آپ بتائیے، آپ کے بچے جب آپ سے کوئی فرمائش کرتے ہیں تو آپ کیا کرتے ہیں؟
مجھے اس کا سوال سمجھ نہیں آیا، وہ بولے، کیا آپ بچوں کی ہر فرمائش پر یہ نہیں کہتے بیٹا ہو جائے گا،ہاں بیٹا میں یہ چیز لے دوں گا، ہاں میں پہنچ جاؤں گا وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ میری طرف دیکھنے لگے میں نے دل ہی دل میں جمع تفریق کی اور ہاں میں سر ہلادیا، وپ بولے، اور آپ بچوں کے ساتھ کیے ہوئے وعدے کتنے فیصد پورے کرتے ہیں؟ میں نے دوبارہ جمع تفریق کی اور جواب دیا، 50 فیصد، وہ بولے آپ جب آدھے وعدے پورے کرسکتے ہیں تو آپ باقی آدھے وعدوں کے وقت انکار کیوں کرتے۔ آپ اپنے بچوں کو یہ حقیقت کیوں نہیں بتاتے۔ آپ انہیں فلاں چیز لے کر دے سکتے ہیں اور فلاں نہیں۔ میں نے ایک لمحہ سوچا اور جواب دیا، میں بچوں کے دل نہیں توڑنا چاہتا اس لیے ان کے ساتھ جھوٹے وعدے کرتا ہوں انہوں نے قہقہہ لگایا اور بولے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور وہ یہ خرابی ہے جس نےپورے ملک کو لاروں کی قوم بنا دیا ہے ۔ ہمارے بچے کیونکہ بچپن میں انکار سنتے ہی نہیں، چنانچہ یہ بڑے ہو کر انکار کر پاتے ہیں اور نہ سن سکتے ہیں یہ جھوٹ کو اپنی بقا بنا لیتے ہیں ۔ ہمیں اپنے بچوں کو شروع سے یہ ٹریننگ دینی چاہیئے ، یہ چیز آپ کی نہیں ہے، یہ فلاں بچے کی ہے اور یہ میں آپ کو لے کر نہیں دے سکتا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ اس بچے کے دماغ میں ایک ایماندار، کھرے اور سچے آدمی کے طور پر ڈیلوپ ہوں گے اور وہ بھی دوسروں کی چیزوں کے آسرے کے بغیر زندہ رہنا سیکھ لیں گے۔
)ہو جائے گا، جاوید چوہدری(

کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں