بدھ، 7 دسمبر، 2016

حضرت علامہ اقبالؒ کا فلسفہ تعلیم


استاد وہ نہیں ہوتا جو علم دیتا ہے  بلکہ استاد وہ  ہوتا ہے  جو علم کی پیاس دیتا ہے ۔ایک اچھا استاد کلا س کوبھانپ لیتا ہے  کہ   اس کو کو نسی سی بات کب کہنی ہے اور کونسی  بات اثر کرے گی ۔ ہمارے پاس سند یافتہ فکر  حضرت علامہ اقبالؒ  کی ہے اس کو پڑے بغیر سوچ کی آبیاری نہیں  ہو سکتی۔ تدریس والے لوگوں کی   فکر منظم ہونی چاہیے  اور منظم کرنے کے لیے  سب سے ضروری چیز  اقبال ؒ کی فکر ہے۔ حضرت علامہ اقبال ؒ  جس تکمیل کی بات کرتےہیں   وہ تکمیل خودی ہے  اور  بہت کم لوگ ایسے  ہیں  جو  اس خودی سے آگاہ ہیں ۔ حضرت علامہ اقبال ؒ کی فلاسفی کو جس نے بھی   زندگی کے کسی بھی حصے میں استعمال کیا اور اس کے پاس اس کا نتیجہ بھی ہے  تو پھر اس کا اس فلاسفی پر یقین ہو گا۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ  ہمارا نوجوان  اور استاد  وہ جانتا ہی نہیں ہے کہ  آپ ؒ کی فلاسفی  کہاں تک ہے  آیا وہ صرف ترانے ، نظم  یا گانے تک ہے  یا زندگی میں لانے تک بھی ہے اگر  یہ نہیں پتا تو  پھر کلام اقبال ؒ نصاب میں  سجا  ہوا تو ملے گا  مگر عملی زندگی میں نظر نہیں آئے گا۔  
ہم نے یہ کبھی سوال نہیں اٹھایا کہ تعلیم کس کو کہا جاتا ہے  ہم تعلیم   کے اٹھارہ  سالہ  مرحلے سے گزرتےہیں  اوراٹھارہ سال گزرنے کے بعد  جو نتیجہ حاصل ہوتا ہے  ہم ا س سے آشنا   نہیں ہوتے  یہ بلکل ایسے ہی ہے  جیسے ہماری جیب میں پیسے ہوں مگر ہمیں  یہ پتا نہ ہو کہ بازار سے کیا خریدنا ہے ۔ بچہ کھلونوں سے  کھیلتا بھلا لگتا ہے  مگر بڑا کھیلے تو عجیب  لگے گا  اگر ہم غور کریں تو زندگی میں بڑے بڑے   لو گ کھلونوں سے کھیلتے نظر آتے ہیں کیونکہ زندگی کی جو سنجید ہ چیزیں ہیں انہوں نے  کبھی ان کو دیکھا ہی نہیں ان کے بارے میں انہوں نے کبھی سوچا ہی نہیں ۔حضرت علامہ اقبال ؒ کی فلاسفی  زندگی میں  سنجیدگی  لے کر آتی ہے اور اس سنجیدگی کا نام   "لب پہ آتی ہے  دعا بن کے تمنا میری" اس  دعا کو ہم بچپن سے پڑھتے آرہے  ہیں اور یہ سنجیدگی  ہمیں اس دعا میں نظر آتی ہے۔
"لب پہ آتی ہےدعا بن کے تمنا میری۔۔۔زندگی شمع کی صورت  ہو خدایا میری"
 بچہ دعا مانگتا ہے  کہ   اس کی زندگی شمع کی مانند ہو جائے  ۔ روشنی دینے والا بننا  بہت بڑا سوال ہے، روشنی دینے والا بننے کےلیے لازم ہے  کہ  بندے میں روشنی ہو ، جو خود روشنی ہے  وہ روشنی دینے والا بنےگا  کیونکہ وہ رکھی ہوئی چیز ہی دے گا ۔ دعا کا زمانہ کچھ ہوتا ہے اور تاثیر کا زمانہ کچھ ہوتا ہے  اگر دعا فوری قبول ہو  بھی  جائے  تو  پھر بھی تاثیر   کا وقت  بعد میں  آتا ہے۔ غور کریں   جو دعا ہم بچپن میں مانگتے ہیں  کتنی سچی ہوتی ہے  ،معاشرے میں کتنے  لوگ  ہیں جو  شمع  کی  مانند ہیں معذرت  کے ساتھ  اگر ہم ڈھونڈنے جائیں  تو صرف تاریکی ملے گی  روشن  لوگ نہیں ملیں گے کیو نکہ روشنی بانٹنے والے  کے پاس روشنی کا ہونا شرط ہے ۔ آج کا استاد  اور آج کا  جو شخص ہے  جو آزاد پاکستان میں  زندگی گزار رہا ہے  اس کی یہ دعا   نہیں ہے۔
علم کے متعلق کہا جاتا ہے کہ  یہ  عمل کا نام ہے ، یہ تہذیب نفس کے کام آتا ہے ، یہ کچھ اچھے اتوار دیتا ہے  اور کچھ جانوروں والے اتوار نکال دیتا ہے ۔ ہمارے اصلاح احوال کا نام تعلیم ہے  یہ ایک ایسا عمل  ہے جو ہمیں عام انسان سے فائدہ مند  انسان بنا دیتا ہے ۔ ہمارے  معاشرے  میں  بے شمار  پڑھے لکھے ہیں، اتالیق ہیں ، اساتذہ کرام  ہیں،  پیر  ہیں، رہبر ہیں  مرشد ہیں  مگر ان  میں  کتنے شمع ہیں ؟
"دور دنیا کا  میرے دم اندھیر ا ہو جائے ۔۔۔ ہر جگہ چمکنے سے  اجالا ہو جائے"
ہمارا پہلا کام  یہ  ہے ہم اپنی زندگی  کے اندھیرے کو کم کریں  اگر ہماری دنیا کا اندھیرا کم نہیں ہوا  تو پھر اس کا مطلب ہے کہ   بچپن میں ہم نے یہ دعا نہیں  مانگی تھی  صرف منہ سے الفاظ ادا کیے تھے۔ حضرت علامہ اقبال ؒ  فرماتےہیں  کہ طالب علم  کا ایک بڑا مقصد یہ ہے کہ اس کے دم سے دنیا کا اندھیر ا کم ہو جائے تعلیم اگر ہمیں  چمکنے والا نہ بنائے  اور  روشن  نہ کرے  تو پھر  وہ تعلیم  نہیں ہے ۔ حضور اکرم ﷺ کی حدیث مبارک کا مفہوم ہے " علم نور ہے" اس حدیث پرغور  کیا جائے تو جہاں  علم نور ہے  وہاں جہالت کا نام اندھیرا ہے ۔ وہ علم جس  سے سینہ روشن ہو ، فہم وفراست اور انداز میں لچک آئے   وہ نور ہے  اور اس  نور کی تمنا اور اس کا حصول  اقبال ؒ کے مطابق تعلیم ہے ۔
"ہو میرے دم سے یو نہی  میرے وطن کی زینت۔۔۔ جس طرح پھول سےہوتی ہے  چمن کی زینت"
زینت کا مطلب ہے  کہ کسی خاص جگہ  پر  کوئی چیز ایسی پڑی ہو جس کے دم سے  اس جگہ کی ویلیو بڑھ جائے ۔  پھول کے بغیر باغ  خوبصورت نہیں لگتا   وہ جنگل لگتا ہے  اس لیے پھول باغ کا اظہار ہے ۔ اقبال ؒ   اس دعا میں  بچے کو کہہ رہے ہیں  کہ جس راستے پر  چل رہے ہو اس کے انجام پر پہنچ کر  تم پھو ل  کی مانند ہو جاؤ  اور وہ  ایسا پھو ل ہوجو چمن کی  مانند  ہو۔
"زندگی  ہو میری پروانے کی صورت یا رب۔۔۔علم کی شمع سے ہو  مجھ کو محبت  یارب"
زندگی اگر گزارنی ہے  تو  اس کا انداز پروانے والا ہونا چاہیے  ، وہ انداز  جس میں طلب صادق ہو ۔ آگے بڑھنے  کی  جستجو ، علم  کی جستجو  میں اگر سنجیدگی ہے  پھر یہ زندگی شمع بھی ہے  اور پروانہ  بھی۔  ہمارا پروانے کی طرح  رہنا نتیجہ تو دے گا  ہی لیکن یہ بذات خود  ایک نتیجہ ہے ۔ پیاسا بننا، اچھے راستے کا مسافر بننا  یہ بذات خود بہت بڑی  کامیابی ہے  ۔پروانے کامزاج ہے پیاساہونا ، شمع   پہ فداہونا  یہ جانتے ہوئے کہ میں نے مر جانا ہے  پھر بھی اس راستے پرچلتےرہنا۔ یہ پیاس اور طلب کی بات ہو رہی ہے  یعنی روشنی کی طلب۔
" ہو میرا کام غریبوں کی حمایت کرنا ۔۔۔درد مندوں سے صعیفوں  سے محبت کرنا"
ہم  اپنی زندگی میں  دوسروں کی  مدد کے حوالے سے کتنے  سنجیدہ ہوتے ہیں؟ ہماری زندگی  کو کیا تعلیم مدد گا ر بناتی ہے  معذرت کے ساتھ نہیں۔ مقابلے کے امتحان  میں  کامیابی کےبعد میں کیا  ملک  کی خدمت مزاج  میں ہے  معذرت کے ساتھ نہیں۔ کیا عام انسانوں سے ایک افسر شاہی  کے۔ٹو جتنا فاصلہ نہیں رکھتا ، کیا اس تک پہنچنا اتنا ہی مشکل  نہیں  ہے  جیسے امریکہ   کے ویزے تک پہنچناجس تعلیم اور علم کی  اقبالؒ بات  کر رہے ہیں  کیا اس سے  غریبوں کی حمایت کا مطلب نکلتا ہے معذرت کے ساتھ نہیں۔جن کا ہم کلمہ پڑھتے ہیں جب آپﷺ پر وحی آتی ہے اور آپﷺ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پاس جاتے ہیں  اور انہیں  وحی کے بارے میں بتاتے ہیں  تو وہ جواب دیتی ہیں  آپﷺ مت گھبرائیں  آپ ﷺ تو غریبوں، ضعیفوں کے کام آتے ہیں۔ ہم کلمہ ان کا پڑھتے ہیں  لیکن غریب سے دور ہیں  ۔
"ائے اللہ برائی سے بچانا مجھ کو۔۔۔نیک جو راہ ہو اس راہ پہ چلانا مجھ کو"
ہم پانچ وقت کی نماز میں  کہتے ہیں کہ "ہمیں سیدھی راہ دیکھا  ان کا راستہ دیکھا  جن پہ  تو نے انعام کیا۔ اسی دعا  بچہ بچپن میں سکول میں مانگتا ہے  کہ ائے اللہ مجھے سیدھی راہ دیکھا  لیکن آج ہم سیدھی راہ کی طرف  گامزن ہیں  معذرت کےساتھ نہیں ۔اس کامطلب ہے  ہم آپ ؒکی تعلیمی فلاسفی کی پیروی نہیں کر رہے۔
حضرت علامہ اقبال ؒ  خواہش کرتے ہیں  کہ دعا میں  جن صفات کاذکر ہوا ہے  ہمارے  بچوں میں یہ صفات ہوں  اور وہ ان کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا مانگیں۔ آپ ؒ  نوجوانوں سے فرماتے ہیں  اگر تیری خودی پالش نہیں   اوراگر تو نے اس  کو تلاش نہ کیا  تو پھر جو تعلیم کے مقاصد ہیں تم اس تک نہیں پہنچے ۔ آپ ؒ فرماتےہیں   اگر تم خود ی کو تلاش کیے بغیر  چلے گئے تو پھر تمہاری زندگی بھی موت ہے کیو نکہ   زندگی کا دوام  اور زندگی کا نام اس دن سے ہے  جس دن آپ خود ی کے راستے پر چلیں ۔ہمارے ہاں المیہ یہ ہے  کہ خودی پڑھانے والوں کی اپنی خودی برقرار نہیں  ہے ہمارے اردو پڑھانے والے  جو صاحبان ہیں  وہ اپنی خواہش سے اردو نہیں پڑھا رہے ،اقبالؒ جس خودی کی بات کرتےہیں  وہ اس سے بہت دور ہوتےہیں جب وہ دور ہوتے ہیں  تو اس دوری کی وجہ سے  جس طرح کی خود ی انہیں سمجھ آتی ہے  پھر وہ اسی کو پڑھاتے ہیں  جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ  طالب علم  خودی سے آشنا  نہیں ہو پاتا۔خودی جس کو عرفان ذات کہا گیا ہے یہ وہ چیز ہے  جس کو پانے کے بعد  انسان ہزار سجدوں سے بچتا ہے  کیو نکہ اس کا سر نہاں  لاالہ اللہ ہوتا ہے ۔ کیا ہماری تعلیم ہمیں  صرف اللہ تعالیٰ کے سامنے جھکنا سکھاتی ہے  معذرت کے ساتھ نہیں۔ آپ ؒ کی فلاسفی کی  سب سے بڑی خوبصورتی یہ ہے کہ آپؒ جمود کے خلاف ہیں۔ اردو میں فلسفہ اور تدریس کے حوالے سے جتنی چیزیں موجود ہیں ان میں  آپ ؒ کے علاوہ ایک بندہ ایسا نہیں ہے  جو نوجوان کو کہے تو شاہین ہے ۔
آپ ؒ کی خودی  کا دوسرا خوبصور ت پہلو  مرد مومن ہے جو نظر قاری آئے  لیکن ہو مفسر قرآن اس کے معاملات ، لین دین ، اٹھنا، بیٹھنا اور شب و روز احکام الہی کے مطابق ہوں  جب لوگ  دیکھیں تو عش عش کر اٹھیں ۔  کسی نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ رسالت ماب ﷺ کی ذات گرامی  کیسی ہے  آپ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا  کیا تم قرآن نہیں پڑھا  یعنی آپﷺ  کی ذات گرامی کو دیکھنا ہے تو قرآن دیکھ لو اور قرآن کو دیکھاتو رسول کریم ﷺ کو دیکھ لیا ۔
 انسان واحد مخلوق ہے جس کو اسماء کا علم ملا  جس  کو چیزوں  کے معانی  کا پتا چلا۔ جب فرشتوں نے اللہ تعالیٰ سے پوچھا اسی کو سجدہ کیوں تو اللہ تعالیٰ نے  کہا تم اس سے   کسی چیز کے بارے میں پوچھو  یہ تمہیں فر فر بتائے گا ۔ انسان فر فر اس لیے  بتا دیتا ہے کہ وہ چیز کے مغز تک پہنچ جاتا ہے۔ اقبال ؒ  چاہتے ہیں کہ نوجوانوں میں خوداری پیدا ہو  اگر شاہین کی اس صفت کو لیں تو ہمیں اپنی زندگی میں  بہت  کم لوگ ملیں گے جن میں خوداری ہے ۔ہمارے ایکشن کے پیچھے کوئی نہ کوئی رول ماڈل  ہوتا ہے  جب ہم خوداری کی  مثال کو تلاش کرتے ہیں  تو پھر خوداری کی مثالیں بہت کم ملتی ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ اقبالؒ جس شاہین کی بات کرتا ہے  وہ اسے نہیں مل رہا۔اقبال ؒ نوجوانوں سے فرماتے ہیں کہ وہ اپنا شکار خود کرے  ہار نہ ما نیں ا   ن کی نگاہ کی وسعت کی کوئی حد ہی نہ ہو  اور فوکس اتنا ہو کہ  انہیں صرف ٹارگٹ ہی نظر آئے۔ اقبالؒ کے ہاں  شاہین کچھ صفات کا مرکب ہے انسان میں یہ  صفات تب پیدا ہوتی ہیں جب  وہ ان کو  اہم سمجھتا ہے  پھر سوال اٹھتا ہے کہ ہم جو صفات اپنے  اندر پیدا  کرنا چاہتے ہیں کیاوہ  واقعی ہی ہمارے لیے اہم ہیں۔
آپؒ نصاب کے چار درجے بتاتے ہیں  غوروفکر،فلسفہ ،تاریخ اور ادب  ۔آپ ؒکی تعلیمی فلاسفی سوال اٹھاتی ہے کہ اگر ادب تیر ی خودی کی تکمیل میں  معاون نہیں ہے تو پھر وہ حجاب ہے۔ کیا ہمار ا نصاب  نوجوانان ملت کی خودی بیدار کرتاہے  معذرت کے ساتھ نہیں۔ چیزوں کو  مراحل سے گزار کر تیار کیا جاتا ہے   پھر ان پر  لکھا جاتا ہے  کہ  یہ پاس ہیں ہم نے اپنے نصاب اور تعلیم  کے نظام کو اقبالؒ کی فلاسفی سے پاس  نہیں کروایا ۔نظام  کے بعد  پڑھانے والے پر سوال اٹھتا ہے ، طالب علم پر سوال  اٹھتا ہے  یعنی نہ وہ طالب علم رہے ، نہ ہی اس طرح کے  پڑھانے والے رہے ، نہ وہ تعلیمی نظام  اور نہ پھر وہ نتیجہ۔اگر آج ہم نتیجے کو کوس رہے ہیں  تواس کا کوئی فائدہ نہیں ہے  کیو نکہ اس  نتیجے  کو دیکھنے کی بجائے ہمیں  ان وجوہات کو دیکھنا چاہیے  جن کی  وجہ سے یہ نتیجہ  آیا۔
ہمیں شارٹ کٹ کا عادی بنا دیا گیا ہے  اقبالؒ نوجوانوں سے فرماتے ہیں کہ تم اتنے طاقتور بنو   کہ تم سے زمانے کو فیض ملے ۔ جو تہذیب نفس کے انقلاب سے نکلتا ہے  پھر اسے زمانے کے انقلاب کی سمجھ آتی ہے ۔ جن چیزوں کو پڑھایا جا رہا ہے  ان کو پڑھانے والے  اور نصاب بنانے والے ان چیزوں سے آشنا نہیں ہیں۔ سچ کی برکات پڑھانے والے  ا استاد کی زندگی میں سچ نہیں ہے،وقت کی پابندی پڑھانے والا استاد وقت پر نہیں آتا پھر اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ  بچے کےذہن میں یہ چیز  بیٹھ ہے  کہ بیس میں سے بیس نمبر  لینے کا نام  وقت کی پابندی  ہے  حالانکہ یہ عمل کرنے کا نام ہے ۔ اقبالؒ فرماتے ہیں اپنی زندگی  اپنے آپ سے شروع کرو  تاکہ منسلک  لوگوں  تک فیض جانے لگ پڑے۔ اگرایک فرد بدلے تو ملت  بدلتی ہے   بے شمار  ایسی کہانیاں  ملتی ہیں  جس میں ایک بندے کی وجہ سے نسل بدل گئی۔ ہمارا اختیار اپنے پاس نہیں  ہوتا  وہ دوسروں کے پاس  ہوتا ہے ہمیں غصہ دوسرے کی گالی پر آتا ہے ،ہمیں خوشی دوسرے کی وجہ سے ہوتی ہے  ہم اپنی  سوزومستی  میں نہیں ہیں ۔
ہمارےپاس بے شمار لیٹریچر  ہیں  جو شائد نفس کوجگا دیتے ہیں  لیکن روح کوسلادیتے ہیں ، کچھ چیزیں ایسی ہیں  جن کو پڑھنے کے بعد سوچیں تھکانے والی بن جاتی ہیں  اورحاصل کچھ بھی نہیں ہوتا ۔ کچھ چیزیں ایسی ہیں  جن  کو پڑھنے کے بعد گناہ کرنے کو دل کرتاہے ۔ اقبالؒ فرماتے ہیں ایسا لٹریچر ، ایسا نصاب  جو آپ کو خود ی کے راستے کا  مسافر نہ بنائے  وہ حجاب ہے ۔ نصاب معاون ہونا چاہیے ، تعلیم معاون ہونی چاہیے  تاکہ خودی  کی تکمیل ہو سکے۔
 اگر ایک بھی ایسی نسل پیدا ہو جاتی ہے جس   کو اقبال فہمی ہو  تو پھر اگلی نسلوں کو  سمجھانا بڑاآسان ہو جائے گا۔ آج کامسئلہ یہ ہے کہ ہمارے پاس معلومات کے ذرائع بہت زیادہ ہ ہیں لیکن ان میں سے اقبالؒ کو تلاش نہیں کرتے جب اگلی نسل آئے گی اس کے پاس معلومات کے ذرائع اس  سے بھی زیادہ ہوں گے  تب  وہ  کیسے  تلاش کرسکے گی۔ اقبالؒ کی فلاسفی اگر ایک بھی فرد تک جاتی ہے تو ممکن نہیں ہے  کہ وہ فیض دوسروں تک منتقل نہ ہو ۔

(Weekly Sitting topic Educational Philosophy of Allama Iqbal, Syed Qasim Ali Shah)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں