اتوار، 27 نومبر، 2016

فڈرل کاسترو


فڈرل کاسترو کا نام گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں درج ہے، دنیا میں سب سے زیادہ جان لیوا حملے فڈرل کاسترو پر ہوئے جن کی تعداد 638 ہے ان مختلف قسم کے حملوں میں سگار میں زہر، بیس بال میں بم جیسے حملے بھی شامل ہیں ۔ ١٩٧٦ء سے لے کر دو ہزار آٹھ تک فڈرل کاسترو کمیونسٹ پارٹی کے سربراہ اور کیوبا کے صدر رہے اسکے بعد خرابی صحت کی بنا پر انہوں نے اپنے بھائی راول کاسترو کو صدر نامزد کر دیا جو اس سے پہلے بھی ملک کے اہم عھدوں پر رہ چکے تھے ۔ کاسترو نے ایک امیر خاتون سے شادی کی اور وہ بعد میں کیوبا کی خواتین کمیونسٹ جماعت کی سربراہ بنیں ، اس ساٹھ سالہ بادشاہی نظام میں کیوبا میں غربت اور انسانی حقوق کا استحصال ہوتا رہا مگر سوشلسٹ نظام کے نام پر ایک خاندان کی حکمرانی رہی۔
فیدل کاسترو کے ساتھ ایک قول منسوب کیا جاتا ہے، "اگر اقدامات قتل سے بچنا ایک اولمپک واقعہ ہوتا تو میں اس میں طلائی تمغہ پا لیتا"۔
صدائے روس " آر یو وی آر " کی ایک رپورٹ کے مطابق۔۔۔
کیوبا کے رہنما درحقیقت 638 قاتلانہ حملوں سے بچے ہیں جن میں سے بیشتر کا اہتمام سی آئی اے کی مدد سے کیا گیا تھا۔ امریکہ نے ہمیشہ ہی کیوبا کے انقلاب کے نتائج کی مخالفت کی تھی۔ اس کی وجہ محض امریکی کاروبار کو قومیانا ہی نہیں تھی بلکہ امریکہ سوویت یونین کے ایک نزدیکی اتحادی کو اپنی دہلیز پر برداشت نہیں کر سکتا تھا۔
مگر دنیا کی اولین معیشت اس ضمن میں کچھ بھی نہیں کر پا سکی تھی۔ خلیج کا ناکام حملہ، کیوبا میں میزائلوں کی موجودگی سے متعلق بحران اور اس کے بعد سفارتی تعلقات توڑ دیے جانے سے ہوانا کے امریکہ کے ساتھ بندھن یکسر ٹوٹ گئے تھے یوں کیوبا پر اس کا اثر بہت زیادہ کم ہو گیا تھا۔
ان حالات میں کاسترو کی موت ایک حل ہو سکتی تھی چنانچہ کاسترو سے نجات پانے کے غیر رسمی راستوں کی خاطر سی آئی اے نے جیمز بانڈ کے خالق آیان فلیمنگ سے بھی رجوع کیا تھا۔ دونوں کینیڈی برادران جیمز بانڈ ناولوں کے معترف تھے اور 1960 میں "جان کینیڈی نے فلیمنگ سے پوچھا تھا کہ کیوبا کے رہنما فیدل کاسترو کا تختہ کیسے الٹا جا سکتا ہے جو ریاستہائے متحدہ کے پہلو میں مسلسل ایک گلے کی ہڈی بنا ہوا ہے" یونیورسٹی آف واروک میں یو ایس نیشنل سیکیورٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر کرسٹوفر موران نے لکھا تھا۔ برطانوی دستاویزی فلم "کاسترو کو مارنے کے 638 طریقے" میں کچھ بہت ہی الجھاؤ بھرے قاتلانہ اقدامات کا ذکر کیا گیا تھا اور یہ مہلک کوششیں ویسی ہی تھیں جیسی کا ذکر جیمز بانڈ سے متعلق ناولوں میں ہے۔
مثال کے طور پر سی آئی اے نے فیدل کی گہری غواصّی (یعنی غوطہ خوری) کے شوق کو استعمال کرنا چاہا تھا کہ انہیں زہر بھرا لباس برائے غواصی پہنوا دیا جائے۔ ایک اور طریقہ یہ سوچا گیا تھا کہ جہاں کاسترو غواصی کرتے ہیں وہاں دھماکہ خیز مواد سے بھرا بھڑکدار رنگوں والا گھونگا رکھوا دیا جائے، لیکن ان سب کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا تھا۔
کاسترو کی سیگار نوشی ان کی جان لے سکتی تھی۔ ذہین سائنسدانوں نے ان کے مرغوب سیگار کو زہر سے آلودہ تو کر دیا تھا لیکن کسی بھی طرح ان میں سے ایک کاسترو کو پلا نہ پائے تھے۔
رومان کا ایک سلسلہ بھی مہلک ثابت ہو سکتا تھا۔ سی آئی اے نے کاسترو کی عاشق ماریتا لورینز کو ان کی زندگی کی ڈور توڑنے پر مامور کیا تھا لیکن عین آخری لمحے وہ ایسا نہ کر پائی تھی۔
کیوبا کے رہنما کو جسمانی طور پر ختم کرنا اتنا آسان نہیں تھا جتنا انہوں نے سوچا تھا چنانچہ سی آئی اے نے ان کے عوامی تاثر کو زک پہنچانے کا سوچا۔ اگر آدمی نہیں تو اس کی داڑھی ہی سہی، ہے ناں؟ جاسوسوں نے کم ازکم ایک بار ان کے جوتوں میں ایسا زہر رکھنے کی کوشش کی تھی جس سے ان کے بال یکسر اڑ جاتے۔
لیکن سب سے مضحکہ خیز تصور ٹی وی سٹوڈیو میں کاسترو کی براہ راست تقریر سے پہلے ایل ایس ڈی کا سپرے کیا جانا تھا۔
کیوبا کی خفیہ ایجنسی کے سابق سربراہ فابیان ایسکالانتے کے مطابق کاسترو کی زندگی لینے کے کم از کم 638 رجسٹرڈ واقعات ہوئے۔
یہ تعداد بہت زیادہ تصور کی جا سکتی ہے لیکن اس امر کو پیش نظر رکھتے ہوئے کہ کاسترو نے تن تنہا، فلوریڈا سے کچھ میل دور، نصف صدی تک، امریکہ مخالف حکومت چلائی تھی

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں