مسلمانوں کے لیے بیت المقدس،یہودیوں کے لیے یروشلم اور عیسائیوں کے لیے جیروسلم۔ یہ دنیا کا واحد شہر ہے جو دنیا کے تین بڑے مذاہب اسلام، عیسائیت اور یہودیت کے پیروکاروں کے لیے یکساں طور پر متبرک و مقدس ہے۔
یہ شہر 1800 قبل مسیح میں اس وقت آباد ہوا جب حضرت یعقوب علیہ السلام نے یہاں مسجد بیت المقدس کی بنیاد رکھی اور اسی کی وجہ سے آس پاس کے لوگ یہاں آباد ہوئے ۔996 قبل مسیح میں حضرت داؤد علیہ السلام نے اسے فتح کیا پھر یہ مسلسل نو سو سال تک یہودی مملکت کا دارالسلطنت رہا۔حضرت سلیمان علیہ السلام نے یہاں ایک ہیکل تعمیر کیا جو بعد میں مسجد اقصیٰ کے نام سے مشہور ہوا۔ چٹھی صدی قبل مسیح میں بابل کے بادشاہ بخت نصر نے اس شہر کو تباہ کر دیا۔520 قبل میں مسیح میں دوبارہ آباد ہوا۔70ء میں قیصرروم نے ایک مرتبہ پھر اس کو تباہ کیا۔324ء میں رومی بادشاہ قسطنطین نے جب عیسایت اختیار کر لی تو پھر یہاں عیسائی آباد ہونا شروع ہو گئے۔614ء میں ایرانیوں نے اس شہر کو ایک مرتبہ پھر تباہ کر ڈالا۔
جب اسلام کا سورج طلوع ہوا تو 16 ماہ تک بیت المقدس قبلہ اؤل رہا۔637ء میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اس شہر کو فتح کیا۔15 جولائی 1099ء کو صیلیبی افواج نے اس شہر پر قبضہ کر لیا اور شہر کو گلی کوچوں میں لاشوں کے انبار لگ گئے ایک اندازے کے مطابق مسلمان شہدا کی تعداد 70000 سے زائد تھی۔1187ء سلطان صلاح الدین ایوبی رحمتہ اللہ علیہ نے دوبارہ اس شہر کو فتح کیا۔730 برس بعد 10 دسمبر 1917ء کو یہ شہر پھر انگریزوں کے قبضہ میں چلا گیا۔15 مئ 1948ء کو برطانیہ نے فلسطین کو تقسیم کر دیا۔ جون 1948ء کو یہودیوں نے اسرائیل کے باقاعدہ قیام کا اعلان کر دیا۔اب اس شہر بیت المقدس سے تبدیل کر کے یروشلم رکھ دیا گیا۔ اب اس شہر کا رقبہ 50 مربع میل کے لگ بھگ ہےجبکہ اس کی آبادی 7 لاکھ سے زائد ہے۔
(تاریخ الاابنیاء علیہ السلام، ذوالفقار ارشد گیلانی)

کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں