھی توفیق صاحب سے پڑھی تھی جن نے اک دن اس لیے ٹھکائی کر دی
کہ بہت دن سے نہیں ہوئی اور مجھے ڈر ہے کہ تم خراب نہ ہو جاؤ۔
یادیں ہیں کہ بہا لے جانے کے درپہ ہیں جذبات نقطہ
عروج پر ہیں مگر الفاظ ہیں کہ مل ہی نہیں رہے۔ کس کس کو یاد کرو۔ کن الفاظ میں یاد
کرو۔ وہ دوست جو آج نہیں ہیں ان کا ذکر تک نہیں اور جو ہیں وہ غم روزگار نے گم کر
رکھے ہیں۔