امریکی شہر نیویارک کے باہر نصب امریکہ کا مجسمہ آزادی دنیا بھر میں امریکہ کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ ڈھیلے ڈھالے لباس میں، سر پر تاج پہنے اور ہاتھ میں مشعل اٹھائے یہ خاتون کا مجسمہ امریکیوں کے لیے فخر کا باعث ہے۔ مگر بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ اس مجسمے کا ابتدائی تصور ایک مسلمان کسان (دیہاتی)خاتون تھی۔ اس مجسمے کے فرانسیسی خالق فریدرک آگوستے باغتولدی نے ایک مسلمان دیہاتی خاتون کو ذہن میں رکھ کر یہ مجسمہ تخلیق کیا تھا۔ فریدرک دراصل یہ مجسمہ مصر کے اسماعیل پاشا کو فروخت کرنا چاہتا تھا مگر کوئی مالی مجبوری تھی یا اسماعیل پاشا اس عظیم فن پارے کی اہمیت نہ جان سکا کہ اس نے اسے خریدنے سے انکار کر دیا، جس کے بعد فریدرک امریکہ جا پہنچا۔
جیسے ہی فریدرک نیویارک کی بندرگاہ پر اترا اسے یہ جگہ اس مجسمے کی تنصیب کے لیے بہت پسندآئی۔ اس طرح جس مجسمے کو نہر سویز کے کنارے نصب ہونا تھا وہ نیویارک کی بندرگاہ پر جا پہنچا۔ فرانسیسی حریت پسند ایڈوارڈ رینے ڈی لیبولے، جس نے امریکہ میں سول جنگ کی حمایت کی تھی، سول جنگ کے خاتمے کے بعد وہ اس بات پر مصر تھا کہ فرانس کو اس جنگ کے خاتمے کے اعتراف کے طور پر امریکہ کو کوئی تحفہ دینا چاہیے۔کئی سال اس مسئلے پر مذاکرات ہوتے رہے اور بالآخر یہ طے پایا کہ مجسمے کی چوکی(وہ تعمیر جس کے اوپر مجسمہ کھڑا ہے)کے اخراجات امریکہ خود برداشت کرے گا جبکہ مجسمے کی قیمت فرانس ادا کرکے یہ مجسمہ امریکہ کو جنگ کے خاتمے اور آزادی کے تحفے کے طور پر پیش کرے گا۔ اس طرح فریدرک کا تصوراتی دیہاتی مسلمان خاتون کا مجسمہ امریکہ کی آزادی کی علامت بن گیا۔
(روزنامہ پاکستان)

کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں