جمعرات، 3 نومبر، 2016

شاندار کامیابی حاصل کرنے والوں کا راز


دنیا میں لوگوں ایک بہت بڑی تعدادجیسےآتی ہے  ویسے ہی چلی جاتی ہے  ان کا کوئی نام نہیں ہوتا جبکہ کچھ لوگ آتے ہیں  اور ان کا نام ہمیشہ ہمیشہ کے لیے زندہ ہو جاتا ہے  ان کے نام زندہ ہونے میں صرف ایک فرق ہوتا ہے اور وہ فرق ان کی کامیابیاں ہوتی ہیں جو انہوں نے حاصل کی ہوتی ہیں ان کی کامیابیوں میں  اتنی طاقت ہوتی ہے  کہ وہ  ان کا دنیا کے ساتھ تعلقات بنا دیتی ہیں۔
ایک لڑکا جب  کلا س میں پڑتا تھا تو کوئی اس کے ساتھ کھانا کھانا پسند نہیں کرتا تھا پھر  ایک وقت آیا کہ دنیا  اسے نپولین کے  نام سے  جاننے لگی  جب اس کے پیچھے وجہ تلاش کی  گئیں  تو پتا چلا کہ اس کی  زندگی میں ایسی محرومیاں تھیں  جس نے اس کو اتنا بڑا انسان بنادیا۔  دنیا کے جتنے بھی بڑے فلاسفر ہیں  وہ کہتے ہیں کہ محرومی،کمی یا پھر احساس کمتری یہ اتنی طاقتور چیز ہوتی ہے کہ اگر یہ کسی کے پیچھے پڑجائے تو وہ عام بندے کو خاص بنا دیتی ہے ۔
ایک لڑکی کو ایک لڑکے کے ساتھ محبت ہو گئی لڑکی ایک غریب گھر سے تعلق رکھتی تھی جبکہ لڑکے کا تعلق ایک امیر گھرانے سے تھا ایک دن لڑکے کے گھر دونوں آپس میں باتیں کر رہے تھے اسی دوران لڑکے کی ماں آگئی  اس نے لڑکی کو بالوں سے پکڑ کر گھسیٹا اور مارتے ہوئے  اس کو گیٹ تک لے گئی گیٹ پر چھوڑنے کے بعد اس نے کہا کہ تیری یہ مجال کہ تو میرے بیٹے کے ساتھ عشق کرئے لڑکی اٹھی اور چلی گئی جب  وہ  واپس پلٹی تو مادام کیوری بن چکی تھی  مادام کیوری کو  مادام بنانے میں  اس کی بے عزتی شامل تھی ۔ ہمارے پاس ایسی کوئی محرومی ، احساس کمتری  یا ایسی کوئی بے عزتی نہیں ہوتی  جو طاقت بن کر  ہمیں چلنے پر مجبور کرے ۔ احساس کمتری میں اتنی طاقت ہوتی ہے کہ اس کو ختم کرنے کے چکر میں بندہ اتنی محنت کرتا ہے کہ ساری دنیا پیچھے رہ جاتی ہے  وہ  آگے نکل جاتا ہے ۔
جتنے خوف ہوتے ہیں   ان کو دور کرنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ خوف کے سامنے کھڑے ہو جائیں ۔ کامیاب لو گ جب انہیں اپنی احساس محرومی کا پتا لگ جاتا ہے  تو یہ اپنی  احساس محرومی سے لڑنا شروع کر دیتے ہیں ۔ باہر کی دنیا  سے لڑنا آسان ہوتا ہے جبکہ اندر کی دنیا سے لڑنا بہت مشکل ہوتا ہے  یہ اتنی مشکل ہوتی ہے کہ آپ نے خودہی اپنے اندر کی بزدل ذات کو ختم کرنا ہوتا ہے جب آپ اس سے لڑناشروع کرتےہیں ایک دن آتا ہے آپ  اسے مار دیتے ہیں ۔ جو بندہ اپنے آپ کو فتح کر لیتا ہے اس کے لیے دنیا فتخ کرنا کوئی مشکل نہیں ہوتا ۔جتنے بھی صوفیا کرام ہیں ان میں اکثر عشق مجازی سے گزرے ہیں  یہ عشق مجازی سے گزر کر عشق حقیقی  کی طرف چلے گئے   اگراس کی وجہ تلاش کریں تو پتا چلتا ہے کہ جو بند ہ مجاز کی ناکامی کا  سامنا کر لیتا ہے  اس کو حقیقت کا سامنا کرنا آسان ہو جاتا ہےجب وہ وصال ، دوری ، پرائے کو اپنا بنانا برداشت کر لیتا ہے تو پھر وہ اتنا بڑا انسان بنتا ہے کہ ان کا نام بڑے بڑے صوفیا کرام  میں شامل ہو جاتا ہے    
دنیا میں سب کے ساتھ کوئی نہ کوئی محرومی، کوئی وصال  اور کوئی خامی ضرور ہوتیں ہیں  لیکن کامیاب  اور ناکام لوگوں  کے ان محرومیوں  کے جوابات  مختلف ہوتے ہیں ۔ اگر کوئی بھی کامیاب ہونا چاہتا ہے وہ ان باتوں پر عمل کرے:
1۔         اپنی ذات کو سمجھنا
سب سے پہلا کام اپنی ذات کو سمجھنا  جب ہم اپنے اندر خود کو تلاش کریں گے  تو ہمیں کئی قسم  کی محرومیاں ، خوف، تنقید اور کئی خامیاں  نظر آئیں گی    ہمیں ان خامیوں ، محرومیوں  کو ختم کرنا ہوتا ہے ۔ اکثر دیکھا  گیا ہے  کہ ستر سال کا بندہ ہوتا  ہے مگر اس کی عادتیں سولہ سال والے بچے کی طرح ہوتی ہیں  یہ اس لیے ہوتی ہیں کہ اس نے اپنی بچپن کی خامیوں  کو دور نہیں کیا ہوتا ۔ ایڈیسن کی عمر جب72 سال  تھی  تو اس کی لیباٹری کو آگ لگ گئی  پوری لیباٹری جل گئی  وہ باہر کھڑا دیکھا رہا تھا جب لیباٹری ساری جل گئی تو اس نے کہا کہ اب نئے سرے سے کام کرنے کا موقع ملے گا یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جنہوں نے وقت پر اپنی محرومیوں کو منظم کر کیا ہوتاہے ۔ اگر آپ اس وقت طالب علم ہیں تو یہ آئیڈیل  عمر ہے اپنی خامیوں کو تلاش کرنے  کی اگر آپ اس وقت اپنی خامیوں کو تلاش کر لیتے ہیں  تو آنے والی زندگی آسان ہو جائے گی۔
2۔         ٹیلنٹ
کامیاب ہونے کے لیے  دوسرا کام اپنی بہترین  صلاحیت کو تلاش کرنا  کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کو ایک کام ایسا دیا ہوتا ہے کہ اس جیسا کسی کے پاس نہیں ہوتا  اس کام نے عزت ، پیسہ  اور تعلقات   بننا ہوتا ہے ۔ ہمیں اس کام کو تلا ش  کرنا ہوتا ہے جب وہ مل جائے تو پھر اس کو پالش کرنا ہوتا ہے  اگر وقت پر مل جائے تو تھوڑا تھوڑا روز اسے پالش کرتے رہنا چاہیے ۔ ایک تحقیق کے مطابق اگر کسی نے زندگی میں  اپنی بہترین صلاحیت کو دس ہزار گھنٹے دیئے ہیں تو وہ عام سے خاص ہو جاتا ہے اور اس کا دنیا میں نام  بن جاتا ہے ۔جس کے پاس ہتھیار ہوتا ہے اس نے اسے چھپا کر رکھا ہوتا ہے  وہ کسی کو نظر نہیں آتا   لیکن وہ اس  ہتھیار کی وجہ سے پر اعتماد نظر آتا ہے  اسی طرح جس کو تیرنا آتا ہے  وہ سوئمنگ پو ل میں جا کر خوشی خوشی تیرنا شروع  کر دیتا ہے  جبکہ  جس کو تیرنا نہیں آتا  وہ ڈرے گا  یہ اس لیے ہے کہ جس کے پاس صلاحیت ہوتی ہے  اسے ڈر نہیں ہوتا  اور جس کے پاس صلاحیت نہیں ہوتی  اس کو خوف ہوتا ہے۔
ہمار ا ٹیلنٹ ہمارے اندر اعتماد پیدا کرتا ہے جب ہم اپنے ٹیلنٹ کی طرف تھوڑا سا متوجہ ہوتے ہیں وہ پہلے سے ہی تیار بیٹھا ہوتا ہے  ہم اپنے ٹیلنٹ کے متعلق تھوڑا سا سنجیدہ ہو جائیں  تو اس کو آسانی کے ساتھ  تلاش کیا جا سکتا ہے  ۔ ہمارے ساتھ سب سے بڑا مسئلہ ہماری ڈگری ہوتی ہے ہم  زندگی کا ایک بہت بڑا حصہ  ڈگری کے پیچھے لگا دیتےہیں اور نتیجہ  یہ نکلتا ہے ہمارے ہاتھ ٹیلنٹ نہیں  آتا اور پھر ہم غلامی کو قبول کر لیتے ہیں ۔ جتنے کامیاب ہونے والے لو گ ہوتےہیں ان میں زیادہ تر نے کالجوں اور یونیورسٹیوں کو چھوڑا ہوتا ہے۔ یہ ٹیلنٹ ایک ایسی چیز ہے اس کے بارے میں کسی سے پوچھنا نہیں پڑھتا  اس میں کر کے دیکھا دیتے ہیں ۔جب انسان دنیا میں آتا ہے تو وہ ایک دم سے چمپئن نہیں بن جاتا  شروع میں  نقصان ہوتا ہے  لیکن جیسے ہی اسے پالش کرنا شروع  کیا جاتا ہے  تو پتا چل جاتا ہے کہ اس کو کیسے استعمال کرنا ہے تھوڑا سا وقت  گزرنے کے بعد وہ نتائج دینا شروع کر دیتا ہے کیونکہ  اس کو سمت مل جاتی ہے ۔
(Secrets of Super Achievers, Syed Qasim Ali Shah)


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں