منگل، 8 نومبر، 2016

اپنا کاروبار


جب بھی کوئی ملک مشکل حالات سے گزر رہا ہوتا ہے تو  اس کا ہر شعبہ مشکل حالات میں ہوتا ہے ۔ آج ہمارا ملک دہشت گردی کی جنگ کا سامنا کر رہا ہے ، معاشی مشکلات کا سامنا کر رہا ہے اسی طرح  اور بہت سے دوسرے معمالات  میں  مشکلات  کا سامنا کر رہا ہے  جب یہ ساری صورتحال ہو گی تو پھر ملک میں نوکریاں ملنی کم ہو جاتی ہیں ۔ہمارے ملک  میں بےشمار ادارے ایسےہیں جو  باہر کے ملکوں سے خدمات لیتے ہیں  کیونکہ اس شعبے کے متعلق انہیں یہاں سے بندہ ہی نہیں ملتا باوجود اس کے  کہ ہمارے ملک میں ٹیلنٹ کی کمی نہیں اس کی ایک ہی وجہ نظر آتی ہے  کہ سمت نہیں ہے۔80 کی دہائی میں گرائیجویشن  یا ماسٹر کر نے کے بعد  جب طالب علم مارکیٹ میں جاتا  تھا  تو اسے چا ر چار نوکریاں ملتی تھیں جبکہ آج ایسا نہیں ہے آج جو جہاں پر لگا ہواہے وہ کام بھی کر رہا ہے اور ساتھ ہی ساتھ رو بھی رہا ہے  اس کی وجہ یہ ہے جس طرح کی وہ نوکری چاہ ررہا تھا  اس طرح کی ملی نہیں جب ان ساری باتوں  سامنے  رکھا جاتا ہے تو پتا لگتا ہے بے شمار مسائل نوکری کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں ۔
 کچھ لو گ ذہین ہوتے ہیں وہ ان باتوں کو بہت جلد  سمجھ جاتے ہیں  پھر وہ نوکری  کرنے کا نہیں سوچتے  بلکہ نوکریاں  دینے کے بارے میں سوچتے ہیں۔اگر آپ کا کام آپ کو فرسٹریشن دیتا  ہے  تو اس کا مطلب ہے آپ نے غلط کام کا انتخاب کیا ہے صحیح کام صحیح بندہ اچھی قسمت ، صحیح کام غلط بندہ بری قسمت۔ زندگی  میں صحیح بندے کا صحیح جگہ پر ہونا  ہی کامیابی ہے اگر اللہ تعالیٰ نے آپ کو بہادر بنایا ہے آپ میں قوت ارادی ہے اور آپ میں اضطراب ہے  تو پھر آپ اپنے آپ کو نوکر ی تک محدود نہ کریں بڑا سوچیں۔ایک ہے غلامی اور ایک ہے آزادی جو بندہ آزادی والا ہے  وہ بندہ کہے گا کہ میں بڑی نوکری کی بجائے  اپنا چھوٹا سا کام کیوں نہ کروں  کیونکہ  ملکیت تو میری ہو گی  میں اپنے آپ کو جواب  دہ ہو ں گا کسی کو نہیں  ہوں گا ۔
دنیا کے ہر کاروبا ر میں  ایک چیز مشترک ہوتی ہے   اور وہ ہے کامیابی کی کہانی۔یہ آپ پر ہے کہ آپ  دوران تعلیم یہ طے کرتے ہیں   کہ میں نے کہانی بننا ہےیا نوکری کرنی ہے  ۔دنیا میں نوے فیصد  کاروباری حضرات نے کبھی کاروبا ر کو پڑھا ہی نہیں تھا  پھر بھی وہ کامیاب  ہو گئے ۔تعلیمی اداروں میں جو اساتذہ کرام  کاروبار کے متعلق مضمون پڑھاتے ہیں انہوں نے خود کبھی کاروبار  نہیں کیا ہوتا  تو پھر طالب علم اس کو کیسے پڑھ کر کاروبار کرے گا ۔پہلی چیز کہ آپ کے اندر ایک بے چینی ہو  کہ میں نے نوکری نہیں کرنی میں نے اپنا کام کرنا ہے یہ اگر نہیں ہے  تو پھر آپ لاکھ  کاروبار کے متعلق مضامین  پڑھ لیں  آپ کاروبار نہیں کر سکیں گے ۔جو بندہ طبیعت  کا بادشاہ ہے وہ نوکری نہیں کر سکتا  بہت لوگ طبیعت کے لحاظ سے بادشاہ ہوتے ہیں  مگر انہیں اندازہ ہی نہیں ہوتا  انہوں نے فقیروں والا لبادہ اوڑ رکھا ہوتا ہے  انہیں اپنی قابلیت کا پتا نہیں ہوتا  ایڈیسن کہتا ہے کہ "اگر انسان کو اپنی قابلیت کا پتا ہو وہ غلامی برداشت نہیں کر سکتا"اور غلامی کا نام ہے نوکری۔
جب آپ  کبھی زندگی کے متعلق باتیں سن رہے ہوتےہیں تو  اسی لمحے کوئی بات دل میں بیٹھ جاتی ہے  اور زندگی کا رخ موڑ  جاتا ہے ۔ آپ اپنے اندر قوت ارادی پیدا کریں  کہ  میں نے نوکری دینی ہے اوراس کے لیے ایک کامیاب  مالک بننا ہے۔جو کوئی بھی آگے جانے کا سوچتا ہے اگر وہ محنتی ہے اس میں قوت ارادی ہے  تو پھر اس کے لیے قدرت بھی راستے بنانے لگ پڑتی ہے حدیث کا مفہوم ہے کہ "رزق کے نو حصے کاروبار میں ہیں" اس بات کی اہمیت کو دیکھیں کہ اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے ۔یہ اپروچ تب ہی ہوگی جب آپ اوپر والا ہاتھ بننے کی کوشش کریں گے  اگر آپ کے پاس اوپر والا ہاتھ ہے تو آپ اس سے بہتر ہیں جس کا ہاتھ نیچے والا ہے۔ دنیا میں جتنے بھی کاروباری لوگ ہیں ان میں ایک چیز  مشترک ہوتی ہے یہ لوگ پیسے کے لیے نہیں کام  کر رہے ہوتے یہ آزادی  کے لیے کام کر تے ہیں ۔ آگے بڑھنے میں تعلیم بہت بڑی  معاونت ہے  لیکن تعلیم بسا اوقات آگے بڑھنے کے حوالے سے   رکاوٹ بن جاتی ہے وہ سوچ چھوٹی کر دیتی ہے ہم صرف وہی سنتے ،دیکھتے  اور سمجھتے ہیں  جو دیکھنا، سننا اور سمجھنا چاہتے ہیں  اور چاہتے  اس لیے ہیں کہ ہم نے پڑھا ہی وہی ہوتا  ہے ۔ جب  کالج ، یونیورسٹی  کے طالب علموں   کا رابطہ  کاروباری  حضرات کے ساتھ ہو گا  وہ انہیں بتائیں گے  کہ ہم نے بھی  کبھی اپنا آغاز زیرو سے کیا  تو اس سے  ان کا ذہن کھلے گا ان کی سوچ بڑی ہوگی ۔  حضرت شیخ سعدی ؒ فرماتے ہیں "جب کبھی بھی اللہ تعالیٰ سے مانگنا ہے  تو تھوڑا نہیں  مانگنا  کیونکہ ہماری اوقات تھوڑی  ہو سکتی ہے اللہ تعالیٰ کی شان اس سے بہت بڑی ہے "ہمارے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ ہم اپنی سوچ کو تالا لگا دیتے ہیں  کہ ہمیں نہیں ملنا  ہمیں اس ذات پر یقین نہیں ہوتا ۔
معاشی آسانی  کے بعد اللہ تعالیٰ آپ کو سمجھ اور عقل بھی دے دے  تو پھر آپ خوش قسمت ترین انسان ہیں  اگر آپ امیر ہونے کے باوجود عقل سمجھ والے ہیں تو پھر زمانہ آپ کے پیچھے چلے گابڑا کام یہ ہے کہ تھوڑا ہو مگر اپنا ہو آپ مارکیٹ میں  جائیں اور وہاں جا کر سروئے کریں  اور دیکھیں  کہاں کہاں پر خلاء ہے ۔ کام تو سب نے  کرنا ہے تو بہتر ہے کہ آپ اپنے لیے کریں  ۔باکسر محمدعلی کلے  اپنے حریف کو ایک مکا مارتا ہے  اور جیت جاتا ہے اس زمانے  میں اسے پچاس ہزار ڈالر انعام ملتا ہے ایک صحافی اس سے پوچھتا ہے  آپ  نے کیسا سودا کیا ہے کہ صرف ایک مکا  اور بدلے میں پچاس ہزار ڈالر  وہ آگے سے ایک جملہ کہتے ہیں "اس ایک پنچ کو بنانے  کے لیے مجھے 21 سال پیریکٹس کرنی پڑی ہے"اگر آپ کا ذہن صرف نوکری کے بارے میں ہی سوچ رہا ہے تو پھر آپ  لاکھ لیکچر لے لیں ، کتابیں پڑھ لیں  اس کا کوئی فائدہ نہیں ہونے والا لیکن اگر آپ کی سوچ یہ ہے کہ  میں نے اپنا کام کرنا ہے  تو پھر یقین کریں  کہ آنے والا زمانہ  آپ کا ہوگا۔
(Become An Entrepreneur, Syed Qasim Ali Shah)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں