وہ لوگ جو زیادہ پڑھے لکھے نہیں ہوتے ان حالات بھی تنگ ہوتے
ہیں ان کا اپنے بچوں کو پالنا بھی مشکل ہوتا ہے ان کا یہ نظریہ ہوتا ہے کہ بچے کو پڑھانے سے
بہتر ہے اسے کسی کام پڑ ڈال دیا جائے اس
کا یہ فائدہ ہو گا وہ کچھ کما کر گھر لائے
گا لیکن یہ بات ذہن میں رکھیں کہ جب
بچہ کمانے کے چکروں میں پڑ جاتا ہے یا وہ پڑھائی کی طرف نہیں جاتا وہ ساری زندگی مزدور تو رہتا ہے وہ کامیاب نہیں ہوتا پھر ہوتا یہ ہے کہ ایک نسل غریب ، دوسری غریب
،تیسری غریب اور اسی طرح کئی نسلیں متاثر رہتی ہیں جو بچہ جھگی میں یا کسی عام گھر میں پیدا ہوتا ہے ان دونوں کے
ساتھ ایک ہی مسئلہ ہوتا ہے کہ ان والدین
کی خواہش ہوتی ہے کہ ہمارا بیٹا ترقی
کرے چاہے جیسے بھی حالات کیوں نہ ہوں ۔
جو بچہ بچپن سے ہی مزدوری میں پڑگیا پھر اس کی سوچ بھی مزدوری والی بن جائے گی دنیا میں سب سے خطرناک چیز جو بدل جائے تو انسان عرش پر پہنچ جاتا ہے اور اگر نہ بدلے تو انسان مٹی سے بھی بد تر ہو جاتا ہے وہ چیز
سوچ ہے ۔مزدور ہونا غریب ہونا بری بات نہیں ہے
لیکن سوچ کا غریب ہونا بری بات ہے
اگر کسی کی سوچ ہی بہتر نہ ہو تو
پھر اس کی ایک نسل کے بعد دوسری نسل ایک جیسی ہی رہتی ہے حالات نہیں بدلیں گے زندگی نہیں بدلے گی ۔ ہم لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے
بچہ تو سکول میں داخل کرادیا ہے کیا واقعی
اس سے کوئی تبدیلی آئے گی پڑھنے کا کوئی
فائدہ بھی ہوگا کہ نہیں ۔اگر جھگی
میں رہنے
والا ایک لڑکا یہ سوچ لے کہ اس نے
حالات کو بدلنا ہے تو پھر وہ امریکہ کا سکالرشپ حاصل کر
سکتا ہے آپ کے حالات جیسے بھی ہوں
تھوڑی قربانی دے کر آپ اپنے بچوں
کو ضرور پڑھائیں کیا پتا آنے والا وقت بدل جائے ، آنے والی نسلیں بدل جائیں ۔
ایک نسل قربانی دیتی
ہے اور پھر کئی نسلیں کھاتی ہیں پودا کوئی لگاتا ہے اس کی چھاؤں میں بیٹھتا کوئی اور ہے پھل کوئی اور کھاتا ہے ۔امیر کے بچے میں لگن نہیں ہوتی ا س کے پاس
سارا کچھ ہوتا ہے غریب کے بچے میں لگن زیادہ ہوتی ہے اسے صرف موقع چاہیے ہوتا ہے۔ اگر آج آپ کا بچہ
پڑھ جاتا ہے کچھ بن جاتا ہے اس کا فائدہ پوری نسل کو ہوگا والدین کو اولاد سے
کچھ نہیں چاہیے ہوتا جیسے ہی اولاد کامیاب ہوتی ہے والدین ویسے ہی کامیاب ہو جاتے ہیں ۔
(Talk
with Parents of Street Child, Syed Qasim Ali Shah)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں