وہ تمام لوگ جو
ابھی ماں باپ نہیں بنے یا بن گئے ہیں
خود اچھے بنیں ممکن نہیں ہے کہ شاہین کا بچہ شاہین نہ ہو لیکن کچھ نہ کچھ اثر ضرور ہوتا ہے۔ بچوں کے ساتھ وقت نہ گزرا ہو وہ ایک علیحدہ
بات ہے
بعض اوقات بندے کی مصروفیت اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ وہ بچوں کو زیادہ وقت نہیں
دے سکتا خاص کر بڑے انسان ان کے
پاس تو واقعی وقت نہیں ہوتا وہ اپنے آپ کو اتنا مصروف کر لیتے ہیں کہ پھر وہ عام زندگی نہیں گزار سکتے جبکہ عام زندگی میں آپ اپنی فیملی کووقت دے سکتے ہیں اللہ تعالیٰ
نے آپ کو خصوصیات سے نوازہ ہے جب آپ کا
بیٹاان خصوصیات کو خود دیکھتا ہے تو
وہ ان خصوصیات کو اپنے اندر پیدا کرنے کی
کوشش کرے کرتا ہے کیونکہ بچے کے لیے والدین سب سے پہلی مثال ہوتے ہیں ۔ اگر گھر میں دس روپے پر لڑائی ہوتی ہے تو بچہ یہ سیکھتا ہے کہ دس روپے ایک ایسی چیز
ہے جس کے لیے لڑ ا جا سکتا ہے سو روپے ایک
ایسی چیز ہے جس کے لیے گھر کے سارے برتن توڑے جا سکتے ہیں ۔
اگر بچے کی تربیت
والدین اچھی نہیں کی تو پھر بڑا مشکل ہو جاتا ہے اپنے آپ کو ٹھیک
کرنا وہ بہت بہادر لوگ ہوتے ہیں جو اپنے آپ کو ٹھیک کر لیتے ہیں ۔
1984ء کی بات ہے میری چار پانچ سال عمر
تھی ہمارے گاؤں میں ایک میلہ لگتا تھا
مجھے پانچ روپے ملتے تھے میر ی
خالہ نے مجھے کہا کرتی تھی کہ میلے میں بہت جیب
کتر ے ہوتے ہیں ان سے بچ کے رہناان
کے اس جملے کی وجہ سے میں کسی چیز کو
انجوائے نہیں کرتا تھا میرا ایک ہاتھ اپنی
جیب پر ہوتا تھا جبکہ دوسرے ہاتھ سے برف
کا گولہ ہوتا جو میں کھا رہا ہوتا میں
پورے میلے میں یہی سوچتا رہتا تھا کہ کہیں
میری جیب ہی نہ کٹ جائے ۔ زندگی میں کوئی بھی رویہ یا چیز
جہاں سے بھی آرہی ہو اس ماخذ کو ڈھونڈیں
اور اپنے رویے کے معانی بدلیں اور
تھوڑا سا حوصلہ پیدا کریں ۔
آپ جو
اچھائیاں اپنے بچوں میں پیدا کرنا چاہتے
ہیں پہلے ان کو اپنے اندر پیدا کریں ہمارے معاشرے میں والد ین بچوں کے لیے مثال نہیں بنتے
مثال کے طور کئی بچیاں پردہ ، حیادار ہیں
مگر ان میں وہ حیا ان کو ماں سے نہیں ملا
بہت سارے بچوں کو اخلاقیا ت کا سبق
گھر سے نہیں ملا ۔ ایک اچھےشخص کو کسی نے
دیکھا اور انکی تعریف کی اور انہیں کہا
کہ آپ کے والدین نے آپ کی بہت
اچھی تریبت کی ہے انہوں نے جواب دیا کہ میرے والد صاحب تو مجھے بچپن میں چھوڑ کر
چلے گئے تھے ان کے اس رویے کو دیکھ میں نے یہ فیصلہ کیا کہ یہ سلوک
میں نے اپنے بچوں کے ساتھ نہیں
کرنا لہذا میں خود اچھا بن جاؤں ۔بعض اوقات
حالات آپ کو سیکھا دیتے ہیں گھر کے نظام کو چلانے کے لیے کچھ اصول و
ضوابط بنائیں کہ کیسے گھر چلانا ہے ، کیا رویہ ہونا چاہیے ،
خود کیسا بننا ہے ، تحمل کیسا ہو یہ سب کچھ ہمارے پاس نہیں ہوتا جبکہ ہماری شادی ہو جاتی ہے۔
ستر سے اسی فیصد
لڑکا شادی کے قابل نہیں ہوتا ،نوکری مل
جانا صرف شادی کے لیے ضروری نہیں ہے انسان
ہونا بڑا ضروری ہے آپ ایسے اچھے انسان
بنیں کہ جس کی بیٹی آپ کے گھر آئے وہ ہاتھ اٹھا کر آپ کو
دعائیں دے ۔پہلی چیز ہے اچھا انسان بننا اگر آپ اچھے انسان بن جاتے ہیں تو پھر بہت ساری چیزیں سیکھنی نہیں پڑیں گی وہ خود بخود آپ میں پیدا ہو جائیں گی اگر آپ نفیس انسان ہیں سنبھالنے والے
ہیں آپ کا ساتھی خود ہی سیکھ جاتا
ہےہمارے ساتھ مسئلہ یہ ہوتا ہے ہم
ضد لگا کر بیٹھ جاتے ہیں اور ساتھی کو ذلیل کرتے ہیں ۔ سکھانے والے کو
کبھی تنز نہیں کرنا چاہیے چپ کر کے کام کریں
ساتھی خودبخود سیکھ جائے گا بچے
بھی سیکھنے لگ پڑیں گے ۔
(Special Sitting, Syed Qasim Ali Shah)

کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں