1965ء کی شکست کےبعد دشمن مستقل سازشوں میں مصروف رہا۔ جب بھارت نے مشرقی پاکستان پر شب خون مارا۔۔قومی حمیت سے سرشار میجر شبیر شریف کے لیے یہ حالات ناقابل برداشت تھے۔ جب 3 دسمبر 1971ء کو جنگ شروع ہوئی تو انہوں نے اپنے کمانڈر سے رابطہ کیااور دشمن کے مضبوط مورچوں پر جانے کی اجازت چاہی، جہاں ہر طرف بارودی سرنگوں کاجال، ٹینک اور توپیں نصب تھیں۔۔کمانڈر نے انہیں اجازت دے دی جس کے بعد یہ دلیر جوان اپنی کمپنی کے ساتھ سلیمانکی سیکٹر کی طرف بڑھنے لگے۔ان کی اگلی منزل گور مکھیڑہ اور بیری والا گاؤں سے ملتا ہوا اونچا پل تھاجہاں دشمن کا 24 گھنٹے سخت پہرہ رہتا تھا۔ لیکن میجر شبیر شریف نے انتہائی اعلیٰ حکمت عملی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دشمن پر حملہ کر دیا اور انہیں پسپائی پر مجبور کردیا۔ بھارتی فوج نے اپنی شکست اور اپنا علاقہ واپس حاصل کرنے کے لیے ہرممکن کوشش کی۔ ان کی تازہ دم فوج نے مزید کمک ملنے کے بعد 4 اور 5 دسمبر کو بھرپور حملے کیے۔ مگر میجر شبیر شریف کی دلیرانہ قیادت میں ناقابل تسخیر چٹان پر کھڑے رہے ۔5 دسمبر کو میجر شبیر شریف زخمی ہوئے تو بٹالیں ہیڈکوارٹر کی طرف سے ہدایت کی گئی کہ وہ پیچھے آجائیں اور ان کی جگہ کوئی اور افسر بھیج دیا جائےگا مگر انہوں نے اپنے جوانوں کا ساتھ چھوڑنے سے انکار کر دیااور اپنے جوانوں کے ساتھ وطن عزیز کا دفاع کرتے ہوئے6 سمبر1971ء کو جام شہادت نوش کیا۔
پیر، 5 دسمبر، 2016
میجر شبیر شریف شہید نشان حیدر
1965ء کی شکست کےبعد دشمن مستقل سازشوں میں مصروف رہا۔ جب بھارت نے مشرقی پاکستان پر شب خون مارا۔۔قومی حمیت سے سرشار میجر شبیر شریف کے لیے یہ حالات ناقابل برداشت تھے۔ جب 3 دسمبر 1971ء کو جنگ شروع ہوئی تو انہوں نے اپنے کمانڈر سے رابطہ کیااور دشمن کے مضبوط مورچوں پر جانے کی اجازت چاہی، جہاں ہر طرف بارودی سرنگوں کاجال، ٹینک اور توپیں نصب تھیں۔۔کمانڈر نے انہیں اجازت دے دی جس کے بعد یہ دلیر جوان اپنی کمپنی کے ساتھ سلیمانکی سیکٹر کی طرف بڑھنے لگے۔ان کی اگلی منزل گور مکھیڑہ اور بیری والا گاؤں سے ملتا ہوا اونچا پل تھاجہاں دشمن کا 24 گھنٹے سخت پہرہ رہتا تھا۔ لیکن میجر شبیر شریف نے انتہائی اعلیٰ حکمت عملی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دشمن پر حملہ کر دیا اور انہیں پسپائی پر مجبور کردیا۔ بھارتی فوج نے اپنی شکست اور اپنا علاقہ واپس حاصل کرنے کے لیے ہرممکن کوشش کی۔ ان کی تازہ دم فوج نے مزید کمک ملنے کے بعد 4 اور 5 دسمبر کو بھرپور حملے کیے۔ مگر میجر شبیر شریف کی دلیرانہ قیادت میں ناقابل تسخیر چٹان پر کھڑے رہے ۔5 دسمبر کو میجر شبیر شریف زخمی ہوئے تو بٹالیں ہیڈکوارٹر کی طرف سے ہدایت کی گئی کہ وہ پیچھے آجائیں اور ان کی جگہ کوئی اور افسر بھیج دیا جائےگا مگر انہوں نے اپنے جوانوں کا ساتھ چھوڑنے سے انکار کر دیااور اپنے جوانوں کے ساتھ وطن عزیز کا دفاع کرتے ہوئے6 سمبر1971ء کو جام شہادت نوش کیا۔
سبسکرائب کریں در:
تبصرے شائع کریں (Atom)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں