ایک تحقیق کے مطابق ہمیشہ جب بھی کسی چیز کی قدر نکالنی ہوتی ہے تو یہ دیکھا جاتا ہے اس
چیز نے معاشرے میں اپنی کتنی اہمیت
بنائی ہے اگر کوئی چیز خود ہی
اہمیت نہ بنا سکی تو پھر چاہے تعداد میں
جتنی بھی زیادہ ہو جائے اہمیت نہیں بنے گی ۔ہمارے ملک میں استاد خود ہی اپنی اہمیت
نہیں بنا سکا وہ سر کا تاج تھا اگر وہ سر
کا تاج خودہی نہیں بن پایا تو پھرکوئی
کیوں سر کا تاج بنائے۔اگر علم سکھانے والے
نے یہ طے ہی نہیں کیا کہ جتنی بڑی ذمہ داری میرے پاس ہے کیا میں اس کا اہل بھی ہوں کہ نہیں اور میں نے اپنا آپ منوانا بھی ہے کہ نہیں ۔مثال کے طور پر اگر ایک گانے والے والے کسی محفل میں بلایا جائے تو وہ بھی خود کو منوا
کر جاتا ہے جبکہ استاد خود کو منوا تا کہ
میں استاد ہوں ۔استا د جب بچوں کو متاثر نہیں کر سکے گا تو بچے
بھی اس کا ادب نہیں کریں گے وہ صرف
ڈر کی وجہ سے اس کا ادب کریں گے۔
حضرت علامہ اقبال ؒ اپنے دوستوں میں بیٹھے تھے کہ سامنے سے ان کے استاد مولوی میر حسن
صاحب گزرے علامہ اقبالؒ ایک دم اٹھےاور ان کے ساتھ چل دیئے
اور ان کو گھر تک چھوڑ کر آئے دوستوں نے دیکھا کہ آپؒ کے ایک پاؤں میں جوتی ہے دوسرے میں نہیں ہے کیونکہ آپؒ جلدی میں جوتی پہننا بھول گئے تھے آپؒ نے یہ ادب اس لیے کیا کہ استاد نے خود کو منوایا تھا اور آج ہمارے
پاس کتنے مولوی میر حسن ہیں؟ ہم رسمی طور پر ادب تو کر رہے ہیں لیکن دلی طور
پر ادب نہیں کر رہے اس کا یہ نتیجہ نکل
رہا ہے کہ کاغذ کا ایک تو ٹکڑا مل جاتا
ہے مگر اس میں انقلاب نہیں آتا کیونکہ جو
تعلیم ملنی چاہیے تھی وہ نہیں مل رہی صرف رٹا لگوا دینا ، سبق یاد کروا دینا یہ
تعلیم نہیں ہے تعلیم تو اندر کی تبدیلی کا نام ہے حضرت واصف علی واصفؒ فرماتے ہیں
"استاد علم نہیں دیتا استاد علم کی پیاس دیتا ہے اگر پیاس مل جائے تو علم خود
چل کر آتا ہے " یعنی پیاس اتنی طاقتور چیز ہے کہ اگر آپ علم کے پیاسے ہیں تو
پھر آپ اس کے لیے کتاب بھی خرید یں گے، اس
کے لیے ورکشاپ میں جائیں گے، اس کے لیے
سفر بھی کریں گے، اس کے لیے سکالرشپ کا بھی پتا کریں گے ،اس کے لیےہجرت بھی کریں گے،
اس کے لیے بڑی سے بڑی قیمت بھی ادا کریں
گے، اس کے لیے پید ل بھی چلیں گے ۔
اگر گھوڑے کو پیاس ہو اور اسے دس لوگ پکڑیں پھر اسے کوئی پانی پینے سے کوئی روک نہیں سکتا اور
اگر گھوڑے کو پیاس نہ ہو اور دس لوگ اسےزبردستی پلانا
بھی چاہیں تو وہ نہیں پیئے گاآج بھی آپ اگر قابل استاد بن جائیں لوگ پلکیں
بچھائیں گےآپ آج اپنا مقام بنانے کو تیار ہوں دنیا سرنگوں ہونے کو تیار ہو جائے گی
لیکن اگر آپ ہی طے نہ کریں تو جتنا مرضی سکیل بڑھ جائے اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا
۔ مولانا رومؒ سے ان کے آخری ایام میں کسی
نے پوچھا آپ دنیا سے جانے لگے ہیں آپ نے
جواب دیا "میں دنیا کی مسند اتروں گا دلوں کی مسند پر بیٹھوں گا " کتنے
بڑے استاد تھے جنہیں یہ یقین تھا کہ مجھے
دنیا سے جانے کی کوئی پروا نہیں ہے کیونکہ جوکام
میں نے کیا ہےاس کام کی وجہ سے لوگ مجھے دلوں بیٹھائیں گے یہ اتنا بڑا سچ
تھا کہ آٹھ سو سال بعد حضرت علامہ اقبالؒ جیسی شخصیت بھی کہتی ہے کہ میں اقبال نہ ہوتا اگر رومی
میرا استاد نہ ہوتا آپ کے اندر کوئی ایسا انداز ضرور ہونا چاہیے جو بچے کے دل کو اچھا لگے ۔
سب سے پہلے خود کو مانیں جب اپنی نظر میں اپنا مقام بن
جائےگا تو پھر زمانہ بھی آپ کے مقام کی قدر کرے گا لیکن آپ اپنی نگاہوں میں قابل
قدر نہیں ہیں تو دنیا میں بھی قدر نہیں ہوگی ۔ جب تک استاد آٹھ سے ایک بجے والا
استاد ہو گا وہ اپنا مقام نہیں بنا سکے گا
جب بھی اس میں کوئی ٹیلنٹ ہوگا اپنا مقام خود بنا لے گا یہ واحد پروفیشن ہے جو اپنے پر
چوبیس گھنٹےطاری رکھنا پڑتا ہےدنیا
میں آنا اور جانا مسئلہ نہیں ہے یہ ہر مخلوق کے ساتھ ہو رہا ہے دنیا میں موثر ہونا
مسئلہ ہے۔
شروع میں جب بھی گاڑی رکی ہوتی ہے تو دھکے سے ہی چلتی ہے
دنیا کی کوئی بھی گاڑی ایک دم سے سپیڈ پکڑ
لے تو پھر وہ نہیں چل سکتی اسی طرح
بچے کو راستے پر چلانے کے لیے دھکے
کی ضرورت ہوتی ہے اور کتنے بچے اس دھکے کا
انتظار کر رہے ہوتے ہیں ۔ بچوں کے کانوں میں یہ آواز پڑنی چاہیے کہ تم کر سکتے ہو بس تھوڑی سی ہمت کرو اس لیے آپ
صرف استاد نہ بنیں بلکہ موثر استاد
بنیں اپنے اند ر کوئی ایسا فن پید ا کریں
جس سے بچہ متاثر ہو کیونکہ فزکس ،
کیمسٹری ، میتھ بہت آسان ہے اگر استاد
متاثر کرنے والا ہے اگر استاد
متاثر نہیں کر سکتا تو پھر دنیا کے
آسان ترین مضمون بھی بندہ رہ جاتا ہے ۔
ہر وہ فن بڑھنے لگ پڑتا ہے جس میں شاباشی کا عنصر شامل ہوتا
ہےاس لیے پہلا ٹارگٹ یہ بنائیں کے کہ آپ
نے موثر استاد بننا ہے اور موثر استاد
بننے کے لیے ان نقاط پر عمل کریں:
1۔ اخلاق
بچہ ہم سے علم بعد میں لیتا ہے پہلے وہ ہمارے اخلاق سے متاثر ہوتا ہے ہمارا
رویہ بہت تلخ ہوتا جبکہ مضمون اچھا ہوتا
ہے جب ہمار ا مضمون اچھا ہوگا اور ہم برے
ہوں گے تو بچہ اچھے مضمون کو بھی سنجیدگی
سے نہیں لے گا ۔ سب سے پہلے ہمیں اخلاق میں اچھا بننا ہے اور اچھے اخلاق کا مطلب
یہ ہے کہ آپ کے جو بھی مسائل ، تکلیفیں ہیں انہیں صندوق میں بند کریں اور
بچے سے اخلاق سے پیش آئیں ۔ بچے کو اس سے کوئی غرض نہیں ہے آپ کن
مسائل اور تکلیفوں کا شکا ر ہیں اس کے سامنے تو صرف ایک بندہ آیا ہے جس نے اس کو پڑھانا ہے ۔ کبھی اپنی ذات کے غم ،
دکھ ، تکلیفیں بچے تک نہ پہنچائیں کیونکہ
وہ آپ کو آئیڈلائز کرتے ہیں کیونکہ جب آپ
اپنے دکھ بچوں کے ساتھ شئیر کریں گے تو وہ
آپ کی شخصیت کو کمزوری کے طور پر لے گا
اور ساتھ ہی اپنے مضمون کو بھی کمزور کر لے گا ۔ امریکہ میں ایک تجربہ کیا گیا
کہ مریضوں کو ایک ہی دوائی دی جاتی سب سے پہلے وہ مریض ٹھیک ہوتا جس کا معالج اخلاق والا تھا انہوں نے یہ نتیجہ نکالا کہ
دوائی سے زیادہ اخلاق اچھی صحت دیتا ہے ۔ ہمار ا ذہن یقین کی بنیاد پر چلتا ہے ہم
قدم بھی اس یقین کی بنیاد پر اٹھاتےہیں کہ نیچے
زمین ہے کہ نہیں ہے۔ اگرآپ پر بچے کا یقین نہیں بیٹھا ہوا بچہ آپ کو کبھی متاثر استاد نہیں سمجھے گا
۔
2۔ وعدہ پورا کریں
آپ قابل اعتبار بنیں ، آپ پر اعتماد کیا جا سکے ، آپ کی
شخصیت پر، آپ کی بات چیت پر اعتماد کیا جاسکے
لوگوں کو وعدے پر پورا اترنے والے
لوگ پسند ہوتے ہیں جھوٹا لارے لگانے والا
بندہ کسی کو پسند نہیں ہوتا ۔ بچے کو دیکھائیں کہ آپ میں کردار ہے غور کریں ہمارے
رسول پاکﷺ کسی سے وعدہ کرتے تو وہاں تین
دن تک ایک جگہ پر کھڑے رہتے کیونکہ انہیں
پتا تھا کہ استاد کے لیے وعدہ کتنی بڑی چیز ہے آپﷺ سے بڑا استاد تو کوئی نہیں ہوسکتا اپنے اندر وعدہ وفا کرنا ڈالیں بچوں کو کچھ
کہیں تو پھر ثابت بھی کریں۔ ایک کلاس میں حاضری کا رجسٹر نہیں مل رہا تھا بچوں نے
کہیں چھپایا ہوا تھااستاد نے بڑی قسم کھا
کر کہا کہ اگر تم مجھے بتا دو تو میں کچھ نہیں کہوں گا ایک بچے نے قسم پر یقین
کرکے ہاتھ کھڑا کر دیا اور کہا سر وہ الماری کے اوپر پڑا ہوا ہے استاد نے وہ رجسٹر لے لیا اس کے
بعد پھر اس بچے کو مارا کیا اس واقعے
سے بچے کے ذہن میں استاد کا تاثر یہ
بیٹھا کہ یہ وہ مخلوق ہے جو ادب کے لائق
نہیں ہے۔ ادارہ ہو ، معاشرہ ہو ، گھر ہو ، سکول ہو بندہ اپنی جگہ خود ہی بناتا ہے ۔ ایک صاحب کو
کسی نے کچھ کہا انہیں غصہ آیا تو اس نے بد
اخلاقی سے اس کا جواب دیا اس پر دوسرے شخص
نے اتنا مارا کہ کپڑے پھاڑ دیئے حضرت شیخ
سعدی ؒ فرماتے ہیں کہ کاش تیری زبان پر قابو ہوتا
اور آج تیرا یہ حال نہ ہوتا انسان
کی زبان، انسان کا اخلاق، انسان کی شخصیت اٹھا دیتی ہے یا گرا دیتی ہے ۔
3۔ منصوبہ سازی
استاد ایک اچھا منصوبہ ساز ہوتا ہے اگر آ پ منصوبہ سازی کی عادت کو اپنی زندگی میں ڈال لیتے ہیں
آپ کے سو مسئلے ویسے ہی حل ہو نے لگ پڑتے ہیں
یہ اچانک نہیں ہوتی یہ ایک عادت ہے
یہ بلکل ایسے ہی ہے جیسے روز نہانا ، نئے کپڑے پہننا ۔ اگر کسی سے کوئی
قیمتی چیز ملے آپ اسے سنبھال کر رکھتے
ہیں اسی طرح قدرت بھی آپ کو وقت دیتی ہے
جو ا انتہائی قیمتی چیز ہے اس لیے وقت کی
پلاننگ کریں جو چیزیں اچھی ہوتی ہیں انہیں
پلان کر کے استعمال کرنا چاہیے اس کو آپ لیکچر تیار کرنے کے حوالے سے، اپنی سیلف
مینجمنٹ کے حوالے، اپنی زندگی کے حوالے سے، اپنے کام کے حوالے سے، اپنی تعلیم
کےحوالے سے، اپنی بہتری کے حوالے سے پلان کریں ۔ آج لوگ بہت پڑھ چکے ہیں
لیکن ان کی شخصیت میں بہتر ی نہیں ہے ان کی تعلیم بڑھ گئی ہے
لیکن وہ خود پیچھے رہ گئے ہیں جب تعلیم بڑھ جائے اور اندر خلاء رہے اس کا مطلب ہے بہتری نہیں آئی صر ف ڈگر ی بڑھ
جانا کمال نہیں ہے اندر کچھ نہ کچھ ہونا
ڈگر ی سے بڑی چیز ہے اس کی اہمیت کو پہچانیے کیونکہ یہ چیز آپ کو اضطراب
میں لے جاتی ہے اور اضطراب بتاتا ہے کہ آپ
زندہ ہیں ۔
4۔ کسی بچے کو چھوٹا نہ سمجھیں
جہاں پر آپ پڑھا رہے ہیں وہ علاقہ رہنے کے لحاظ سے چھوٹا ہی
کیوں نہ ہو چاہے غریبوں کے بچے ہی کیوں نہ
آپ انہیں چھوٹا نہ سمجھیں پتا نہیں
کہ وہ کتنا بڑا انسان بن جائے کیونکہ جھگیوں سے بڑے انسان بنتے ہیں دنیا کے بڑ ے
بڑے نام نکالیں وہ بھی اسی طرح چھوٹے
گھروں اور مشکل حالات سے نکلے تھے انہوں نے فیصلہ کیا تھا کہ ثابت کرنا ہے ۔ اگر
کسی بندے کو آپ نے دیکھنا ہے تو اسے اہمیت دے یہ کبھی نہ دیکھیں کہ یہ کس گھر کا
ہے اگر آپ اسے اہمیت نہیں دیں گے آپ
زیادتی کریں گے پڑھانے کا مطلب علم دینا
نہیں ہے اس کو اس کی اپنی نگاہوں میں اتنا معتبر
کردیں کہ اس کا دل کرے کہ میں نے کچھ کرنا ہے ۔
5۔ اہل بنیں
باہر کے ملکوں میں اسلحے
کا لائسنس ملنا آسان ہے مگر پڑھانے
کا لائسنس ملنا مشکل ہے اس کی وجہ ہے کہ اسلحے سےصرف اتنے ہی لوگ مریں گے جتنی اس
میں گولیاں ہو گی لیکن ایک استاد جتنے
لوگوں کو مارتا ہے اس کی تعداد کا اندازہ بھی نہیں لگا یا جا سکتا اگر نااہل
انسان بچوں کو پڑھائے گا تو آنے والی
نسلیں برباد ہو جائیں گی ۔ باہر کی دنیا میں استاد کا معانی موٹیویشن ہے انہوں نے استاد کی تعریف بدل دی ہے اگر استاد
سے موٹیویشن نہیں ملتی پھر وہ استاد نہیں ہے استاد کو لائسنس دیتے وقت پانچ دس
چیزیں چیک کی جاتی ہیں اور ان میں ایک چیز موٹیویشن ہے ۔آپ کے ذریعے بچے کے
سوچنے کا انداز بدلنا چاہیے اس لیے آپ
موٹیویٹر بنیں اگر آپ بچوں کو موٹیویٹ کر
تے ہیں بچہ آپ کو یاد رکھے گا وہ آپ کی قدر کرے گا وہ آپ کی بات کا اثر لے گا ۔
6۔ بچوں کو خواب دیں
جن بچوں کا پڑھائی میں دل نہ لگے وہ پڑھائی سے اچاٹ ہوں اور وہ بھاگ جائیں اس کی صرف ایک ہی وجہ ہوتی ہے ان بچوں کے خواب
نہیں ہوتے جب بھی بندہ زیادہ کام کر رہا ہے زیادہ محنت کر رہا ہے اس کا کوئی جواز
ہے تو وہ کر رہا ہے اس لیے بچوں کو خواب دیں جب بچوں کو خواب ملیں گے تو ان کا خود
آگے بڑھنے کو دل کر ے گا آپ بچوں کہ کہیں
کہ آپ ڈاکٹر بن سکتےہیں انجینئر بن سکتے
ہیں لیڈر بن سکتےہیں ۔ دنیا میں خواب راج کرتےہیں بندے راج نہیں کرتے خواب کی
زیادہ زندگی ہوتی ہے خواب دکھانے والوں کی زیادہ زندگی ہوتی ہے حضرت علامہ اقبال ؒ
خواب دینے والے انسان تھے انہوں نے خواب
دیا اس لیے ان کا احترام ہو رہا ہے ۔
7۔ لیڈر
استاد ایک اچھا لیڈر ہونا چاہیے اگر استاد لیڈ نہیں کرتا ،
خود مثال نہیں بنتا اس کی مثال بچوں کے
سامنے نہیں ہے تو پھر بچے بھی مثالی نہیں
بنیں گے لیڈر وہ ہوتا ہے جو لیڈ کرتا ہے جو سب کو ساتھ لے کر
چلتا ہے وہ انجن ہوتا ہے باقی سب ڈبے ہوتےہیں ۔اگر کسی کی زندگی میں استاد آئے اور
بندہ وہیں کا وہیں رہے اس کا مطلب ہے
استاد نہیں ہے استاد تو انسان کو کہیں
اٹھا کر لے جاتا ہے ۔ اس ملک میں فزکس، کیمسٹری
اور میتھ والے بہت ہیں مگر متاثر کرنے والے بہت تھوڑے ہیں جس دن استاد متاثر کرنے والا ہوگا تو اس ملک میں
انقلاب آئے گا ویسے انقلاب نہیں آنا تمام
محکمے اور تمام شعبے استاد بناتا ہے یہ واحد پروفیشن ہے جس کے پاس کسی بچے نے پڑھ کر پولیس والا بننا ہے ،
کسی نے سائنسدان بننا ہے ، کسی نے آرمی میں جانا ہے ، کسی نے استاد ہی بننا ہے ،
کسی نے پروفیسر بننا ہے ، کسی نے جج بننا ہے
کہیں نہ کہیں جانا ہے اگر یہ ٹھیک ہو گا تو جواس کے پاس آئےگا توپھر وہ کمال بنےگا ۔
(How to be an Effective
Teacher, Syed Qasim Ali Shah)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں