ہمارے ملک میں ایک
ایسا شخص تھا جوصبح قصور سے دودھ خریدتا
تھا اور لاہور میں آکر بیچتا تھا پھر ایک ایسا وقت آیا وہ پڑھتا
، محنت کرتا اور مشقت کرتا
ہوا آخرکار وہ اس ملک کا وزیراعظم بن گیا یہ ملک معراج خالد تھے۔دنیا میں آئن سٹائن کو
بھی آسانی نہیں ملی لوگوں نے اسے پاگل
کہا ، اس دنیا نے کسی نبی پیغمبر ؑ
کو بھی نہیں چھوڑا انہیں بھی نہیں مانایہ
بندے کا اپنا جذبہ ہوتا ہے پھر بندہ آگے
جاتا ہے ۔ایک سکول کے باہر غبارے بک رہے تھے
غباروں کے اندر گیس بھری تھی
غبارے بیچنے والا غبارے کی سیل بڑھانے کے لیے تھوڑی دیر کے لیے دو تین غبارے ہوا
میں چھوڑ دیتا تھا تاکہ بچے دیکھیں اور خریدنے کےلیے آجا ئیں اس نے دیکھا ایک ایسا بچہ جس کا رنگ بہت
کالا ہے اور وہ دیوار کے ساتھ لگا
بڑی دیر سے اس کو دیکھ رہا ہے اس نے بچے کو اپنے پاس بلا لیا اور کہا کہ بیٹا اگر تمہیں غبارہ چاہیے تم ایک کام
کرو یہ لے لو میں
پیسے نہیں لوں گا اس نے کہا نہیں
انکل میرا سوال ہے کہ کالے رنگ کا اڑتا ہے اس نے جواب دیا کہ نہ کالا اڑتا ہے
نہ نیلا اڑتا ہے کچھ اندر ہو تو
بندہ اڑتا ہے ۔
آ پ سب سے پہلے اپنی معاش
کا بندوبست کریں اور آپ کا کوئی
شوق ہے جو معاشرے کے مطابق نہیں ہے تو اس کو ساتھ ساتھ چلاتے رہیں
اس کو ذریعہ معاش نہ بنائیں ۔ فرض کریں ٹریننگ ایک شوق ہے اور اس سے کمایا بھی جاسکتا ہے مگر آپ اس شوق کو فری کریں۔ ہمیں بچپن سے سکھایا
جاتا ہے بیٹا سارا کھانا تم نے خود کھانا ہے کسی ساتھ والے بچے کو نہیں دینا جب اتنی تنگ دلی ہو گی تو پھر بندے کا ویثرن دوسروں کے لیے ، ملک کے لیے
اور معاشرے کو بدلنے کےلیے
نہیں ہوگا۔
ہر فیلڈ میں اسی فیصد لوگ ناکام ہوتے ہیں اور بیس فیصد
کامیاب ہوتے ہیں کامیاب ہونے والوں نے کامیاب ہونے کا فیصلہ کیا ہوتا ہے ورنہ
اسی فیصد کبھی بھی نہیں چاہتے کہ وہ کامیاب ہوں۔انسا ن جب سے دنیا میں آیا ہے
ساری مزاحمت اسی کےلیے ہے انسان ثابت کرتا
ہے کہ میں نے مزاحمت کو نہیں ماننامیں نے
ثابت کرنا ہے کہ رکاوٹوں سے زیادہ بڑی چیز میر ی ہمت اور جذبہ ہے ۔
(Lecture in UET Lahore topic “Passion” Syed Qasim Ali Shah)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں