ہفتہ، 29 اپریل، 2017

شوہراور بیوی کاباہمی تعلق

نکاح، مرد اور عورت کے درمیان محبت اور رحمت  کا ذریعہ ہے، یہ میاں بیوی کے درمیان خوش بختی اور اطمینان حاصل کرنے کے اسباب میں سے ایک ہے۔
اﷲ تعالیٰ نے فرمایا : ’’ اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمہارے لیے تمہی سے بیویاں پیدا کیں تاکہ تم ان کی طرف سے آرام پاؤ اور اس نے تمہارے درمیان مودت اور مہربانی رکھ دی کیوں کہ اس میں ان لوگوں کے لیے یقینًا بہت سی نشانیاں ہیں جو غور کرتے ہیں۔‘‘ ( الروم:21)
امام ابن کثیر رحمہ اﷲ کہتے ہیں : اﷲ سبحانہ کی بنی آدم پر اپنی کامل رحمت میں سے یہ ہے کہ اس نے ان کی جنس سے ہی ان کے جوڑے بنائے اور ان کے اور ان کی بیویوں کے درمیان مودت ڈال دی۔ وہ محبت اور رحمت دراصل نرمی ہے۔ بے شک ایک مرد عورت کو اس سے اپنی محبت کی وجہ سے یا اس پر رحمت کی وجہ سے روک کر رکھتا ہے تاکہ اس سے اس کی اولاد پیدا ہو یا اس لیے کہ وہ (عورت) خرچ کرنے میں اس کی محتاج ہوتی ہے یا یہ کہ ان دونوں کے درمیان الفت ہوجاتی ہے یا اس کے علاوہ کوئی اور وجہ ہوسکتی ہے۔
نکاح پاک دامنی کا ذریعہ
نکاح، حرام کاموں سے نفس کی پاک دامنی اور معاشرے کو برائیوں سے پاک کرنے میں مدد کرتا ہے۔ اس کے فائدے بہت عظیم ہیں، اور اس کی مصلحتیں بہت زیادہ ہیں۔ یہ صرف مردوں اور عورتوں تک ہی عام نہیں! بل کہ تمام امت کے لیے اس کے فوائد عام ہیں۔
امام ابن قدامہ رحمہ اﷲ کہتے ہیں : نکاح، دین کو مضبوط اور اس کی حفاظت کرنے، عورت کی مضبوطی و تحفظ، اس کی نگرانی کرنے، نسل کے وجود میں لانے، امت کی تعداد میں اضافہ کرنے اور نبی ﷺ کی اپنی امت کی کثرت پر فخر کو ثابت کرنے پر مشتمل ہے۔ اس کے علاوہ ایسی ایسی مصلحتیں ہیں جن میں سے ایک ایک نفلی عبادت پر بھاری ہے۔
شکر گزاری
میاں بیوی دونوں اﷲ کا اس بات پر شکر ادا کریں کہ اس نے ان دونوں کا باہم ساتھ رہنا آسان بنایا اور اس عظیم نعمت کے شکر میں سے یہ ہے کہ  وہ دونوں ہر اس کام سے دور رہیں جو اس تعلق کے ٹوٹنے کا سبب ہوسکتا ہے جو ان دونوں کے درمیان ہے اور جو ان کے اتحاد کو پارہ پارہ کرسکتا ہے۔ خاص طور پر وہ نافرمانیاں اور گناہ جو ہر مصیبت کی بنیاد اور ہر بدنصیبی کے نکلنے کے مقام ہیں۔
باہمی حقوق کا خیال
میاں بیوی دونوں پر لازم ہے کہ وہ باہمی حقوق و فرائض کا لحاظ رکھیں۔ شوہر کو چاہیے کہ اپنے بیوی بچوں کی خیرخواہی اور راہ نمائی کی جو ذمے داری اس پر عاید ہوتی ہے وہ اسے ادا کرے، چناں چہ وہ انہیں ایسی چیز کی ترغیب دے جو اُن کو دونوں جہانوں میں فائدہ دے اور ایسی چیز سے ڈرائے جو ان کے لیے نقصان دہ ہے۔ شوہر پر لازم ہے کہ وہ ان پر اتنا خرچ کرے جو اسے میسر ہو اور ان کی ضروریات پوری کرنے کا حریص ہو۔ عورت پر لازم ہے کہ وہ اپنے شوہر کی اطاعت کرے اور اﷲ جل و علا کی نافرمانی کے علاوہ اس کی خواہشات کو پورا کرنے کی حریص ہو۔ شوہر اور اپنے گھر کے حق کے بارے میں جو چیز اس پر لازم ہے اسے بجا لائے۔
جب ان میں سے کوئی ایک دوسرے کے حق میں کوئی غلطی کرے تو اسے چاہیے کہ وہ اس کی خیر خواہی کرے۔ اسے نصیحت کرے۔ اس کی غلطی کو حکمت اور نرمی کے ساتھ اس پر واضح کرے۔ دونوں کو باتوں میں سختی کرنے سے ڈرنا چاہیے! اور سختی کرنے میں حد سے آگے نہیں بڑھنا چاہیے! خاص طور پر شوہر کی طرف سے! جب اس (سختی ) کی ضرورت بھی نہ ہو۔ ان دونوں کو اس بات کی حرص ہونی چاہیے کہ باہمی معاملہ کرتے وقت نرمی ہی ان پر غالب ہو کیوں کہ اسی میں کام یابی، خوش نصیبی اور فلاح ہے۔
ام المومنین عائشہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے ان سے فرمایا : ’’ اے عائشہ! نرمی سے کام لیا کرو کیوں کہ جب اﷲ تعالیٰ کسی گھرانے سے خیر کا ارادہ فرماتا ہے تو نرمی کے دروازے کی طرف ان کی راہ نمائی کردیتا ہے۔‘‘
نرمی اور بھلائی کا معاملہ
مرد کو چاہیے کہ وہ ہمیشہ یاد رکھے کہ عورت دین، علم یا فقہ میں جس مقام تک بھی پہنچ جائے وہ پھر بھی عقل اور دین میں ناقص ہی رہے گی کیوں کہ وہ اسی پر پیدا کی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے نبی ﷺ نے اس کے ساتھ بھلائی کی وصیت کی ہے۔ چناں چہ آپ ﷺ نے فرمایا : ’’ عورتوں کے بارے میں نصیحت قبول کرو! کیوں کہ عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے اور پسلیوں میں سب سے ٹیڑھا اس کا اوپر والا حصہ ہوتا ہے۔ اگر تم اسے سیدھا کرنے لگ جاؤ گے تو اسے توڑ دو گے اور اگر تم اسے چھوڑ دو گے تو وہ ٹیڑھی ہی رہے گی، عورتوں کے ساتھ اچھے سلوک کی نصیحت قبول کرو۔‘‘
شیخ ابن عثیمین رحمہ اﷲ کہتے ہیں : ’’ یہ وصیت جو میں تمہیں کررہا ہوں اسے قبول کرو، وہ اس طرح کہ عورتوں کے ساتھ بھلائی کرو، کیوں کہ عورتیں عقل میں قاصر ہوتی ہیں، دین میں قاصر ہوتی ہیں، غور و فکر میں قاصر ہوتی ہیں اور اپنے تمام کاموں میں بھی قاصر ہوتی ہیں کیوں کہ وہ پسلی سے پیدا کی گئی ہیں اور اس کی تفصیل یہ ہے کہ اﷲ نے آدمؑ کو بغیر ماں اور باپ کے پیدا کیا، مخلوق پھیلے تو اس نے ان سے ان کی بیوی کو پیدا کیا پس اس نے اس کو اس کی ٹیڑھی پسلی سے پیدا کیا تو وہ ٹیڑھی پسلی سے پیدا کی گئی۔
اگر آپ ٹیڑھی پسلی سے فائدہ اٹھائیں گے تو اسی حال میں اٹھائیں گے کہ اس میں کجی ہوگی اور اگر آپ اسے سیدھا کرنا چاہیں گے وہ ٹوٹ جائے گی۔ تو اسی طرح یہ عورت ایسی ہے کہ اگر انسان اس سے فائدہ اٹھانا چاہے گا تو اسی حال میں فائدہ اٹھا سکے گا کہ وہ ٹیڑھی ہوگی، تو جو کچھ بھی ملے وہ اس پر راضی رہے۔ اگر وہ اسے سیدھا کرنا چاہے تو وہ کبھی بھی سیدھی نہیں ہوگی اور وہ اس پر کبھی بھی قدرت نہیں پاسکے گا۔ اگر وہ اپنے دین میں سیدھی ہوگی تو اپنے مزاج کے تقاضے کے مطابق کبھی بھی سیدھی نہیں ہوگی۔ ہر چیز میں وہ اپنے شوہر کے لیے ویسی نہیں ہوگی جیسے وہ چاہتا ہے، بل کہ مخالفت ضرور ہوجائے گی۔ اس سے کوتاہی بھی ضرور ہوگی، اس کوتاہی کے ساتھ ساتھ جو اس میں پہلے سے ہی موجود ہے۔ تو یہ اپنی فطرت اور مزاج کے تقاضے کے مطابق قاصر ہے اور اس میں کوتاہی کرنے والی بھی ہے۔ اگر تم اس کو سیدھا کرنا چاہو گے تو تم اس کو توڑ دوگے اور اس کا ٹوٹنا اس کی طلاق ہے یعنی اس کا معنی یہ ہے کہ اگر تم کوشش کرو کہ وہ تمہارے لیے اس طریقے پر سیدھی ہوجائے جیسے تم چاہتے ہو تو یہ ممکن نہیں۔ تب تم اس سے بے زار ہوجاؤ گے اور اس کو طلاق دے دو گے تو اس کا ٹوٹنا اس کی طلاق ہے۔
اﷲ تعالیٰ تم دونوں کو توفیق دے، اس بات پر حریص رکھے کہ باہم معاملہ، خیر خواہی، گفت گو کرتے وقت، نرمی اور رحمت تمہارے درمیان غالب رہے کیوں کہ ایسا کرنا احسان میں سے ہے۔ یہ ان اہم اسباب میں سے ہے جو المنان کی اجازت سے خوش نصیبی اور اطمینان کو کھینچ لاتے ہیں۔

روزنامہ ایکسپرس

اتوار، 23 اپریل، 2017

کوشش، استقامت اور کامیابی


باہمت چینی شخص نے مسلسل 36 برس تک محنت کرکے تین پہاڑوں سے گزارنے کے بعد آخر کار اپنے گاؤں تک پانی پہنچادیا۔
ہوانگ دافا نامی یہ چینی شہری دور افتادہ گاؤں کے سردار ہیں جہاں تین عشروں قبل پانی کی شدید قلت تھی۔ لیکن ہوانگ نے تہیہ کرلیا کہ وہ یہاں پانی ضرور پہنچائیں گے۔ اس کے لیے انہوں نے 36 سال قبل ایک چھوٹی نہر کھودنے کا ارادہ کیا جو کہنے کو تو صرف 10 کلومیٹر طویل ہے لیکن وہ 3 دشوار گزار پہاڑوں سے گزرتی ہے۔
1959 میں ہوانگ نے نہر کھودنے کا آغاز کیا اور مسلسل 36 سال تک آگے بڑھتے رہے، اس دوران وہ اونچے نیچے 3 پہاڑوں سے بھی گزرے اور اب ان کےگاؤں میں پانی آرہا ہے۔ اس سے قبل گاؤں میں پینے کا پانی تک نہ تھا اور زراعت کے پانی کا تو سوال ہی نہ تھا۔ اس کے بعد پانی کی راشن بندی کی گئی اور پھر 330 مربع میٹروسیع چاول کا آخری کھیت بھی سوکھ کر ختم ہوگیا۔ہوانگ نے گاؤں والوں کو یقین دلایا کہ وہ 10 کلومیٹر دور دوسرے گاؤں سے پانی لائیں گے جس پر لوگوں نے کہا کہ یہ ایک ناممکن عمل ہوگا لیکن کوئی دوسرا راستہ موجود نہ تھا۔ اس کام کا سب سے سخت مرحلہ پہاڑ میں 100 میٹر لمبی سرنگ کھودنا تھی جسےتمام دیہاتیوں نے اپنے ہاتھوں سے کھودا جس میں 10 برس لگے۔
اس کے لیے خود ہوانگ نے ایک یونیورسٹی میں پانی کے بہاؤ اور ندیوں کی تعمیر کا علم حاصل کیا اور اسے آزمایا۔ 1990 میں وہ دوبارہ تعلیم حاصل کرکے گاؤں واپس آیا اور دوستوں سے دوبارہ کوشش کرنے کو کہا اس کے بعد نہر کھودنے کا کام تیزی سے آگے بڑھا۔
1995 میں 7200 میٹر نالی اور اس کی 2200 میٹر طویل شاخ تیار تھی اور گاؤں میں پانی آنا شروع ہوگیا تھا اور اب بہتا ہوا پانی دو دوسرے گاؤں کو بھی پہنچنے لگا تھا۔
پانی نے گاؤں میں کھیتی باڑی کی صورت میں خوشحالی کا عہد شروع کردیا۔ اب یہاں موجود 1200 افراد پانی سے فائدہ اٹھارہے ہیں اور سالانہ 40 لاکھ کلو تک چاول اگاتے ہیں۔
روزنامہ ایکسپرس


ہفتہ، 22 اپریل، 2017

حضرت ذوالنون مصری رحمتہ اللہ علیہ

حضرت ذوالنون مصری  رحمتہ اللہ علیہ
آپؒ  کا نام ثوبان  اور نسل کے اعتبار سے  ؒ نوبی ہیں(حبشی قبیلہ)  ۔آپؒ  درجہ امامت  پر فائز ، جلیل القدر محدث اور آپؒ  کا شمار حضرت امام مالک  ؒکے تلامذہ   میں ہوتا ہے ۔آپؒ نے مصائب اور ملامت  کا  راستہ اختیا ر کیا جس کے امام حضرت اویس قرنی  رضی اللہ عنہ ہیں ۔ صوفی   کے ہاں  ملامت  کا  مطلب یہ  ہے شریعت مطاہر ہ کو اس طرح اختیا رکرنا اور اس  پر عمل پیرا ہونا  کہ دنیا سے  اس  کا کوئی اجر نہ چاہنا  ۔ آپ ؒ زہد، ورا، تقویٰ ، عبادت  اور معارفتِ الہی  کے امام  ہیں  لیکن حال یہ ہے کہ  اردگرد  کسی  کو خبر نہیں  ہے   یعنی آپؒ  نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ اپنے  تعلقات  کو  کسی  پر ظاہر  نہیں ہونے دیا ۔ یہ کڑی حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ سے  ملتی ہے کہ  آپ رضی اللہ عنہ کی  بارگاہِ رسالتﷺ میں مقبولیت  کا عالم یہ ہے کہ خلفاءراشدین کو  کہاجاتا ہے کہ ان سے  جا کر اپنے  لیے اور امت  کے لیے دعاکروائیں اور ادھر حال یہ  ہےکہ اہل یمن  انہیں دیوانہ سمجھتے ہیں۔ اتنے بڑے محدث  ہونے  کے باوجود آپؒ  نے مسند بچھاکر  اس طرح کام شروع نہیں کیا بلکہ اپنے کمالات اورمقامات   کومخلوق سے چھپایا اور پھر ان کااجربھی  اللہ تعالیٰ ہی  سے مانگا ۔اللہ تعالیٰ کا قانون ہے  کہ  جو اللہ تعالیٰ   کےآگے جھکتا ہے اللہ تعالیٰ اس کو بلندی عطا فرماتا ہے ۔ آج  اگر کسی  صوفی کو پرکھنا  ہو تو اس  کسوٹی اور احوال  پر پرکھا جائےگا ۔جب آپؒ کا وصال ہوا تو اس وقت آپؒ کی پیشانی پر یہ جملہ لکھا ہوا تھا :"یہ اللہ کا دوست ہے جو اللہ کی محبت میں انتقال کر گیا اور یہ اللہ  کا شہید ہے۔" اس رات  ستر افراد نے حضور اکرم ﷺ کی زیارت کی آپﷺ نے فرمایا:" خدا  کا محبوب بندہ دنیا سے رخصت ہو  کر آ رہا ہے  میں اس  کے استقبال  کے لیے آیا ہوں " وصال کے  بعد اللہ تعالیٰ نے ان کی شان  اور عظمت  کو یوں ظاہر فرمایا کہ  ہزاروں کی تعداد میں پرندوں نے پر سے پر ملا کر آپ ؒکے جنازے پر  سایہ کیے  رکھا جس  کو دیکھ   کراہلِ مصر بہت شرمسا ر ہوئے  اور  انہوں نے اپنی  کی ہوئی زیادتیوں پر توبہ کی  ۔
حضرت ذوالنون مصریؒ  فرماتےہیں :"عارف شخص  کی خشیت میں  روزانہ اضافہ ہوتا  رہتا ہے  کیونکہ وہ ہر گھڑی  اپنے پروردگار  کے اور زیادہ قریب ہوتا چلا جاتا ہے۔"حضرت داتا گنج بخش ؒ اس کا مطلب بیان کرتے ہوئے فرماتےہیں کہ اللہ تعالیٰ کی قربت  کی وجہ سے  عارف شخص زیادہ ڈرتا ہے  اور زیادہ خشوع وخضوع  کا اظہار کرتا ہے ۔جیسا کہ بعض دفعہ صحابہ  کرام رضی اللہ عنہ آپﷺ  کے ظاہر ی اور باطنی احوال   کو دیکھ کر  متغیر ہو  جایاکرتے تھے اور ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی تھیں کہ یارسول اللہ ﷺ، آپ کیوں اتنی زحمت فرماتے ہیں ، کیوں  اتنی مشقت فرماتےہیں  آپﷺ جواب دیتے  کہ" جب رب تعالیٰ نے  مجھ پر اتنی  نوازشا ت  کی ہیں ، اتنی مہربانیاں کی ہیں  تو کیا  میں اس  کا شکر گزار بندہ نہ بنوں۔ " کیفیات ِ قرب بندے کو اس  شکر گزاری اور کمالِ خشیت کی طرف لےجاتی ہیں  کہ دیکھنے والا حیران ہو جاتا ہے  اور سمجھتا ہے کہ یہ کوئی گنہگار  آدمی ہے ۔ وہ اس کے رونے  کو ، اس کی خشیت کو  اوراس کے  گڑگڑانے  کو بارگاہِ الہیٰ میں دیکھ کر  یہ نہیں  سمجھ پاتا  کہ  یہ  کوئی بہت بڑا بزرگ ہے  بلکہ اس  کو لگتا ہے کہ  یہ بہت ہی گنہگار آدمی ہے جو اپنے گناہوں کو یاد  کرکے رو رہا ہے ۔ حضرت خواجہ فرید الدین عطارؒ  فرماتے ہیں کہ "معارفت تو اس کی ذات میں فنا ہونے کا مقام ہے اور جو فانی  ہی نہیں ہوا وہ عارف  کیسے  ہو سکتا ہے۔" حضرت سعدی شیرازیؒ فرماتےہیں "جب دربارِ سلطان  میں  کسی  کا قرب بڑھتاجاتا ہے  تو وہ اتنا ہی خوفزدہ رہتاہے  کہ کہیں  مجھ  سے  کوئی ایسا عمل  نہ ہو جائے جس سے میرا  بادشاہ مجھ سے ناراض نہ ہوجائے ۔"
حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بارے میں منقول ہے کہ ایک دفعہ آپؑ نے بارگاہِ رب العزت  میں عرض کی:
"ائے میرے پروردگار  ؛ میں تجھے کہاں تلاش کروں ؟"
اللہ تعالیٰ  نے فرمایا :ٹوٹے ہوئے دلوں میں ۔"
حضرت موسیٰ ؑ نے عرض کی : کیا میرے دل  سے بھی ٹوٹا  ہو ا کوئی دل ہے ؟ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا:" میں وہیں ہوں  جہاں تم ہو ( یعنی تمہارے دل  کے پاس)۔"
خشو ع و خضوع  کے بغیر معرفت کا دعویٰ کرنے والا شخص صوفی نہیں ہوتا ، جاہل ہوتا ہے۔ ارادت کی سچائی  معرفت کی حقیقت کی علامت ہے  اور ارادت کی سچائی اللہ تعالیٰ  کی ذات کے علاوہ  ہر چیز  سے انسان کے تعلق اور نسبت   کو ختم  کر دیتی ہے۔
حضرت ذوالنون مصری ؒ فرماتے ہیں :
"اللہ  کی زمین میں سچائی اللہ کی تلوار ہے  یہ  جس چیز پر رکھی جاتی ہے اس   کوکاٹ دیتی ہے۔"
حضرت داتا گنج بخشؒ فرماتےہیں: سچائی یہ ہےکہ انسان سبب پیدا کرنے کےوالی ذات  کی طرف دیکھے ، عالمِ اسباب کی طرف نہ دیکھے جب انسان  کی توجہ سبب کی طرف  ہو جاتی ہے تو وہاں  سے سچائی  کا حکم  ختم ہو جاتاہے۔اسباب کو دل سے نکال دینا اور فائدہ بخش چیز  کو لے لینا  اور نگاہ اللہ تعالیٰ پر رکھنا  اس  کی حدود کا خیال کرنا توکل  علی اللہ کہلاتا ہے۔
ایک دفعہ حضرت ذوالنون مصریؒ  اپنے ساتھیوں کے ساتھ کشتی  میں دریائے نیل  میں سفر کر رہے تھے  سامنے سے ایک کشتی آرہی تھی ، دور سے محسوس ہوا کہ  وہ لوگ  لہوو لعب میں  مشغول ہیں  اور مستیاں کر رہے ہیں۔ یہ بات آپؒ  کی مریدین کو بہت ناگوار گزری  انہوں نے آپؒ سے درخواست کی :شیخ ؛ آپ دعا کریں  کہ اللہ تعالیٰ ان سب لوگوں کو غرق کر دے تاکہ ان کی نحوست  ختم ہو جائے۔آپؒ نے دعا کےلیے ہاتھ اٹھائے اور عرض کی :"ائے میرے معبود؛ ان لوگوں کوتونے  دنیا میں اچھی زندگی دی ہے  تو انہیں آخرت میں بھی اچھی زندگی عطا فرما۔"
آپؒ کی یہ دعا سن کر مریدین  بہت حیران ہوئے ۔ جب کشتی قریب آ گئی اور  اس کشتی کے  لوگوں نےآپؒ کو  دیکھا تو ان پر رقت طاری ہو گئی  اور وہ رونے لگے  انہوں نے اپنے موسیقی کے آلات توڑ دیئے  اور توبہ  کر کے اللہ تعالیٰ  کی طرف رجوع کیا ۔یہ دیکھ آپؒ نے مریدین سے فرمایا:"آخرت میں اچھی زندگی اس وقت ملتی ہے  جب دنیا میں سچی توبہ نصیب ہو جائے۔ تم نے دیکھا تمہار ا مقصد بھی حل ہو گیا  اور ان لوگوں کا فائدہ  بھی ہوگیا  اور کسی  کو  کوئی تکلیف  نہیں ہوئی۔"
یہ واقعہ  حضرت ذوالنون مصری ؒ  کی مخلوق پر انتہائی شفقت  پر دلالت کر تا ہےآپؒ کی  یہ خوبی  نبی اکرمﷺ  کے ارشادات  کی  پیروی  کو ظاہر  کرتی ہے،آپﷺ کو کفار کی جانب سے  بہت  زیادیتوں  کا سامناکرنا پڑا  لیکن اس کے باوجود آپ ﷺ کبھی رنجیدہ  اور خفا نہیں ہوئے  بلکہ آپﷺ یہی ارشاد فرماتے :
"ائے اللہ: میری قوم کو ہدایت عطا کر دے  کیونکہ  وہ  لوگ مجھے  جانتے  نہیں ہیں۔"
حضرت ذوالنون  مصری ؒ فرماتےہیں  : میں ایک مرتبہ  بیت المقد س سے  مصرآرہا تھا ، راستےمیں، میں نے کسی  کو دور  سے آتے دیکھا  میرے ذہن میں یہ بات آئی  کہ  کوئی سوال  کرنا چاہیے جب و ہ شخص قریب آیا  تو وہ ایک بوڑھی عورت تھی  جس نے اونی جبہ پہنا ہوا تھا  اور اس کے ہاتھ میں ایک عصا تھا ۔  میں  نے اس سے دریافت کیا " کہاں سے آرہی ہو ؟ اس نے جواب دیا : اللہ تعالیٰ کی طرف سے ،  میں نے دریافت کیا : کہاں جانے کا ارادہ ہے ؟ اس نے  جواب دیا: اللہ تعالیٰ کی طرف ۔ آپؒ فرماتےہیں : میرے پاس  کچھ دینا ر تھے  میں نے  نکال کر اسے دینا چاہے  تو اس نے  میر ی طرف ہاتھ کے  اشارے سے ناراضگی   کا اظہار  کرتے  ہوئے  کہا :ائے ذوالنون ؛تمہارے ذہن میں جو خیال آیا  ہے یہ تمہار ی عقل  کی  کمزوری کی وجہ سے ہے ،  میں خدا  کےلیے  کام کرتی ہوں  اس کے علاوہ اور  کسی سے  کچھ نہیں لیتی  اس کے علاوہ  کسی اور  کی  عبادت  نہیں کرتی۔یہ بات کہہ کر وہ  بوڑھی عورت مجھ سے  جدا ہو گئی۔
حضرت داتا گنج بخشؒ  اس حکایت کا  لطیف نکتہ بیان کرتے ہوئے  فرماتے ہیں کہ  ا س بوڑھی عورت  نے یہ کہا تھا: میں اس کےلیے یہ کام کرتی ہوں  ، ا س کی یہ بات اللہ  تعالیٰ کے ساتھ  اس کی سچی محبت کی دلیل  ہے ۔
کسی  عارف کا قو ل ہے کہ " میں ہر  کام  میں نیت  کو پسند کرتا ہوں حتیٰ کہ  کھانے پینے میں، سونے  جاگنے میں اور بیت الخلاء جانے  میں ۔ جو شخص  اس  لیے کھانا کھائے  کہ عبادت کی قوت قائم رہے ، جماع  کرنے  میں  اپنی نگاہوں کی حفاظت  ہو، نیک اولاد ہو،  شریک حیات  خوش ہو اور حضوراکرمﷺ  کے امتیوں  اور اللہ تعالیٰ کے عبادت گزاروں  کی تعداد میں اضافہ کرنا مقصود  تو ایسے  بندے  کا شمار  اطاعت  کرنے والوں  میں  ہوگا۔
 حضرت داتا گنج بخش ؒ   فرماتے ہیں کہ  معاملات میں لوگوں  کی دو قسمیں ہوتی ہیں :
 کچھ لوگ ایسے ہیں جو عمل کرتےہیں  اور سمجھ رہے ہوتےہیں  کہ  وہ خدا  کےلیے عمل  کر  رہےہیں  حالانکہ  درحقیقت  وہ  اپنے لیے عمل کر رہے  ہوتے ہیں، اگرچہ ان کی نفسانی خواہش  اس عمل  سے تعلق  نہیں رکھتی  لیکن انہیں آخرت  کے ثواب  کا لالچ ضرور ہوتا ہے ۔ کچھ  لوگ وہ ہوتے ہیں  جن  کا آخرت  کے عذاب و ثواب  سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا  اور دنیا کی  نمودو نمائش  کے  ساتھ بھی ان کا  کوئی  واسطہ  نہیں ہوتا  وہ جو کچھ بھی کرتے ہیں  اللہ تعالیٰ کےحکم کی تکمیل  کے لیے  کرتےہیں اور  اللہ تعالیٰ  کی محبت  اس کے حکم  کی تعمیل  میں اپنی  غرض کو چھوڑنے  کا تقاضا کرتی ہے ۔ پہلے طبقے کے لوگ سمجھتےہیں  کہ  جو کچھ آخرت  کے لیے وہ کر رہےہیں  وہ اللہ تعالیٰ  کےلیے کر رہےہیں  اور انہیں اس بات  کا علم ہے  کہ اللہ تعالیٰ کی فرنبرداری  کےنتیجے  میں  انسان کو  اجر وثواب  حاصل ہوتا ہے  جو کہ گنہگار  کو حاصل نہیں ہوتا اس کی وجہ یہ ہےکہ گنا ہ کے نتیجے میں  حاصل ہونےوالی لذت  عارضی ہوتی ہے  اور فرمانبرداری  کےنتیجے میں حاصل ہونے والی  خوشی دائمی ہوتی ہے۔
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتاہے کہ :
"او جو شخص مجاہدہ کرتا ہے تو وہ اپنی ذات کے لیے ہی مجاہد ہ کرتا ہے بے شک اللہ تعالیٰ تمام جہانوں سے بے نیاز ہے۔"(العنکبوت:6)
اس لیے بعض لوگ  عافیت کے  لیے  اطاعت کرتےہیں اور سمجھتےہیں کہ ہم  اللہ تعالیٰ کے لیے ایسا کر رہےہیں لیکن محبوب کے راستے پر چلنا اور چیز ہوتی ہے  ایسے  لوگوں کی  کی نگاہ  کسی اور چیز کی طرف نہیں اٹھتی ۔ علم  معاملہ  کی  انتہاءعلم  مکاشفہ ہے  جبکہ علمِ مکاشفہ  اللہ تعالیٰ کی معرفت ہے  اور یہ وہ  نور ہے  جسے اللہ تعالیٰ  اس  بندے کے دل  میں ڈالتا ہے کہ جس نے عبادت  و مجاہدہ  کے ذریعے  اپنے باطن کو آلائشوں سے پاک کیا ہو۔
یہ بات  یاد  رہنی چاہیے  کہ اللہ تعالیٰ مخلوق کے مجاہدے  سے بے نیاز ہے اگر  مخلوق اس کی عباد ت نہیں کرتی  تو اس سے اللہ تعالیٰ کو  کوئی نقصان  نہیں ہوگا  اگر ساری دنیا  کے لوگ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ  جتنے عبادت گزار ہو جائیں تو اس  کا ان لوگوں کو فائدہ ہوگا ، اس  کا اللہ تعالیٰ کی ذات  کو  کوئی فائدہ نہیں ہوگا  اور اگر ساری دنیا کے لوگ فرعون کی طرح  اللہ تعالیٰ کا انکار کر دیں تو اس   کا نقصان  بھی انہیں  کو ہوگا  ، اللہ تعالیٰ کی ذات کو  اس  کا  کوئی نقصان نہیں ہوگا۔ جیسا کہ ارشادِ باری  تعالیٰ  ہے:
"اگر تم اچھائی  کرو گے تو تم  اپنے لیے اچھائی کرو گے  اور اگر تم برائی کرو گے تو یہ بھی تمہارے  لیے ہی ہوگی۔"(بنی اسرائیل:7)

 اس حقیقت سے  کسی  کو انکار نہیں  ہو سکتا کہ دنیا میں  تھوڑی  سی زندگی گزارنے کے بعد ہر شخص نے بارہ گاہِ الہیٰ  میں حاضر ہونا ہے  اور اپنے اعمال  کا حساب دینا ہے  جس کے اعمال اچھے ہوں  گے وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کے سبب  جنت میں  جائے گا  ،اعلیٰ  نعمتیں اس   کا مقدر  بنیں گی  جبکہ  جس کے اعمال اچھے  نہیں ہوں گے  وہ سزا  کا مستحق ٹھہرے گا۔نجات اسی میں ہے کہ  ہم اللہ تعالیٰ  اور اس کے حبیب ﷺ کے  احکامات  پر عمل کریں  نیکیوں کا ذخیرہ اکھٹا کریں  اور گناہوں سے پرہیز  کریں تاکہ  آخرت  میں اس   کی رحمت کے سبب   کامیابی  نصیب  ہو۔

جمعہ، 21 اپریل، 2017

حضرت بشر حافی رحمتہ اللہ علیہ


آپؒ  کا نام  بشر ،  کنیت ابوالنصر ، اور لقب حافی  ہے ۔ آپؒ  کی ولادت  مرو  میں  ہوئی ۔ آپؒ تخت وتاج  ہیں ، تاج بلند  چیز ہے جو شخص مسند آرائے معارفت  ہو وہی تاجِ اہل معاملت  ہو سکتا ہے اہل  معاملت  وہ ہوتے  ہیں  جن کا  براہِ راست  رب تعالیٰ سے معاملہ ہوتا ہے ۔ آپؒ سریر ِ معارفت ہیں، سریرِ تخت ، مسند ، یا بلند جگہ کو  کہا جاتا ہے ۔ جب کسی  کوتشبیہ  دی جاتی ہے تو  کہا جاتا ہے  کہ فلاں شخص  شیر جیسا   بہادر ہے  لیکن اگر وہ اس سے بھی زیادہ  بہادر ہو تو   کہاجاتا ہے کہ  وہ شیر ہے اس لیے  آپؒ صاحبِ سریرِ معارفت  نہیں بلکہ  خود سریرِ معارفت ہیں  گویا  کہ جو آپؒ کے پاس سے گزر جائے  اسے بھی  معارفت نصیب ہو جا تی  ہے  ، جو پاس بیٹھ جائے  اسے بھی معارفت نصیب ہو جا تی  اور جس کو آپؒ کے ساتھ نسبت ہو جائے اس  کو بھی معارفت نصیب ہو جا تی  ہے۔ حضرت  ابو النصر بشرالحافی ؒ ان  جلیل القدر اولیائے کرام  میں سے ہیں جن کا ایک ایک قول، ایک ایک فعل آنے والے  اہل طریقت کے لیے مرشد کا حکم رکھتا ہے۔  
 توبہ اور روحانیت  کے حوالے سے کسی نے پوچھا  "حضور آپ ؒ کیسے  اس طرف آئے " آپؒ نے جواب دیا "بھئی ہم تو  دنیا داری،شراب نوشی اور دوستوں  کی   محفل میں رہتے تھے  ایک دفعہ اسی مستی میں جا رہے تھے  کہ زمین پر  ایک کاغذ کا ٹکڑا جس پر اللہ تعالیٰ  کا اسم ِ گرامی "﷽" لکھا ہوا  تھا گرا دیکھا  میری غیرت نے گوارا  نہ کیا  میں نے اس کو اٹھا یا، چوما پاس دو ہی  درہم  تھے ان سے مشک اور  گلاب کا عطر خریدا اورپاس ندی  میں جاکر اس کو دھویااور  گھر  کی راہ لی اورساری راہ اس  کو چومتے رہے اور گھر جا کر اس کو   اونچی جگہ پر رکھ دیا  ۔" غورطلب بات یہ ہے کہ  جو شخص نشے میں ہوتا ہے  وہ اپنے نشے  کے بدلے  میں  پوری دنیا  وار  سکتا ہے  لیکن نشہ  نہیں چھوڑ سکتا  لیکن آپ ؒ نشے کی حالت میں   ندی   میں  اتر  گئے ۔ ادب  کرنے کا انعام  اللہ تعالیٰ نے آپؒ  کویوں دیا  کہ اسی رات  اپنا دیدار کرایا اور  کہا "ائے بشر ؛تو نے میرے نام بلند کیا  میں تیرے نام کو بلند کروں گا ، تونے میرے نام کو معطر کیا  میں تیرے نام کو معطر کروں گا  اور ایسا خوشبودار کر دوں گا  کہ قیامت تک لوگ تیرا نام محبت سے لیں گے اور تیری  محبت  لوگوں کے دلوں میں ڈال دوں گا ۔" یہ چیز پانے کے لیے  لوگ صدیوں سفر کرتے ہیں پھر بھی  یہ انعام نہیں ملتا  جبکہ آپ ؒ نےصدیوں کا سفر لمحو ں میں طےکر لیا ۔  توبہ کے بعد آپؒ نےحضرت فضیل بن عیاض ؒ  کی صحبت اختیار کی اور  اپنے ماموں حضرت  علی بن خشرم ؒ سے  بیعت کی اور ساری  زندگی  بغداد میں گزاری۔
 جس جگہ پر اللہ تعالیٰ  کا اسمِ گرامی  گرا  ہوا ہو  وہاںملائکہ اس کی حفاظت پرمامور ہوتےہیں اور اس کا طواف کرتے رہتےہیں اس میں ایک حکمت یہ ہے کہ انہیں حکم ہوتا ہے کہ انہیں اٹھانا  نہیں ،انہیں   کوئی اللہ  کا والی آکر اٹھائے گا ۔آج بھی  بعض ایسے اولیائے   کرام ہیں  جو سڑکوں پر بس یہی کا م کرتے ہیں ۔ حضرت مولانا روم ؒ فرماتےہیں " کسی قوم پر اس وقت تک عذاب  نہیں آتا جب تک  کسی صاحب ِ دل کا دل اس  قوم سے   نہ دکھ جائے  یعنی بے ادبی۔" ادب اللہ تعالٰی  تک پہنچے  کا شارٹ ترین راستہ ہے ۔ حضرت  مجدد الف ثانی ؒ  سے  کسی نے پوچھا کہ "حضور آپ کو اتنا بڑا قرب کا مقام کیسے مل گیا " آپؒ فرماتے ہیں " ایک دفعہ  میں بیت الخلاء گیا وہاں  میں نے  مٹی کا ٹوٹا ہوا پیالہ دیکھا اس پر اللہ تعالیٰ کا  اسمِ گرامی  لکھا ہوتا تھا  میرے ضمیر نے گوارا نہیں  کیا میں فوری  طورپر  اس  پیالے کو  وہاں سے اٹھا    کر لے آیا اور اس  اسمِ گرامی کو دھویا، خوشبو لگائی ، پاک کیا ، چوما اور اس  کو پانی پینے کے لیے رکھ لیا جب تک اس  سے   پانی پینا ممکن رہا میں پانی پیتا رہا  ، جونہی  میں نے یہ عمل کیا  مجھے اللہ  رب العزت کی بارگا ہ سے  حالتِ قیومیت عطا ہوئی  کہ  "تم نے ہمارے  نام  کا ایسا احترام کیا ہے جیسا کسی نے نہیں کیا  تم نے حق ادا کر دیا  ہے اب ہم  بھی تمہاری بزرگی  اور مراتب  کی بلندی کا حق ادا کریں گے   ۔ "
یہ ادب کی انتہاہے  آج ہمیں  ان اداؤں  کو اپنانے کی ضرورت ہے ۔  آج  ہم گھروں میں قرآن ِ پاک رکھ  کر بھول  جاتے ہیں  کہ کہاں  رکھا ہوا ہے ، کیلنڈروں پر مقدس  آیات، مزارات پر چڑھنے والی چادریں  ان کی بے ادبی  ہورہی ہوتی ہے ۔ اس مجموعی بے ادبی کی وجہ سے ہم  لوگ گرفت میں  ہیں اور  بے برکتی  کا شکار ہیں۔ اس  زمین  کی بقا  کی زمانت ہی ادب ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی شان ہے  کہ  وہ قہار  ہے، ستار ہے بڑا مہربان ہے ، تما م انسانوں کا رب ہے وہ تمام تر بد اعمالیوں کے  باوجود مہلت دیتا ہے   لیکن جونہی بے ادبی  اور گستاخی ایک حد سے آگے بڑھتی ہے تو  وہ مہلت  ختم ہو جاتی ہے۔آج  ہم اپنے گھروں ، اپنے اردگرد ، اپنے مدارس  اور مساجد میں دیکھیں  جہاں کہیں بھی مقدس اوراق  ملیں انہیں اٹھا کر علیحدہ محفوظ جگہ پر رکھیں جائیں  تب جا کر  ہم  پر دوبارہ  ولائیت   راستے  کھلیں گے ، تب آسمان سے  برکتیں اتریں گی  اور اللہ تعالیٰ کا فضل نصیب ہوگا ۔ اعلیٰ حضرت احمد رضا خان بریلوی ؒ فرماتے  ہیں "سادہ کاغذ کا بھی ادب ہے ، خالی قلم  کابھی  ادب  ہے "، جو بچے  سکول  کے  کام  کرتے ہیں والدین ان  کو بتائیں    کہ بیٹا  کاغذ ، کاپی ، پینسل کو  پاؤں نہ لگنے پائیں ان کا بھی ادب کریں۔
 آپؒ  کا لقب حافی  ہے  جو ننگے  پاؤں پھرنے کی وجہ سے پڑا  ہے ،ایک دفعہ آپؒ ننگے پاؤں جا رہے تھے  کہ  کسی نے کہا کہ" حضرت آپ ؒ جوتا  کیوں  نہیں پہنتے " آپؒ نے فرمایا" میں  نہیں چاہتا کہ  زمین  جو اللہ تعالیٰ کا فرش  ہے  اس کے درمیان  میر ی  جوتی حائل  ہو ۔"  اسی طرح  ایک دفعہ آپؒ اپنا جوتا  ہاتھ  میں پکڑ کر مرمت کروانے کے لیے موچی کے  پاس   گئےاس وقت  دکان پررش تھا جبکہ آپؒ جلدی میں تھے آپؒ رش  کو چیرتے ہوئے  موچی  کے پاس  گئے  اور کہا " میرا تھوڑا سا کام ہے   اس کو کر دو" موچی نے کہا " کیا تم نے ایک تسمے کی خاطر اتنے لوگوں کو تکلیف دی "اس کا یہ جملہ  آپ ؒ کے دل  کو لگ گیا  اور آپؒ نے دوسرا  جوتا  بھی اپنے پاؤں سے  اتار دیا  اور کہا "اگر اس وجہ سے  لوگوں کو تکلیف ہوتی ہے تو  میں  قسم  کھاتا ہوں   میں  جوتا  نہیں پہنوں گا ۔" پھر جب  تک زندہ ر ہے  بغداد کی گلیوں میں  ننگے پاؤں پھرتے رہے ۔
حضرت داتا گنج بخش ؒ فرماتے ہیں "مجاہدہ، مشاہدے کے آگے ایسے  ہےجیسے سمندر کے آگے  قطرہ"۔حضرت بشر حافی ؒ کا مجاہدہ  مشاہدے کے لیے نہیں  تھا  بلکہ مجاہد ہ  شکر گزاری  کے لیے  تھا  کیونکہ آپؒ  کا اللہ تعالیٰ سے تعلق  تو  بن چکا  تھا    لیکن آپؒ تعلق کو نبھانے  اور سنت رسول ﷺ کو پورا  کرنے کے لیے مجاہد ہ  کرتے ہیں ۔اس مجاہد ہ  کا مطلب یہ  نہیں کہ  بندہ منزل پر پہنچ گیا اور اس  کے اعمال ساکت ہو گئے اور عبادت  کی کوئی ضرورت  نہیں بلکہ یہی تو عبادت کا اصل   وقت ہوتا ہے  کہ جہاں اللہ تعالیٰ نے اتنی  مہربانیاں کی ہیں وہاں  نفس  کو مارنے کی خاطر   مجاہد ہ  نہیں  ہو سکتا۔ مجاہد ہ مشاہدے کے لیے ہوتا ہے  یعنی مجاہدہ مقدمہ ہے مشاہدے کا  لیکن  آپؒ کے ہاں  یہ معاملہ الٹ ہے  یہاں پر مشاہدے کے بعد  مجاہدہ ہے۔
حضرت بشر حافی ؒ فرماتے ہیں "جو شخص یہ چاہتا ہوکہ دنیا اور آخرت میں  اسے عزت ملے اسے تین چیزوں سے اجتناب کرنا چاہیے ، وہ  کسی سے اپنی حاجت طلب نہ کرے ، کسی شخص  کی برائی  نہ کرے اور کسی شخص کی دعوت قبول نہ کرے۔" اس   کا مطلب یہ ہے کہ جس شخص کو اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل ہو جاتی ہے اسے پھر  مخلوق  کی ضرورت  نہیں  رہتی   اور جو شخص مخلوق کی ضرورت کو محسوس کرے   اسے معرفت نصیب  نہیں ہوتی کیونکہ جب وہ مخلوق  کے سامنے  اپنی ضرورت بیان کرے گا تو مخلوق کے سامنے اپنی  عاجزی پیش کرنے کی وجہ سے ذلیل وخوار ہوگا۔  برائی کے ساتھ ذکر  نہ  کرنے  کا مطلب یہ ہے کہ کسی شخص کی ان باتوں کو بیان کرنا  جو اس  کو ناپسند ہوں یہ غیبت کہلاتی ہے ۔ غیبت  کے  متعلق قرآن مجید میں ارشادِ پاک  ہے:
"اور ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو ۔ کیا تم  میں  کوئی  یہ پسندکرےگا  کہ اپنے  مرئے  ہوئے بھائی  کا گوشت کھائے ؟تویہ تمہیں گوارا نہیں ہوگا۔ (پارہ26، الحجرات:12)"۔
 برائی کے ساتھ ذکر نہ کرنے  کا مطلب  یہ بھی ہے کہ انسان اور فعل دونوں اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں اور مخلوق کا  ذکر برائی کے ساتھ  کرنے کا مطلب یہ  ہےکہ اللہ تعالیٰ  کاذکر  برائی  کےساتھ کرنا البتہ   اللہ تعالیٰ نے  جن  کا ذکر برائی کے ساتھ  کیا ہے اس کا ذکر برائی کے ساتھ  کیا جائے گا  جیسے فاسق  و فاجر اور کفار وغیرہ۔کھانے کی دعوت قبول  نہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ مخلوق  کے ذریعے بندے کوروزی پہنچاتا ہے  تو بندے  کو چاہیے کہ  وہ مخلوق  کی طرف توجہ نہ دے بلکہ  یہ دیکھے  کہ یہ  رزق تو اللہ تعالیٰ نے پہنچایا  ہے   مخلوق تو صرف وسیلہ بنی ہے جس کے ذریعے  بندے تک  رزق پہنچ رہا ہو  اگر وہ  احسان جتائے تو پھر اس  کا رزق قبول نہیں  کرناچاہیے  کیونکہ  روزی   کے  معاملے  میں کسی کا  کسی پر کوئی  احسان نہیں ہوتا۔  لیکن  جس  کواللہ تعالیٰ نے  ذریعہ  بنا کر بھیجا ہو  اس کی شکرگزاری  ضرور کرنی چاہیے ۔آپؒ کا وصال 227ھ میں ہوا۔


بدھ، 19 اپریل، 2017

پیدل واک



ماہرین کا خیال ہے کہ خواہ تیز دوڑا جائے یا آہستہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا اور عمر میں اضافہ ہوتا ہے۔ آئیووا اسٹیٹ یونیورسٹی کے ماہرین نے ٹیکساس میں واقع کواوپر انسٹی ٹیوٹ کے ڈیٹا کا جائزہ لیا ہے جس میں جاگنگ کی عادت اور موت کے درمیان تعلق تلاش کیا گیا ہے جو اس سے قبل کی گئی تحقیقات کی تصدیق کرتا ہے۔ خواہ روزانہ آپ کتنا ہی چلیں یا کتنی ہی رفتار سے دوڑیں اس سے قبل ازوقت موت کا خطرہ 40 فیصد تک کم ہوسکتا ہے۔
اس سے قبل سائنسدانوں کی اسی ٹیم نے 55 ہزار بالغ افراد کا جائزہ لے کر انکشاف کیا تھا  روزانہ صرف 7 منٹ دوڑنے سے دل کے دورے کا خطرہ بڑی حد تک کم ہوسکتا ہے۔ اس کے بعد ایک اور سروے میں اگلے 15 برس تک شرکا کا جائزہ لیا جاتا رہا کہ مرنے والے 3 ہزار افراد میں ایک تہائی (33 فیصد) اموات ہارٹ اٹیک سے واقع ہوئی تھیں۔
اس رپورٹ کے مصنفین میں سے ایک پروفیسر ڈک چل لی نے بتایا کہ اس سروے میں ہم نے ایک گھنٹے، دو گھنٹے یا تین گھنٹے فی ہفتہ دوڑنے کے اثرات کا باریک بینی سے جائزہ لیا ہے۔ ان میں سے بعض شرکا نے اعتراف کیا کہ وہ فی ہفتے اوسط دو گھنٹے تک دوڑتے ہیں۔
سروے سے معلوم ہوا کہ چہل قدمی اور سائیکل چلانے سے قبل از وقت موت کا خطرہ 12 فیصد تک ٹل جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دوڑنے اور جسمانی ورزش سے ہائی بلڈ پریشر کو ٹالنے اور جسمانی چربی گُھلانے میں مدد ملتی ہے۔  اس کے علاوہ ایئروبک ورزشیں بھی بہت مفید ثابت ہوسکتی ہیں۔
ماہرین نے کہا ہے کہ اگر آپ 50 سال کے ہیں اور ہفتے میں ایک سے دو گھنٹے دوڑتے ہیں تو اس سے زندگی میں اوسط تین سال کا اضافہ ہوسکتا ہے۔

روزنامہ ایکسپرس

اتوار، 16 اپریل، 2017

جین کوم (Motivational & Success Story)

وہ اپنی ضد سے ایک انچ پیچھے ہٹنے کے لیے تیار نہ ہوا‘ اس کا کہنا تھا وہ اپنی زندگی کا سب سے بڑا معاہدہ شہر کی فلاحی عمارت میں کرے گا‘ فیس بک کی انتظامیہ تیار نہیں تھی لیکن یہ اس کی پہلی اور آخری خواہش تھی‘ سودا بڑا تھا‘ فیس بک یہ موقع ضایع نہیں کرنا چاہتی تھی لہٰذا یہ لوگ اس کی ضد کے سامنے پسپا ہو گئے‘ یہ کاغذات لے آئے۔
اسنیپ (SNAP) کی عمارت کے ویٹنگ روم میں پہنچے اور جین کوم کو تلاش کرنے لگے‘ وہ آخری کرسی پر سر جھکا کر بیٹھا تھا‘ وہ اس کے قریب پہنچے اور آہستہ آواز میں کہا ’’مسٹر جین وی آر ہیئر‘‘ اس نے ٹشو پیپر کے ساتھ آنسو صاف کیے‘ پین نکالا اور ہاتھ آگے بڑھا دیا‘ معاہدے کے کاغذات اس کے حوالے کر دیئے گئے‘ وہ دستخط کرتا چلا گیا‘ کاغذات ختم ہو ئے اور وہ 19 بلین ڈالر کا مالک بن گیا‘ وہ 38 سال کی عمر میں دنیا کے بڑے بلینئریز میں شامل ہو چکا تھا۔
جین کوم کی کہانی اس سینٹر سے شروع ہوئی تھی لیکن اس کہانی سے پہلے یوکرائن آتا ہے‘ وہ یوکرائن کے ایک غریب یہودی خاندان میں پیدا ہوا‘ خاندان عسرت میں زندگی گزار رہا تھا‘ گھر میں بجلی تھی‘ گیس تھی اور نہ ہی پانی تھا‘ گرمیاں خیریت سے گزر جاتی تھیں لیکن یہ لوگ سردیوں میں بھیڑوں کے ساتھ سونے پرمجبور ہو جاتے تھے‘ اس غربت میں 1992ء میں زیادتی بھی شامل ہو گئی‘ یوکرائن میں یہودیوں پر ایک بار پھر ظلم شروع ہو گیا‘ والدہ نے نقل مکانی کا فیصلہ کیا لیکن والد نے وطن چھوڑنے سے انکار کر دیا۔
ماں نے بیٹے کا ہاتھ تھاما‘ اٹیچی کیس میں بیٹے کی کتابیں بھریں اور یہ دونوں امریکا آ گئے‘ کیلیفورنیا ان کا نیا دیس تھا‘ امریکا میں ان کے پاس مکان تھا‘ روزگار تھا اور نہ ہی کھانے پینے کا سامان‘ یہ دونوں ماں بیٹا مکمل طور پر خیرات کے سہارے چل رہے تھے‘ امریکا میں ’’فوڈ سٹمپ‘‘ کے نام سے ایک فلاحی سلسلہ چل رہا ہے‘ حکومت انتہائی غریب لوگوں کو کھانے پینے کی اشیاء خریدنے کے لیے فوڈ سٹمپس دیتی ہے‘ یہ سٹمپس امریکی خیرات ہوتی ہیں‘ یہ لوگ اتنے غریب تھے کہ یہ زندگی بچانے کے لیے خیرات لینے پر مجبور تھے۔
جین کوم کے پاس پڑھائی کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا‘ یہ پڑھنے لگا‘ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پڑھائی مہنگی ہونے لگی‘ فوڈ سٹمپس میں گزارہ مشکل ہو گیا‘ جین کوم نے پارٹ ٹائم نوکری تلاش کی‘ خوش قسمتی سے اسے ایک گروسری اسٹور میں سویپر کی ملازمت مل گئی‘ اسٹور کے فرش سے لے کر باتھ روم اور دروازوں کھڑکیوں سے لے کر سڑک تک صفائی اس کی ذمے داری تھی‘ وہ برسوں یہ ذمے داری نبھاتا رہا‘ وہ اٹھارہ سال کی عمر میں کمپیوٹر پروگرامنگ کے خبط میں مبتلا ہو گیا‘ یہ شوق اسے سین جوز اسٹیٹ یونیورسٹی میں لے گیا‘ وہ 1997ء میں ’’یاہو‘‘ میں بھرتی ہوا اور اس نے نو سال تک سر نیچے کر کے یاہو میں گزار دیئے۔
2004ء میں فیس بک آئی‘ یہ آہستہ آہستہ مقبول ہو تی چلی گئی‘ یہ 2007ء میں دنیا کی بڑی کمپنی بن گئی‘ جین کوم نے فیس بک میں اپلائی کیا لیکن فیس بک کو اس میں کوئی پوٹینشل نظر نہ آیا‘ وہ یہ نوکری حاصل نہ کر سکا‘ وہ مزید دو سال ’’یاہو‘‘ میں رہا‘ وہ آئی فون خریدنا چاہتا تھا لیکن حالات اجازت نہیں دے رہے تھے‘ اس نے تھوڑے تھوڑے پیسے جمع کیے اور نیا آئی فون خرید لیا‘ یہ آئی فون آگے چل کر اس کے لیے سونے کی کان ثابت ہوا۔
جین کوم نے فون استعمال کرتے کرتے سوچا‘ میں کوئی ایسی ایپلی کیشن کیوں نہ بناؤں جو فون کا متبادل بھی ہو‘ جس کے ذریعے ایس ایم ایس بھی کیا جا سکے‘ تصاویر بھی بھجوائی جا سکیں‘ ڈاکومنٹس بھی روانہ کیے جا سکیں اور جسے ’’ہیک‘‘ بھی نہ کیا جا سکے‘ یہ ایک انوکھا آئیڈیا تھا‘ اس نے یہ آئیڈیا اپنے ایک دوست برائن ایکٹون کے ساتھ شیئر کیا‘ یہ دونوں اسی آئیڈیا پر جت گئے‘ یہ کام کرتے رہے‘ کام کرتے رہے یہاں تک کہ یہ دو سال میں ایک طلسماتی ایپلی کیشن بنانے میں کامیاب ہو گئے‘ یہ ’’ایپ‘‘ فروری 2009ء میں لانچ ہوئی اور یہ دیکھتے ہی دیکھتے مقبولیت کی حدیں کراس کر گئی‘ یہ ایپ ٹیلی کمیونیکیشن میں انقلاب تھی‘ اس نے پوری دنیا کو جوڑ دیا۔
یہ ایپلی کیشن واٹس ایپ کہلاتی ہے‘ دنیا کے ایک ارب لوگ اس وقت یہ ایپ استعمال کر رہے ہیں‘ یہ ایپ دنیا کا تیز ترین اور محفوظ ترین ذریعہ ابلاغ ہے‘ آپ واٹس ایپ ڈاؤن لوڈ کریں اور آپ دنیا کے کسی بھی کونے میں چلے جائیں آپ کو نیا فون اور نیا نمبر خریدنے کی ضرورت پڑے گی اور نہ ہی آپ کسی موبائل کمپنی کے ہاتھوں بلیک میل ہوں گے‘ آپ پوری دنیا کے ساتھ رابطے میں رہیں گے۔ جین کوم کو واٹس ایپ نے چند ماہ میں ارب پتی بنا دیا‘ یہ ایپلی کیشن اس قدر کامیاب ہوئی کہ دنیا بھر کی کمپنیوں نے اس کی خریداری کے لیے بولی دینا شر وع کر دی لیکن یہ انکار کرتا رہا۔
فروری 2014ء میں فیس بک بھی ’’واٹس ایپ‘‘ کی خریداری کی دوڑ میں شامل ہو گئی‘ فیس بک کی انتظامیہ نے جب اس سے رابطہ کیا تو اس کی ہنسی نکل گئی‘ اس نے خدا کا شکر ادا کیا اور قہقہہ لگا کر بولا ’’یہ وہ ادارہ تھا جس نے مجھے 2007ء میں نوکری دینے سے انکار کر دیا تھا‘‘ وہ دیر تک ہنستا رہا‘ اس نے اس ہنسی کے دوران ’’فیس بک‘‘ کو ہاں کر دی‘ 19 بلین ڈالر میں سودا ہو گیا‘ یہ کتنی بڑی رقم ہے آپ اس کا اندازہ پاکستان کے کل مالیاتی ذخائر سے لگا لیجیے‘ پاکستان کا فارن ایکسچینج اس وقت 22 ارب ڈالر ہے اور پاکستان 70 برسوں میں ان ذخائر تک پہنچا جب کہ جین کوم نے ایک ایپلی کیشن 19 ارب ڈالر میں فروخت کی۔
جین کوم نے فیس بک کے ساتھ سودے میں صرف ایک شرط رکھی’’میں فوڈ سٹمپس دینے والے ادارے کے ویٹنگ روم میں بیٹھ کر دستخط کروں گا‘‘ فیس بک کے لیے یہ شرط عجیب تھی‘ یہ لوگ یہ معاہدہ اپنے دفتر یا اس کے آفس میں کرنا چاہتے تھے لیکن وہ ڈٹ گیا یہاں تک کہ فیس بک اس کی ضد کے سامنے پسپائی اختیار کرنے پر مجبور ہو گئی‘ ایک تاریخ طے ہوئی‘ فیس بک کے لوگ فلاحی سینٹر پہنچے‘ وہ ویٹنگ روم کے آخری کونے کی آخری کرسی پر بیٹھا ہوا رو رہا تھا‘ وہ کیوں نہ روتا‘ یہ وہ سینٹر تھا جس کے اس کونے کی اس آخری کرسی پر بیٹھ کر وہ اور اس کی ماں گھنٹوں ’’فوڈ سٹمپس‘‘ کا انتظار کرتے تھے۔
یہ دونوں کئی بار بھوکے پیٹ یہاں آئے اور شام تک بھوکے پیاسے یہاں بیٹھے رہے‘ ویٹنگ روم میں بیٹھنا اذیت ناک تھا لیکن اس سے بڑی اذیت کھڑکی میں بیٹھی خاتون تھی‘ وہ خاتون ہر بار نفرت سے ان کی طرف دیکھتی تھی‘ طنزیہ مسکراتی تھی اور پوچھتی تھی’’تم لوگ کب تک خیرات لیتے رہو گے‘ تم کام کیوں نہیں کرتے‘‘ یہ بات سیدھی ان کے دل میں ترازو ہو جاتی تھی لیکن یہ لوگ خاموش کھڑے رہتے تھے۔
خاتون انھیں ’’سلپ‘‘ دیتی تھی‘ ماں کاغذ پر دستخط کرتی تھی اور یہ لوگ آنکھیں پونچھتے ہوئے واپس چلے جاتے تھے‘ وہ برسوں اس عمل سے گزرتا رہا چنانچہ جب کامیابی ملی تو اس نے اپنی زندگی کی سب سے بڑی کامیابی اس ویٹنگ روم میں منانے کا فیصلہ کیا‘ اس نے 19 بلین ڈالر کی ڈیل پر ’’فوڈ سٹمپس‘‘ کے انتظار میں بیٹھے لوگوں کے درمیان بیٹھ کر دستخط کیے‘ چیک لیا اور سیدھا کاؤنٹر پر چلا گیا‘ فوڈ سٹمپس دینے والی خاتون آج بھی وہاں موجود تھی‘ جین نے 19بلین ڈالر کا چیک اس کے سامنے لہرایا اور ہنس کر کہا ’’آئی گاٹ اے جاب‘‘ اور سینٹر سے باہر نکل گیا۔
یہ ایک غریب امریکی کے عزم و ہمت کی انوکھی داستان ہے‘ یہ داستان ثابت کرتی ہے آپ اگر ڈٹے رہیں‘ محنت کرتے رہیں اور ہمت قائم رکھیں تو اللہ تعالیٰ آپ کے لیے کامیابی کے دروازے کھولتا چلا جاتا ہے‘ جین کوم نے وطن چھوڑا‘ والد نے ساتھ جانے سے انکار کیا‘ وہ بے چارہ بیٹے اور بیوی کی صورت کو ترستا ہوا 1997ء میں یوکرائن میں انتقال کر گیا‘ جین نے خیرات لے کر تعلیم حاصل کی۔
گروسری اسٹور پر سویپر کا کام کیا اور وہ آخر میں اللہ تعالیٰ کے کرم سے کھرب پتی بن گیا‘ یہ داستان جہاں جین کوم کے عزم اور ہمت کی دلیل ہے یہ وہاں امریکی معاشرے کی وسعت اور فراخ دلی کا ثبوت بھی ہے‘ یہ ثابت کرتی ہے امریکا ایک ایسا ملک ہے جس میں کوئی شخص 1992ء میں آ کر خیرات کے پیسے سے تعلیم حاصل کرتا ہے اور صرف 24 برسوں میں کھرب پتی بن جاتا ہے اور یہ صرف امریکا میں ممکن ہے۔
ہم جہاں اس داستان سے جین کوم کا عزم سیکھ سکتے ہیں ہمیں وہاں اس داستان سے ایک ایسے معاشرے کا آئیڈیا بھی ملتا ہے جس میں صرف عزم اور محنت کاشت ہوتی ہو‘ جس میں ترقی صرف ترقی یافتہ لوگوں کی وراثت نہ ہو اور جس میں ہمیشہ کامیاب لوگ کامیاب لوگوں کو جنم نہ دیتے ہوں‘جس میں سب کے لیے محنت کے برابر مواقع موجود ہوں‘ میں جب بھی جین کوم جیسے لوگوں کی داستان پڑھتا ہوں۔
میرا دل دکھ سے بھر جاتا ہے اور میں سوچتا ہوں ہم مسلمان کس قدر بدقسمت ہیں‘ ایسے فراخ دل معاشرے کاخواب ہمارے رسولؐ نے دیکھا تھا لیکن یہ معاشرہ ٹرمپ جیسے لوگوں کے حصے آیا‘ ہم مسلمان ایسے معاشرے کب بنائیں گے‘ ہم اپنے رسولؐ کی خواہش کب پوری کریں گے‘ ہمارے معاشروں میں جین کوم جیسے لوگ کب پیدا ہوں گے‘ ہم کب 19بلین ڈالر مالیت کی ایپلی کیشنز بنائیں گے۔
(جاوید چودھری)


جمعہ، 14 اپریل، 2017

مرد و زن مختلف کیوں اور کیسے ہوتے ہیں

اگر مرد و عورت بیک وقت لوگوں سے بھرے ایک کمرے میں داخل ہوں اور پانچ منٹ بعد دونوں سے سوال کیا جائے کہ انہوں نے وہاں کیا دیکھا تو ’محترمہ‘ باآسانی یہ بتادیں گی کہ کمرے میں موجود کس عورت نے کون سا کپڑا زیب تن کیا ہوا ہے، فلاں کی قمیض کا کیا رنگ ہے، پرنٹ میں ہے یا کڑھائی میں، کس کس نے کیسے کیسے زیورات پہن رکھے ہیں، کس کے کان خالی ہیں اور کس کی کلائیوں میں چوڑی نہیں ہے، جبکہ دوسری طرف ’محترم‘ صرف میز پر موجود کھانے کی اشیاء معہ اقسام، اپنی اُن سے دوری اور کمرے میں موجود لوگوں کی تعداد پر گمان کے علاوہ شاید ہی کوئی اضافی جواب دے سکیں۔
ایک ماں کو شیر خوار کے رونے پر یہ اندازہ لگانے میں دقت نہیں ہوتی کہ آیا بچے کو بھوک لگی ہے، کہیں درد اُٹھا ہے یا کوئی دوسری فطری مجبوری ہے۔ اِس کے برعکس باپ کو بچے کا رونا فقط رونا ہی لگتا ہے اور وہ رونے کے انداز سے اُس کے پیچھے کارفرما وجہ و طلب جاننے سے قاصر ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں، اگر کسی مرد سے عورتوں کے متعلق انہونی کا سوال ہو تو وہ عورتوں کی محفل میں خاموشی کو بطور مثال پیش کرے گا۔
چنانچہ ذہن میں چند سوالات جنم لیتے ہیں کہ مرد و زن کے اِن رویوں کا فرق معاشرتی اثرات کی بدولت ہے؟ روایتی پرورش کے تابع ہے؟ یا مرد و عورت قدرتی طور پر ہی مختلف ہیں؟
اِس ضمن میں راقم نے سائنس سے رجوع کرتے ہوئے یہ کھوج لگانے کی کوشش کی ہے کہ تفاوتِ زنانہ و مردانہ سائنسدانوں کی نظر میں کیا ہے؟ جن میں سے کچھ نکات مندرجہ ذیل ہیں،
جسمانی ساخت اور حیاتیاتی موازنہ
مردوں کے پٹھوں کی کمیت و مقدار (muscle mass) نہ صرف کُلی طور پر زیادہ ہوتی ہے بلکہ پورے جسم کی بہ نسبت بھی عورتوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتی ہے۔ اِسی طرح مردانہ ہڈیاں، بافتیں اور ہڈیوں کے بندھن یعنی لگامنٹ (ligaments) گھنے اور مضبوط ہوتے ہیں۔ مردانہ دل وزن میں اور پھیپھڑا حجم میں بڑا ہوتا ہے۔ اِس کے علاوہ خون میں سرخ خلیوں کی تعداد اور اُن میں ہیموگلوبن کی مقدار بھی زیادہ ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مرد دراز قد، جسمانی طور پر مضبوط اور طاقتور ہوتا ہے۔
اِس کے برعکس ایک خاتون کے خون میں سفید خلیوں کی تعداد مرد کے مقابلے میں زیادہ ہوتی ہے اور عموماً اِس کا بلڈ پریشر نارمل حالت میں مرد سے نسبتاً کم ہوتا ہے۔ اِس کے علاوہ خواتین میں جسمانی دفاعی نظام کے محافظ (antibodies) پیدا کرنے کی شرح مردوں کی نسبت بہتر ہے۔ مرد میں بہرہ پن اور خاتون میں ڈپریشن میں مبتلا ہونے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ خواتین، مردوں کے مقابلے میں زیادہ جیتی ہیں یعنی اوسطاً یہ مردوں کی نسبت طویل عمر پاتی ہیں۔
بیماریوں کے خلاف مدافعت
عورتوں میں دل کا عارضہ لاحق ہونے کا امکان کم ہوتا ہے کیونکہ اِن میں اینٹی باڈیز پیدا کرنے کی شرح بہتر ہوتی ہے تو مردوں کے مقابلے میں اِن میں انفیکشن کے خلاف لڑنے کی صلاحیت بھی زیادہ ہوتی ہے۔ خواتین میں کلر بلائنڈ (colour blindness) اور ہیموفیلیا میں مبتلا ہونے کا امکان بھی نسبتاً کم ہوتا ہے کیونکہ اِن کے کروموسوم مختلف ہوتے ہیں۔

دماغی تقابل
نر‘ اور ’مادہ‘ دماغ سے متعلق تحقیق اور اِس کے نتیجے میں مرد و عورت کی صلاحیتوں کا مطالعہ و تشریح کافی عرصے سے  جاری ہے۔ اِس حوالے سے روایتی سوچ اور تعصب کا عنصر بھی زیرِ بحث آتا ہے۔
یہاں اِس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ دنیا میں ایسے افراد کی کمی نہیں جو مرد و عورت کی برابری کے علمبردار اور اِس بات کے داعی ہیں کہ دونوں دماغوں میں کوئی فرق نہیں ہے بلکہ معاشرہ، ماحول اور تربیت کسی بھی دماغ کو ’نر‘ اور ’مادہ‘ خصوصیات اپنانے میں اہم اور واضح کردار ادا کرتی ہے۔ وہ سائنسدانوں پر روایتی سوچ اور جانبدار تحقیق کرنے کا الزام بھی عائد کرتے ہیں کہ جس کی بدولت مرد و زن کے حوالے سے روایتی سوچ اور مروجہ خیالات کو تقویت دی جاتی ہے۔ اُن کے نزدیک ’نر‘ اور ’مادہ‘ دماغ میں کوئی فرق نہیں۔
بہرحال بے شمار سائنسی تحقیقات ’نر‘ اور ’مادہ‘ دماغ میں موجود فرق و خصوصیات کی طرف اشارہ کرتیں ہیں۔ جن کا خلاصہ یہاں پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
مردانہ دماغ کا وزن و حجم بڑا ہوتا ہے مگر اِس کا تعلق ذہانت کی کمی و زیادتی سے ابھی تک ثابت نہیں۔ نر و مادہ دماغ مختلف نیورو کیمیکلز کو مختلف مقدار میں استعمال کرتے ہیں۔ چنانچہ مرد زیادہ جارحانہ اور قوتِ محرکہ کے تابع ہوتے ہیں جبکہ خواتین صلح جُو ہوتی ہیں اور مار دھاڑ سے اجتناب برتتی ہیں۔
انسانی دماغ کو مختلف حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ہر حصے کا استعمال مختلف کاموں، صلاحیتوں اور رویوں میں مددگار ثابت ہوتا ہے، نیز یہ مختلف حصے آپس میں الیکٹرک سرکٹ کی مانند منسلک ہوتے ہیں۔ کسی ایک حصے کی دوسرے کے ساتھ کنکشن کی تعداد میں کمی یا زیادتی بھی مختلف صلاحیتوں اور رویوں میں تفریق کو جنم دیتی ہے۔
مردانہ دماغ کسی بھی سرگرمی کے لئے سرمئی مادے (grey matter) کا اور زنانہ دماغ سفید مادے (white matterr) کا استعمال زیادہ کرتا ہے۔ مزید برآں، عورتوں میں دماغی حصوں کو جوڑنے والے کنکشن کی تعداد نہ صرف زیادہ ہوتی ہے بلکہ اِن کی نوعیت میں بھی فرق ہوتا ہے۔
اِس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مرد کا جھکاؤ منطق، حقائق اور ڈیٹا کی طرف جبکہ خواتین کا جذبات، احساسات اور تعلق کی جانب ہوتا ہے۔ دوسری طرف مرد یکسو ہوتے ہیں جبکہ خواتین بیک وقت مختلف کام کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں یعنی multi tasking میں بہتر نتائج دیتی ہیں۔ مطلب یہ کہ سائنس کے مطابق بیک وقت بولنا اور سننا اُن کی قدرتی صلاحیت ہے جہاں تک عام مردوں کا پہنچ پانا مشکل ہے۔
نتیجتاً عورت ایک طرف دیکھتے ہوئے زیادہ چیزوں کا مشاہدہ کرسکتی ہے جبکہ مرد مخصوص شے کو دیکھنے کا عادی ہوتا ہے۔ اب سمجھ میں آیا کہ خواتین ایک ہی نظر میں کپڑے کا رنگ، میٹیریل، زیورات کی اقسام و ہئیت، جوتے کا برانڈ اور موزے کی میچنگ تک کا اندازہ کیسے لگا لیتی ہیں؟
نر‘ دماغ حرکات و سکنات اور ’مادہ‘ دماغ رنگوں میں تفریق کے بارے میں حساس ہوتا ہے۔ اِسی لئے مرد حضرات مختلف رنگوں کی پہچان و تمیز میں مار کھاتے ہیں اور عورتوں کو میچنگ اور کنٹراسٹ کا اتنا لحاظ ہوتا ہے۔
عورت آواز کی پانچ قسم کی ٹونز میں تمیز کی صلاحیت رکھتی ہے، جبکہ مرد تین طرح کی۔ عورت کی زبان میں حسِ لذت اور سونگھنے کی حس بہتر ہے اور خاتون کا دماغ ہمدردانہ جبکہ مرد کا انتظامی ہوتا ہے۔
انسانوں میں دماغ کے حوالے سے تنوع پایا جاتا ہے چنانچہ اوپر بیان کردہ بحث و نتائج کا اطلاق اوسط پر ہے۔ یعنی ایک عورت کا دماغ مرد کی خصوصیات کے قریب تر ہوسکتا ہے اور اِسی طرح ایک مرد کی صلاحیت و رویہ زنانہ دماغ کی ملکیت ظاہر کرسکتا ہے۔
بلاگر  عامر بھٹی
روزنامہ ایکسپرس