1۔ جیت چاہنا
تمام امیر ہونے والے لوگ جیتنا چاہتے ہیں جبکہ غریب ہارنا نہیں چاہتا ۔ ایک بچہ نمبر
لینا چاہتا ہے جبکہ ایک بچہ فیل نہیں ہونا
چاہتا جو فیل نہیں ہونا چاہتا وہ صرف اتنی کوشش کرے گا کہ صرف پاس ہو جائے اور جو نمبر لینا چاہتا ہےوہ سوچتا ہے کہ میں زیادہ نمبر کیسے لے سکتا ہوں ۔ جیت
چاہنا یہ خواہش کچھ اور ہے اور ہار سے بچنا یہ خواہش کچھ اور ہے ۔ تمام کے
تمام امیر یا امیر ہونے والے لوگ وہ بہت سی دولت حاصل کرنا چاہتے ہیں جتنے غریب لوگ ہوتے
ہیں وہ جتنا کماتے ہیں اتنے ہی ان
کے خرچے ہوتے ہیں غریب پیسے خر چ کر کے یہی سمجھتا ہے کہ کام ختم ہو گیا امیر خرچ کرنے کے بعد جو پیسے بچ جائیں ان
کواثاثہ سمجھتا ہے۔
امریکہ میں ایک
ٹیڈا ہے جو گاس کے اوپر پانچ میٹر تک جمپ کرتا ہے
تجربہ کرنے کے لیےاس ٹیڈے کو
چار میڑکے باکس میں رکھا گیا کچھ
دن کے بعد باہر نکالا اس کی جمپ چار میڑ ہوچکی تھی پھر اسی
طرح تین میڑ کے باکس میں رکھا کچھ عرصہ بعد نکالا اس کی جمپ تین میڑ تک
ہو چکی تھی اسی طرح پھر دو میڑ پھر ایک
چھوٹی ڈبی میں رکھا جب باہر نکالا وہ جمپ لگا نا بھول چکا تھا ۔
اسی طرح بندہ اپنی صلاحیت کو اپنی خواہش کے مطابق کم یا زیادہ کر سکتا ہے
جب آپ امیر ہونے کے لیے بہت سا پیسہ
کمانے کے لیے اپنا ذہن بناتے ہیں
تو آپ کی اندرکی صلاحیتیں ویسے ہی پیدا ہونا شروع ہو جاتی
ہیں جب آپ بل ادا کرنے کی سوچتیں ہیں تو پھر صلاحیتیں بھی بل ادا کرنے والی ہو
جاتی ہیں ۔
2۔ اپنی صلاحیتوں پر یقین
ہر
کامیاب اور امیرہونے والے بندے کو اپنی
صلاحیتوں پر پورا یقین ہوتا ہےجب ایک شخص
اپنا سفر شروع کرتا ہے تو اس کو یقین ہوتا ہے کہ میرے اندریہ صلاحیتیں ہیں
اور میں
ان صلاحیتوں کی وجہ سے امیر ہو جاؤں گا اب سوال ہے کہ صلاحیتوں پر یقین
کیسے آئے ؟ اس کا بہت آسان جواب ہے کہ جب آپ اپنی صلاحیتوں کو استعمال کریں گے تو
یقین آئے گا ۔ جو زیادہ محنت کرنے والے ہوتے ہیں
انہیں اپنی صلاحیتوں کا پتا چل جاتا ہے
وہ اپنے سارے پر کھولتےہیں انہیں پتا چلتا ہے کہ ہمارے اتنے سارے پر ہیں ۔
ایڈیسن کہتا ہے اگر انسان کو اپنی
صلاحیتوں کا پتا چل جائے تو وہ غلامی
برادشت نہیں کر سکتا ۔ اپنی صلاحیتوں پر یقین کی پہلی نشانی یہ ہے کہ آپ
نوکری نہیں کر سکتےآپ اپنا کاروبار
کریں گے نوکری کرنے والا درحقیقت اپنی صلاحیتوں
کو کسی کے آگے بیچ رہا ہوتا ہے اور
کامیاب ہونے والا اپنی صلاحیتوں کو
استعمال کر کے آگے بڑھ جا تا ہے۔ اپنی صلاحیتیں اس کو جلد ی پتا چلتی ہیں جو زیادہ
محنتی ہے ناکام ہونا مسئلہ نہیں ہے صلاحیت
پر یقین نہ ہونا بہت بڑ ا مسئلہ ہے ۔
انسان دنیا میں عادتوں والی مخلوق ہے
اگر آپ کی مالکوں والی عادتیں ہیں
تو پھر آپ کل کو مالک بن جائیں گے اگر
عادتیں ملازموں والی ہیں توپھر آپ ملازم
بن جائیں گے ۔ مثال کے طور پر کسی نے آپ
کو دو روپے دیئے بدلے میں آپ نے دو روپے کا کاروبار کرلیا اگر آپ نے دو روپے سے کم کا کاربار کر کے دیا
تو پھر یہ مالکوں والی عادت ہی نہیں ہے مالک والی عادت یہ ہوتی ہے کہ دو روپے کے
بدلے میں دو روپے سے زیادہ کا کام کر کے دینا ۔ انسان اچھا تب کرتا ہے جب اس کی سوچ مالکوں والی ہوتی ہے لوگ ملازم ہوتےہیں پھر ان کی سوچ بھی ملازموں والی ہو جاتی ہےآپ
کی عادتیں مالکوں والی ہونی چاہیئں۔
ہر امیر ہونے والے شخص کو توقع ہوتی ہے کہ وہ امیر ہو جائے
گا اور یہ توقع یقین کی حد تک ہوتی ہے ۔ حدیث شریف ہے کہ
"اللہ تعالیٰ سے تم جیسا گمان کرتے ہو اللہ تعالیٰ تمہارے ساتھ ویسے ہی
معاملہ کرتا ہے"جب آپ گمان اچھا کرتے ہیں
تو آپ سے شعاعیں نکلتی ہیں و ہ
کائنات کو جاتی ہیں اور بدلے میں بھی اچھی
شعاعیں آپ کی طرف آتی ہیں اگر آپ برا گمان کرتے ہیں بدلے میں بھی بری شعاعیں آپ کی طرف آتی ہیں
۔مستقبل پر یقین دراصل خدا کی رحمت پر یقین ہوتا ہے جو لو گ خود کشی کرتے ہیں ان کو اپنا مستقبل نظر نہیں آرہا ہوتا ۔ جو
خواہشیں آپ کے ساتھ جڑی ہیں یہ کائنات میں
حسن پیدا کر رہی ہیں۔انسان کی تمنا اس
کو جینے پر مجبو ر کرتی ہے ، خواہشیں جینے
پر مجبور کرتی ہیں ، خواب جینے پر مجبور کرتے ہیں اچھے مستقبل کا یقین خدا کی رحمت پر یقین کے مترادف ہے اس لیے اللہ تعالیٰ کی رحمت سے کبھی نا امید نہ ہوں۔
3۔ اپنے آپ سے
وعدہ
دنیا کے تمام امیر ہونے والے لوگوں نے اپنے آپ سے یہ وعدہ
کیا ہوتا ہے کہ ہم نے امیر ہونا ہے ، ہم نے کامیاب ہونا ہے۔ انسان کا سب سے بڑا
وعدہ اپنے ساتھ ہوتا ہے یا پھر اللہ
تعالیٰ کے ساتھ ہوتا ہےجب انسان
اپنے ساتھ وعدہ کرتا ہے ہے تو پھر
وہ اپنے ساتھ وعدہ خلافی نہیں کرتا ۔ غریب انسان اپنے آپ سے وعدہ نہیں کرتا وہ صرف خواہش رکھتا ہے کہ میں بھی امیر ہو جاؤں گا صرف خواہشوں سے
امیر نہیں ہوا جاتا ۔ ہر وہ شخص جو ترقی
کر نا چاہتا ہے جس نے واقعی اپنے آپ کے ساتھ وعدہ کیا ہوتا ہے
کہ میں نے کچھ بننا ہے کچھ کر کے دکھا نا ہے تو
پھر اپنے ساتھ کیا ہوا وعدہ اس کو بھگاتا
ہے ۔ اگر وعدہ نہیں ہوگا تو پھر آپ پیچھے
ہو جاؤ گے سچے وعدے میں سب سے بڑی نشانی یہ ہوتی ہے کہ
کائنات کی چھپی ہو ئی طاقتیں بھی مدد کرنا شروع کر دیتی ہیں، غائب سے مدد
آنے لگ پڑتی ہے ۔ یہ وعدے کی طاقت ہوتی ہے کہ آپ کے اندر چھپی ہوئی صلاحیتیں بھی
جاگتی ہیں اور ساتھ کائنات بھی آپ کے ساتھ
ہو جاتی ہےوہ کیا خوبصور ت شعر ہے کہ "خودی کو کر بلند اتنا کہ۔۔۔۔خدا بندے سے پوچھے بتا تیر
ی رضا کیا ہے ، حضرت علامہ محمد اقبالؒ"۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے وعدے کا ، آپ کے سچا ہونے کا معیار
اتنا ہو کہ خدا بھی کہے کہ
میرے بندے تیر ی اتنی محنت ہے اب
بتا تو
کیا چاہتا ہے ۔
4۔ بچت کی عادت
ہر ترقی کر نے والے انسان کو بچت کرنے کی عادت ہوتی ہے وہ پیسے کو بچا کر رکھتا ہےکئی لوگ وہ ہوتے ہیں جو کماتے وہ ہی کھا جاتے ہیں بچت کی عادت بچپن سے پیدا کرنی چاہیےماؤں کو چاہیے بچوں کو شروع سے بچت کی عادت ڈالیں آپ اپنی کمائی میں سےبیس فیصد بچانا شروع کریں وہ مستقبل میں آپ کے کام آئے گاہر کامیا ب ہونے والا بندہ صحیح وقت پر بہت محنت کرتا ہے اور بعد میں زندگی کو انجوائے کرتا ہے35 برس کی عمر میں آپ کو ہر حال میں امیر ہوجانا چاہیے یہ تبھی ممکن ہے جب آپ اسے بیس برس کی عمر میں شروع کریں گےجو جتنا کماتا ہے اتنا ہی خرچ کرتا ہے وہ سفید پوش ہے ،جو جتنا کماتا ہے اس کے خرچے پورے نہیں ہوتے وہ غریب ہے ، جو جتنا کماتا ہے اور اس میں سے کچھ بچاتا ہے وہ خوشحال ہے اور جتنا کماتا ہے اور بہت سے بچ جاتے ہیں تھوڑے سے استعمال ہو جاتے ہیں وہ امیر ہے۔
5۔ پیسے سے پیسہ بنانا
پیسے سے پیسہ بنانا ایک پورا فن ہے امیر لوگوں کو پیسے سے پیسہ بنانا آتا ہے وہ کاروبار میں پیسہ لگاتے ہیں اور پیسہ کماتے ہیں ۔ فرض کریں آپ کا جینز کا کاروبا ر ہے پاکستا ن یہ جینز آپ کو چار سو روپے میں پڑتی ہے اگر یہی جینز ترکی کو بیچیں تو تر کی والے یہی جینز 4800 روپے میں خریدیں گے فرق کیا نکلا 4400 روپے 600 روپیہ آپ کا خرچہ ہے کسٹم اور پیکنگ وغیرہ کا باقی بچت ہوئی 3800 روپے اگر آپ 10000 ہزار پینٹ کا آرڈ ر آئے تو آپ کو تین کروڑ اسی لاکھ کا فائدہ ہوگا یہ صرف آپ نے ایک جھٹکے آپ نے کما لیا۔ اسی لیے حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کاروبار میں 9 حصے ہیں ملازمت میں ایک حصہ ہےکاروبار میں آپ معاشی استحکام حاصل کر لیتے ہیں ۔ یاد رکھیں ہم اپنے حالات نہیں بدل سکتے مگر اپنے خیالات بدل سکتے ہیں اور خیال بدلنا مشکل نہیں ہے آج ہی اپنے خیالات پہ کام کرنا شروع کریں بغیر سیکھے ج نہیں سکتے سیکھ کر جینا پڑتا ہے سیکھنے کے بغیر زندگی اندھیرا ہے زندگی میں اجالا آتا ہی تب ہے جب ہم زندگی گزارنا سیکھتے ہیں ابھی سے سیکھ لیں گے تو زندگی کمال ہو جائے گی۔
ہر ترقی کر نے والے انسان کو بچت کرنے کی عادت ہوتی ہے وہ پیسے کو بچا کر رکھتا ہےکئی لوگ وہ ہوتے ہیں جو کماتے وہ ہی کھا جاتے ہیں بچت کی عادت بچپن سے پیدا کرنی چاہیےماؤں کو چاہیے بچوں کو شروع سے بچت کی عادت ڈالیں آپ اپنی کمائی میں سےبیس فیصد بچانا شروع کریں وہ مستقبل میں آپ کے کام آئے گاہر کامیا ب ہونے والا بندہ صحیح وقت پر بہت محنت کرتا ہے اور بعد میں زندگی کو انجوائے کرتا ہے35 برس کی عمر میں آپ کو ہر حال میں امیر ہوجانا چاہیے یہ تبھی ممکن ہے جب آپ اسے بیس برس کی عمر میں شروع کریں گےجو جتنا کماتا ہے اتنا ہی خرچ کرتا ہے وہ سفید پوش ہے ،جو جتنا کماتا ہے اس کے خرچے پورے نہیں ہوتے وہ غریب ہے ، جو جتنا کماتا ہے اور اس میں سے کچھ بچاتا ہے وہ خوشحال ہے اور جتنا کماتا ہے اور بہت سے بچ جاتے ہیں تھوڑے سے استعمال ہو جاتے ہیں وہ امیر ہے۔
5۔ پیسے سے پیسہ بنانا
پیسے سے پیسہ بنانا ایک پورا فن ہے امیر لوگوں کو پیسے سے پیسہ بنانا آتا ہے وہ کاروبار میں پیسہ لگاتے ہیں اور پیسہ کماتے ہیں ۔ فرض کریں آپ کا جینز کا کاروبا ر ہے پاکستا ن یہ جینز آپ کو چار سو روپے میں پڑتی ہے اگر یہی جینز ترکی کو بیچیں تو تر کی والے یہی جینز 4800 روپے میں خریدیں گے فرق کیا نکلا 4400 روپے 600 روپیہ آپ کا خرچہ ہے کسٹم اور پیکنگ وغیرہ کا باقی بچت ہوئی 3800 روپے اگر آپ 10000 ہزار پینٹ کا آرڈ ر آئے تو آپ کو تین کروڑ اسی لاکھ کا فائدہ ہوگا یہ صرف آپ نے ایک جھٹکے آپ نے کما لیا۔ اسی لیے حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کاروبار میں 9 حصے ہیں ملازمت میں ایک حصہ ہےکاروبار میں آپ معاشی استحکام حاصل کر لیتے ہیں ۔ یاد رکھیں ہم اپنے حالات نہیں بدل سکتے مگر اپنے خیالات بدل سکتے ہیں اور خیال بدلنا مشکل نہیں ہے آج ہی اپنے خیالات پہ کام کرنا شروع کریں بغیر سیکھے ج نہیں سکتے سیکھ کر جینا پڑتا ہے سیکھنے کے بغیر زندگی اندھیرا ہے زندگی میں اجالا آتا ہی تب ہے جب ہم زندگی گزارنا سیکھتے ہیں ابھی سے سیکھ لیں گے تو زندگی کمال ہو جائے گی۔
6۔ نئے نئے مواقع تلاش کرنا
امیر ہونے والے لوگ نئے نئے مواقعوں کی تلاش میں ہوتے ہیں اور نئے نئے مواقع لوگوں میں چھپے ہوتے ہیں۔ انسان کی خوش قسمتی بھی کسی کے ساتھ جڑی ہوتی ہے اور انسان کی بد قسمتی بھی کسی کے ساتھ جڑی ہوتی ہےحضرت واصف علی واصف ؒ فرماتے ہیں "تمہاری تقدیر وہ نہیں ہے جو تمہارے ہاتھ پر لکھی ہے یہ آدھی تقدیر ہے آدھی تقدیر اس کے ہاتھ پہ لکھی ہوتی ہے جس سے تم ہاتھ ملاتے ہو۔"اللہ تعالیٰ راضی ہو تو وہ آپ کو اچھے لوگوں سے ملانا شروع کر دیتا ہے ، آپ کو اچھے لوگوں کی تلاش دے دیتا ہے،آپ کے اندر اچھی طلب آ جاتی ہے جو اچھا بندہ آپ کو ملتا ہے اس کے ہاتھ میں آدھی تقدیر لکھی ہوتی ہے آپ اس سے ہاتھ ملاتے ہیں اور وہ آپ کا ہاتھ پکڑ کر آپ کو کہاں سے کہاں لے جاتا ہے آپ پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں اور کہتے ہیں اگر یہ بندہ میری زندگی میں نہ آیا ہوتا تو آج میں یہاں نہ ہوتا۔ اسی طرح ناکام بندے کی ناکامی میں کسی بندے کا بہت بڑا ہاتھ ہوتا ہے وہ بھی یہی کہے گا اگر میری زندگی میں یہ بندہ نہ آتا تو آج میں یہاں نہ ہوتاہر بندے کی کامیابی میں کچھ مواقع ہوتے ہیں اور خوش اخلاق انسان کی زندگی میں زیادہ مواقع آتے ہیں۔
7 اچھے لوگوں سے دوستیاں
امیر ہونے والے لوگ نئے نئے مواقعوں کی تلاش میں ہوتے ہیں اور نئے نئے مواقع لوگوں میں چھپے ہوتے ہیں۔ انسان کی خوش قسمتی بھی کسی کے ساتھ جڑی ہوتی ہے اور انسان کی بد قسمتی بھی کسی کے ساتھ جڑی ہوتی ہےحضرت واصف علی واصف ؒ فرماتے ہیں "تمہاری تقدیر وہ نہیں ہے جو تمہارے ہاتھ پر لکھی ہے یہ آدھی تقدیر ہے آدھی تقدیر اس کے ہاتھ پہ لکھی ہوتی ہے جس سے تم ہاتھ ملاتے ہو۔"اللہ تعالیٰ راضی ہو تو وہ آپ کو اچھے لوگوں سے ملانا شروع کر دیتا ہے ، آپ کو اچھے لوگوں کی تلاش دے دیتا ہے،آپ کے اندر اچھی طلب آ جاتی ہے جو اچھا بندہ آپ کو ملتا ہے اس کے ہاتھ میں آدھی تقدیر لکھی ہوتی ہے آپ اس سے ہاتھ ملاتے ہیں اور وہ آپ کا ہاتھ پکڑ کر آپ کو کہاں سے کہاں لے جاتا ہے آپ پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں اور کہتے ہیں اگر یہ بندہ میری زندگی میں نہ آیا ہوتا تو آج میں یہاں نہ ہوتا۔ اسی طرح ناکام بندے کی ناکامی میں کسی بندے کا بہت بڑا ہاتھ ہوتا ہے وہ بھی یہی کہے گا اگر میری زندگی میں یہ بندہ نہ آتا تو آج میں یہاں نہ ہوتاہر بندے کی کامیابی میں کچھ مواقع ہوتے ہیں اور خوش اخلاق انسان کی زندگی میں زیادہ مواقع آتے ہیں۔
7 اچھے لوگوں سے دوستیاں
امیر ہو نے والے لوگ اپنی
دوستیاں بھی امیر ہونے والے یا امیر
لوگوں کے ساتھ کرتے ہیں انسان پر جتنا اثر دوسرے کی سوچ کا ہوتا ہے اتنا
شائد کتا ب کا بھی نہیں ہوتا ۔ انسان
اپنی صفت کھو جاتا ہے جب وہ ایسے لوگوں
میں رہتا ہے جن کی سوچ منفی ہے، اس لیے
اپنی دوستیاں ایسے لوگوں کے ساتھ بنائیں
جو آگے بڑھنے والے ہیں جن کے واضع مقصد
ہیں ان لوگوں سے آپ کو شعاعیں ملیں
گیں جو آپ کے آگے بڑھنے میں معاون ہوں گی ۔ حضرت واصف علی واصف ؒ فرماتے ہیں "نیک
روحیں محفل میں لطافت پیدا کرتی ہیں کثیف روحیں
محفل میں کثافت پیدا کرتی ہیں
۔" بندہ نیک ہو تو دوسروں پر اچھا
اثر پڑتا ہے بندہ برا ہو تو دوسروں
پر برا اثر پڑتا ہے ۔ اچھے بندے کی نشانی
یہ ہوتی ہے کہ اگر اس کے پاس کو ئی مسئلہ لے کر جائیں وہ آپ کا مسئلہ حل نہیں کرے گا لیکن آپ کو ہلکا پھلکا کر دے گا آپ کو مسئلہ حل کرنے کے لیے تیار کر دے گا اس کی وجہ یہ ہے جو شعاعیں اس سے ملتی ہیں اس
سے آپ مسئلے کے سامنے کھڑے ہو جاتے ہیں اس لیے
دوستیاں ان لوگوں کے ساتھ بنائیں جو بہتر ہیں جن کے مقصد واضح ہیں ۔
8۔ ذمہ
داریوں کو قبول کرنا
تمام امیر ہونے والے لوگ ان کی پہلی نشانی یہ ہوتی ہے
وہ ذمہ داری قبول کرتے ہیں ۔جب آپ یہ ذمہ داری قبول کرتےہیں کہ میں اس نتیجے کا خود ذمہ دار ہوں تو پھر آپ کامیابی کی طرف چلنا شروع کر دیتے ہیں ذمہ داری کا مطلب اپنی اصلاح کرنا ۔اگر ایک
شخص آج ناکام ہے اور ایک
عرصہ گزارنے کے بعد اسےکامیابی مل گئی تو ہمیں دیکھنا پڑے گا کہ اس نے ناکامی اور کامیابی کے درمیا ن
کیاایسا کیا تھا کہ وہ کامیاب بن گیا جب ہم اس کی کامیابی کی وجہ دریافت کرتے ہیں تو ہمیں نظر آتا ہے کہ وہ بندہ ذمہ دار ہو چکا ہےذمہ داری قبول کرنے کا مطلب
ہے کہ جو کچھ اس وقت آپ کے ساتھ ہو رہا ہے اس کی اصل وجہ آپ خود ہیں ۔
ہر غریب انسان کی یہ سوچ ہو تی ہے میری ناکامی کے ذمہ دار میرے گھر والے، معاشرہ ، حالات ہیں یہ
سارے جملے اس کی غیر ذمہ داری کو ظاہر
کرتے ہیں غیر ذمہ دار انسان اپنی اصلاح نہیں کر سکتا۔ ذمہ داری کی پہلی
نشانی یہ ہے کہ مجھے آگے جانے کی ضرورت ہے جب آپ خود اپنے آپ
کو کٹہر ے میں کھڑا کرتے ہیں تو
آپ میں بہتری آنا شروع ہو جاتی ہے ۔ جیم رون کہتا ہے کہ"
بندہ بڑا مقصد تو حاصل کر لیتا ہے لیکن اس
مقصد کو حاصل کرنےکے لیےآپ جو جدوجہد کرتے
ہیں وہ اس مقصد سے بھی بڑی ہوتی ہے۔"مثال
کے طور پر ایک بندہ ایک کروڑ روپیہ کماتا ہے اگر اس کا ایک کروڑ روپیہ گم گیا تو اتنا نقصان نہیں ہے جتنا بندے کے چلے جانے
سے ہوگا کیونکہ اس بندے کے اندر یہ صلاحیت
پیدا ہو گئی کہ وہ ایک کروڑ کما سکتا ہے
کروڑ کمانے میں اس نے جو سیکھا وہ کروڑ
روپے سے زیادہ بڑی بات ہے ۔اردو کا مشہور محاورہ ہے "یہ منہ اور مسور کی
دال" اس کا مطلب ہے جو کچھ کرنے والے
ہوتے ہیں ان کے انداز اور طرح کے ہوتے ہیں
۔
(How Rich
People Think, Syed Qasim Ali Sha)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں