بدھ، 31 مئی، 2017

انسانوں کا محسن

وہ ادویات سازی کا ماہر تھا‘ وہ 1843ءمیں فرینکفرٹ سے سوئٹزر لینڈ شفٹ ہو گیا‘ وے وے اس وقت غربت کا شکار تھا‘ یورپ میں اس زمانے میں ایک عجیب بیماری پھوٹ پڑی ‘ بے شمار مائیں بچوں کی پیدائش کے بعد دودھ کی نعمت سے محروم ہو جاتی تھیں‘ وہ بچوں کو دودھ نہیں پلا پاتی تھیں چنانچہ یورپ کا ہر چوتھا بچہ پیدائش سے چند دن بعد انتقال کر جاتا تھا‘ سوئٹزر لینڈ اس وبا کی خوفناک مثال تھا‘ ہنری بچوں کی لاشیں دیکھ کر اداس ہو جاتا تھا‘اس نے ایک دن یہ مسئلہ حل کرنے کا فیصلہ کیا‘ وہ لیبارٹری میں بیٹھا اور کام پرجت گیا یہاں تک کہ اس نے 1866ءمیں گائے کے دودھ‘ گندم کے آٹے اور چینی کی مدد سے ایک ایسی خوراک بنا لی جو نوزائیدہ بچے آسانی سے ہضم بھی کر سکتے تھے اور وہ عام بچوں کی نسبت صحت مند بھی ہو تے‘ وہ یہ خوراک کسی بچے پر ٹیسٹ کرنا چاہتا تھا‘ قدرت نے اسے چند دن میں یہ موقع بھی فراہم کر دیا‘ ہنری کے ہمسائے کا ایک نومولود بچہ ماں کا دودھ ہضم نہیں کر پا رہا تھا‘ بچہ 14 دن سے بلک رہا تھا‘ ماں نے بچہ اٹھایا اور رات کے آخری پہر ہنری کے دروازے پر دستک دے دی‘ ہنری بچے کو اپنی ایجاد کردہ خوراک کھلانے لگا‘ بچے نے پہلی مرتبہ سکھ کا سانس لیا‘ وہ یہ مائع خوراک کھا کر سو گیا‘ وہ بچہ تین دن میں مکمل صحت یاب ہو گیا‘ بچے کی ماں واپس میں آئی‘ بچے کو پنگھوڑے میں ہنستے کھیلتے دیکھا تو اس کے منہ سے خوشی کے مارے چیخ نکل گئی‘ یہ چیخ آگے چل کر دنیا میں خوراک کی سب سے بڑی کمپنی کی بنیاد بن گئی‘ ایک ایسی کمپنی جس کا کاروبار ڈیڑھ سو سال میں 196 ملکوں تک پھیل گیا‘ اس نے 86 ملکوں میں 447 فیکٹریاں لگا لیں‘ اس میں 3 لاکھ 30 ہزار لوگ ملازم ہو گئے‘ وہ 247 بلین ڈالر کی مالک بن گئی‘ وہ 8856 مصنوعات (برانڈ) بنانے لگی اور اس نے پوری دنیا میں خوراک کا کلچر بدل دیا‘ جی ہاں یہ نیسلے کمپنی کی کہانی ہے۔یہ کمپنی ہنری نیسلے نے 1866ءمیں وے وے میں بنائی تھی‘ کمپنی کی پہلی پراڈکٹ نومولود بچوں کی خوراک فارین لیکشے تھی‘ یہ خوراک دھڑا دھڑ بکنے لگی‘ ہنری نیسلے ایک خدا ترس درویش صفت انسان تھا‘ وہ اندھا دھند کام کرتا رہا‘ نیسلے نےدھند کام کرتا رہا‘ نیسلے نے اس دوران کنڈینسڈ ملک (گاڑھا یا جما ہوا دودھ) بھی بنانا شروع کر دیا‘ نیسلے 1890ءمیں انتقال کر گیا لیکن کمپنی چلتی رہی‘ لوگ آتے رہے‘ ادارے کی عنان سنبھالتے رہے اور کمپنی قدم بہ قدم آگے بڑھتی رہی یہاں تک کہ نیسلے نے 1905ءمیں کنڈینسڈ ملک کی دنیا کی پہلی کمپنی ”اینگلو سوئس کنڈیسنڈ ملک“ خرید لی‘ یہ کمپنی ایک امریکی سائنس دان جارج پیج نے سول وار کے دوران بنائی تھی‘ یہ نیسلے کا پہلا جوائنٹ وینچر تھا‘ اس معاہدے نے کمپنی کا سفر تیز کر دیا
پہلی جنگ عظیم نے نیسلے کے کاروبار میں اضافہ کیا‘ کمپنی نے ملک چاکلیٹ ایجاد کیا‘ نیسلے کا ملک چاکلیٹ اور دودھ جنگ کے دوران فوجیوں کی خوراک بن گیا‘ جنگ کی وجہ سے خام مال اور مصنوعات کی سپلائی کا مسئلہ پیش آیاتو کمپنی نے دنیا میں پہلی بار خشک دودھ بنانا شروع کر دیا‘ یورپ میں ملازمین کی فوج میں جبری بھرتی شروع ہوئی تو کمپنی نے جنگ سے محفوظ ملکوں ناروے‘ امریکا اور آسٹریلیا میں فیکٹریاں لگا لیں غرض وہ جنگ ہر لحاظ سے نیسلے کےلئے سود مند ثابت ہوئی‘ ملک پاڈر کا برانڈ ”مائیلو“ بھی اسی جنگ کی پیداوار تھا
جنگ کے بعد دنیا کسادبازاری کا شکار ہو گئی‘ دودھ‘ بچوں کی خوراک اور چاکلیٹ کے کاروبار میں مندا آ گیا‘ یہ مصیبت نئے امکانات کا پیش خیمہ ثابت ہوئی‘ کمپنی نے اپنا ریسرچ سنٹر بنایا‘ سائنس دان بھرتی کئے اور سائنس دانوں نے نئی خوراکیں دریافت کرنا شروع کر دیں‘ انسٹنٹ کافی (فوری تیار ہونے والی کافی) نیس کیفے اسی ریسرچ کا نتیجہ تھی‘ نیس کیفے نے پوری دنیا میں کافی کا نیا کلچر بھی متعارف کرا دیا اور کمپنی کو دوبارہ قدموں پر بھی کھڑا کر دیا
امریکا کے ایک سائنس دان جولیس میجی نے 1880ءمیں میجی کے نام سے انسٹنٹ سوپ بنایا تھا‘ نیسلے نے 1947ءمیں میجی خرید لی‘ کمپنی نے 1954ءمیں سری لیک بھی ایجاد کر لیا‘ یہ لوگ 1962ءمیں فروزن فوڈ میں بھی آ گئے‘کمپنی ڈبوں میں بند خوراک کے شعبے میں بھی آگئی‘ فارماسوٹیکل کی انڈسٹری بھی لگالی‘ سکن پراڈکٹس کے سب سے بڑے برانڈ ”لوریل“ کے شیئرز بھی خرید لئے‘ فرانس کی منرل واٹر کی دونوں بڑی کمپنیاں بھی لے لیں‘ پالتو جانوروں کی خوراک بھی بنانا شروع کر دی
یہ آئس کریم کے شعبے میں بھی آئے اور آئس کریم کے تمام بڑے برانڈز بھی خرید لئے اور یہ اب پیزا کے کاروبار میں بھی آ گئے ہیں‘ غرض نیسلے کے برانڈز کی کل تعداد 8856 ہو گئی‘ یہ روزانہ اپنی مصنوعات کے ایک ارب پیکٹ فروخت کرتے ہیں‘ نیسلے 1988ءمیں پاکستان آیا‘اس نے 1998ءمیں ”پیور لائف“ کے نام سے پانی کا برانڈ شروع کیا‘ پیور لائف پاکستان سے شروع ہوا تھا‘ یہ اس وقت 40 ملکوں میں چل رہا ہے لیکن اس کی بنیاد پاکستان میں پڑی تھی‘ نیسلے کا دنیا کا سب سے بڑا دودھ کا پلانٹ بھی پاکستان میں ہے‘ یہ پلانٹ کبیر والا میں ہے اور یہ پوری دنیا میں پاکستان کی پہچان ہے۔وے وے میں نیسلے کے چار اہم دفاتر ہیں
کمپنی کا گلوبل ہیڈ کوارٹر‘ ریسرچ سنٹرز کا ہیڈ کوارٹر‘ نیسلے سوئٹزرلینڈ کا دفتر اور اس کا ٹریننگ سنٹر بھی وے وے میں ہے‘ مجھے وے وے میں اس کے تین سنٹرز میں جانے کا اتفاق ہوا‘ میں پہلے دن ان کے ریسرچ سنٹر گیا‘ یہ سنٹر ”نیسلے ریسرچ سنٹر“ کہلاتا ہے‘ سینٹر میں پانچ ہزار لوگ ریسرچ کرتے ہیں‘ ان میں 250 پی ایچ ڈی ہیں‘ یہ لوگ ہر سال ریسرچ پر دو ارب ڈالر خرچ کرتے ہیں‘ سنٹر کے ڈائریکٹر نے بتایا‘ ہم بہتر سے بہتر خوراک تلاش کر رہے ہیں۔ ”گڈ فوڈ‘ گڈ لائف“ ہمارا ماٹو ہے‘ ہم اس پر کام کر رہے ہیں‘ ہمارا خیال ہے ”اچھی خوراک کے بغیر اچھی زندگی ممکن نہیں“ ڈائریکٹر نے بتایا‘ ہم بلڈ پریشر‘ شوگر‘ کولیسٹرول‘ الزائمر اور پارکینسز کے مریضوں کےلئے خصوصی خوراک تیار کر رہے ہیں
ہم جلدی امراض کی شفاءکےلئے بھی فوڈ بنا رہے ہیں‘ ہم نے تحقیق کی دنیا کے مختلف خطوں کی ماں کے دودھ کی تاثیر مختلف ہوتی ہے‘ ہم دودھ کا ایک ایسا کمبی نیشن تیار کر رہے ہیں جس میں تمام ماں کی تاثیر موجود ہو اور جسے استعمال کر کے بچے زیادہ صحت مند ہوں‘ ڈائریکٹر نے بتایا‘ بنیاد سے لے کر اڑھائی سال تک بچے کے پہلے ہزار دن بہت اہم ہوتے ہیں‘ مائیں اگر اپنے بچے کو صحت مند‘ لائق اور کامیاب دیکھنا چاہتی ہیں تو انہیں حمل کے پہلے دن سے اچھی خوراک کھانی چاہیے‘ بچے کو بھی اڑھائی سال تک اعلیٰ خوراک دینی چاہیے
خوراک کے یہ ہزار دن بچے کی پوری زندگی کےلئے اہم ہوتے ہیں‘ ڈائریکٹر نے بتایا ہم نے ریسرچ کی ہے‘ ہم جتنی میٹھی اور مصالحہ دار اشیاءکھاتے ہیں‘ ہماری زبان ان کا صرف 20 فیصد چکھ پاتی ہے باقی 80 فیصد مصالحے اور چینی براہ راست ہمارے معدے میں چلی جاتی ہے اور یہ ہماری صحت خراب کرتی ہے‘ ہم ایسی مٹھائیاں بنا رہے ہیں جن کی صرف بیرونی سطح پر چینی کی تہہ چڑھی ہو گی یوں صارف کو ذائقہ بھی مل جائے گا اور چینی کا 80 فیصد استعمال بھی کم ہو جائے گا‘ ہم ایسے پیزے بھی بنا رہے ہیں جن کی صرف نچلی تہہ پر مصالحے ہیں
صارفین مصالحے کا ذائقہ بھی محسوس کر لیں گے اور یہ ان کے برے اثرات سے بھی بچ جائیں گے‘ ریسرچ سنٹر کی کارکردگی‘ صفائی کا معیار اور مشینری حیران کن تھی‘ ان کے پاس پاکستان کا تمام ڈیٹا موجود تھا‘ ڈائریکٹر نے بتایا پاکستان کے بچے آئیو ڈین‘ وٹامن ڈی اور آئرن کی شدید کمی کا شکار ہیں‘ پانی بھی گندہ ہے اور دودھ بھی کھلا بکتا ہے‘ یہ سارے مسائل پاکستانی نسل کو بیمار بنا رہے ہیں‘ حکومت کو فوری اقدامات کرنا ہوں گے‘ یہ بچوں کو سکولوں میں دودھ پلائیں‘ ملک میں آئرن کے بغیر آٹا‘ آئیو ڈین کے بغیر نمک اور کھلے دودھ پر پابندی ہونی چاہیے اور حکومت پانی بھی فوری طور پر کنٹرول کرے‘ یہ تمام شہریوں کو صاف پانی فراہم کرے ‘ یہ تمام کام فوری طور پر کرنے والے ہیں‘ حکومت نے اگر ان پر توجہ نہ دی تو پھر پاکستان اندر سے کمزور ہو جائے گا۔میں دوسرے دن کمپنی کے گلوبل ہیڈ کوارٹر بھی گیا
یہ عمارت لیک جنیوا کے کنارے واقع ہے‘ کھڑکیوں سے کوہ الپس اور لیک دونوں دکھائی دیتے ہیں‘ عمارت کے چھٹے فلور پر کمپنی کی تمام مصنوعات کا ڈس پلے تھا‘ ہر پراڈکٹ ایک تاریخ تھی اور یہ تاریخ بار بار قدم روک لیتی تھی‘ وزٹ کے دوران پتہ چلا کمپنی اس وقت تک کوئی پراڈکٹ لانچ نہیں کرتی جب تک اسے 60فیصد ووٹ نہ مل جائیں اور یہ لوگ ہر پانچ سال بعد اپنی مصنوعات کا ازسر نوجائزہ بھی لیتے ہیں‘ یہ ان میں تبدیلیاں کرتے ہیں‘ یہ لوگ اپنی مصنوعات کےلئے جہاں جہاں سے خام مال لیتے ہیں یہ ان تمام دیہات اور کسانوں کی تعلیم وتربیت کا بندوبست بھی کرتے ہیں
یہ اب تک پاکستان کے لاکھوں گوالوں کی ٹریننگ کر چکے ہیں‘ یہ دیہات کو صاف پانی بھی دے رہے ہیں اور یہ بچوں کےلئے سکول بھی بنا رہے ہیں۔میرے دل سے ہنری نیسلے کےلئے دعا نکلی‘ وہ خود 1890ءمیں فوت ہو گیا لیکن اس کا لگایا پودا آج تک دنیا کو پھل اور سایہ دے رہا ہے۔ ہنری نیسلے کے خاندان کا کوئی شخص کمپنی میں شامل نہیں‘ کمپنی صرف نیسلے کا نام کیری کر رہی ہے‘ منافع کا بڑا حصہ ”کمیونٹی ڈویلپمنٹ“ اور نئی صحت مند خوراک کی تحقیق پر خرچ ہوتا ہے چنانچہ ہم کہہ سکتے ہیں ہنری نیسلے جیسے لوگ ہوتے ہیں جنہیں انسانوں کا محسن کہا جا سکتا ہے‘ جنہیں دل سے سلام کرنے کا دل چاہتا ہے۔
جاوید چوہدری


وہ کہتا تھا (سیاحت)

نیسلے میوزیم وے وے کی ایک بڑی ’’اٹریکشن‘‘ ہے‘ یہ عجائب گھر نیسلے کی پہلی فیکٹری میں بنایا گیا‘ ہنری نیسلے نے 1868ء میں وے وے میں اپنی پہلی فیکٹری لگائی تھی‘ یہ فیکٹری بچوں کی غذا (farine lactee) بناتی تھی‘ عمارت وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ زمانہ برد ہو گئی‘ کمپنی نے اکیسویں صدی میں یہ فیکٹری واپس لی اور یہاں جدید ترین میوزیم بنا دیا‘ یہ میوزیم لائٹ‘ ساؤنڈ‘ اسکرین اور کیمرے کا خوبصورت امتزاج ہے‘ اس کے دو ہال ہیں‘ پہلے ہال میں نیسلے کمپنی کی تاریخ دکھائی جاتی ہے‘ ہنری نیسلے کون تھا‘ اس نے پہلی پراڈکٹ کیسے بنائی‘ کمپنی کیسے بنی‘ یہ ایک پراڈکٹ سے ساڑھے آٹھ ہزار مصنوعات اور ایک شہر سے 86 ملکوں تک کیسے پہنچی اور یہ کمپنی دنیا کے کس کس خطے میں کیا کیا تبدیلیاں لے کر آئی پہلا ہال وزیٹرز کو یہ تمام معلومات دیتا ہے‘ یہ ساری کہانی تصویروں‘ فلموں اور ٹو ڈی اور تھری ڈی ٹیکنالوجی کے ذریعے بتائی اور سنائی جاتی ہے اور دیکھنے والا اس میں بہتا چلا جاتا ہے‘ اس ہال کا اختتام ایک گول تھیٹر میں ہوتا ہے۔
 تھیٹر کے چاروں اطراف گولائی میں اسکرین لگی ہے‘ وزیٹرز درمیان میں بیٹھ جاتے ہیں اور اسکرین پر ایک ’’گلوبل پارٹی‘‘ چلنی شروع ہو جاتی ہے‘ پارٹی میں دنیا کے ان تمام ملکوں کے لوگ شامل ہیں جہاں جہاں نیسلے کمپنی موجود ہے‘ یہ پارٹی چلتی رہتی ہے یہاں تک کہ اچانک آپ خود کو بھی اس پارٹی کے درمیان بیٹھے دیکھتے ہیں اور آپ حیران ہو جاتے ہیں‘ یہ جدید ترین کیمرہ ٹرک ہے‘ یہ ٹرک دیکھنے والوں کو خوشی سے چیخ مارنے پر مجبور کر دیتا ہے‘ دوسرا ہال جدید ٹیکنالوجی پر مشتمل ہے‘ آپ خوراک کی جدید ٹیکنالوجیز‘ جدید مصنوعات اور جدید ترین ریسرچ کی گیلریز سے ہوتے ہوئے ایک گول میز پر پہنچتے ہیں‘یہ میز گول گھومتا رہتا ہے‘ اس پر شیشے کی چھ درجن شیلڈز رکھی ہیں‘ آپ ان میں سے کوئی شیلڈ اٹھاتے ہیں‘ اپنے سامنے موجود سکینر پر رکھتے ہیں اور آپ کی اسکرین پر ایک ’’منی فلم‘‘ چلنے لگتی ہے‘ میز کی ہر شیلڈ خوراک سے متعلق کوئی ایشو کور کرتی ہے‘ آپ شیلڈز بدلتے جاتے ہیں اور آپ کی معلومات میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے‘ میوزیم کا آخری حصہ سمجھایا نہیں جا سکتا صرف دیکھا جا سکتا ہے‘ یہ ورزش اور ذہنی صلاحیت کو بڑھانے کا ایک وسیع عمل ہے‘ آپ کے سامنے پلاسٹک کے درجن بھر کیبن اور چھوٹے ہال بنے ہیں۔
 آپ وہاں کھڑے ہوتے ہیں اور ہاتھوں‘ پاؤں اور آنکھوں کے اشارے سے دیوار پر چلتے ہوئے سایوں اور تصویروں کو کنٹرول کرتے ہیں‘ یہ حصہ بھی ایک نیا تجربہ تھا‘ میوزیم کی کافی شاپ‘ سووینئر شاپ اور فرنٹ ڈیسک بھی قابل دید تھا‘ ہم جس طرف دیکھتے تھے ہم تعریف پر مجبور ہو جاتے تھے‘ نیسلے میوزیم کے وزٹ کے دوران ڈاکٹر شہزاد عالم اور وقار احمد سے ملاقات ہوئی‘ ڈاکٹر شہزاد عالم پاکستان کونسل آف سائنٹیفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ (پی سی ایس آئی آر) کے چیئرمین ہیں‘ یہ پاکستان میں ریسرچ اور پڑتال کا سب سے بڑا ادارہ ہے‘ ڈاکٹر شہزاد عالم انتہائی پڑھے لکھے‘ قابل اور پاکستانیت سے لبالب انسان ہیں‘ یہ نیسلے کے ریسرچ سینٹر کے وزٹ کے لیے آئے تھے‘ میں ان کی معلومات‘ کام سے لگن اور ملک سے محبت سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا جب کہ وقار احمد نیسلے پاکستان میں کارپوریٹ ایشوز کے سربراہ ہیں‘ یہ ہنس مکھ‘ متحرک اور دوست بنانے کی صلاحیت سے مالامال انسان ہیں‘ میں نے ان کی کمپنی کو بھی جی بھر کر انجوائے کیا‘ نیسلے کا گلوبل ہیڈ کوارٹر ہو‘ ریسرچ سینٹر ہو‘ نیسلے سوئٹزرلینڈ ہو یا پھر نیسلے میوزیم ہو یہ چاروں عمارتیں انتہائی خوبصورت مقامات پر قائم ہیں‘ آپ کو شیشوں سے الپس اور جنیوا لیک کے نظارے نظر آتے ہیں۔باہر کا بدلتا ہوا موسم چند سکینڈ میں پوری عمارت کو متاثر کر دیتا ہے‘ باہر کی بارش اندر گرتی ہوئی محسوس ہوتی ہے‘شام صرف وے وے پر نہیں اترتی‘ وہ ان چاروں عمارتوں کے اندر بھی تڑپتی ہوئی محسوس ہوتی ہے‘ سورج صرف وے وے میں نہیں نکلتا وہ عمارتوں کے اندر بھی طلوع ہوتا ہے‘ وے وے کی شام بھی ان چاروں عمارتوں میں اپنی پوری خوبصورتی کے ساتھ محفوظ ہوتی ہے‘ یوں محسوس ہوتا ہے یہ عمارتیں اور وے وے ایک ہی وجود کے دو حصے ہیں‘ آپ ان دونوں حصوں کو الگ الگ کر کے نہیں دیکھ سکتے اور یہ خوبی ‘ یہ خوبصورتی آپ کواس کمپنی کے تمام ملازمین میں بھی دکھائی دیتی ہے‘یہ لوگ پڑھے لکھے‘ شائستہ اور مہربان ہیں‘ میں نے وزٹ کے دوران جس سے جو پوچھا اس نے چند لمحے میں مجھے بتا دیا۔
 آپ اگرجنیوا کو نقشے پر دیکھیں تو آپ کو یہ شہر تین اطراف سے فرانس میں گھرا ملے گا‘ یہ شہر فرانس کے اتنے قریب ہے کہ آپ چند قدم اٹھاتے ہیں اور آپ سوئٹزرلینڈ سے فرانس میں داخل ہو جاتے ہیں‘ میں بار بار اس تجربے کا لطف اٹھاتا رہا‘ میں نے ہفتے اور اتوار کا آدھا دن جنیوا میں گزارا‘ میں اس دوران آنسی (
Annecy) بھی گیا‘ ورے (Yvoire) بھی اور فرنے اور سرن بھی‘ ورے جھیل کی دوسری طرف جنیوا سے پندرہ منٹ کی ڈرائیو پر واقع ہے‘ یہ فرانسیسی گاؤں ساڑھے سات سو سال پہلے بنا‘ اس سے آج تک تاریخ کی خوشبو آتی ہے‘ آپ پتھر کی چھوٹی چھوٹی گلیوں اور پرانے مکانوں کے درمیان گھومتے ہوئے تاریخ کے اوراق میں گم ہو جاتے ہیں‘ گاؤں کا ایک سرا جھیل تک جاتا ہے اور دوسرے سرے پر پرانا قلعہ اور قدیم مکانات ہیں ‘ میں آدھا دن ورے میں گھومتا رہا‘ پتھر کی گلیاں‘ لکڑی کے پرانے مکان‘ اسٹریٹ کیفے‘ پھولوں سے لدی بالکونیاں اور ان کے پس منظر میں جنیوا لیک‘ وہ گاؤں گاؤں کم اور تصویر زیادہ تھا‘ یہ تصویر بھی میرے ذہن کے البم میں چپک گئی‘ آنسی جنیوا سے چالیس کلومیٹر دور فرانس کا تاریخی شہر ہے‘ یہ شہر بھی الپس کے قدموں میں آباد ہے‘ شہر کے درمیان سے ٹھنڈے پانی کی ندی گزرتی ہے۔
 یہ ندی صاف پانی کی ایک بڑی جھیل میں گرتی ہے‘ جھیل کے گرد چھوٹے چھوٹے گاؤں اور شہر کے محلے آباد ہیں‘ یہ شہر بھی قدیم ہے‘ آپ کو شہر میں سیکڑوں سیاح ملتے ہیں‘ گلیاں پرانی‘ مکان قدیم اور چرچ بہت زیادہ قدیم ‘ جھیل میں چھوٹے جہاز چلتے ہیں‘ یہ جہاز ایک گھنٹے میں جھیل کا سفر طے کر کے واپس آتے ہیں‘ میں نے ہفتے کا آدھا دن آنسی میں گزارا‘ یہ آدھا دن بھی یادوں کی بارات کا حصہ بن گیا‘ میری اتوار کو سوا تین بجے واپسی کی فلائیٹ تھی لیکن میں سرن اور فرنے کو مس نہیں کر سکتا تھا‘ یہ دونوں ناقابل فراموش جگہیں ہیں‘ فرنے میں فرانس کے مشہور دانشور والٹیئر کا اڑھائی سو سال پرانا محل ہے‘ یہ پورا علاقہ والٹیئر نے آباد کیا تھا‘ وہ 1758ء میں پیرس سے یہاں آیا‘ علاقہ خریدااور 1778ء تک یہاں رہائش پذیر رہا‘ یہ شہر آج والٹیئر کی مناسبت سے فرنے والٹیئر کہلاتا ہے‘ یہ جنیوا سے صرف پانچ منٹ کی ڈرائیو پر واقع ہے‘ سوئٹزرلینڈ کے ہزاروں لوگ کام جنیوا میں کرتے ہیں لیکن رہتے فرنے میں ہیں‘ کیوں؟ وجہ معیشت ہے‘ فرانس سوئٹزرلینڈ کے مقابلے میں تین گنا سستا ہے لہٰذا لوگ یہاں رہنا پسند کرتے ہیں۔
 میں اتوار کی صبح والٹیئر کے محل میں گیا لیکن محل میں کام ہو رہا تھا لہٰذا یہ سیاحوں کے لیے بند تھا تاہم لان اور باغات میں جانے کی اجازت تھی‘ یہ محل دواڑھائی سو ایکڑ پر مشتمل ہے‘ بیرونی دیوار کے اندر بے شمار لان بھی ہیں‘ جنگل بھی اور پانی کے چھوٹے چھوٹے تالاب بھی‘ یہ پورا علاقہ والٹیئر نے خود آباد کیا تھا‘ وہ تمام انسانوں کو برابر سمجھتا تھا‘ وہ انسانی حقوق کا داعی تھا‘ اس کا مشہور فقرہ ’’مجھے تم سے اختلاف ہے لیکن میں آخری سانس تک تمہارے حق اختلاف کا دفاع کروں گا‘‘ آج بھی دنیا کے کروڑوں لوگوں کی زبان پر ہے‘ پیرس میں اس زمانے میں غریب لوگوں کے ساتھ جانوروں سے بدتر سلوک ہوتا تھا‘ وہ اس سلوک کے خلاف لڑ رہا تھا‘ حکومت اس سے نالاں تھی‘ وہ گرفتار ہوا‘ جلاوطن بھی کیا گیا اور اسے تشدد کا نشانہ بھی بنایا گیا لیکن وہ باز نہ آیا‘ وہ آخر میں پیرس سے نکلا اور فرانس کے آخری سرے پر اپنا شہر آباد کر لیا‘ یہ شہر یورپ میں انسانی حقوق اور برابری کی پہلی ذاتی ریاست تھا‘ والٹیئر نے اس شہر اور اس محل میں بیٹھ کروہ چھ ہزار خطوط لکھے جنہوں نے پوری دنیا کی سوچ تبدیل کر کے رکھ دی‘ وہ محل میں بیٹھ کر دنیا کے ہر حساس اور سوچنے والے انسان کو خط لکھتا رہا‘ دنیا آج جہاں ہے اس میں والٹیئر کے ان خطوط کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔
 فرنے میں آج بھی والٹیئر کی دانش کی مہک موجود ہے‘ میں آدھ گھنٹہ والٹیئر کے محل کے لان میں پھرتا رہا میں جگہ جگہ رکتا اور والٹیئر کو یاد کرتا‘ اس نے کہا تھا ’’یا اللہ میں اپنے دشمنوں سے خود بچ جاؤں گا تم بس مجھے میرے دوستوں سے بچا لو‘‘ وہ اکثر کہتا تھا’’جمہوریت نصابی کتابوں کا غیرضروری مواد ہے‘ کیا تم واقعی سمجھتے ہو حکومت عوامی رائے سے متاثر ہوتی ہے؟‘‘ وہ کہتا تھا ’’خدا نے جنس بنائی اور پادریوں نے شادی‘‘ وہ کہتا تھا ’’انسان کو اس کے جوابوں سے نہیں سوالوں سے پہچانو‘‘ وہ کہتا تھا ’’میں جوں جوں جان رہا ہوں میں توں توں اس نتیجے پر پہنچ رہا ہوں‘ میں کچھ نہیں جانتا‘‘ وہ کہتا تھا ’’اگر حکومت غلط ہو تو آپ کا صحیح ہونا خطرناک ہو جاتا ہے‘‘ اور وہ کہتا تھا ’’آئینہ ایک بے معنی ایجاد ہے تم اگر اپنا اصل عکس دیکھنا چاہتے ہو تو تم کسی کی آنکھ میں دیکھو‘‘ میں والٹیئر کے لان میں گھومتا رہا‘ اس کے فقرے دہراتا رہا اور اس کی دانش کی داد دیتا رہا‘ وہ حقیقتاً انسانی شعور اور انسانی آزادی کی چیخ تھا‘ آخری زور دار چیخ‘ وہ چیخ آج بھی فرنے کی فضا میں گونج رہی ہے۔

جاوید چوہدری


سرن کے درویش (سیاحت)

سرن تاریخ کا سب سے بڑا انسانی معجزہ ہے‘ آپ اگر انسانی کوششوں کی معراج دیکھنا چاہتے ہیں تو آپ زندگی میں ایک بار سرن ضرور جائیں‘ آپ حیران رہ جائیں گے لیکن سرن ہے کیا؟ ہمیں یہ جاننے سے قبل کائنات کے چند بڑے حقائق جاننا ہوں گے۔
ہماری کائنات 13ارب 800 کروڑ سال پرانی ہے‘ زمین کو تشکیل پائے ہوئے پانچ ارب سال ہو چکے ہیں‘ ہماری کائنات نے ایک خوفناک دھماکے سے جنم لیا تھا‘ یہ دھماکہ بگ بینگ کہلاتا ہے‘ بگ بینگ کے بعد کائنات میں 350ارب بڑی اور 7200 ارب چھوٹی کہکشائیں پیدا ہوئیں‘ ہر کہکشاں میں زمین سے کئی گنا بڑے اربوں سیارے اور کھربوں ستارے موجود ہیں‘ یہ کائنات ابھی تک پھیل رہی ہے‘ یہ کہاں تک جائے گی‘ یہ کتنی بڑی ہے اور اس میں کتنے بھید چھپے ہیں ہم انسان تمام تر سائنسی ترقی کے باوجود اس کا صرف 4فیصد جانتے ہیں‘ کائنات کے96فیصد راز تاحال ہمارے احاطہ شعور سے باہرہیں۔
یہ96 فیصد نامعلوم بھی دو حصوں میں تقسیم ہیں‘ 444فیصد حصہ وہ ہے جس کے بارے میں ہم یہ جانتے ہیں کہ ہم اسے نہیں جانتے‘ سائنس دان اس 44 فیصد حصے کو ’’ڈارک میٹر‘‘ کہتے ہیں‘ یہ ڈارک میٹر سپر انرجی ہے‘ ہمارا سورج اس انرجی کے سامنے صحرا میں ذرے کے برابر ہے‘ سائنس دان کائنات کے باقی 52 فیصد نامعلوم کے بارے میں کہتے ہیں ہم یہ بھی نہیں جانتے کہ ہم اسے نہیں جانتے‘ ہمیں کائنات کو سمجھنے کے لیے اس کی بنیاد سمجھنا ہو گی۔ یہ جاننا ضروری ہے بگ بینگ کیسے اور کیوں ہوا تھا اور اس کے فوری بعد کیا ہوا تھا جس سے کائنات نے جنم لیا ‘ انسان کے پاس یہ حقیقت جاننے کے لیے دو طریقے ہیں‘ ہم کوئی ایسی ٹائم مشین بنائیں جو ہمیں 13ارب 80 کروڑ سال پیچھے اس وقت میں لے جائے جب بگ بینگ ہوا اور کائنات وجود میں آنے لگی‘ یہ ظاہر ہے ممکن نہیں‘ دوسرا طریقہ ‘سائنس دان لیبارٹری میں ’’بگ بینگ‘‘ کریں اور کائنات کی پیدائش کے پورے عمل کا مشاہدہ کر لیں‘ یہ طریقہ مشکل ہے لیکن ناممکن نہیں چنانچہ سائنس دانوں نے 1952ء میں اس پر کام شروع کر دیا۔
 اس نادر کام کے لیے جنیواکے مضافات میں فرنے میں جگہ تلاش کی گئی اور سوئٹزرلینڈ اور فرانس دونوں نے مل کر لیبارٹری بنانا شروع کر دی‘ یہ لیبارٹری سرن کہلاتی ہے‘ یہ کام دو ملکوں اور چند سو سائنس دانوں کے بس کی بات نہیں تھی چنانچہ آہستہ آہستہ دنیا کے 38 ممالک کی 177 یونیورسٹیاں اور فزکس کے تین ہزار پروفیسر اس منصوبے میں شامل ہو گئے‘سائنس دانوں نے پہلے حصے میں زمین سے 100 میٹر نیچے 27کلو میٹر لمبی دھاتی سرنگ بنائی۔
 اس سرنگ میں ایسے مقناطیس اتارے گئے جو کشش ثقل سے لاکھ گنا طاقتور ہیں‘ مقناطیس کے اس فیلڈ کے درمیان دھات کا 21 میٹر اونچا اور 14 ہزار ٹن وزنی چیمبر بنایا گیا‘ یہ چیمبر کتنا بھاری ہے آپ اس کا اندازہ آئفل ٹاور سے لگا لیجیے‘ دنیا کے سب سے بڑے دھاتی اسٹرکچر کا وزن 7 ہزار تین سوٹن ہے‘ سرن کا چیمبر اس سے دگنا بھاری ہے‘ اس چیمبر کا ایک حصہ پاکستان کے ہیوی مکینیکل کمپلیکس میں بنا اور اس پر باقاعدہ پاکستان کا جھنڈا چھاپا گیا‘ سائنس دانوں کے اس عمل میں چالیس سال لگ گئے‘ یہ چالیس سال بھی ایک عجیب تاریخ ہیں۔
 ملکوں کے درمیان اس دوران عداوتیں بھی رہیں اور جنگیں بھی ہوئیں لیکن سائنس دان دشمنی‘ عداوت‘ مذہب اور نسل سے بالاتر ہو کر سرن میں کام کرتے رہے‘ یہ دن رات اس کام میں مگن رہے‘ سائنس دانوں کے اس انہماک سے بے شمار نئی ایجادات سامنے آئیں مثلاً انٹرنیٹ سرن میں ایجاد ہوا تھا‘ سائنس دانوں کوآپس میں رابطے اور معلومات کے تبادلے میں مشکل پیش آ رہی تھی چنانچہ سرن کے ایک برطانوی سائنس دان ٹم برنرزلی نے 1989ء میں انٹرنیٹ ایجاد کر لیا یوں
www(ورلڈ وائیڈ ویب) سرن میں ’’پیدا‘‘ ہوا اور اس نے پوری دنیا کو جوڑ دیا۔
 سٹی اسکین اور ایم آر آئی بھی اسی تجربے کے دوران ایجاد ہوئی ‘ سرن میں اس وقت بھی ایسے سسٹم بن رہے ہیں جو اندھوں کو بینائی لوٹا دیں گے‘ ایک چھوٹی سی چپ میں پورے شہر کی آوازیں تمام ڈیٹیلز کے ساتھ ریکارڈ ہو جائیں گی‘ ایک ایسا سپرالٹرا ساؤنڈ بھی مارکیٹ میں آرہا ہے جو موجودہ الٹرا ساؤنڈ سے ہزار گنا بہتر ہوگا ‘ ایک ایسا لیزر بھی ایجاد ہو چکا ہے جو غیر ضروری ٹشوز کو چھیڑے بغیر صرف اس ٹشو تک پہنچے گا جس کا علاج ہو نا ہے‘ ایک ایسا سسٹم بھی سامنے آ جائے گا جو پورے ملک کی بجلی اسٹور کر لے گا اور سرن کا گرڈ کمپیوٹر بھی عنقریب مارکیٹ ہو جائے گا‘ یہ کمپیوٹر پوری دنیا کا ڈیٹا جمع کرلے گا۔
 یہ تمام ایجادات سرن میں ہوئیں اور یہ اس بنیادی کام کی ضمنی پیداوار ہیں‘ سرن کے سائنس دان اس ٹنل میں مختلف عناصر کو روشنی کی رفتار (ایک لاکھ 86 ہزار میل فی سیکنڈ) سے ارب گنا زیادہ اسپیڈ سے ایک دوسرے سے ٹکراتے ہیں اور پھر تبدیلی کا مشاہدہ کرتے ہیں‘ یہ عناصر ایٹم سے اربوں گنا چھوٹے ہوتے ہیں‘ یہ دنیا کی کسی مائیکرو اسکوپ میں دکھائی نہیں دیتے‘ سائنس دانوں نے 2013ء میں تجربے کے دوران ایک ایسا عنصر دریافت کر لیا جو تمام عناصر کو توانائی فراہم کرتا ہے‘ یہ عنصر ’’گاڈ پارٹیکل‘‘ کہلایا‘ اس دریافت پر دو سائنس دانوں پیٹر ہگس اور فرینکوئس اینگلرٹ کونوبل انعام دیا گیا‘ یہ دنیا کی آج تک کی دریافتوں میں سب سے بڑی دریافت ہے۔
 سائنس دانوں کا خیال ہے مادے کی اس دنیا کا آدھا حصہ غیر مادی ہے‘ یہ غیر مادی دنیا ہماری دنیا میں توانائی کا ماخذ ہے‘ یہ لوگ اس غیر مادی دنیا کو ’’اینٹی میٹر‘‘ کہتے ہیں‘یہ اینٹی میٹر پیدا ہوتا ہے‘کائنات کو توانائی دیتا ہے اور سیکنڈ کے اربوں حصے میں فنا ہو جاتا ہے‘ سرن کے سائنس دانوں نے چند ماہ قبل اینٹی میٹر کو 17 منٹ تک قابو رکھا ‘ یہ کسی معجزے سے کم نہیں تھا‘ یہ لوگ اگر ’’اینٹی میٹر‘‘ کو لمبے عرصے کے لیے قابو کر لیتے ہیں تو پھر پوری دنیا کی توانائی کی ضرورت چند سیکنڈز میں پوری ہو جائے گی‘ دنیا کو بجلی اور پٹرول کی ضرورت نہیں رہے گی‘سرن ایک انتہائی مشکل اورمہنگا براجیکٹ ہے اور سائنس دان یہ مشکل کام65 سال سے کر رہے رہے ہیں۔
 یہ لیبارٹری دنیا کے ان چند مقامات میں شامل ہے جن میں پاکستان اور پاکستانیوں کی بہت عزت کی جاتی ہے‘ اس عزت کی وجہ ڈاکٹر عبدالسلام ہیں‘ ڈاکٹر عبدالسلام کی تھیوری نے سرن میں اہم کردار ادا کیا‘ عناصر کو ٹکرانے کے عمل کا آغاز ڈاکٹر صاحب نے کیا تھا‘ ڈاکٹر صاحب کا وہ ریکٹر اس وقت بھی سرن کے لان میں نصب ہے جس کی وجہ سے انھیں نوبل انعام ملا۔
 دنیا بھر کے فزکس کے ماہرین یہ سمجھتے ہیں اگر ڈاکٹر صاحب تھیوری نہ دیتے اور اگر وہ اس تھیوری کو ثابت کرنے کے لیے یہ پلانٹ نہ بناتے تو شاید سرن نہ بنتا اور شاید کائنات کو سمجھنے کا یہ عمل بھی شروع نہ ہوتا چنانچہ ادارے نے لیبارٹری کی ایک سڑک ڈاکٹر عبدالسلام کے نام منسوب کر رکھی ہے‘ یہ سڑک آئین سٹائن کی سڑک کے قریب ہے اور یہ اس انسان کی سائنسی خدمات کا اعتراف ہے جسے ہم نے مذہبی نفرت کی بھینٹ چڑھا دیا‘ جسے ہم نے پاکستانی ماننے سے بھی انکار کر دیا تھا۔
سرن میں اس وقت 100 ہزار لوگ کام کرتے ہیں‘ ان میں تین ہزار سائنس دان ہیں یوں یہ دنیا کی سب سے بڑی سائنسی تجربہ گاہ ہے‘یہ تجربہ گاہ کبھی نہ کبھی اس راز تک پہنچ جائے گی جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے یہ کائنات تخلیق کی تھی‘ یہ راز جس دن کھل گیا اس دن کائنات کے سارے بھید کھل جائیں گے‘ہم اس دن قدرت کو سمجھ جائیں گے۔
 مجھے سرن میں ایک گھنٹہ گزارنے کا موقع ملا‘یہ ایک گھنٹہ فرنے کے ایک پاکستانی شہری شہزاد نے قابل عمل بنا یا تھا‘ شہزاد صاحب راجپوت کے نام سے فرنے میں پاکستانی ریستوران چلا رہے ہیں‘ یہ دوسری نسل سے یہاں آباد ہیں‘ ان کے والد نے یہاں ریستوران بنایا تھا‘ شہزاد صاحب آج اپنے الگ ریستوران کے مالک ہیں‘ میری ان سے اتفاقاً ملاقات ہوئی‘ یہ اگلے دن مجھے والٹیئر کے گھر اور سرن لے گئے۔
 سرن میں ایک نوجوان پاکستانی سائنس دان ڈاکٹر مہر شاہ سے بھی ملاقات ہوئی‘ یہ بہت متحرک‘ کامیاب اور ایکٹر قسم کے سائنس دان ہیں‘اللہ نے انھیں ابلاغ کی صلاحیت سے نواز رکھا ہے‘ اتوار کی وجہ سے سینٹر بند تھا‘ ڈاکٹر مہر ہمیں ٹنل میں نہ لے جا سکے لیکن اس کے باوجود ہمیں وہاں ہزاروں درویش ملے‘ ایسے درویش جو اس راز کی کھوج میں مگن ہیں جسے آج تک مذہب بھی نہیں کھول سکا‘یہ لوگ اصل درویش ہیں‘ یہ انسانیت کے کے لیے کام کر رہے ہیں‘ یہ لوگ واقعی عظیم اور قابل عزت ہیں۔
 ڈاکٹر مہر نے بتایا پاکستان سرن کا ممبر ہے‘ حکومت پاکستان ہر سال 22کروڑ روپے فیس ادا کرتی ہے‘ہمیں اس فیس کا فائدہ اٹھانا چاہیے‘ڈاکٹر مہر کے بقول سرن طالب علموں کومفت تعلیم دیتا ہے‘ ہمارے نوجوانوں کو اس سہولت کا فائدہ اٹھانا چاہیے‘ ہمارے نوجوان ایف ایس سی سے لے کر پی ایچ ڈی تک کے لیے سرن سے وظائف لے سکتے ہیں‘ہمیں یہ لینے چاہئیں‘ دوسرا سرن ٹیکنالوجی ٹرانسفر کے لیے اوپن ادارہ ہے‘ اس کا ہر ممبر کوئی بھی ٹیکنالوجی حاصل کر سکتا ہے‘ پاکستان کو اس سہولت کا بھی فائدہ اٹھانا چاہیے۔
 مجھے ڈاکٹر مہر کی آواز میں جذبات محسوس ہوئے‘ کاش یہ جذبات ہماری حکومت تک پہنچ جائیں اور یہ سرن سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکے‘ ہم اگر اس سے صرف میڈیکل سائنس اور زراعت کی ٹیکنالوجی ہی لے لیں تو یہ بھی ہمارے کے لیے کافی ہو گی ‘ ہمارے بے شمار مسائل حل ہو جائیں گے لیکن شاید یہ ہماری ترجیحات میں شامل نہیں‘ ہم شاید پانامہ کے پائجامے تک محدود رہنا چاہتے ہیں۔

جاوید چوہدری


منگل، 30 مئی، 2017

ہالی ووڈ سے (سیاحت)

میں ایک دن کے لیے لاس اینجلس گیا‘ زبیر عالم میرے ساتھ تھے‘ لاس اینجلس کی واحد کشش ہالی ووڈ تھی‘ یہ شہر فلم سازوں کا ویٹی کن سٹی ہے‘ اس شہر کی پوری فضا فلمی ہے‘ آپ کو اس میں آرٹ کی چاپ سنائی دیتی ہے‘ یہ شہر شربت کا وہ رنگ ہے جس کے بغیر شربت شربت نہیں بنتا‘ میں کیونکہ جنونی حد تک فلموں کا شائق ہوں چنانچہ ہالی ووڈ میری زندگی کی اہم ترین فہرست میں شامل تھا‘ میں نے اس سفر کا فائدہ اٹھایا اور ہالی ووڈ پہنچ گیا۔
ہالی ووڈ لاس اینجلس کے مضافات میں ایک چھوٹا سا شہر ہے‘ آپ بیس منٹ میں وہاں پہنچ جاتے ہیں‘ ہالی ووڈ کا بورڈ اس کی بڑی اٹریکشنز میں شامل ہے‘ یہ بورڈ پہاڑی کی چوٹی پر ایستادہ ہے‘ یہ بورڈ شہر کے زیادہ تر حصوں سے دکھائی دیتا ہے لیکن یہ زیادہ واضح نہیں ہوتا‘ ہم نے اس کے قریب پہنچنے کا فیصلہ کیا‘ ہم پہاڑی کے سائے میں ایک خوبصورت خاموش محلے میں پہنچے‘ خوبصورت مکانوں کے درمیان سے ہوتے ہوئے پہاڑی کے قریب آئے‘ گاڑی کھڑی کی اور پیدل چل پڑے‘ یہ کچی پگڈنڈی تھی‘ دائیں بائیں جھاڑ جھنکار تھا‘ ہالی ووڈ کی پہاڑی ہمارے پوٹھوہار کی خشک پہاڑیوں جیسی ہے‘ درخت چھوٹے اور جھاڑیاں پست قامت ہیں‘ پہاڑی پر دھول بھی اڑتی ہے اور گرمی بھی ہوتی ہے۔
ہم بہرحال جھاڑیوں کے درمیان سے ہوتے ہوئے ایک ایسے مقام پر پہنچ گئے جہاں سے ہالی ووڈ کا بورڈ بہت واضح تھا‘ یہ بورڈ کا قریب ترین نظارہ تھا‘ ہم لوگوں نے تصویریں بنائیں اور آگے چل پڑے‘ ہم بورڈ کے قریب جانا چاہتے تھے لیکن حکومت نے پہاڑی پر جگہ جگہ نوٹس لگا رکھا تھا ’’یہاں سے بورڈ تک جانا منع ہے خلاف ورزی کرنے والے کو دس ہزار ڈالر جرمانہ بھگتنا ہوگا‘‘ یہ نوٹس ہمارے جذبے کی راہ کی رکاوٹ بن گیا‘ ہم لوگوں نے دور سے ہالی ووڈ کے بورڈ کو سلام کیا اور نیچے آ گئے‘ ہالی ووڈ میں تین جگہیں دیکھنے کے قابل ہیں‘ واک آف فیم‘ اسٹوڈیوز اور بیورلے ہلز‘ واک آف فیم شہر کے درمیان ایک دورویہ سڑک ہے‘ سڑک کے دونوں اطراف شاپنگ سینٹرز‘ سینما ہاؤسز‘ کافی شاپس اور بارز ہیں‘ شام کے وقت نئے ایکٹرز ہالی ووڈ کے مشہور کریکٹرز کا سوانگ بھر کر سڑک پر آ جاتے ہیں‘ لوگ ان کے ساتھ تصویریں بنواتے ہیں۔
ہم نے اس شام سڑک پر ہالی ووڈ کی مشہور فلم پائریٹس آف کیریبین کے ہیرو جونی ڈیپ‘ فلم ممی کے کردار‘ ہلک اور  ماسک کے کردار دیکھے‘ فٹ پاتھ پر امریکا کے نئے  صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی موجود تھے‘ لوگ ان کے ساتھ بھی دھڑا دھڑ تصویریں بنوا رہے تھے‘ اس سڑک کا مشہور ترین سینما گرامینزچائنیزتھیٹر ہے‘ یہ اندر سے محل کی طرح ہے لیکن یہ اس دن بند تھا‘ یہ سینما عموماً پریمیئر شوز کے لیے استعمال ہوتا ہے‘ تین دن بعد ممی سیریز کی نئی فلم آ رہی تھی چنانچہ مالکان نے اس فلم کی لانچ کے لیے سینما بند کر رکھا تھا‘ واک آف فیم اپنے فٹ پاتھ کی وجہ سے پوری دنیا میں مشہور ہے‘ فٹ پاتھ پر ہالی ووڈ کے عظیم اداکاروں‘ اداکاراؤں اور دنیا کے نامور کھلاڑیوں کے نام لکھے ہیں‘ ہر اداکار کا نام ایک ستارے میں لکھا گیا ہے‘ لوگ چلتے جاتے ہیں اور اپنے پسندیدہ سپر اسٹارز کے نام پڑھتے جاتے ہیں‘ فٹ پاتھ پر نام لکھنے کی وجہ شاید سپر اسٹارز کو یہ پیغام دینا ہے آپ آج جو بھی ہیں آپ وہ ان لوگوں کی وجہ سے ہیں جو اس وقت آپ کے ناموں کے اوپر چل رہے ہیں‘ یہ واک آف فیم کی ایک وجہ شہرت ہے۔
اس کی دوسری وجہ شہرت محمد علی کلے ہیں‘ ہالی ووڈ کی انتظامیہ نے2002ء میں دنیا کے عظیم باکسر محمد علی کلے کا نام بھی واک آف فیم پر لکھنے کا فیصلہ کیا‘ محمد علی کلے سے رابطہ کیا گیا تو انھوں نے اپنا نام فٹ پاتھ پر لکھوانے سے انکار کر دیا‘ ان کا کہنا تھا‘ میرے نام میں محمد اور علی دو مقدس نام آتے ہیں اور کوئی مسلمان یہ نام فٹ پاتھ پر لکھنے کی اجازت نہیں دے سکتا‘ یہ ہمارے مذہب کی توہین ہے‘ یہ ایشو کئی دنوں تک نزع کا باعث بنا رہا یہاں تک کہ انتظامیہ آخری بار محمد علی کلے کے پاس گئی‘ محمد علی نے ان کو اس شرط پر اپنا نام لکھنے کی اجازت دے دی کہ ان کے نام کی تختی فٹ پاتھ کے بجائے دیوار پر لگے گی چنانچہ واک آف فیم میں ہالی ووڈ کے تمام سپراسٹارز کے نام فٹ پاتھ پر تحریر ہیں جب کہ محمد علی کلے کی تختی دیوار پر لگی ہے‘ یہ تختی واک آف فیم کے مال کے مرکزی دروازے کے ساتھ دیوار پر نصب ہے‘ میں نے وہ تختی تلاش کی‘ وہ آئس کریم پارلر کے ساتھ تھی‘ پارلر کی چھتری نے اسے چھپا رکھا تھا‘ میں نے چھتری دائیں بائیں کی‘ تختی کے پیچھے دو کرسیاں رکھیں اور ہم سب نے اس کے ساتھ تصویریں بنوائیں‘ یہ تصویریں میری زندگی کی قیمتی ترین تصویروں میں شامل ہیں۔
ہالی ووڈ میں درجن سے زائد اسٹوڈیوز ہیں‘ ان اسٹوڈیوز میں سے تین بہت اہم ہیں‘ یونیورسٹل اسٹوڈیوز‘ ڈزنی اسٹوڈیوز اور وارنر برادرز اسٹوڈیوز۔ یونیورسل اسٹوڈیو ان تینوں میں بڑا اور پرانا ہے‘ یہ اسٹوڈیو کارل لائم لے نے 1912ء میں بنایا تھا‘ یہ دنیا کو اب تک 10ہزار بڑی اور مقبول فلمیں دے چکا ہے۔ ’’موشن پکچرز‘‘ ایڈیسن نے نیوجرسی میں ایجاد کیں لیکن ان کا کمرشل استعمال یونیورسل نے شروع کیا‘ یہ کمپنی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ فلم سازی کی نئی نئی تکنیکس اور آلات بھی ایجاد کرتی رہی‘ یہ وہ آلات ہیں جنہوں نے آج فلم کو حقیقت سے بھی آگے کی چیز بنا دیا‘ آج فلم صرف فلم نہیں رہی یہ حیرت کدہ بن چکی ہے‘ مجھے چار بار یونیورسل اسٹوڈیو دیکھنے کا اتفاق ہوا‘ تین بار پیرس کے یوروڈزنی اور ایک بار آرلینڈو میں لیکن اصل یونیورسل دیکھنے کا موقع 23 مئی 2017ء کو اس وزٹ میں ملا‘ ہالی ووڈ کا یونیورسل اصل اسٹوڈیو ہے‘ یہ اسٹوڈیو دو حصوں میں تقسیم ہے۔
پہلے حصے میں سیاحوں کو فلم کی تکنیکس اور فلم سازی کا عمل دکھایا جاتا ہے جب کہ دوسرا حصہ اصل اسٹوڈیوز پر مشتمل ہے‘ ان میں فلمیں بنتی ہیں‘ یہ حصہ جنرل پبلک کے لیے بند رہتا ہے‘ تاہم سیاحوں کو ایک ٹرین کے ذریعے اس حصے کی سیر کرائی جاتی ہے‘ ہم نے ٹرین لی‘ ٹرین مختلف اسٹوڈیوز کے درمیان سے گزرتی ہوئی اوپن ائیر سیٹس کے احاطے میں پہنچ گئی‘ یہ ایک دلچسپ جگہ تھی‘ وہاں نیویارک شہر‘ پرانے امریکی دیہات‘ قصبوں اور منڈیوں کے سیٹ لگے تھے‘ وہ سیٹ مکمل شہر تھے‘ دروازے‘ کھڑکیاں اور دیواریں تک اصل محسوس ہوتی تھیں‘ سیٹ کے اس سلسلے کی ایک کڑی ایک مکمل محلہ تھا‘ یہ محلہ ماضی کی کسی مشہور ٹیلی ویژن سیریل کے لیے بنایا گیا تھا‘ سیریل کے لیے مکانات‘ سڑکیں اور پارک تک بنائے گئے تھے‘ جراسیک پارک بھی یونیورسٹل اسٹوڈیو میں بنی تھی‘ اس کا اوپن ائیر سیٹ بھی ایک حیرت کدہ تھا۔
ہمارے سامنے پورا جنگل تھا اور اس جنگل میں مکینیکل ڈینو سارس چل رہے تھے‘ ٹرین ہمیں دو ایسے اسٹوڈیوز میں بھی لے گئی جن میں تھری ڈی پر اسٹار وار کی کسی فلم کا ایک ٹکڑا‘ ڈینو سارس کی لڑائی اور لندن کے انڈر گراؤنڈ کی زلزلے میں تباہی کا منظر دکھایا گیا تھا‘ یہ تینوں مناظر اصل محسوس ہوتے تھے‘ لندن کے انڈر گراؤنڈ کی تباہی کے سین کے لیے اسٹوڈیو میں پورا انڈر گراؤنڈ بنایا گیا‘ وہاں ٹرین کی پٹڑی بھی تھی‘ ٹرین بھی آتی تھی‘ ٹرین پٹرول کے ٹینکر سے بھی ٹکراتی تھی اور ٹینکر کو باقاعدہ آگ بھی لگتی تھی‘ اسٹوڈیو کے پہلے حصے میں رولر کوسٹرز اور مشہور فلموں کے سیٹس ہیں‘ فلم ہیری پورٹر کا سیٹ سب سے زیادہ جاندار تھا‘ فلم کے لیے پورا قدیم شہر بنایاگیا تھا‘ شہر کی ہر چیز اصلی تھی‘ آپ ہیری پورٹر کے شہر میں گھومتے ہوئے ماضی میں چلے جاتے ہیں‘ اس سیٹ کا آخری حصہ ’’رائیڈز‘‘ ہے۔
یہ تھری ڈی کا کمال نمونہ ہے‘ آپ ایک گنڈولے میں بیٹھتے ہیں‘ ہیری پورٹر آپ کی قیادت کرتا ہے اور آپ اس کی پوری دنیا میں گھومنے لگتے ہیں‘ مسٹر ہلک‘ ممی اور الفریڈہچکاک کی فلم سائیکو کے سیٹس اور ’’رائیڈز‘‘بھی ناقابل فراموش ہیں‘ یونیورسل اسٹوڈیوز کا آخری حصہ واٹر ورلڈ اور ساؤنڈز ایفیکٹس کا شو تھا‘ واٹر ورلڈ کے لیے باقاعدہ جھیل بنائی گئی تھی‘ جھیل میں موٹربوٹس بھی چلتی ہیں اور آخر میں اس جھیل میں ایک ہوائی جہاز بھی آ گرتا ہے اور اس کو آگ بھی لگ جاتی ہے‘ ایفیکٹس کا شو ایک مکمل اسٹیج شو تھا‘ اس شو میں بتایا گیا لڑائی کے دوران مکے اور ڈنڈے کیسے مارے جاتے ہیں‘ کسی ایکٹر کو آگ کیسے لگائی جاتی ہے‘ کارٹون فلمیں کیسے بنائی جاتی ہیں اور خلاء میں اڑنے اور چلنے کے سین کیسے فلمائے جاتے ہیں‘ ہارر فلمیں کیسے بنائی جاتی ہیں اور فلموں میں چاقو اور چھریاں کیسے استعمال ہوتی ہیں‘ یہ شو بھی ایک مکمل لرننگ تھی۔
ہالی ووڈ کی تیسری اٹریکشن بیورلے ہلز ہے‘ یہ ہالی ووڈ کا مہنگا ترین رہائشی علاقہ ہے‘ اس علاقے میں اداکاروں اور اداکاراؤں کے گھر ہیں‘ سڑکیں بڑی بڑی اور ان کے دونوں طرف پام کے اونچے اونچے درخت اور ان درختوں کے سائے میں ایکڑ ایکڑ کے بڑے بڑے گھر‘ بیورلے ہلز آپ کے دل میں اتر جاتا ہے‘ بیورلے ہلز کے شاپنگ ایریاز میں تمام بڑے برانڈز کے آؤٹ لیٹس‘ ریستوران اور کافی شاپس ہیں‘ آپ وہاں گھومتے ہوئے خود کو کسی فلم کا کردار محسوس کرتے ہیں‘ آپ کی پشت پر ہالی ووڈ کا بورڈ ہوتا ہے‘ دائیں جانب بیورلے ہلز کے مکان اور بائیں جانب برانڈز کے آؤٹ لیٹس۔آپ کو اگر موقع ملے تو آپ ایک بار‘ زندگی میں کم از کم ایک بار ہالی ووڈ ضرور جائیں اور شام کے اس وقت جب دن کی چاندی رات کی سیاہ چادر میں چھپ رہی ہو آپ عین اس وقت بیورلے ہلز کی سڑکوں پر واک کریں‘ آپ کو زندگی کے معنی تبدیل ہوتے ہوئے محسوس ہوں گے۔
جاوید چوہدری


موٹیویشن

کالے رنگ کا بچہ سٹاپ پرکھڑاغبارے بیچنےوالےکودیکھ رہا تھا ،غبارے بیچنے والالوگوں کی توجہ حاصل کرنےکےلیےمختلف رنگ کےغبارے ہوامیں چھوڑرہا تھا،اس نے بچےکودیکھا اوراپنے پاس بلایا اورکہا بیٹا کیا دیکھ رہے ہو،بچےنےکہا کہ کیا کالے رنگ کا غبارہ بھی  اڑتا ہے ؟ غبارے بیچنے والے نےکہا یہ کالا نہیں ہوتا بلکہ غبارے کےاندرگیس ہوتی ہےجواس کواڑاتی ہے ۔ انسان کے اندربھی ایک  گیس ہوتی ہے جس کوموٹیویشن یا قوت ِارادی کہا جاتا ہے جو اس  کو اڑاتی  ہے  ،جوکامیابی کوممکن بنا تی ہے، یہ قوت ِ ارادی انسان کے اختیارمیں ہوتی ہے، اہم بات اس کودریافت کرنا اورپالش کرنا ہوتا ہے۔ بےشمارلوگوں میں یہ قوت ِارادی اس وقت پیدا ہوتی ہےجب وہ محروم ہوتےہیں، جب ان میں خامیاں ہوتی ہیں، جب ان کےحالات خراب ہوتے ہیں ۔ اس صورتحال میں جب ان میں قوت ِارادی پیدا ہوتی ہے تووہ اتنی مضبوط ہوتی ہےکہ راستےکی ہررکاوٹ کودورکردیتی ہے۔ بعض اوقات محروم لوگوں کوقدرت گائیڈ کرتی ہے، بعض اوقات انہیں گائیڈ کرنےوالےلوگ مل جاتے ہیں جوان کوبتاتےہیں کہ محرومی کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ دنیا میں جتنے بھی لوگ کامیاب ہوئےانہوں نےاس محرومی کےجذبے کوکامیابی میں بدلا ۔
موٹیویشن کا فلسفہ یہ ہےکہ حالات نہیں بدلےجا سکتے لیکن خود کو بدلا جا سکتا ہے ۔علامہ اقبالؒ فرماتےہیں(مفہوم) تو بدل جا تیری تقدیر بدل جائےگی یعنی جوکوئی خود کوبدلتا ہےتو اس کی تقدیر بھی بدلنا شروع ہو جاتی ہے۔ سوچ اور گمان کی تبدیلی باہرکے حالات کو تبدیل کردیتی ہے۔پائیلو کولوکہتا ہےکہ جب بندہ کسی کام کوجنون کےساتھ کرتا ہے تو پوری کائنات اس کے ساتھ شامل ہوجاتی ہے۔قدرت کا نظام ایسا زبردست ہے جب کوئی جذبےاور جنون والا شخص آتا ہے تو یہ نظام بلنک کرنے لگ پڑتا ہےقدرت اس کو دیکھ رہی ہوتی ہےکہ لائٹ بلنک ہورہی ہےاوریہ بندہ کچھ کرنا چاہتا ہے قدرت پھراس کواختیار دیتی ہےکہ وہ اپنا نصیب اپنےہاتھ سےلکھے ۔ اس کواختیار مل جاتا ہےکہ وہ زمانے کو بدل دے۔ یہ جنون اس وقت آتا ہےجب فوکس ہو ۔کسی نےسقراط سےپوچھا کہ تمہارے پاس اتنا علم کیسےآیا سقراط نے کہا کل صبح دریا پر آ جانا تمہیں جواب مل جائے گا۔ اگلی صبح جب وہ شخص اس جگہ پہنچا تو اس نےدیکھا کہ سقراط پانی میں کھڑا ہےاور پانی اس کےکندھوں تک ہے۔ سقراط نےاس شخص کودیکھا اورکہا کہ تم بھی پانی میں آجاؤ تمہیں جواب مل جائےگا۔ وہ شخص سقراط کے پاس چلا گیا، سقراط نے اسے پکڑا اور پانی میں ڈبو دیا جیسے ہی وہ پانی میں ڈوبا تواس کوغوطےآنےشروع ہوگئےاس کےلیےبرداشت کرنا مشکل ہوگیا،اس نے پوری قوت کولگا کرسقراط کوسائیڈ پرکیا اور پانی سے باہرنکل گیا۔ سقراط نے پوچھا کیا ہوا اس نےکہا میری تو جان جانےلگی تھی ،سقراط نے پوچھا جب تم پانی کےاندر تھےتواس وقت تمہاری کیا خواہش تھی اس نےکہا بس ایک ہی خواہش تھی کہ کسی طرح سانس آجائے، سقراط نےکہا جس طرح اس لمحے تمہاری یہ خواہش تھی کہ کسی طرح سانس آ جائے بلکل اسی طرح ہرلمحےمیری یہ خواہش رہتی ہےکہ میں کچھ سیکھ لوں ۔سقراط نےاسے کہا کہ اگر علم کے بارے میں تمہاری خواہش اس طرح ہو جائےتوتمہارے پاس بھی علم آجائےگا۔
جتنےبھی موٹیویشن والے لوگ ہوتے ہیں ان کی قوت مدافعت بہت مضبوط ہوتی ہے، ان سے بیماریاں اور مسائل دوررہتے ہیں۔ آج مائنڈ سائنسزمانتی ہےکہ ایک سوچ و جذبہ اگراپنے پاس رکھا جائے تواس سوچ اورجذبے سے جسم کے ایک ایک سیل پر اثرپڑتا ہے۔ موٹیویشن والے کی وائبریشن بہت زیادہ ہائی ہوتی ہےاوراس کودوسرے لوگوں کی نسبت مواقع بھی زیادہ ملتے ہیں ۔بہت سے لوگ اپنےآپ کو سمجھتے ہیں کہ ہم بہت ذہین ہیں ہم بہت ترقی کرجائیں گےاس میں کوئی شک نہیں کہ کامیابی میں ذہانت کا کردار ہے لیکن ذہانت پربھی اگرکوئی چیز بھاری ہے تو وہ جذبہ ہے جنون ہے۔ بہت سارے لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جن کی ذہانت توزیاد ہ نہیں ہوتی لیکن ان میں جذبہ اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ وہ سب کو پیچھے چھوڑ دیتےہیں اوروہ جذبہ ان کے سر کا تاج اور شناخت بن جاتا ہے۔ وہ قومیں زیادہ ترقی کرتی ہیں جن کےپاس جذبہ ہوتا ہے، جن کےپاس جنون ہوتا ہےاورجن کے پاس قوت ارادی ہوتی ہے۔ پاکستان بننے کےپیچھے بھی یہی جذبہ اورجنون تھا۔یہ بہت مشکل ہےکہ کوئی اپنا گھربارچھوڑدے ، اپنا سب کچھ برباد کرکےدوسری جگہ پرچلا جائے۔دنیا میں جتنی آزادی کی تحریکیں چل رہی ہیں وہ جذبےاورجنون کی ہی داستانیں ہیں۔
ناپسندیدہ کام میں موٹیویشن برقرارنہیں رہتی، موٹیویشن اس صورت میں برقراررکھنا آسان ہو تا ہےجب پسند والاکام ہو۔جوکام پسند ہوں اس شعبےکےکامیاب لوگوں کی کہانیاں، باتیں اوران کےقول موٹیویشن کو برقراررکھنےاور اس میں اضافےکا باعث بنتے ہیں۔ہروقت خوابوں کوآنکھوں میں بسائےرکھنےسےموٹیویشن برقراررہتی ہے۔ اگر کام کےفائدے کا پتا ہو تو تب بھی موٹیویشن برقراررہتی ہے۔ بڑے بڑے اہداف کی وجہ سے بھی موٹیویشن برقراررہتی ہے لوگوں کےاہداف ہی اتنےچھوٹےہوتےہیں کہ ان میں موٹیویشن پیدا نہیں ہوتی مثال کےطورپردس روپے کےلیےبھاگہ نہیں جا سکتا لیکن اگردس لاکھ ہوں تودوڑلگائی جائےگی جتنےبڑے ٹارگٹس ہوں گےاتنی زیادہ موٹیویشن ہوگی ۔لوگوں کوبڑے خواب بنانےسےڈرلگتا ہے وہ سمجھتےہیں کہ شائد بڑے خواب پورے نہیں ہوں گے۔کچھ بڑے خواب ایسے ضرورہونےچاہییں کہ ان کی وجہ سے چھوٹےخواب پورے ہوجائیں کیونکہ کچھ خواب ایسے ہوتے ہیں کہ ان میں طاقت اتنی ہوتی ہےکہ ان کی وجہ سے چھوٹے خواب ویسے ہی پورے ہو جاتےہیں ۔بعض اوقات ایسا ہوتا ہےکہ بڑاخواب دیکھ لیاجاتا ہےلیکن جب سفر شروع ہوتا ہےتواس سوچ کےساتھ اس کوچھوڑدیا جاتا ہےکہ یہ کیسےپورا ہوگالیکن یہ یاد رکھنا چاہیے بندہ یا تو جیت جاتا ہےیا پھر سیکھ جاتا ہے۔ کبھی ہار سے نہیں بھاگنا چاہیے جو بندہ ہارسے بچنا چاہتا ہےوہ کامیابی سے بھی بچ جاتا ہےجوجتنی بارناکامی کا سامنا کرتا ہے وہ اتنا ہی ذہین اورمضبوط بن جاتا ہے ۔ جس نےمشکلات سے سیکھا ہوتا ہے اس کے پاس زندگی کےزیادہ سبق ہوتےہیں وہ سبق اسے ذہین بنا دیتےہیں۔
بچوں میں موٹیویشن کےحوالے سےوالدین کا بہت زیادہ کردارہےاگروالدین سست ہوں گے، ڈی  موٹیویٹ  ہوں گے توبچوں میں موٹیویشن پیدا نہیں ہوسکےگی۔ جب گھروں میں موٹیویشن دینےکا کلچرہوگا تو بچوں میں آگےبڑھنےکا جذبہ بھی بہت زیادہ ہوگا۔ المیہ یہ ہےکہ ہمارے ہاں جب کوئی بچہ اپنےشوق کاااظہارکرتا ہےتواس کو تنقید کا نشانہ بنایاجاتا ہے۔ استاد موٹیویشن کا بہت بڑا ذریعہ ہوتا ہےاگراستاد بچے میں موٹیویشن پیدا کردے تو بچے کا نصیب بدل سکتا ہے۔ استاد کی نصیحتیں اتنا زیادہ اثرنہیں کرتیں جتنا استاد کی شخصیت اثرکرتی ہیں اگراستاد ایک ماڈل ہے توپھربچوں کےلیےموٹیویٹ ہونا بہت آسان ہوجاتا ہے۔تاریخ میں بڑے استادوں کےشاگرد بھی بڑے انسان بنےاس کی وجہ یہ تھی استادوں نےاپنے شاگردوں میں ایسا جذبہ پیدا کردیا کہ جس کی وجہ سےانہوں نے کچھ بن کےدکھا دیا۔ بہت سارے طالب علم پڑھائی کےشروع میں بہت زیادہ موٹیویٹ ہوتے ہیں لیکن وقت کےساتھ ساتھ ان کی موٹیویشن کا گراف آہستہ آہستہ گرِنا شروع ہوجاتا ہے۔ بڑے طالب علموں میں پڑھائی کےدوران ملک وقوم کی خدمت کا جذبہ ہوتا ہےلیکن جب ان کےکام کرنےکاوقت آتا ہے تواس کی موٹیویشن انتہائی کم ہوچکی ہوتی ہےاس کی ایک بہت بڑی وجہ یہ ہےکہ ادارے اپنا کردارادا نہیں کرر ہے۔ بچے جس کشتی میں سوارہوتےہیں اسی میں چھید بھی کرتےہیں اس سے ناصرف کشتی ڈوبتی ہے بلکہ وہ خود بھی ڈوب جاتےہیں۔ تعلیمی ادارے میں اس بات کویقینی بنانا چاہیےکہ بچوں کی موٹیویشن کسی طرح بھی کم نہیں ہونی چاہیے ۔ بچےمیں یقین اوراعتماد ادارے پیدا کرتےہیں، اداروں میں ایسا ماحول ہوتا ہے جس میں بچے خواب دیکھتے ہیں پھران خوابوں کوپوراکرنےکےلیےان کےاندرموٹیویشن پیدا ہوتی ہے۔
کتاب موٹیویشن کاایک بہت بڑا ذریعہ ہےکچھ کتابیں ایسی ہوتی ہیں کہ جن کو پڑھنے سےموٹیویشن پیداہوتی ہےلیکن ہرایک کےلیےایک ہی کتاب موٹیویشن کا ذریعہ نہیں ہوسکتی ۔بڑے لوگوں نے"میں ہوں تیمور" کتاب کوپڑھااورانہیں بہت موٹیویشن ملی ۔کامیاب لوگوں کی کہانیاں اورداستانیں موٹیویشن کا ایک بہت بڑا ذریعہ ہیں اس طرح کی بہت سی کتابیں مارکیٹ میں موجود ہیں لوگوں نےان کتابوں پرکام بھی کیا ان کوپڑھ کراپنےاندرجذبہ پیدا کیاجا سکتا ہے۔ اگرایک عام شخص کوشش کرکےمنزل تک پہنچ سکتا ہے تواس کا مطلب ہےکہ ہرکوئی کرسکتا ہےلیکن ضروری چیز یہ ہےکہ ان کتابوں اورکہانیوں سےاندریہ یقین پیدا ہونا چاہیےکہ میں بھی کرسکتا ہوں توپھرمنزل کو پانا آسان ہو جاتا ہے۔ ایک استاد کا کہنا ہےکہ اگر کتاب میں ایک جملہ بھی کام کا نکل آئےتو سمجھوکتاب کے پیسےپورے ہوگئے کیونکہ وہ جملہ بندے کی پوری زندگی بدل سکتا ہے۔
بہت سے لوگ ایسے ہیں جن کو پتا ہوتا ہےکہ کس کام کا کیا نتیجہ نکلنا ہےانہوں نے اپنےکاموں کوبہت واضح کیا ہوتا ہے،انہیں کام کےفوائد کا پتا ہوتا ہے، انہیں پتا ہوتا ہےکہ ہمارے کام کےاثرات کہاں کہاں تک جائیں گے۔ اگرکسی کواپنےکام کےنتیجے کا نہیں پتا اوروہ اس کے انجام کےبغیرچل رہاہےتووہ سرا سرحماقت کررہا ہےاس کا مطلب ہےکہ وہ قسمت کےرحم وکرم پرہےاورقسمت کبھی رحم کھاتی ہے اورکبھی نہیں کھاتی۔ بڑے اہداف ہونےکےساتھ ساتھ حقیقت پسندانہ اپروچ بھی ہونی چاہیے۔ انتہائی فرضی انسان نہیں ہونا چاہیے پریکٹیکل اپروچ ہونی چاہیےاوریہ یقین ہونا چاہیےکہ میں نےاپنے اہداف کو حاصل کرلینا ہے۔ موٹیویشن انسان کوصرف بگاتی ہی نہیں ہے بلکہ روک کر بھی رکھتی ہے یعنی تنقید کو برداشت کرنا،مسائل کا سامنا کرنا،راستےکی رکاوٹوں کودورکرنااوراپنی منزل کےحصول کےلیےکھڑا ررہنا۔
نفسیات بتاتی ہےکہ انسان کےاندراڑتالیس قسم کے جذبات پائے جاتے ہیں ان میں منفی جذبہ بہت اہم ہے جیسےغصہ ۔غصے کی وجہ سے جتنے نقصانات ہوتے ہیں اس کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ غصےکوکام میں لانا یہ بہت اہم ہوتاہے، جیسے ہی غصہ آئےاس کوکسی دوسرے یا اپنےآپ پرنکالنے کی بجائےکسی کام پرلگانا اصل بات ہوتی ہے۔حضرت واصف علی واصف ؒ فرماتے ہیں" جوکم ظرف ہےاس کا غصہ اس کوکھا جاتاہےاعلیٰ ظرف کا غصہ زمانےکوبدل دیتا ہے" بعض لوگ اپنےغصےکا اتنا مثبت استعمال کرتے ہیں کہ زمانےکوبدل کررکھ دیتےہیں ۔ نفرت کا جذبہ بہت اہم ہےنفرت بتاتی ہے کہ کون میرا ہےاورکون میرا نہیں ہےاورمیراکیوں نہیں ہے۔ بندہ جذبات سے اپنی شناخت بناتا ہے۔ اگربندہ جذبات کوکام میں لانا شروع کردے ان کے ساتھ کھیلنا شروع کردے توزندگی بدل سکتی ہےاورکامیاب ہونا بہت آسان ہوسکتا ہے ۔
ہمارے معاشرے میں تعلیم مسئلہ نہیں ہے، نوکریاں مسئلہ نہیں ہے، غربت مسئلہ نہیں ہےمسئلہ یہ ہے اس کے پاس جذبہ نہیں ہے۔یہاں پرجذبےکا اظہار بہت کمزورہے۔ ہمارا نوجوان اپنے جذبےکودکھانےکے لیے ایک ٹائرپرموٹر سائیکل توچلاتا ہےلیکن تعلیم میں نمبرنہیں لیتا۔ جذبات کا غلط سمت میں استعمال ہورہا ہے۔ برصغیرکے لوگوں میں بہت زیادہ جذبات پائے جاتے ہیں ۔آج بھی یہاں کی لیبرکلاس کو کام کے حوالے سے مانا جاتا ہےلیکن اس کے باجود پتا نہیں ہےکہ اپنےجذبات کوکہاں اور کیسے استعمال کرنا ہے۔ حدتو یہ ہے کہ ہمیں احتجاج بھی کرنا نہیں آتا سب سے پہلے تواحتجاج سکھانا چاہیے، احتجاج کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ اینٹ اٹھا کراپنےسرپرمار دی جائے، احتجاج یہ نہیں ہوتا کہ اپنےملک کے اشارے توڑ د یئے جائیں،احتجاج یہ نہیں ہوتا کہ اپنےملک کی سٹر کیں خراب کردی جائیں احتجاج کا مطلب یہ ہےکہ ٹیکنالوجی کا مقابلہ ٹیکنا لوجی سے ہو، کتاب کا مقابلہ کتاب سے ہو۔
اپنے جذبوں کے محافظ بنیں اگر آپ کو قدرت نےکوئی جذبہ دیا ہے توخدارااپنے جذبےکے محافظ بنیں آپ کواندازہ نہیں ہے آپ کاجذبہ ناصرف آپ کی اپنی زندگی کو بدل سکتا ہے بلکہ آپ سے جڑے کتنےلوگوں کی زندگی کو بدل سکتا ہے۔ اگردینے کےلیے جذبہ نہیں ہوگا تو پھرمعاشرے میں تبدیلی کیسےآئےگی ۔ جذبے کی تلاش کے لیے نوافل پڑھیں اوراللہ تعالیٰ کےحضوردعا کی صورت میں خط لکھیں ۔اللہ تعالیٰ کی ذات اتنی بڑی کائنات کوچلا رہی ہے روز اس کےہاں ہزاروں لاکھوں کی تعدادمیں دعا کی شکل میں خطوط آتے ہیں ان خطوط میں کوئی بچےمانگ رہا ہے، کوئی نوکری مانگ رہا ہے، کوئی بچوں کی شادیوں کے بارے میں عرض کررہا ہےلیکن اگرخط میں یہ لکھا ہو کہ مالک کسی طرح میراجذبہ دریافت ہو جائے،میں کوئی کام ایسا کروں جس سےدوسروں کوفائدہ ہوتواللہ تعالیٰ کی ذات ایسے خط سےبہت خوش ہوگی ۔ سچےدل کےساتھ اللہ تعالیٰ سےدعاکریں کہ  کی مالک میرے جذبوں کو سلامت رکھ اور ان کوتلاش کرنےمیں رہنمائی فرما۔



اتوار، 28 مئی، 2017

تھینک یو ایڈیسن

ربڑ آخری کوشش تھی‘ وہ لیبارٹری میں ربڑ بنانا چاہتا تھا‘ ربڑ بن گیا لیکن کوالٹی اچھی نہیں تھی‘ وہ کوالٹی بہتر بنانے کی کوشش کرتا رہا لیکن موت کا فرشتہ آ گیا‘ وہ مسکرایا اور اپنا آپ اس کے حوالے کر دیا‘ موت کا فرشتہ اسے لے گیا مگر مجھے یقین ہے موت کے فرشتے کو اس کی جان قبض کرتے وقت بہت افسوس ہوا ہو گا‘ وہ اس سے آنکھ نہیں ملا پایا ہو گا‘ وہ ایک ایسے انسان کی آنکھ میں آنکھ کیسے ڈالتا جس نے اللہ کے دیے ہوئے ایک ایک لمحے کو استعمال کیا‘ جس نے اپنی زندگی دوسروں کی زندگی بہتر بنانے کے لیے وقف کر دی۔
میں صبح دس بجے اس عظیم انسان کی اس لیبارٹری کے دروازے پر کھڑا تھا جس میں اس نے نسل انسانی کو 1100 ایسی ایجادات دیں جنھوں نے ہم سب کی زندگی بدل دی‘ یہ دنیا رہنے کے لیے زیادہ بہتر ہو گئی‘ گارڈ نے تالہ کھولا‘ لوہے کے گیٹ سے چڑڑ چڑڑ کی آواز آئی اور ہم اندر داخل ہو گئے۔
آپ دنیا کے کسی کونے میں بیٹھ جائیں‘ آپ کچھ بھی کر رہے ہوں‘ آپ زندگی کی کسی بھی نعمت سے لطف اندوز ہو رہے ہوں آپ تھامس ایڈیسن کا شکریہ ادا کیے بغیر نہیں رہ سکیں گے‘ پلاسٹک ہو‘ سیمنٹ ہو‘ چھت کا پنکھا ہو‘ ٹیلی پرنٹر ہو‘ ٹائپ رائٹر ہو‘ آڈیو سسٹم ہو‘ فلم ہو‘ ایکسرے ہو‘ بیٹری ہو‘ فوم ہو‘ بجلی کا بلب ہو‘ ٹارچ ہو‘ بال پین ہو اورالیکٹرسٹی ڈسٹری بیوشن سسٹم ہو آپ دنیا کی کسی اہم ایجاد کا نام لیں آپ کو اس کے پیچھے ایڈیسن کا نام ملے گا‘ وہ ان پڑھ تھا‘ وہ چند ماہ اسکول گیا‘ اساتذہ نے اسے نالائق قرار دے کر نکال دیا‘ آٹھ سال کی عمر میں تجربے شروع کیے‘ گھر کو آگ لگ گئی‘ مار پڑی لیکن وہ باز نہ آیا۔
ماں نے اسے گھر سے ذرا سے فاصلے پر تجربہ گاہ بنانے کی اجازت دے دی‘ وہ تجربے کرتے کرتے دس سال کا ہوا‘ ریل گاڑی میں اخبار بیچنے لگا‘ وہ اپنا اخبار خود شائع کرتا تھا‘ وہ ریل گاڑی کے باتھ روم میں بھی تجربے کرتا تھا‘ تجربوں کے  دوران ایک دن ڈبے میں آگ لگ گئی‘ گارڈز نے اسے پلیٹ فارم پر پٹخ دیا‘ یہ مار اس کے ایک کان کی قوت سماعت لے گئی‘ وہ آدھا بہرہ ہو گیا لیکن وہ اس کے باوجود ڈٹا رہا‘ وہ تجربے کرتا رہا یہاں تک کہ وہ دنیا کا سب سے بڑا سائنس دان بن گیا‘ دنیا دو حصوں میں تقسیم ہو گئی‘ ایڈیسن سے پہلے کی دنیا اور ایڈیسن سے بعد کی دنیا۔
وہ نیوجرسی میں رہتا تھا‘ وہ جس شہر میں رہتا تھا وہ پورا شہر آج ایڈیسن کہلاتا ہے‘ ایڈیسن شہر نیویارک سے 30 منٹ کی ڈرائیو پر واقع ہے لیکن یہ شہر آپ کو وقت اور شکر میں تین سو سال آگے لے جاتا ہے‘ یہ آپ کے دماغ کی ساری کھڑکیاں کھول دیتا ہے‘ آپ اگر علم پسند ہیں تو پھر ایڈیسن شہر میں تھامس ایڈیسن سے متعلق تین مقامات دیکھنا آپ پر فرض ہو جاتے ہیں‘ پہلا مقام ایڈیسن کی تجربہ گاہ ہے‘ یہ تجربہ گاہ سائنس کا کعبہ ہے‘ ہم اڑھائی گھنٹے اس کعبے میں رہے اور ہر پانچ منٹ بعد دنیا کے اس عظیم انسان کا شکریہ ادا کرنے پر مجبور ہو جاتے۔
لیبارٹری کے بے شمار حصے ہیں‘ پہلا حصہ ایڈیسن کی لائبریری ہے‘ یہ لکڑی کی تین منزلہ عمارت ہے‘ عمارت کے چاروں طرف کیبن بنے ہیں‘ ہر کیبن کی دیواروں پر کتابیں لگی ہیں اور کتابوں کے درمیان ایک کرسی پڑی ہے‘ ہر کیبن سائنس کا ایک سیکشن ہے‘ ایڈیسن ان پڑھ تھا لیکن اس نے فرنچ‘ جرمن اور اطالوی زبانیں سیکھ لیں‘ وہ دن کا ایک بڑا حصہ لائبریری میں کتابیں پڑھ کر گزارتا تھا‘ لائبریری میں اس کا بیڈ بھی رکھا ہوا تھا‘ وہ اکثر اوقات پڑھتے پڑھتے وہیں سو جاتا تھا‘ میں نے زندگی میں بے شمار لائبریریاں دیکھی ہیں لیکن یہ لائبریری انوکھی بھی تھی اور پرکشش بھی‘ یہ میرے دل میں اتر گئی۔
لیبارٹری کے دوسرے فلور پر ’’فونو گرام‘‘ کا کمرہ تھا‘ ایڈیسن نے فونو گرام ایجاد کر کے ہم انسانوں کو آڈیو سسٹم دیا تھا‘ فونو گرام پر ایڈیسن کے 35 سال خرچ ہوئے لیکن اس نے کمال کر دیا‘ اس سیکشن میں اس کے ایجاد کردہ فونو گرام اور ریکارڈ (ڈسکیں) رکھے ہیں‘ اس سے اگلا سیکشن اس کی چھوٹی تجربہ گاہ ہے‘ اس تجربہ گاہ میں ہزاروں چھوٹے بڑے آلات اور اوزار رکھے ہیں‘ یہ تجربہ گاہ ایک بڑی خراد گاہ سے منسلک ہے‘ خراد گاہ میں بڑی مشینیں لگی ہیں‘ اس نے خراد گاہ کے لیے بجلی کا اپنا نظام بنا رکھا تھا‘ وہ سسٹم تاحال موجود ہے‘ خراد سے اگلے سیکشن میں اس کی ایجاد کردہ اشیاء رکھی ہیں۔
اس سیکشن سے گزرتے ہوئے معلوم ہوتا ہے دنیا کی ہر اہم چیز ایڈیسن نے ایجاد کی تھی‘ ایکسرے مشین کے سامنے کھڑے ہو کر پتہ چلا‘ یہ مشین اس نے بڑی مشکل سے ایجاد کی تھی‘ ایکسرے کی ایجاد کے دوران اس کے بے شمار ورکرز تابکاری کا نشانہ بنے اور انتقال کر گئے‘ وہ خود  بھی تابکاری کا شکار رہا لیکن جب ایکسرے ایجاد ہو گیا تو اس نے یہ ایجاد عام کر دی‘ دنیا کا کوئی بھی شخص اور کوئی بھی کمپنی ایکسرے مشین بنا سکتی تھی‘ یہ اس کی ذات کا کھلا پن اور فراخ دلی تھی۔
ایڈیسن کی تجربہ گاہ کا دوسرا اہم مقام کیمسٹری لیب تھا‘ یہ لیب لیبارٹری کے احاطے میں ایک الگ کمپاؤنڈ میں قائم تھی‘ ہم کیمسٹری لیب میں داخل ہونے لگے تو گائیڈ نے اعلان کیا ’’آپ دنیا کے ایک ایسے مقام میں داخل ہو رہے ہیں جس نے پوری دنیا کا لیونگ اسٹینڈرڈ بدل دیا‘ یہ لیب انسانوں کی بہت بڑی محسن ہے‘‘ ہم اندر داخل ہوئے‘ یہ کسی سائنس کالج کی لیبارٹری جتنی لیب تھی لیکن اس میں دنیا کی بڑی بڑی ایجادات وقوع پذیر ہوئی تھیں‘ بیٹری‘ ٹارچ‘ ایکسرے‘ فونو گرام کی ڈسک اور ربڑ سمیت بے شمار ایجادات نے اس لیب میں آنکھ کھولی تھی‘ لیب میں تمام اشیاء جوں کی توں رکھی تھیں۔
شیشے کے جاروں میں کیمیائی مادے بھی اسی طرح رکھے تھے اور میزوں پر ٹیوبیں اور اوزار بھی ایڈیسن کا انتظار کر رہے تھے‘ لیبارٹری کے شیشے دودھیا تھے‘ گائیڈ نے بتایا ایڈیسن کے حریف پہاڑی پر دوربینیں لگا کر اس کے کام کی جاسوسی کرتے رہتے تھے‘ ایڈیسن نے ان جاسوسوں سے بچنے کے لیے شیشے دودھیاں کر دیے تھے‘ یہ لیبارٹری سردیوں اور موسم بہار میں قابل برداشت ہوتی تھی لیکن یہ گرمیوں میں ناقابل برداشت حد تک گرم ہو جاتی تھی مگر اس کے باوجود ایڈیسن اور اس کے ساتھی کام کرتے رہتے تھے۔
لیبارٹری کے صحن میں سیاہ رنگ کا وہ اسٹوڈیو بھی موجود تھا جس میں ایڈیسن نے پہلی موشن فلم بنائی تھی‘ یہ اسٹوڈیو دنیا میں سینما کی بنیاد تھا اور وہاں ایڈیسن کا بنایا ہوا دنیا کا پہلا بلب اور پہلا ٹائپ رائیٹر بھی موجود تھا‘ لیبارٹری کا ایک ایک انچ اس کے جینئس ہونے کی دلیل تھا اور آپ ہر جگہ رک کر دنیا کے اس عظیم انسان کا شکریہ ادا کرنے پر مجبور ہو جاتے تھے۔
ایڈیسن کا گھر تیسرا قابل زیارت مقام تھا‘ یہ گھر لیبارٹری سے پانچ منٹ کی ڈرائیو پر واقع تھا‘ یہ 29 کمروں کا محل نما گھر تھا‘ یہ گھر اس نے اپنی دوسری بیگم میناملرکے لیے خریدا تھا‘ گھر کے دائیں بائیں وسیع جنگل تھا‘ پچاس فٹ اونچے چیڑھ کے درخت تھے‘ درختوں کے درمیان چہل قدمی کے لیے راستے بنے تھے‘ گھر کے چاروں اطراف وسیع لان تھے‘ لان میں پھولوں کے قطعے اور بیلوں کی لمبی باڑ تھی‘ گھر اندر سے بادشاہوں کی رہائش گاہ لگتا تھا‘ دیواروں پر قیمتی پینٹنگز لگی تھیں‘ فرنیچر اور کراکری انتہائی قیمتی تھی‘ قالین اور صوفے سو سال پورے کر چکے تھے لیکن اس کے باوجود یوں محسوس ہوتے تھے جیسے ایڈیسن ابھی یہاں سے اٹھ کر گیا ہے اور وہ کسی بھی وقت واپس آ جائے گا۔
ایڈیسن کے ہیٹ‘ چھڑیاں‘ بوٹ اور کپڑے بھی سلیقے سے رکھے تھے‘ کچن اور ڈائننگ روم بھی قابل استعمال محسوس ہوتا تھا‘ اسٹڈی میں رائٹنگ ٹیبل رکھی تھی اور دیواروں میں کتابوں کی شیلفیں تھیں‘ وہ مطالعے کا رسیا تھا شاید اسی لیے اس کے گھر اور لیبارٹری دونوں جگہوں پر ہزاروں کتابیں موجود تھیں‘ وہ ایک باذوق انسان تھا‘ اس کا ذوق اور نفاست گھر کی ایک ایک چیز سے جھلک رہی تھی‘ گھر کے پچھواڑے میں دو قبریں تھیں‘ ایک قبر میں ایڈیسن محو آرام ہے اور دوسری میں اس کی اہلیہ مینا ملر‘ دونوں قبریں زمین کی سطح پر چھ انچ اونچی ہیں‘ پتھر کی سلیٹی رنگ کی سل پر دونوں کے نام‘ تاریخ پیدائش اور انتقال کا سن تحریر تھا۔
سرہانے پھولوں کے درخت لگے ہیں‘ ہم قبر پر پہنچے تو شکور عالم صاحب نے فاتحہ کے لیے ہاتھ کھڑے کر دیے‘ وہ دعا پڑھ کر فارغ ہوئے تو میں نے پوچھا ’’سر کیا غیر مسلم کی فاتحہ پڑھی جا سکتی ہے‘‘ شکور صاحب نے فرمایا ’’میں نے کسی غیر مسلم کی فاتح نہیں پڑھی‘ میں نے انسانوں کے محسن کا شکریہ ادا کیا ہے‘ یہ شخص نہ ہوتا تو ہم آج بھی اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہوتے‘ یہ ہمارا محسن ہے‘ ہم اگر اس کا شکریہ ادا نہیں کرتے تو ہم احسان فراموش کہلائیں گے‘‘ میں نے شکور عالم صاحب سے اتفاق کیا‘ زور سے تھینک یو ایڈیسن کا نعرہ لگایا اور ایڈیسن کی قبر کو سیلوٹ کر دیا‘ وہ شخص حقیقتاً پوری دنیا کے سیلوٹ کا حق دار تھا‘ وہ نہ ہوتا تو شاید ہم اتنی شاندار دنیا میں نہ ہوتے‘ ہماری راتیں شاید اندھی اور دن شاید بے رنگ ہوتے۔
جاوید چوہدری



منگل، 2 مئی، 2017

خواب

خواب انبیاء  ؑ کا خاصہ اور صدیقین  کا بھی خاصہ کہا گیا ہے ۔ جو شخص  مقامِ صدیقیت پر فائزہوتا ہے اس کوخواب کی  تعبیر کا علم  دیا جاتا ہے ۔ ایک خواب شیطان و نفس کا وسوسہ ہو تے ہیں  وہ صرف خیالات کی  کشمکش  ہوتی ہے  جونیند   کی حالت  میں ہوتی  ہے اس کی  کوئی تعبیر اور  کوئی حقیقت نہیں ہوتی اور نہ  ہی وہ خواب بندے پر  اثر  ہونے  کی طاقت و قوت رکھتا  ہے  اس کے متعلق غوروفکر نہیں کرنا چاہیے  حدیث شریف  کے مفہوم کے مطابق  اگر آنکھ کھل جائے   توبائیں جانب  تھوک دیا جائے ۔ ایک خواب وہ ہے  جو  کہ عام نیک مسلمان دیکھتا ہے  اس میں خیر اور شر دونوں کا امکان موجود ہوتا ہے اس میں  ذریعہ ملائکہ  بھی ہو سکتےہیں  اوربندے  کی اپنی روحانیت کی  بھی ہو سکتی ہے۔  ا یسے  خواب کو  کسی ایسے شخص سے ذکر کرنا چاہیے جو کہ خوابو ں کی تعبیر کے  متعلق  جانتا ہو۔تیسرا درجہ انبیاء ؑ اور اولیاءؒ  کا ہوتا ہے ۔ اولیاء کے  بعض خواب الہام ہوتے ہیں ، اللہ تعالیٰ کی طرف سے  کوئی بشارت  ہوتی ہے ۔ حضر ت شاہ ولی اللہ ؒ اور حضرت  قاضی ثناء اللہ  پانی پتی ؒ  فرماتے ہیں : دن کو جھوٹ بولنے  والا رات کو سچا خواب نہیں دیکھ سکتا کیونکہ سچا خواب سچے کو ہی آسکتا ہے  ۔ سچے خواب  کا تعلق  باطن کے صدق کے ساتھ ہوتا ہے  بندہ جتنا سچا ہوگا  اس کو اتنا ہی سچا خواب آئے گا  ۔ آج بہت سارے  لوگوں کی خواہش  ہوتی  ہے کہ ہمیں حضوراکرمﷺ کی زیارت  نصیب ہو جائے انہیں چاہیے  کہ وہ اپنے آپ کو اس کسوٹی پر  پرکھیں ۔حضوراکرمﷺ  کی زیارت کا پہلا کلیہ صدق ہے  اور صدق صرف اتنا نہیں ہے  کہ بندہ جھوٹ نہ بولے  بلکہ  صدق کے  جتنے مدارج اور کیفیات  ہیں  وہ  میسر ہونی چاہییں۔بندے کو اپنے آپ سے جھوٹ  نہیں  بولنا چاہیے  دوسروں سےجھوٹ بولنا توبہت بعد  کی بات ہے ۔ سچے خواب مختصر ہوتےہیں ۔ انبیاء ؑ  کے خواب  وحی  ہوتے ہیں  کیونکہ نبی ؑ کے صدق  میں  کسی شک وشعبے  کی گنجائش ہی نہیں ہوتی ۔حضور اکرم ﷺ  کا معمول ِ مبارک تھا کہ آپﷺ فجر کی نماز کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہما سے پوچھا کرتے تھے کہ آج  کس نے خواب دیکھا ہے ، جس نےخواب  دیکھا ہوتا وہ بیان کرتا اگر کسی نے  نہ دیکھا ہوتا تو پھرحضوراکرمﷺخود اپنا خواب  بیان فرماتے   پھر اس خواب  کے متعلق صحابہ کرام  رضی اللہ عنہما   تعبیر  دریافت کرتے تو آپﷺ تعبیر بھی  بتاتے۔آج کل بازار  میں خوابوں کی تعبیر کے متعلق  کتابیں  موجود ہیں  اور  لوگ  ان  کو پڑھ کر  اپنے  خواب کی تعبیر  معلو م کرتےہیں لیکن یہ بھی یاد رہے  کہ کتابوں کے چھاپنے کا یہ مطلب نہیں ہوتا  کہ اپنی خوابوں کی تعبیر  کسی فال  کی طرح نکالی جائے  بلکہ اس  کا یہ مقصد ہوتا ہے کہ  کتاب ایک  مددگار  ہے ۔قرآنِ پاک  نے  خواب کی تعبیر کا جو اصول دیا ہے  وہ یہ  ہےکہ اہلِ علم سے رجوع  کیا جائے۔