اتوار، 25 جون، 2017

جاب ہنٹنگ۔۔۔۔۔۔۔۔سید قاسم علی شاہ


انسان رہنے  کے لیے    گھر بناتا ہے ،کھانا بنانے  کے  لیے کچن تیار  کرتا ہے ،بچوں کی تعلیم و تربیت  کے انہیں پڑھاتا ہے ان سارے  معاملات کے لیے اسے  پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے ۔پیسے دو طرح سے  کمائے  جاتے ہیں  نمبر ایک کاروبار   کے ذریعے  دوسرا  جاب سے۔دنیا  میں اس  وقت لوگوں  کی بہت بڑی تعداد ایسی ہے  جو  جاب کر رہی ہے ۔ جاب  کے لیے عمر کی  کوئی قید  نہیں ہے کیا  چھوٹی اور  کیا بڑی   ہر عمر  کے  لوگ جاب  کرتے ہیں ۔ جاب  کا تعلق  چونکہ  ضرورت سے ہے  اس لیے لوگوں کی اکثریت  اپنی ضرورتوں کو پورا  کرنے کے لیے جاب  کر تی ہے۔بہت  کم  لوگ ایسے ہوتےہیں  جو شوق  کے لیے  جاب  کرتےہیں  ۔
اس وقت  تعلیمی اداروں میں جتنے  بھی طالب علم   تعلیم حاصل  کر کے نکل  رہے ہیں  وہ سب  جاب کے لیے تیار ہو رہے ہیں۔ تعلیمی ادارے   طالب علموں کو ڈگریاں تو  دے  رہے ہیں  لیکن ان میں صلاحیتیں پیدا نہیں  کر رہے ۔ڈگریوں سے صلاحیتیں پیدا  نہیں  ہوتیں یہ  عملی  کام  کرنے سے پیدا ہوتی ہیں ۔   طالب علم تعلیم  کے دوران خواب دیکھتےہیں کہ  جیسے ہم تعلیم سے فارغ ہوں  آگے ایک شاندار جاب  ہمارا انتظار کر رہی ہوگی   ۔خواب دیکھنا اچھی بات ہے  لیکن انہیں  یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے  کہ تعلیم سے فارغ ہوتےہی ہمیں فوری طور پر  کوئی جاب نہیں  ملے گی۔شروع میں  چھوٹی  موٹی جاب  ہی ملتی  ہے اور وہ شایانِ شان  نہیں  ہوتی   لیکن وہ  جاب ایسی  ہوتی ہے  کہ اس سے  بندہ  اپنے آپ کو پالش  کرتا ہے ، گرومنگ کرتا ہے اورصلاحیتوں  کو بڑھاتا ہے   یہی چیزیں آگے چل   کر اس کے لیے نئی جاب  کے  لیے راستے   کھولتی ہیں بلکہ    پر کشش  تنخواہ اور ترقی  کی  بھی باعث  بنتی ہیں ۔ شروع  کی  جاب   کو  تعلیم  کا حصہ سمجھنا چاہیے    بلکہ  اسے یہ  سمجھنا چاہیے  کہ یہ ایک  طرح  کی انٹرن شپ ہے   ۔ جو طالب علم  انٹرن شپ کر رہے ہیں انہیں  چاہیے  کہ وہ  وہیں پر اپنی جگہ بنانے کی کوشش  کریں ۔ وہ اپنی سوشل صلاحیت کو  بڑھائیں ، روابط قائم  کریں تاکہ جاب کے حصول میں آسانی ہو ۔
جاب کےلئے  پروفائل  کاہونا  بہت ضروری ہے۔پروفائل  چھوٹی  ہو یا بڑی اس کا تعلق   بندے  کے ایکسپوزر اورتجربے پر ہوتا ہے ۔ بڑے  لوگ ایسے ہوتےہیں جن کی  پروفائل بہت بڑی  ہوتی ہے  لیکن انٹر ویو کے دوران جب ان سے  سوال پوچھے جاتےہیں  تو پھر  ان کے لیے  جواب دینا  مشکل ہو جاتا ہے۔ ہر بندہ  اپنی پروفائل میں  لکھتا ہے کہ میں ملک و قوم کی  خدمت  کرنا چاہتا ہوں  لیکن  ان  کا رویہ یکسر مختلف  ہوتاہے  اسی طرح  لکھا ہوتا ہے  ہوتا ہے  میں وعدے  کا بہت  پکا ہوں  حا لانکہ اس میں وعدہ نام  کی کوئی چیز  نہیں ہوتی ۔ لوگوں کی  بہت بڑی تعداد ایسی  ہے  جو بہت جگہ  پر اپلائی کرتےہیں   لیکن انہیں جاب  نہیں ملتی اس  کی وجہ یہ ہے کہ دس  طرح کی جاب ہوتی ہیں  جبکہ ایک ہی طرح  کا پروفائل  چل رہا ہوتا ہے  ضروری ہے کہ  جن  مضامین   میں  مہارت اور تعلیم حاصل کی ہو اس کے  مطابق ہی  پروفائل بنانا چاہیے  اور ان  کے متعلقہ  جابز  کے لیے ہی اپلائی کرنا چاہیے۔ پروفائل متوازن  اور حقیقت  پر مبنی ہونی چاہیے۔
کسی بھی جاب کے لیے درخواست دینے سے پہلے اپنی صلاحیتوں  اور ٹیلنٹ کا پتا  لگانا بہت ضروری ہے۔ جب صلاحیت کا پتا ہو تو پھر    مطلب  کی  جاب  کے  لیے درخواست دینا   آسان ہوتا ہے ۔ اس چیز کا پتا ہونا  بھی  بہت ضروری  ہے  کہ  میں  کس جاب  کے لیے فٹ ہوں اور کس  کے لیے  نہیں ۔  کام وہی کرنا چاہیے  جس  کے لیے بندہ   بنا ہو ۔مطلب  کی  جاب  تلاش  کرنے میں اگر تھوڑا انتظار کرنا پڑ جا ئے تو  ضرور کرنا چاہیے  کیونکہ انسان  نے اپنے آپ  کو کسی ایک  کام  میں بہت محنت کر کے  پالش کیا  ہوتاہے اگر وہ  مطلوبہ   کام  نہ کرے تو پھر   اس کے لیے دوسراکام  کرنا   مشکل  ہوجاتا ہے۔ ہر ادارے کو   اچھے اور  کام  والے  بندوں  کی  تلاش میں ہوتی ہے  ۔ بعض ادارے  ایسے ہوتےہیں  جو  باصلاحیت اور  کام والے  بندے کو دوگنی تنخواہ  دے  کر  دوسر ے  اداروں   سے اپنے اداروں   میں لے آتے ہیں  کیونکہ انہیں  معلوم ہوتاہے  اس کی وجہ   سے  ہمارا ادارہ  بہت کم وقت  بہت آگے  جا سکتا ہے ۔
بے شمارادارے اور   کمپنیاں  ایسی ہیں  جو ڈیمانڈ کرتی ہیں کہ امیدوار کا جی۔پی۔اے اچھا ہونا چاہیے  لیکن دیکھا گیا ہے  کہ  جن  بچوں کا  جی۔پی۔اے درمیانے درجے  کا ہوتا ہے  وہ زیاد ہ ترقی کرتے ہیں اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ان میں  نمبر  وں  کے علاوہ اور بھی  صلاحیتیں ہوتی ہیں ۔بے شمار بچےجو  بہت   ذہین اور لائق ہوتے ہیں  لیکن کام  کے حوالے سے ان کی کارکردگی اس طرح کی نہیں ہوتی  اس  کی وجہ یہ  ہوتی ہے کہ ان میں ذمہ داری کا فقدان ہوتا ہے۔  اچھے تعلیمی  اداروں میں داخلے  کے لیے جی۔پی۔اے   کا  اچھا ہونا ضروری ہے  لیکن کام کے  لیے کارکردگی دکھانی پڑتی ہے ۔ جب  تک  بندہ پانی میں  نہ اترے  تیرنا  نہیں آتا اسی طرح  جب تک  کام نہ کیا  جائے اس وقت  تک کار کردگی  نہیں آتی  کار کردگی  کا اظہار  جاب کے دوران ہی ہوتا ہے۔  پڑھائی کے دوران   بندہ یا تو استاد  کے ڈر سے پڑھتا ہے   یا پھر اس  کو احساس  ہوتا  ہے  میں نے  فیس ادا کی ہے لیکن  جب  بندہ  کام  کرتا ہے تو  اس کو احساس ہوتا ہے  کہ  میں کارکردگی دکھاؤں گا تو مجھے  تنخواہ ملے گی  اگر میں کارکردگی دکھاؤں گا تو میر ی ترقی  ہو گی۔
ہمارے   ہاں یہ رجحان پایا جاتا ہے  کہ ایک سیٹ   ہوتی اوراس کے لیے ہزاروں  لوگ  اپلائی  کرتےہیں ، ان امیدواروں  کا ٹیسٹ اور انٹرویو ہوتا ہے  پھر ان میں سے کسی ایک بندے  کو رکھا  جاتا ہے ان  میں جو لوگ  رہ جاتےہیں ۔ جو  لوگ  رہ  جاتے ہیں  ان  کو  بتانا چاہیے  کہ ان کو  کیوں نہیں رکھا گیا   یہ رجحان  نہ  ہونے  کی ایک وجہ  یہ بھی  ہے کہ ہم جذباتی قوم ہیں  ہم  میں ذاتی  پسند اور ناپسند بہت پائی جاتی ہے  اس  کے  علاوہ  جب   ہمیں  اپنی  خامیاں  بتائی جاتی ہیں کہ آپ  کو ان  خامیوں کی وجہ سے جاب پر  نہیں رکھا گیا  تو  ہمیں اس بات کا غصہ لگتا ہے ۔ اگر  کوئی ہمیں  غلطی بتائے  تو اس کا برا لگتا ہے ، ہمیں  وہ بندہ بہت  برا لگتا ہے  جو  بتاتا ہے  کہ  بھائی آپ  ٹھیک نہیں بولتے  یا   آپ  کا  لباس ٹھیک  نہیں ہے  ، آپ  میں  خود اعتمادی نہیں ہے  یا  آپ  کی  کمیونیکیشن بہتر نہیں ہے ۔ اگر غصہ  کرنے کی بجائے   اپنی غلطیوں  کا پتا لگانا چاہیے  اور ان کو دور  کرنا چاہیے  تا کہ جاب  کے حصول میں آسانی ہو۔
اس وقت  مارکیٹ کے حوالے سے بہت ٹف جا رہی ہے   جابز  نہ ہونے  کے برابر ہیں   ۔ ایک  سیٹ ہوتی  ہے اور کئی امیدوار ہوتے ہیں اتنی مقابلہ بازی  ہونے  کی وجہ سے  بہت  کم  لوگوں  کو جاب مل پاتی  ہے  اور لوگوں کی اکثریت  رہ جاتی ہے  جو  لوگ رہ  جاتے ہیں  ان  میں  مایوسی پیدا  ہو جاتی ہے۔ سب سےپہلے بندے کو یہ دیکھنا چاہیے  کہ  اس میں کون کونسی صلاحیتیں ہیں  اور وہ  کس جاب  کےلیے  موزوں  ہے۔ بعض لوگوں میں صلاحیت  بھی ہوتی ہے اور   وہ جاب  کے لیے موزوں بھی ہوتےہیں  لیکن  ان  کی شخصیت  ایسی   ہوتی ہے  کہ وہ اچھا  تاثر  قائم  نہیں رکھ پاتے مثال کے طور پر ایک پروفیشنل  بندہ اپنے لباس سے پہچانا جاتا ہے  جبکہ انہوں نے لباس  ایساپہنا  ہوتا ہے جس  سے اچھا  تاثر  نہیں  پڑتا ۔یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ کس  موقعہ  پر کونسا  لبا س ضروری ہے ۔ اگر ک کو  جاب  مل گئی  ہو اور اس  میں  تھوڑی بہت صلاحیت  بھی ہو تو اسے چاہیے  کہ اپنی سیٹ کو پکا اور نام  بنانے کے لیے سخت  محنت کرے۔ تھوڑی  سی جگہ  ملنا اہم  نہیں  ہوتا  اصل  بات یہ ہوتی ہے کہ چھوٹی سی  جگہ سے آغاز ہو اور بڑی جگہ پر پہنچا جائے۔
لوگوں  کی بہت  بڑی تعداد  ایسی   ہوتی ہے جو ایک  جاب  کو چھوڑتے  اور دوسری پر  لگ جاتےہیں    بعض  کے ساتھ ایسے بھی ہوتا ہے کہ ایک دفعہ انہوں  نے جاب کو چھوڑا تو دوسری  جاب ملنے میں عرصہ لگ  گیا اور انہیں جاب کے لیے سخت محنت کرنی پڑی۔کسی بھی  جاب   میں وقفہ    نہیں آنا چاہیے اس  کی اہمیت کا پتا  ہونا چاہیے ۔  جاب  تبدیل   کرنے سے پہلے دوسری جاب  کو تلاش  کر لینی چاہیے   ۔ ویسے بھی جب  بندہ جاب  پر ہوتا ہے تو اس میں اعتماد  ہوتا  ہے ۔ جب   بندہ دوسری جاب  میں وقفہ  آ جاتا ہے  تو پھر  بہت سے سوال اٹھتے ہیں اور  کمپنی  بھی اسے شک  کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ جب انسان فارغ  ہوتا ہے تو مجبور ہو تا ہے اور تھوڑی  تنخواہ پر بھی جاب پر  لگ جاتا ہے ۔  کشتی کو آگ  لگانے سے پہلے  اگلی  کشتی  ضرور ہونی چاہیے  اگر  آگے  کشتی نہ ہوتو پھر ڈوبنے کا خطرہ  ہوتا ہے ۔ جاب کے ساتھ جاب جڑی ہوتو  پھر  زیادہ تنخواہ  بھی طلب  کی جاسکتی ہے ۔ باصلاحیت انسان  ویسے  بھی  مصروف ہی اچھا لگتا ہے ۔جو لوگ  پروفیشنل  ہوتے  ہیں  وہ پہلی جاب کے ہوتے  ہوئے   دوسری  جاب  کی تلاش  شروع  کر دیتے ہیں ۔
لوگوں کی اکثریت  ایسی ہے جو صرف ایک جاب پر  لگتی ہے اور پھر  اسی جاب پر ریٹائر ہو جاتی ہے ۔بعض اوقات ایسا  ہوتا  ہے کہ ان کا معاش کا معاملہ تو ٹھیک چل رہا   ہوتا ہے  لیکن   عزت  نہیں ہوتی  جس  کی وجہ سے  وہ مسائل  کو مینج  نہیں  کر پا رہے  ہوتےحالانکہ ان میں صلاحیتیں  بھی ہی ہے  اور وہ ان صلاحیتوں  کی وجہ سے  دوسری  جگہ پر آسانی سے جاب کر سکتےہیں ۔  ایسی صورت  انہیں  چاہیے  کہ  وہ جاب کو چھوڑدیں  یا پھر اپنےآپ کو مینج کرنے کی کوشش کریں ۔ جو ورکر  لیول  کی کلاس  ہوتی ہے  اگر انہیں عزت اور پیار  مل جائے تو یہ  لوگ جاب نہیں چھوڑتے ۔سب سے زیادہ تبدیلیاں  لیڈر لیول پر آتی ہیں اس  کی وجہ  یہ ہوتی ہے  کہ انہیں  معاش کا کسی قسم کا مسئلہ نہیں  ہوتا اور نہ ہی اور مسائل ہوتےہیں ان  کی قوت ارادی  بھی مضبوط ہوتی ہے جس کی  وجہ سے  انکی سوچ   کا  لیول  اور  ہوتا ہے  وہ نئے  نئے آئیڈیاز   سو چتے ہیں   اس  کے  علاوہ   ان کے  پاس  مواقع   بہت آتےہیں اس  لیے  ان  کے لیے جاب چھوڑنے  کے چانس  بڑھ جاتےہیں۔  بعض کمپنیوں میں  یہ رجحان  پایا جاتا ہے  اگر  بندہ جاب  چھوڑ رہا ہوتو کمپنی  اس کو  کہتی  ہے کہ ہم  نیا بندہ  نہیں رکھنا چاہتے جو  لوگ آپ  کے ساتھ  کام  کر رہےہیں  انہیں  میں سے ایک بندہ تیار کر دیں تاکہ  آپ کے  جانے  کےبعد  ہمیں  کسی مسئلے کا سا منا نہ کرنا پڑے۔اخلاقی  طور پر ہونا بھی ایسے ہی چاہیے  اچھی  یاد  کو چھوڑ کر جانا چاہیے ۔


  

شکوہ اور شکر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاوید چودھری

میں آپ کو تین لوگوں کی کہانی سناتا ہوں‘ یہ تینوں مختلف شہروں میں رہتے تھے‘ یہ تینوں میرے جاننے والے تھے اور ان تینوں کی کہانی ایک دوسرے سے جڑی ہوئی تھی۔
پہلا شخص ٹام تھا‘ٹام بہت خوبصورت تھا‘ سرخ و سپید رنگ‘ لمبا قد‘ بال ریشمی اور نین نقش تیکھے‘ ٹام کی آواز بھی نشیلی تھی‘ وہ بولتا تھا تو کان کی دیواریں سرور میں آ جاتی تھیں‘ پورے شہر میں اس جیسا کوئی دوسرا خوبصورت نوجوان نہیں تھا‘ وہ جس محلے سے گزرتا تھا‘ لڑکیاں دوڑ کر چھتوں پر آ جاتی تھیں اور اسے اس وقت تک ٹکٹکی باندھ کر دیکھتی رہتی تھیں جب تک وہ ان کی نظروں سے اوجھل نہیں ہو جاتا تھا‘ حسن  میں ہزار خوبیاں ہوتی ہیں بس اس میں صرف ایک خامی‘ ایک خرابی ہوتی ہے‘ اس کے دشمن بہت ہوتے ہیں۔
محلے کا ہر ’’کوجا‘‘ شخص اس کا مخالف ہو جاتا ہے‘ٹام کے مخالفین کی تعداد بھی ہزاروں میں تھی‘ وہ جہاں جاب کرتا تھا مالک چند دن بعد ’’جیلس‘‘ ہو کر اسے نکال دیتا تھا‘ وہ اسکول میں تھا تو وہ سب سے زیادہ پٹتا تھا‘ وہ کالج گیا تو استاد جان بوجھ کر اس کے نمبر کم کر دیتے تھے‘ درزی اس کے سوٹ خراب کر دیتے تھے اور دھوبی اس کے کپڑے جلا دیتا تھا‘ ٹام کے حسن سے صرف اس کا محلہ اس کا شہر نہیں جلتا تھا بلکہ اس کا اپنا خاندان بھی اس سے ٹھیک ٹھاک حسد کرتا تھا‘ اس کا والد‘ اس کے بھائی اور اس کے کزن تمام لوگ اس کے حاسد تھے‘ ٹام اس رویئے سے تنگ تھا‘ وہ اکثر اللہ تعالیٰ سے شکوہ کرتا تھا یا باری تعالیٰ تم نے مجھے اتنا خوبصورت کیوں بنا دیا؟
تم مجھے عام انسان بنا دیتے‘ تم مجھے بدصورت کر دیتے تو میں بھی آج اپنے دوسرے بہن بھائیوں کی طرح مطمئن زندگی گزار رہا ہوتا‘ وہ بعض اوقات لوگوں کے رویئے سے اتنا زیادہ تنگ آ جاتا تھا کہ اللہ تعالیٰ سے گڑگڑا کر دعا کرتا ’’یاباری تعالیٰ تو مجھے ان حاسدین سے نجات دلا دے‘ مجھے ان سے بچا لے‘ میں ان لوگوں سے بہت تنگ ہوں‘ یہ مجھے اندر سے زخمی کر رہے ہیں‘ یا اللہ مجھے حاسدین کے ان زخموں سے بچا لے‘‘ وہ گڑگڑاتا رہتا تھا اور یہ دعا کرتا رہتا تھا۔
اللہ نے ایک دن اس کی دعا سن لی اور ٹام کے سارے حاسدین کی نظریں پھر گئیں‘ لوگوں نے اس سے جیلس ہونا بند کر دیا اور وہ عام انسانوں جیسی زندگی گزارنے لگا لیکن وہ عام انسانوں کی زندگی زیادہ دن برداشت نہ کر سکا‘ وہ ایک دن ٹرین کی پٹڑی پر لیٹا اور زندگی کی سرحد پار کر گیا‘ ٹام اس انجام تک کیسے پہنچا ہم یہ ڈسکس کرنے سے قبل ڈک کی کہانی کی طرف آتے ہیں۔
ڈک ایک پیدائشی خوش نصیب شخص تھا‘ وہ ماں کے پیٹ میں تھا تو خاندان کے حالات بدل گئے‘ باپ ریڑھی سے دکان پر آ گیا‘ وہ پیدا ہوا تو دکان مال اور گاہکوں سے بھر گئی‘ وہ قدموں پر کھڑا ہوا تو ایک دکان دس دکانوں میں تبدیل ہو گئی اور وہ اسکول گیا تو والد کارخانے دار ہو گیا گویا ڈک جوں جوں بڑا ہوتا گیا والدین آگے سے آگے بڑھتے چلے گئے‘ وہ عملی زندگی میں بھی خوش نصیب تھا‘ وہ جس کلاس میں داخل ہوتا تھا وہ کلاس پورے اسکول میں آگے نکل جاتی تھی‘ وہ جس استاد سے پڑھتا تھا وہ استاد ’’بیسٹ ٹیچر‘‘ کا ایوارڈ لے جاتا تھا‘ وہ جو ’’پرائز بانڈ‘‘ لے لیتا تھا وہ پرائز بانڈ نکل آتا تھا‘ وہ خریداری کیلیے جس دکان میں داخل ہو جاتا تھا وہ دکان گاہکوں سے بھر جاتی تھی اور وہ جس شخص کو دوست بنا لیتا تھا اس دوست کے دن پھر جاتے تھے۔
ڈک جب عملی زندگی میں آیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کے ہاتھ کو ’’پارس‘‘ بنا دیا‘ وہ مٹی کو ہاتھ لگاتا تھا تو وہ سونا بن جاتی تھی‘ وہ فیکٹری میں بیٹھنے لگا تو فیکٹری کمپنی بن گئی اور اس کمپنی نے اسٹاک ایکس چینج میں ریکارڈ قائم کر دیا‘ وہ آنکھیں بند کر کے بھی جو سودا کر تا تھا وہ اس میں کروڑوں روپے کما لیتا تھا‘ وہ جو زمین خرید لیتا تھا وہ زمین راتوں رات مہنگی ہو جاتی تھی‘ ڈک اس خوش نصیبی کو انجوائے کر رہا تھا لیکن پھر وہ بھی ٹام کی طرح مشکلات کا شکار ہو گیا۔
لوگ اس سے بھی ’’جیلس‘‘ ہوگئے‘ پورا شہر اس کے حسد میں مبتلا تھا‘ لوگ اسے دیکھ کر نفرت سے آنکھیں پھیر لیتے تھے‘ لوگ دوست بن کر اس کی پیٹھ میں خنجر پیوست کر دیتے تھے‘ اس کے سگے بھائیوں نے اس کے خلاف مقدمات قائم کر رکھے تھے‘ وہ جس پراعتماد کرتا تھا وہی اسے دھوکہ دے جاتا تھا‘ لوگ اس کی رقم‘ اس کی زمین جائیداد ہڑپ کر جاتے تھے‘ ڈک کو بھی ٹام کی طرح اس کی خوش نصیبی نے اداس کر دیا‘ وہ بھی دکھی ہو گیا اور وہ بھی کثرت سے اللہ تعالیٰ سے شکوہ کرنے لگا ’’یا باری تعالیٰ تم نے مجھے خوش نصیب کیوں بنایا‘ تو مجھے ان جیسا بنا دیتا تاکہ میں دنیا میں اکیلا نہ ہوتا‘ میں ان کے ساتھ رچ بس کر زندگی گزار سکتا‘‘ وہ کثرت سے یہ شکوہ کرتا تھا۔
اللہ نے ایک دن ڈک کی دعا بھی سن لی‘ اس نے اس کی خوش نصیبی واپس لے لی‘ ڈک عام انسان بن گیا ‘نو بجے سے پانچ بجے والا عام انسان‘ لوگوں نے اس سے بھی جیلس ہونا بند کر دیا‘ پورے شہر میں اب کوئی شخص اس کا حاسد نہیں تھا‘ لوگ اب اس سے بھی محبت سے ملتے تھے لیکن وہ بھی زیادہ دنوں تک یہ محبت برداشت نہ کر سکا‘ وہ ایک دن بیڈ روم میں گیا‘ نیند کی گولیاں کھائیں‘ بیڈ پر لیٹا اور پھر دوبارہ نہ اٹھا‘ وہ بھی خاموش داستانوں کا ایک نامعلوم کردار بن کر رہ گیا‘ ڈک بھی اس انجام تک کیسے پہنچا‘ ہم یہ ڈسکس کرنے سے قبل ہنری کی کہانی کی طرف آتے ہیں۔
ہنری کو اللہ تعالیٰ نے شہرت کی نعمت سے نواز رکھاتھا‘ وہ پیدائشی مشہور تھا‘ وہ پیدائش کے بعد وارڈ میں پہنچا تو وہ وارڈ کے تمام بچوں میں ممتاز تھا‘ اسپتال کے تمام ڈاکٹر اور نرسیں اسے پیار کرتی تھیں‘ وہ پورے محلے میں بھی مشہور تھا‘ وہ اسکول میں بھی مشہور ہو گیا‘ وہ شہر بھر میں بھی ممتاز تھا اور اس نے نوکری کی تووہ دفتر میں بھی سب سے نمایاں ہو گیا‘ وہ عام نین نقش کا حامل شخص تھا لیکن قدرت نے اس میں شہرت کی ’’ریڈیم‘‘ رکھی ہوئی تھی۔
یہ ریڈیم چمکتی تھی تو وہ لوگوں میں نمایاں ہو جاتا تھا‘ لوگ افسروں سے زیادہ اسے جانتے تھے‘ دفتر کا ہر ناممکن کام اسے دے دیا جاتا تھا اور وہ چٹکی بجا کر وہ کام کر جاتا تھا‘ دفتر میں آنے والا ہر شخص سیدھا اس کے پاس آتا تھا اور اس کی تعریف کرتا تھا‘ یہ شہرت اس کیلیے عذاب بن گئی‘ لوگ اس سے بھی جیلس ہو گئے‘ دفتر‘ محلے‘خاندان اور کمیونٹی کے لوگ اس کے حاسد ہو گئے‘ وہ اسے نقصان پہنچانے کا کوئی موقع ضایع نہیں کرتے تھے‘ وہ اس کے خلاف بدنامی کی کہانیاں بھی گھڑتے رہتے تھے۔
ہنری بھی یہ دکھ سہتے سہتے تنگ آگیا اور اس نے بھی اللہ تعالیٰ سے شکوے شروع کر دیئے‘ وہ بار بار اللہ تعالیٰ سے مخاطب ہو کر کہتا تھا ’’یا باری تعالیٰ تم نے مجھے اتنا نمایاں کیوں بنایا‘ میں بھی اگر عام لوگوں کی طرح عام ہوتا تو میں بھی سکھی زندگی گزارتا‘ لوگ میرے ساتھ بھی کمفرٹیبل رہتے اور میں بھی ان کے ساتھ خوش زندگی گزارتا‘ یا باری تعالیٰ تو نے مجھے اتنا انوکھا‘ اتنا ڈفرینٹ کیوں بنایا؟‘‘ وہ روز اللہ تعالیٰ سے یہ شکوہ کرتا تھا۔
اللہ تعالیٰ نے ایک دن اس کے شکوے کو بھی سن لیا‘اشارہ ہوا اور ہنری کی شخصیت سے شہرت کی ریڈیم خشک ہو گئی‘ وہ ایک ہی دن میں خاص سے عام آدمی بن گیا‘ لوگوں نے اس سے منہ موڑ لیا اور لوگوں کے منہ موڑتے ہی اس کے حاسدین بھی غائب ہو گئے‘ اب کوئی شخص ہنری سے جیلس نہیں تھا‘ وہ مطمئن ہو گیا لیکن اس کا یہ اطمینان زیادہ دیر تک اس کے ساتھ نہ رہ سکا‘ وہ فرسٹریشن کا شکار ہوا‘ فرسٹریشن ڈپریشن میں تبدیل ہوئی اور ہنری نے ایک دن پل سے چھلانگ لگا دی‘ وہ دریا میں ڈوب گیا۔
ہم اب ٹام‘ ڈک اور ہنری کی افسوسناک کہانیوں کا تجزیہ کرتے ہیں‘ اللہ تعالیٰ اپنے کروڑوں لوگوں میں سے چند لوگوں کو حسن‘ خوش نصیبی اور عزت کی نعمتوں سے نوازتا ہے‘ یہ نعمتیں ان لوگوں کو عام لوگوں سے ممتاز کر دیتی ہیں‘ یہ لوگ جب ممتاز ہو جاتے ہیں تو عام لوگ ان سے جیلس ہونے لگتے ہیں‘ یہ ان کے حسد میں مبتلا ہو جاتے ہیں‘ لوگوں کا حسد‘ لوگوں کی جیلسی ثابت کرتی ہے یہ عام لوگ نہیں ہیں‘ یہ اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ اور نوازے ہوئے لوگ ہیں۔
لوگ ہمیشہ ان لوگوں سے حسد کرتے ہیں یہ جن لوگوں جیسا بننا چاہتے ہیں‘ یہ جن لوگوں کی جگہ پر خود کو دیکھنا چاہتے ہیں‘ یہ کبھی اپنے جیسے یا اپنے سے کمتر لوگوں سے جیلس نہیں ہوتے‘ ٹام‘ ڈک اور ہنری اسپیشل لوگ تھے لیکن یہ لوگ حاسدین سے ڈر گئے اور یہ اللہ تعالیٰ کی نعمت پر شکر کے بجائے شکوے کرنے لگے چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ایک دن ان سے اپنی نعمتیں واپس لے لیں‘ یہ لوگ نعمت کے عادی تھے‘ یہ ’’خالی پن‘‘ برداشت نہ کر سکے لہٰذا یہ خودکشی کر گئے۔
ٹام‘ ڈک اور ہنری کی کہانیاں ثابت کرتی ہیں حاسدین مقام شکوہ نہیں مقام شکر ہوتے ہیں‘ یہ ثابت کرتے ہیں آپ عام انسان نہیں ہیں‘ آپ خاص ہیں چنانچہ لوگ جب بھی آپ سے حسد کریں آپ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں‘ شکوہ نہ کریں اور ہمیشہ اس وقت سے ڈریں جب پورے شہر میں کوئی شخص آپ کو حسد کے قابل نہ سمجھے‘ لوگ آپ کا نوٹس لیے بغیر آپ کے قریب سے گزر جائیں‘ میری درخواست ہے آپ جب بھی شکوہ کرنے لگیں آپ فوراً سجدہ کریں اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں‘ شکر شکوے سے لاکھ درجے بہتر ہے۔

جاوید چوہدری

جمعہ، 23 جون، 2017

شوق کی تلاش


 کوئی نہیں چاہے گا کہ اس کی  توانائیاں ضائع ہو جائیں،  کوئی  نہیں  چاہتا کہ وہ ناکام ہو جائے،  کوئی نہیں چاہتا   کہ اس کی زندگی بے مقصد ہو اور  کوئی نہیں چاہتا  کہ  اسے  کامیابی نہ ملے۔ ہر شخص ناکامی سے بچنے کے لیے  غوروفکر کرتا ہے  اور یہی  غوروفکر  اسےسنجیدگی کی طرف  لے کر جاتا ہے جبکہ سنجیدگی کی سب سے پہلی نشانی  یہ ہے کہ بندہ یہ دریافت کرتا ہے  کہ میں نے کس طرف جانا  ہے، میرے لیے ہدایت کہاں پر ہے ۔ اگر یہ احساسات نہ  ہوں  تو درحقیقت یہ  اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دوری  کی  نشانی ہے۔  وہ لوگ  جنہیں خیال  نہیں آتا کہ ہم نے سیکھنا ہے   ایسےلوگ  صرف  قبرستان میں پائے جاتے ہیں ۔ زندہ انسان ہمیشہ اپنے آپ میں بہتری لانا چاہتا ہے وہ اپنے کل کو آج سے بہتر بنانا چاہتا ہے ۔
زندگی کے دو حصے ہیں  پہلے حصے میں شعور نہیں ہوتا  جبکہ  دوسرے حصے میں شعور ہوتا ہے ۔عام طور پر لوگ  شعوری زندگی میں  یہ نہیں سوچتے کہ ہمیں اللہ تعالیٰ نے کس کام کےلیے پیدا کیا ہے  زیادہ تر   کی یہی سو چ ہوتی  ہے  کہ ڈاکٹر  یا انجینئربن جائیں۔یہ ذہن  میں ہونا چاہیے  کہ  دنیا میں صرف  ڈاکٹر  یا  انجینئر  کی ہی فیلڈ نہیں ہیں بلکہ  اور بھی بہت ساری فیلڈز ہیں۔  لوگوں  کی سوچ اتنی محدود ہے کہ  وہ سوچتےہیں  کہ میں ڈاکٹر یا انجینئر نہیں بن سکا لہذا میں ناکام ہوں۔ کامیابی تک جانے  کے شائد سو زیادہ راستے  ہیں  لیکن    ان  کا انتخاب ہی   صرف دو راستے ہوتےہیں  ا نہوں نے  کبھی سوچا ہی نہیں  ہوتا کہ اللہ تعالیٰ نے  ہمیں انجینئربننے کےلیے پیدا   نہیں  کیا ، انہوں نے  کبھی اپنے اندر کے  آرٹسٹ کو نہیں د یکھا ہوتا ،  انہوں  نے کبھی اپنے اندر کے سائنسدان کو نہیں دیکھا ہوتا،  انہوں  نے کبھی اپنےاندر کے ٹیچر کو نہیں دیکھا  ہوتا ، انہوں نے  یہ کبھی  نہیں دیکھا  ہوتا  کہ جو  میرے اندر ٹیلنٹ  ہے  وہی میرا اصل ہے ۔
دنیا میں دو طرح کے لوگ ہیں  ،پہلی طرح کے لوگ  وہ ہوتے  ہیں  جنہیں صبح جلد  اٹھنا عذاب لگتا ہے، انہیں  اپنے  کام سے   کوئی محبت  نہیں  ہوتی، ایسے لوگوں کی  زندگی  میں کوئی چمک نہیں ہوتی ان کی زندگی میں بوریت ہوتی ہے ۔ دوسری طرح کے وہ لوگ ہوتےہیں جن کو  اپنے کام سے محبت ہوتی ہے یہ محبت  ان  کو رات دیر تک جاگنے  اور صبح   جلدی اٹھنے پر مجبور کرتی  ہے ، ان  کو تھکاوٹ  سے   کسی قسم  کی  کوئی واقفیت  نہیں  ہوتی  کیو نکہ  وہ اپنے جسم  سے  نہیں  بلکہ اپنی روح سے  کام کرتے ہیں، ایسے لوگ  پہلے لوگوں سے زیادہ سپارکل،چمک والے،ایکٹیو  اور شوق والے ہوتےہیں ۔اٹھانویں فیصد    لوگ  وہ  کام  کر رہے ہوتےہیں   جنہیں اس  کا  م  کےلیے پیدا ہی نہیں کیا  گیاہوتا  وہ  شوق  کے بغیر زندگی  گزار رہے ہوتےہیں   نظر آنے  میں  تو وہ زندہ ہوتےہیں لیکن حقیقت میں  مر چکےہوتےہیں۔ دو فیصد لوگ ایسے   ہوتےہیں جن  کا   جو  شوق  ہوتا ہے  وہی  ان  کا  کام ہوتا ہے ۔
انسان کے دو چہرے ہیں  ایک چہرہ وہ  جو نظر آتا ہے  جبکہ دوسرا   چہرہ  وہ ہوتا ہے  جو  نظر  نہیں آتا  وہ  چہرہ کا م کا چہرہ ہوتا ہے اور وہی اصل چہرہ ہوتا ہے کیونکہ وہ شناخت  ہوتا ہے ۔ زندگی  میں شناخت  کے لیے سفر  کی ضرورت ہوتی ہے اور  وہ سفر بقول فیض حسن سیال کے خود شناسی کا سفر ہوتاہے جو کبھی ختم نہیں ہوتا ۔ ہرشخص کے اندر  ایک خزانہ ہوتا ہے  اور وہ خزانہ  شوق  اوردلچسپی کا خزانہ ہوتا ہے، انسان کی جس چیز میں دلچسپی ہوتی ہے نہ چاہتےہوئے بھی اس کے پاس  اس  چیز کے متعلق  ویسی معلومات ، ویسی کتابیں ،ویسی  مجالس ، ویسے دوست ، ویسا ماحول  اور  ویسے ہیروز  مل جاتےہیں ۔ ہر شخص کے ہیروز مختلف ہوتےہیں  کیونکہ انسپائریشن مختلف ہوتی ہے۔  جو لیڈر  ہوگا اس  کے لیے  محمد علی جناح ؒ  ہیرو ہونگے  جبکہ  جو مفکر ہو گاا س کے لیے حضرت علامہ محمد اقبال ؒ ہیرو ہونگے۔انسان کا دوسروں سے انسپائر ہونا  اللہ تعالیٰ کی انسان پر رحمت ہے ۔انسان  واحد مخلوق  ہے  جو انسپائر ہو تی ہے  اور  کوئی  مخلوق  کسی سے انسپائر  نہیں ہوتی ۔ اللہ تعالیٰ  نے انسان کے اندر انسپائریشن کا مادہ رکھا  ہے اور اس  مادے  کی وجہ سے وہ اپنے شوق  کو  تلاش کرتاہے ۔ جس   طرح  ہرشخص   اپنے جاننے   والے کو  پہچان لیتا ہے اسی طرح  جب اندر کے  شوق   کے  متعلق چیزیں سامنے آتی ہیں  تو وہ ان  کو  پہچان لیتا ہے ۔
اس سے بڑا جرم اور کوئی نہیں ہے کہ کوئی  شخص   اپنی زندگی بغیر  شوق  کے گزاردے،شوق  کے بغیر زندگی ایسے ہی  ہے جیسے  کانٹوں پر سونا اور تلواروں پر چلنا۔ اگر شو ق سلامت ہو تو انسان کو  کوئی  تلوار نہیں کاٹ سکتی حضر ت سلطان باہوؒ فرماتےہیں "ایمان سلامت  ہر کوئی منگے۔۔۔شوق سلامت کوئی ہو"۔ شوق اللہ تعالیٰ کے دربار کی سوغات ہے اسے  کوئی  کوئی پہچانتا ہے ،کسی کسی  کو اس  کی شناخت ہوتی ہے ۔ شوق کا پتا لگ جانا اعتماد پیدا  کر دیتا ہے پھر انسان کو راستے  کی  رکاوٹ، رکاوٹ نہیں لگتی، جیت اور ہار کی پروا ختم ہو جاتی ہے ، دوسروں کی تنقید کا اثر   نہیں ہوتا۔ شوق والا   معاوضے اور وقت کی قید سے آزاد ہوجاتاہے ،  شوق   کی  مصروفیت  میں  اردگرد  کا احساس ختم  ہو جاتا ہے۔ شوق کے راستے پر چلنے والا  مقابلہ  نہیں کرتا، مقابلہ ہمیشہ تب ہوتا ہے جب  اپنی صلاحیتوں   کا علم نہ ہو ۔شوق کا راستہ عبادت کا راستہ  ہے بلکہ یہ  درحقیقت اللہ تعالیٰ  کی طرف جانے کا راستہ ہے۔ جس شخص  کو اپنے شوق  کا   پتا لگ جاتا ہے وہ اپنے  کام  کو عبادت سمجھتا ہے ، اس   سےبڑا اور  کوئی مقام  نہیں ہے  کہ اگر اپنا کام عبادت لگنے لگ پڑے   جبکہ عام طور پر لوگوں کو اپنا کام عذاب لگتا ہے ۔
دنیا کا سب سے قیمتی سوال یہ ہے کہ  میرا شوق کیا ہے یہ اتنا سنجیدہ سوال ہے  کہ جس کو بھی  اس  کا جواب مل گیا  پھر اس کو خریدا  نہیں جا سکا ۔ شوق انسان  کو خواب بنانے پر مجبور کر دیتا ہے وہ سکون سے  نہیں رہنے دیتا ۔ شوق کی آگ  سے پکی ہوئی ہانڈی ضائقے دار ہو تی ہے خلیل جبران کہتا ہے کہ وہ روٹی مزیدار نہیں ہوتی جس کے اندر شوق  یا محبت نہیں ہوتی ۔ایک خاتون رائٹر  برتن بناتی تھی  کسی نے  اس  سے  پوچھا  کہ تم برتن بناتی ہو اس  نے جواب دیا  نہیں میں برتن نہیں بناتی میں تو اپنے  آپ کو بناتی ہوں اسی طرح شوق  والا اپنے  کا م  کو  نہیں دکھاتا بلکہ اپنے  کام کے ذریعے  اپنے آپ  کو دکھاتا ہے۔وہ  شوق کسی کام کا نہیں ہے   جس  سے  کوئی فائدہ حاصل   نہ ہو ۔ خوش قسمتی  یہ ہوتی ہے کہ شوق  اور زمانے کی ضرورت دونوں  مل جائیں  جب اس طرح ہو تا ہے تو بندہ عبدالستار ایدھی بن جاتا ہے ۔
 جو  لوگ اپنے شوق  کو دریافت نہیں کرتے  وہ صرف زندگی   کا سرکل پورا  کر تےہیں ۔ انسان کی سب سے بڑی تمنا یہ  ہوتی ہے کہ وہ سدا زندہ رہے ۔ جینئس انسان وہ ہوتا ہے جو اپنے وقت اور کام کی  انویسٹمنٹ اس انداز   سے کرے کہ  اس کے جانے  کے  بعد بھی لوگوں  کو فائدہ ہو ۔  جو شخص اپنے مزاج میں مثبت  ہوتا ہے  اور وہ   اپنے شوق کو بھی  تلا ش  کرلیتا ہے  وہ شخص  پھر ایسا   کام  کر جاتا ہے  کہ  پھر وہ امر ہو جاتا ہے ۔شوق  کا یہ  فائدہ  ہوتا ہے  کہ اس کا صرف ایک حصہ خود اس شخص پر لگتا ہے جس کا اس کو شوق ہوتا ہے  جبکہ  باقی حصوں سے زمانہ فائدہ اٹھاتا ہے ۔زندگی میں مزا پیدا کرنے کےلیے اپنا شوق دریافت کریں  کیونکہ بغیر شوق کے  مزا نہیں آئے گا ۔ 65 سال کی زندگی میں انسان نوئے ہزار گھنٹے کام کرتا ہے اس کے دو ہی  طریقے ہیں  ایک یہ کہ ان نوئے ہزارگھنٹوں   کو رو کر گزارہ جائے  اور ایک یہ ہے کہ  ان کو کسی مقصد کے تحت گزارہ  جائے۔  حضرت علامہ اقبال ؒ فرماتے ہیں  کہ  "اپنے من میں ڈوب کر  پا جا سراغ زندگی ۔۔۔ ہماری  زندگی کا راز ہمارے ہی  اندر ہے جب تک اس اندر کو تلاش  نہیں کیا جائےگاتب تک قرار   نہیں آئے گا۔ چھوٹے انسان کی تقدیر  دوسروں کے ہاتھ پر لکھی ہوتی ہے  جبکہ بڑے انسان کے ہاتھ پر زمانے کی تقدیر لکھی ہوتی ہے ۔ حضرت قائداعظم محمد علی جنا ح ؒ کی وجہ سے کتنے  لوگوں کی زندگی  بدل گئی کیونکہ ان کے ہاتھ پر زمانے کی تقدیر لکھی ہوئی تھی  جبکہ  تمام جہانوں   کی تقدیر  ہمارے آقاحضور اکرم ﷺ کے  ہاتھ پر لکھی ہوئی  ہے یعنی آپﷺ جہانو ں کے لیے رحمت   ہیں ۔

اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ    اے میر ے مالک مجھے ضائع ہونے بچا ، مجھے چھوٹے چھوٹے مسئلوں سے نکال اور مجھے بامقصد انسان بنا ، مجھے  خود شناسی  عطا کر، ہمیشہ دینے والا بنا اور آسانیاں بانٹنے والا  بنا۔


اتوار، 18 جون، 2017

عدم اعتماد ایک ذہنی عارضہ ہے

خود اعتمادی وہ صلاحیت ہے جوانسان کو زندگی میں کامیابیوں کے حصول کے لیے ہر قدم، ہر پل اور ہر موڑ پر درکار ہوتی ہے۔ اگر خدا نخواستہ ہم میں سے کوئی اپنی اس صلاحیت کو بروئے کار نہیں لاتا یا بوجوہ اسے کھو بیٹھتا ہے تو پھر اسے زندگی کا سفر طے کرنا اگر ناممکن نہیں تو محال ضرور ہوجاتا ہے۔
خود اعتمادی باہر سے نہیں بلکہ انسان کے اندر سے پیدا ہو کرتی ہے۔ جب تک ہم خود اسے پروان نہ چڑھائیں تو کوئی طاقت بھی اسے بڑھاوا نہیں دے سکتی۔ خود اعتمادی میں اضافے کا سب سے بہترین ذریعہ اپنے اندر خود کلامی کرنے کی عادت پیدا کرنا ہے۔ اپنا نام لے کر اپنی کمزوریاں دور کرنے اور خوبیاں زیادہ کرنے کی خود کو نصیحتیں اور مشورے دینے کا انداز اپنائیں۔ اگر ہو سکے تو قد آدم آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر خود کو مخاطب کرکے اپنی خود اعتمادی میں اضافے کی مشق کیا کریں۔
اس سلسلے میں ماہرین نے مراقبہ کرنے کو بھی خود اعتمادی سمیت شخصی خوبیوں میں اضافے کا بہترین ذریعہ قرار دیا ہے۔پرانی عادت فطرتِ ثانی کا درجہ اختیار کرلیتی ہے، اپنی شخصیت کے مختلف پہلوؤں میں تبدیلی پیدا کرنا ہر فرد کے لیے کچھ آسان کام نہیں ہوتا۔کوئی بھی فرد پیش بندی اور شعوری ادراک کے تحت پیدا ہونے والی صورتحال پہ قابو پا سکتا ہے۔
شعوری طاقت کے تحت تو بڑی بڑی کامیابیوں کا حصول بھی ممکن ہے۔ تنہائی میں قدِ آدم آئینے کے سامنے اپنے اندر خود اعتمادی کی پریکٹس کی جائے اور بآوازِ بلند کہا جائے کہ میرے اندر خود اعتمادی بہت ہے ۔اس سلسلے میں کسی ماہر نفسیات کی رہنمائی حاصل کر لی جائے تو یہ معاملہ ذرا اور بھی آسان ہو جاتا ہے۔
دھیان رہے کہ نفسیاتی مسائل کا حل سائیکالوجسٹ سے کروانا چاہیے، سائیکیٹرسٹ سے نہیں۔ کیوں کہ بسا اوقات سائیکیٹرسٹ کی دی جانے والی ادویات کو چھوڑنا بھی ایک بہت بڑا مسئلہ بن جایا کرتا ہے۔ لہٰذا ذہنی مسائل سے جان چھڑانے کے لیے برین واشنگ کے طریقے خاطر خواہ حد تک مفید اور کار آمد ثابت ہوا کرتے ہیں۔
غذاؤں میں کیلا بہترین غذائی عنصر ہے جس میں قدرتی طور پر ذہنی عوارض کے اثرات کم کرنے کی صلاحیت پائی جاتی ہے۔ مغز، بادام، پپیتہ، انگور، انار، آڑور اور بہی بہترین غذائیں ہیں۔ پالک کا استعمال بھی مفید رہے گا۔ پالک میں قدرتی طور پر فولادی اجزاء کی کثیر مقدار پائی جاتی ہے جبکہ جسمانی و ذہنی خلیات کو چست کرنے کے لیے فولاد لازمی اور بنیادی جزو ہے۔ عام طور پہ بہی کا مربہ ایک چھٹانک روزانہ دھو کر کھا یا جاتا ہے۔
تیز مصالحہ جات، سرخ مرچ، زیادہ نمک، چکنائی،کولا مشروبات،بیکری مصنوعات، بڑا گوشت، بیگن، دال ماش،کھجور وغیرہ کے استعمال سے پرہیز کے ساتھ روزانہ ایک گھنٹہ ورزش کی جائے۔ حسد، بغض، کینہ، نفرت، غصہ، تکبر اور بغل کے جذبات سے بچا جائے اور محبت، رواداری، ایثار، عاجزی، اخوت اور سخاوت کے جذبات کو فروغ دینے سے بھی خود اعتمادی میں کمی سمیت تمام نفسیاتی مسائل سے نجات میسر آتی ہے۔

روزنامہ ایکسپرس

روحانیت اور روحانی لوگ

پروفیسر  محمد عبداللہ بھٹی روحانیت  کے سفر کے بارے میں   ایک نشست  میں سیدقاسم علی شاہ  کے ساتھ بات  کرتے ہوئے  کہتے  ہیں کہ میری  طبیعت میں شروع  ہی  سے  کھوج ، تلاش اور جستجو رہی   اسی  کھوج  کی وجہ سے    میں  نے ایم ۔اے ، سی۔ایس۔ایس اور بہت  سے کام  کیے  لیکن  اسکے باوجو د میرے اندر  جو پیاس تھی وہ  بجھ نہ سکی لیکن جیسے ہی  میری روحانیت  سے شناسائی  ہوئی   تو  مجھے پتا  چلا  کہ جس  چیز  کی  مجھے پیاس  تھی  وہ  تو یہ ہے۔ جب  میں  نے روحانیت کے سفر  کا آغاز کیا تو  مجھے  بہت لوگ  ملے  لیکن  ان میں اکثریت ایسے  لوگوں کی تھی  جنہوں  نے روحانیت  کا لبادہ اوڑھ رکھا تھا ۔ جب مجھےان سے  کچھ نہ ملا  تو   پھر  میں  نےصوفیا  کرام کی زندگی  کا مطالعہ کیا ۔ سب سے پہلے میں نے قوت القلوب  کو پڑھا پھر رسالہ قشیریہ ، احیاالعلوم،  کمیائے سعادت، مثنوی مولاناروم ، فتوحات  مکیہ اور اس  کے علاوہ حضرت واصف علی  واصفؒ  اور جتنا بھی لوکل لٹریچر  تھا اس   کا  مطالعہ  کیا اس کے علاوہ تصوف  کے اوپر  جتنا بھی غیر مسلم  لٹریچر  تھا  اس  کا بھی  مطالعہ کیا۔ یہ سب کچھ  پڑھنے کے بعد مجھے ایک  بات  کی سمجھ آئی کہ  جتنے بھی صوفیائے  کرام  تھے انہوں نے سب سے زیادہ جس بات کا تذکرہ  کیا وہ  تزکیہ نفس  تھا۔  یوں  میں  نے اپنی روح  اور جسم کو پاک  کر نے  کے لیے مراقبہ ، ریاضت اور  مجاہدہ  کرنا شروع  کر دیا  پھر اللہ تعالیٰ نے مجھے وہ راستہ دکھایا جو  صراطِ  مستقیم  کی  طرف جاتا ہے ۔
روحانیت  کے حوالے  سے لوگوں میں  یہ غلطی فہمی پائی جاتی ہے  کہ  کوئی ایسا شخص  جس  کامخصوص لباس ہو، خوشبو  لگائی  ہو، انگوٹھیاں پہنی ہوں ، لمبے بال  ہوں  وہ  ہی روحانی  ہوتا ہے حالانکہ روحانیت  لباس ، وضع قطع  کا  نام  نہیں ہے ۔ انسا ن روح اور جسم کا مرکب ہے    وہ جسم کے  تقاضے  تو  پورے کرتا  رہتا ہے  لیکن روح  جو  کہ  اصل ہے  اس    کی  طرف اس  کا دھیان ہی  نہیں  ہوتا ۔ کثافت اور  لطافت دو چیزیں ہیں  جن  لوگوں  میں  کثافت زیادہ ہوتی  ہے  ان  کا رجحان دنیا کی طرف زیادہ ہوتا ہے اور  جن  لوگوں میں لطافت زیادہ  ہوتی  ہے  ان کا رجحان قربِ الہٰی کی طرف ہوتا ہے۔ روحانیت ایک فطری جذبہ  ہے  یہ  کسی میں زیادہ  اورکسی میں  کم ہوتا ہے ۔ روح کا تعلق اچھے  کاموں کے ساتھ   ہوتا ہے۔ اگر  کوئی  بندہ  خیرات کرتا ہے، لوگوں میں پیار  بانٹتا ہے ،  لوگوں میں خوشیاں  با نٹتا ہے، لوگوں کے دکھ درد  میں شریک  ہوتا ہے   برے  کاموں  سے دور رہتا ہے  اس سے روح کو طاقت ملتی ہے اور خوش ہوتی ہے ۔ لوگوں  میں غلط فہمی پائی  جاتی ہے  کہ صرف عبادت  کرنے  سے ہی روح خوش  ہوتی ہے  حالانکہ ایسا  نہیں ہے ۔ اگر عبادت  ہے  لیکن روحانیت  نہیں ہے  تو پھر  وہ عباد ت نہیں   ہے  عبادت  یہ ہے کہ بندے کے شعور  اور لاشعور کی رغبت  اللہ تعالیٰ کی طرف ہو اگر عبادت میں سوچ  دنیاوی  کاموں  کی طرف  ہو تو وہ عباد ت  نہیں  ہوتی۔روحانیت  اصل  میں اندر کی  بات ہے جو  لوگ اندر کی بات  کرتے ہیں جن  کا رجحان روحانیت کی طرف ہوتا ہے  وہی روحانی  لوگ ہوتے ہیں۔  روحانیت  میں   دو قسم کے لوگ  ہوتےہیں ایک وہ  جنہیں اللہ تعالیٰ  ان کی فطرت  میں یہ چیز  ودیعت  کر دیتا ہے ان کو  عبادات اور مجاہدات  کی ضرورت  نہیں پڑتی  جبکہ دوسر ی قسم کے وہ لوگ ہوتےہیں جن    کے  میلان  میں رجحان  میں  روحانیت  پائی  جاتی  ہے  ایسے لوگ  عبادات  اور مجاہدوں  کے ذریعے  اللہ تعالیٰ  کا قرب حاصل  کرتے ہیں ۔
اکثر صوفیائے  کرام   کے  بارے میں ذکر  ملتا ہے  کہ وہ عشقِ مجازی  سے عشق ِ حقیقی کی  طر ف  گئے  اگر  اس  بات پر غور  کیا  جائے تو  سوال  پیدا  ہوتا ہے  کہ یہ کیسے ممکن ہے ، جبکہ حقیقت  یہ ہے کہ عشق سب کی فطرت  میں پایا جاتا ہے  لیکن  دیکھنا  یہ ہوتا ہےکہ  عشقِ مجازی  سے   حقیقت کی طرف  کون جاتا ہے ۔ جتنے  بھی صوفیائے  کرام ہیں  وہ فطرت سے متاثر ہوتےہیں  جب وہ فطرت کی  طرف جاتےہیں  تو وہ مجازی عشق کی  طرف چلے جاتے ہیں  جب وہ اس    پروسس سے گزر رہے ہوتے ہیں اسی دوران جب انہیں ٹھوکر  لگتی ہے  تو پھر  ان کواحساس ہوتا ہے کہ  ہم   توایسی چیز  کے عشق  میں مبتلا ہیں  جو  نامکمل ہے۔  اس احساس کے بعد  پھر وہ خالقِ کائنات  کی طرف   روجوع   کرتے ہیں   اور پھر روجوع کے لیے کسی مرشد کی بیعت  کرتے ہیں ۔ حضرت واصف علی واصف ؒ فرماتےہیں"عشقِ مجازی  کو عشقِ حقیقی   بننے کے لیے ایک استاد کی ضرورت ہوتی ہے ۔"
اللہ تعالیٰ کی محبت دنیا کا واحد ذائقہ ہے  جس کو یہ    لگ جاتا ہے  وہ  دنیا سے آزاد ہو جاتا ہے ۔جن لوگوں نے  یہ  ذائقہ چھکا ہوتا ہے  وہ صوفیا  کہلاتے ہیں رسل  کہتا ہے "اگر آپ  کسی انسان میں انسانی خوبیوں کا نقطہ عروج دیکھنا چاہتے ہیں  تو آپ   کسی اہلِ تصوف  سے  ملیں۔"  وہ  مزید کہتا  ہے کہ میں اللہ تعالیٰ کو  نہیں مانتا لیکن  میں یہ مانتا ہوں کہ   میں نے  انسانی خوبیوں کا    نقطہ عروج  اگر کسی انسان میں دیکھا ہے  تو وہ اہل ِ تصوف ہیں  ۔ پیٹمور  کہتا ہے "تصوف کے بارے میں جاننے کے لیے پہلے  بندے کو اس تجربے اور اس کیفیت سے گزرنا پڑے گا  کیونکہ  اگر  کسی نے بنفشے   کا  پھول  نہیں  سونگھا تو وہ بنفشے کی  خوشبو نہیں  بتا پائے گا۔  جب قربِ الہیٰ کی بات  آتی  ہے تو  یہ وہ  لوگ ہوتےہیں  جوکائنات  میں صرف  رب تعالیٰ  کا انتخاب  کرتے ہیں ۔وہ اپنے جسم اور روح کو  ہر اس چیز سے پاک  کر لیتےہیں   جسے اللہ تعالیٰ  ناپسند کرتا ہے ا ور  اپنے  جسم  اور روح  کو ہر  اس  چیز  سے  مذین کر لیتےہیں  جنہیں  اللہ تعالیٰ پسند  کرتا ہے ۔ جو عشقِ الہیٰ  کا مسافر ہوتا ہے  وہ اللہ تعالیٰ کو سب سے پہلے رکھتا ہے  باقی چیزوں  کو پیچھے چھوڑ دیتا ہے ۔  عشق ِ الہیٰ  کا مسافر اللہ تعالیٰ  کو حاصل  کرنے   کے لیے عبادا ت کرتا ہے مجاہدات  کرتا ہے اور ہر   وہ کام   کرتا ہے  جس  سے اللہ تعالیٰ راضی ہوتا ہے    کیونکہ  اللہ تعا لی ٰ جس سے راضی ہوتا ہے  اس  کے  متعلق اس  کا ارشاد ہے کہ " جب تم میرے  ہو جاتے ہو  تو تم تم نہیں رہتے  تمہارا بولنا میرا ، تمہار ا چلنا میرا، تمہارا اٹھنا میرا اور تمہارا بیٹھنا میرا ہو جاتا ہے۔ "  اللہ تعالیٰ مزیدفرماتا ہے کہ " جب  میں  کسی  سے راضی ہو جاتا ہوں  تو میں کائنات کی مخفی قوتوں   کو آڈر  دے دیتا ہوں کہ   میرے  بندے   کے ہم رکا ب بن جاؤ۔ خوش قسمت ہوتے  ہیں وہ  لوگ   جن کے اندر یہ طلب   پائی  جاتی ہے ۔
قرآنِ پاک  میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ "بے شک  میرے ذکر  سے  تمہارے دلوں کو اطمینان ملے گا۔" "تم مجھے یاد  کرو میں تمہیں یاد کروں " "میرے  نام  بہت خوبصورت   ہیں  میرے ناموں سے پکارو" "میرا ذکر کثرت سے  کرو تاکہ تم فلاح پا  جاؤ۔" سارے  مسائل  کا حل قرآنِ پاک میں موجود ہے جب اللہ  تعالیٰ خود  کہہ رہا ہے  کہ "میرے نام  بہت خوبصورت ہیں  تو ہمیں چاہییں  کہ ہم ان ناموں  کو پڑھیں   اور  صوفیائے کرام  کے فلسفے کے تحت اللہ تعالیٰ  کو دستک دیں  اس   کو بار بار  یاد  کریں۔اللہ تعالیٰ  کے  ناموں کا وظیفہ کرنا اللہ تعالیٰ  کو دستک دینے کے مترادف ہے  اللہ تعالیٰ سورۃ مو منون  فرماتا ہے "مجھے  پکارو میں تمہاری دعا قبول کر وں گا "۔  ہمارا  معاشرہ  ڈیپریشن  سے  بھراپڑا ہے اس کا حل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ذکر کیاجائے ڈیپریشن  خود  ہی دور ہو جائے گی ۔ جو لوگ اللہ تعا لی ٰ کا ذکر  کرتے ہیں  ان پر اپنا آپ  کھل جاتا ہے  چنانچہ حضرت  بابا بلھے شاہؒ فرماتے  ہیں:
جنے بھیت پایا قلندر دا
او پیتی  ہویا اندر دا
حضرت سلطان باہوؒ فرماتےہیں
ائے تن تیرا رب سچے  دا حجرا
ایتھے پا فقیراچاتی  ہو
نا کر منت خاص خضر دی
تیرے اندر آپ حیاتی ہو
حضرت عیسیٰ  علیہ السلام فرماتے ہیں  "تمہار ا جو من  ہے  اس کے اندر ایک کائنات آباد ہے "حضرت مولانا روم ؒ فرماتےہیں "اگر تو انبیاء کرامؑ،اولیاء کرام  ؒ  کی زیارت  کرنا  چاہتا ہے  تو  اپنے  باطن کو دیکھ۔اللہ تعالیٰ  بہت  رحیم  ہے اس نے ہمارے  اندر شر اور نیکی رکھی ہے  انسانی  جسم پر  جب نفس  اور شر  غالب آتا ہے تو پھر اس کا رجحان  غلط کاموں  کی طر ف ہو جاتا ہے  لیکن جب کسی انسان پر  شر کی بجائے  نیکی غالب  ہو  تو وہ محبت  کر تا ہے،  پیار کرتا ہے ، بھلائی کرتا ہے ۔صوفیائے   کرام ؒ  اپنے اندر   کے شر  کی طاقتوں کو  مار کر بھلائی  کی قوت  کو غالب  کر  تےہیں  اسے  ہی تزکیہ  نفس کہا  جاتا ہے۔جب  بندہ  اللہ تعالیٰ  کی  محبت  میں مبتلا ہوتا ہے  تو  وہ  ہر اس چیز سے پیا ر کرتا ہے  جو اس نے بنائی   ہے۔جب  بندہ ذکرِ الہیٰ   کرتا ہے  تو اللہ تعالیٰ  اس کے  وجود  کو راحت عطا کرتا ہے   ان  کے  دل میں  خدمتِ خلق  کا جذبہ ڈال دیتا ہے  ۔ درویش  کائنات کے سب سے خوبصورت  لوگ ہوتےہیں  ان  کے دل میں ایک تڑپ ہوتی   ہے ایک    احساس ہوتا ہے جب وہ کسی   دکھی  کو دیکھتے  ہیں تو ان کو گلے   لگاتےہیں  ۔ اللہ تعالیٰ ایسے  لوگوں کو خاص قوتِ برداشت  عطا کرتا ہے  وہ   کسی  کو تکلیف  میں  دیکھ  کر  اس  کی تکلیف   دور  کرتے ہیں۔
برصغیر میں ہندوانہ  کلچر ہونے کی وجہ سے تصوف کو بہت غلط رنگ دے دیا گیا  ہے یہاں  پر یہ سمجھا جاتا ہے  کہ صرف تعویز گنڈے  کا نام  ہی  تصوف و رحانیت ہے۔اس غلط رنگ کی وجہ سے ہر  دوسرے شخص کو شک رہتا  ہے کہ  مجھ پر جادو ہو گیا ہے  حالانکہ  یہ سارا وہم ہے  یہ ڈیپریشن  کی ایک شکل ہے ۔ڈیپریشن اس وقت ہوتی  جب بندہ کسی   چیز کی تلاش  کرتا ہے  جب وہ  نہیں ملتی تو  وہ اداسی  کی کیفیت میں چلا  جاتا ہے   پھر توہم پرستی  ہونے کی وجہ سے  اس  کو جادو سمجھ لیتا ہے  ۔ جو  لوگ کہتے ہیں  کہ ہم پر جاود  ہو گیا ہے  ان  میں  نوئے فیصد  سے زائد ایسے  لوگ ہوتےہیں  جن  پر کسی قسم  کا کوئی  جادو نہیں ہوا  ہوتا صرف وہم  ہوتا ہے  دس فیصد ایسے لوگ  ہوتے ہیں جنہیں  شیطانی قوتیں  تنگ  کرتی ہیں  ۔   اللہ تعالیٰ  نے اس کائنات   میں انسانوں سے پہلے  جنوں  کو پیدا کیا تھا جنوں میں   جوغیر مسلم  ہیں  بعض اوقات  وہ  انسانوں کو تنگ کر تے ہیں ان کا تناسب بھی ایک فیصد سے کم ہے ۔  یہ  سب   ایمان ،یقین  کی کمزوری   اور  دین سے دوری   کی وجہ سے ہے جب  اللہ تعالیٰ ترجیح اؤل ہوگا   اس  سے محبت ہو گی   تو  پھر جتنے  بھی اس  قسم  کے وہم یا  خوف  ہیں ان سے آزادی مل جائے گی۔


ہفتہ، 17 جون، 2017

الجزیرہ کی کہانی

الجزیرہ عرب دنیا کا آزاد ٹی وی چینل ہے، جس کی نشریات عربی اورانگریزی میں ہوتی ہیں۔الجزیرہ کی نشریات دیکھنے والوں کی تعداد کروڑوں میں ہے۔اس کی عربی کی نشریات مشرق وسطیٰ میں دیکھی جاتی ہیں اور انگریزی زبان کے چینل دیکھنے والے پاکستان، افغانستان، ایران، بھارت، وسطی ایشیائی ممالک، چین، یورپ اور امریکا میں بھی موجود ہیں۔ الجزیرہ قطر کے شاہی خاندان نے قائم کیا تھا۔ یوں تو قطر میں ایک مطلق العنان بادشاہت قائم  ہے مگر قطر کے حکمرانوں نے ایک آزاد ٹی وی چینل قائم کرکے اپنے پڑوسی امارات کو مشکل میں ڈال دیا۔
برطانیہ کے صحافی ہیو ملز نے الجزیرہ کے بارے میں ایک کتاب لکھی جس کا نام انھوں نے Inside story of The Arab News Channel that is challenging the West رکھا۔ ہیو ملزکاکہنا ہے کہ الجزیرہ کے ناظرین کی تعداد 50 ملین سے زیادہ ہے۔الجزیرہ کے قیام کا پس منظر کچھ یوں بیان کیا جاتا ہے کہ گزشتہ صدی کی 90ء کی دہائی کے ابتداء میں سعودی عرب کے شاہ فہد کے ایک قریبی رشتے دار نے بی بی سی کے اشتراک سے ایک چینل قائم کرنے کے لیے کمپنی ORBIT کے نام سے قائم کی تھی۔
اس کمپنی کا مقصد بی بی سی کی ورلڈ سروس کی نشریات کو عربی زبان میں پیش کرنا تھا۔ مشرق وسطیٰ میں بی بی سی کی اردو کی نشریات تو عرصہ دراز سے دیکھی جاتی تھیں مگر اس علاقے میں انگریزی سمجھنے والے افراد کی تعداد کم تھی، یوں عربی زبان کی نشریات کا معاملہ مختلف تھا۔ بی بی سی کے حکام نے یہ شرط رکھی کہ عربی چینل کی پالیسی وہی ہوگی جو بی بی سی انگریزی چینل کی ہے، یوں 22 مارچ 1994ء کو بی بی سی اور اورینٹ میں 10 سالہ نشریات کا معاہدہ ہوا۔ مگر کچھ برسوں بعد اوریئنٹ کمپنی کو بی بی سی کی نشریات پر اعتراضات پیدا ہوئے۔ بی بی سی اورکمپنی کے درمیان معاہدہ ختم ہوگیا اور 20 ستمبر 1994ء کو یہ سروس بند ہوگئی۔ بی بی سی عربی سروس کے اچانک بند ہونے سے 250 پیشہ ور عربی صحافی بے روزگارہوگئے۔اس دوران الجزیرہ کے قیام کا خیال قطری حکمرانوں کے ذہن میں آیا اور بی بی سی سے فارغ ہونے والے 120 صحافی الجزیرہ میں شامل ہوگئے۔الجزیرہ کی انتظامیہ نے فلسطینی صحافیوں کو ترجیح دی۔ فلسطینی صحافیوں کے بارے میں تصورتھا کہ وہ زیادہ پڑھے لکھے ہیں اور بی بی سی سمیت میڈیا کے اداروں میں کام کرتے رہے ہیں۔
الجزیرہ کے منتظم مصطفی کا کہنا ہے کہ الجزیرہ کے آپریشن اور بی بی سی کے آپریشن میں فرق تھا۔الجزیرہ نے عربی زبان میں 24 گھنٹے نشریات کا فیصلہ کیا تھا۔عربی صحافیوں کو بی بی سی اوردیگر بین الاقوامی میڈیا چینل کے معیارکے برابر اپنے مواد کو تیارکرنا تھا۔الجزیرہ نے پہلے ایک عربی سیٹلائیٹ کے ذریعے 6 گھنٹے کی نشریات کا آغازکیا، جنوری 1997ء میں نشریات کا دورانیہ 8 گھنٹے ہوا اور پھر 24 گھنٹے ہوگیا۔ نومبر 1997ء میں الجزیرہ اس پوزیشن میں آگیا کہ دنیا کے دیگر چینل سے مقابلہ کرسکے۔الجزیرہ اور دیگر بین الاقوامی چینلز میں ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ الجزیرہ کے انتظامی، ادارتی اور تکنیکی معاملات مکمل طور پر عربوں کے پاس ہیں اور الجزیرہ کے لیے ساری سرمایہ کاری بھی قطر نے کی ہے، یوں الجزیرہ پر بظاہر غیر عربیوں کا کوئی اثر نہیں ہے۔
الجزیرہ کی خبروں کے علاوہ ٹاک شوز نے بھی خصوصی شہرت حاصل کی۔الجزیرہ کے ٹاک شوز لندن اور دیگر شہروں سے پیش کیے جاتے ہیں، یوں مختلف پس منظر رکھنے والے ماہرین کے خیالات ناظرین کو سننے اور دیکھنے کو ملتے ہیں۔ مجموعی طور پر ان ٹاک شوز میں دو مہمان ہوتے ہیں جو ایک دوسرے سے متضاد خیالات رکھتے ہیں۔ الجزیرہ کا ایک ٹاک شو Opposite Direction بہت مقبول ہوا۔ تاہم الجزیرہ کے ان پروگراموں کے خلاف عرب ممالک کی جانب سے سخت ردعمل سامنے آئے۔ Opposite Direction میں سابق صدرکرنل قذافی کے ایک مخالف نے انھیں ڈکٹیٹر قرار دیا تھا تو لیبیا نے قطر سے اپنا سفیر واپس بلا لیا تھا۔ اسی طرح حماس کے ایک رہنما کے انٹرویو نشر ہونے پر فلسطینی اتھارٹی نے الزام لگایا کہ فلسطین اتھارٹی کا امیج خراب کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اسی طرح تیونس، بحرین اور ایران کی حکومت ان پروگراموں سے ناراض ہوئی۔
شام کے صدر اسد نے الجزیرہ کو اسرائیل کا ایجنٹ قرار دے دیا۔ جب الجزیرہ نے صدر صدام کے دور میں اقوام متحدہ کی پابندیوں کی بناء پر عراق میں غذائی قلت پر ڈاکیومنٹری بنائی تو صدام کا خیال تھا کہ اس سے ان کے اقوام متحدہ کے خلاف مؤقف کو تقویت ملے گی مگر جب الجزیرہ نے صدام کی سالگرہ کی تقریبات کی کوریج کی تو وہ ناراض ہوگئے تھے۔الجزیرہ والے کہتے ہیں کہ اگرچہ  چینل کی فنڈنگ قطر کی حکومت کرتی ہے مگر یہ اسی طرح کرتی ہے جیسے برطانیہ کی حکومت بی بی سی کی کرتی ہے مگر بی بی سی کی طرح الجزیرہ اپنی انتظامی اور ادارتی پالیسی بنانے اور اس پر عملدرآمد کرنے میں آزاد ہے۔ الجزیرہ نے یکم فروری 1999ء کو تین مختلف چینلز سے 24 گھنٹے نشریات شروع کی۔ اس کے ملازمین کی تعداد 500 تک پہنچ گئی تھی اور عرب ممالک کے علاوہ روس اور امریکا میں بھی اس کے بیورو قائم ہوئے۔
ایرانی ٹی وی چینل سے تہران میں بیورو کھولنے کا معاہدہ  ہوا۔ اسی زمانے میں چینل نے اسرائیلی کیبل کمپنی سے معاہدہ کیا۔  انگریزی کے ڈیجیٹل چینل ایک ڈاکیومنٹری کے چینل کے ساتھ اسرائیل میں آباد عربوں کے لیے علیحدہ چینل شروع کرنے کا فیصلہ ہوا۔ افغانستان پر طالبان حکومت نے 2000ء میں الجزیرہ اور سی این این کو پیشکش کی تھی کہ وہ کابل میں اپنے بیورو قائم کریں۔ سی این این نے اس پیشکش کو مسترد کردیا مگر الجزیرہ نے کابل میں بیورو قائم کرنے کا فیصلہ کیا، یوں افغانستان کی صورتحال کو الجزیرہ نے بہتر انداز میں کور کیا۔ اکتوبر 2000ء میں فلسطین میں دوسری انتفاضہ شروع ہوئی۔ مقبوضہ عرب علاقوں میں فلسطینیوں نے اسرائیل کے اقتدار کو چینلج کیا۔ انتفاضہ کے واقعات کی کوریج کے اسرائیل، مقبوضہ فلسطین اور مشرق وسطیٰ میں مختلف نتائج برآمد ہوئے۔
2003ء میں رام اللہ میں الجزیرہ کے بیورو چیف ولید ال عمری نے دنیا کا سب سے خطرناک کام انجام دیا۔ انھوں نے اسرائیلی فوج کے ہاتھوں مرنے والے ہزاروں فلسطینیوں کی لاشوں کو دکھایا اور دنیا کو حقیقی صورتحال سے آگاہ کیا۔ پھر یہ بھی خبریں شایع ہوئیں کہ اسرائیلی وزیراعظم اوروزیرخارجہ کسی دوسری عرب چینل کے مقابلے میں الجزیرہ کو مسلسل دیکھتے ہیں۔ 2001ء میں اسرائیل کے وزیراعظم نے الجزیرہ کوایک طویل انٹرویو دیا۔اسرائیلی وزیر اعظم نے انٹرویو میں انتفاضہ کے بارے میں سوالات کے جوابات دیے۔ انھوں نے پی ایل او کے سربراہ یاسر عرفات سے اپیل کی کہ وہ فلسطینی علاقے میں تشدد کو رکوائیں۔ الجزیرہ نے فلسطین اور اسرائیل میں اس انٹرویو پر انعامات حاصل کیے مگر اسرائیلی وزیراعظم انتخابات میں شکست کھا گئے۔اسرائیل کی نئی حکومت نے اس حقیقت کو محسوس کیا کہ الجزیرہ کی نشریات کی بناء پر انھیں میڈیا وار میں شکست ہوئی،اس بناء پر اسرائیلی حکومت نے ایک انگریزی اورعربی کے چینل کے لیے فنڈ فراہم کیے تاکہ الجزیرہ کا جواب دیا جاسکے۔
اس زمانے میں فلسطینی اتھارٹی اور یاسرعرفات الجزیرہ کی کوریج سے ناراض ہوئے۔ یاسرعرفات کو شکایت تھی کہ اس چینل نے ایک ڈاکومنٹری میں یاسرعرفات کی زندگی کے بارے میں امیج کو بگاڑا ہے۔ فلسطینی اتھارٹی نے الجزیرہ پر پابندی لگادی اور الجزیرہ کے رپورٹرزکی آمدورفت محدودکردی۔نائن الیون کی دہشتگردی کے واقعے کے بعد الجزیرہ کے نیویارک بیوروکو ایک فیکس موصول ہوا۔ اسامہ بن لادن کے دستخط سے جاری ہونے والے فیکس میں نائن الیون کی دہشتگردی کے واقعے میں ملوث ہونے سے انکارکیا گیا اورکہا گیا کہ یہ انفرادی کارروائی ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ وہ افغانستان میں ہیں مگر وہ طالبان کے قانون کے پابند ہیں،امریکا نے اس تردید کو مسترد کردیا تھا۔اسامہ نے کئی دفعہ الجزیرہ کو بیان جاری کیے۔
ان بیانات میں انھوں نے امریکا کی عراق میں پیش قدمی پر سخت کارروائی کی دھمکی دی تھی۔ مغربی میڈیا نے الجزیرہ کے اسامہ کے فوٹیج کو مسلسل استعمال کیا۔الجزیرہ نے افغانستان میں اتحادی فوج کے حملے اور طالبان حکومت کے خاتمے کے واقعات کو براہِ راست کورکیا جس سے امریکا اورالجزیرہ کے تعلقا ت کشیدہ ہوگئے۔ کابل میں الجزیرہ کے دفترکے قریب 227 کلو گرام کے دو امریکی بم گرائے گئے۔ دفتر میں کوئی موجود نہیں تھا، یوں جانی نقصان نہیں ہوا۔عراق جنگ کے دوران بھی ایسا ہی ہوا۔ عراق جنگ میں الجزیرہ کے کئی رپورٹر جوعراق کے شہروں میں کام کر رہے تھے زخمی ہوئے۔امریکی انتظامیہ نے قطرکی حکومت پر دباؤ ڈالاکہ الجزیرہ کو بندکیا جائے۔ الجزیرہ نے مصر، لیبیا، شام، یمن اور باقی عرب دنیا کے واقعات کو بھی اسی طرح کورکیا جس سے حقائق ظاہر ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ الجزیرہ عرب حکومتوں کے لیے ایک خطرہ بن گیا، مگر الجزیرہ کو بند کرنے کا مطلب عوام کے کانوں اور آنکھوں کو بندکرنا ہے مگر نئی ٹیکنالوجی کے دور میں یہ ممکن نہیں ہے۔
1959ء میں ایوب خان کی حکومت نے پی پی ایل کے اخبارات پر پابندی امریکا کی ایماء پر لگائی تھی جس کا سارا نقصان پاکستان کے عوام کو ہوا۔ الجزیرہ جیسے چینل ہر مسلمان ملک میں قائم ہونے چاہیئیں جبھی حقیقی تبدیلی رونما ہوگی۔
ڈاکٹر توصیف احمد خان


منگل، 13 جون، 2017

مائنڈ سائنسسز اوربابے


زندگی گزارنے  کے  لیے جتنے سوالات ضروری ہیں  ان میں سب سے اہم سوال یہ ہے کہ " میں کون ہوں ؟"انسان کی تمام پریشانیاں اور  الجھنیں  اسی سوال  کا جواب   نہ  ملنے  کی وجہ سے پیدا ہوتی  ہیں ۔ ہر زمانے  کے  لوگ  اس سوال  کے جواب  کی تلاش  میں  رہے۔ اگر  صوفیائے  کرام کو پڑھا جائے تو وہاں  پر بھی  ہمیں  یہی سوال  نظر آتا ہے حضرت بابا  بلھے شاہؒ  فرماتے ہیں "بلھا کی جانا میں کون۔" اسی سوال  کے جواب  کی تلاش میں راؤ محمد  اسلم صاحب نے   کئی  ملکوں  کا سفر  کیا۔ انہوں نے سری لنکا سے   مائنڈ سائنسسز  میں پی ۔ایچ، ڈی کر  رکھی ہے۔مائنڈ سائنسسز اور بابوں کے  حوالے  سیدقاسم علی شاہ  کے ساتھ ایک نشست  میں  بات کرتے  ہوئے  کہتے ہیں کہ میں  نے سیکھنے کی غرض اور اپنے آپ کو جاننے  کے لیے  مائنڈ سائنسسز  کو منتخب کیا۔ اگر ہم اپنے آئمہ کرام  کی زندگیوں کا  مطالعہ کریں  تو ہمیں معلوم ہو  گا  کہ انہوں نے  اس سوال کے جواب اور سیکھنے  کی غرض سے  ایک شہر سے دوسرے ، دوسرے سے تیسرے  اور تیسرے  سے چوتھے  شہر کی طرف  سفر  کیا  تاکہ  اپنی ذات  کا ادراک ہو  اور اپنے آپ کو جانا جائے۔
انسان کو  چوبیس گھنٹوں میں قدرت  کی طرف سے  ساٹھ ہزارخیالوں  کا تحفہ  ملتا ہے  یہ خیال  مختلف قسم کے ہوتےہیں ۔ انسان  نے یہ دیکھنا ہوتا ہے  کہ وہ  کس خیال  کو رکھے   کس کوچھوڑے اور  کس پر عمل کرے۔ایک  خیال   کی مدت  تین  سے تیرہ سیکنڈ تک ہوتی ہے  پھر نیا خیال آتا ہے  جیسے ہی نیا خیال آتا ہے   پہلا خیال چلا جاتا ہےصرف وہی خیال  انسان کے ساتھ رہتا ہے  جس  کے ساتھ اس کے جذبات   منسلک ہو تے ہیں  وہ جذبات چاہے  خوشی  کے ہوں  یا غمی  کے۔  وہ  لوگ  جو یہ سوال  کرتےہیں   کہ خیالات  ہمارے  کنڑول  میں  نہیں رہتے انہیں چاہیے  کہ وہ اپنے  خیالات  کو  اپنے جذبات کے  ساتھ  منسلک  کریں  جب وہ ایسا  کریں گے  تو پھر  انہیں  جذبات  پر کنٹرول  بھی  حاصل ہو جائے گا اور  دوبارہ اسی طرح  کے خیالات  بھی  آئیں گے۔ خیالات دماغ میں  آتے  ہیں  اور دماغ انسان  کا  ملازم ہے  لیکن  عام  طور پر  دیکھیں  تو انسان  اپنے دماغ کے غلام  بنے ہوتے ہیں   اور پھر  دماغ  میں جس  طرح کے  مرضی خیال  آئیں وہ  اپنے مطابق چلاتا ہے  اور عام  طور پر  وہ خیال  منفی  ہوتےہیں جس   کی وجہ  سے ہمیں  معاشرے  میں زیادہ  تر  لوگوں  کا رویہ  منفی  نظر آتا ہے۔ جو  صوفیائے کرام  ہوتے ہیں  وہ اپنے دماغ   کو آقا نہیں بننے دیتے   بلکہ اسے    اپناملازم  رکھتےہیں جس کی وجہ  سے ا نہیں  اپنے خیالات پر  کنٹرول ہوتا ہے  اور ان  کا رویہ بھی مثبت ہوتا ہے  ۔ حضرت میاں  محمد  بخشؒ  فرماتےہیں :
علم خاطردنیا اتے آون ہے  انساناں
سمجھ علم  وجود اپنے نوں  نئی تے وانگ حیواناں
زندگی گزارنا  ایک فن ہے پہلے یہ فن  گھر کے بڑے لوگ   اور ڈیروں  پر  بیٹھے  بابے سکھاتے  تھےاب اسی فن  نے سائنس  کی شکل  اختیار کر لی ہے۔ دنیا  میں اس حوالے سے بہت سے  پروگرام  کروائے جاتے ہیں  انہی میں ایک پروگرام  این۔ایل ۔پی "  نیورو لینگویسٹک پروگرامنگ" یہ  پروگرام بتاتا ہے   کہ سوچنا کیسے ہے،  بات  کیسے کرنی ہے،  عمل  کس طرح کرنا  ہے وغیرہ وغیرہ اس سارے علم کو مائنڈ سائنسز کہا  جاتا ہے ۔ 1923ء میں  امریکہ میں   ایک تحقیق ہوئی انہوں نے طالب علموں کو ٹاسک دیا کہ آپ نے   سات  شعبوں  کے کامیاب ترین  لوگوں   پر تحقیق کرنی  ہے  ۔ جب تحقیق   مکمل  ہو گئی تو پتا  چلا کہ  ا ن میں  کئی  لوگ مختلف قسم کی بیماریوں  میں مبتلا ہیں  ،ڈیپریشن کے  مریض ہیں ان  لوگوں نے پیسہ کمانا تو سیکھ لیا  تھا  لیکن زندگی کیسے  گزارنی  ہے  یہ نہیں سیکھا۔زندگی گزارنا   پیسے  کمانے سے   مختلف چیز ہے  بلکہ یہ ایک سائنس ہے۔ بچہ پیدا ہو نے  کے بعد سب  سے پہلے آنکھیں  کھولتا ہے  پھر چلنا سیکھتا ہے  پھر مینج کرنا سیکھتا ہے   پھر وہ  عمل  کی طرف آتا ہے۔ انسان اچھا  ہو یا برا،کامیاب ہو یا ناکام  اس  میں  جو اصل  بات  دیکھی جاتی ہے   وہ اس  کا رویہ  ہوتا ہے ۔رویے  کی تبدیلی اندر سے آتی ہے  نیورو لینگویسٹک پروگرامنگ انسان کے  اندر کو تبدیل کرتی ہے جب اندر  تبدیل  ہوتا ہے  تو پھر رویے بدلتے ہیں ۔
انسان کو چار حصوں میں تقسیم کیا  جاتا  ہے روحانی ،دماغی ،جذباتی  اور جسمانی ۔انسان  صرف اپنے جسم کو  ہی سب کچھ  تسلیم کرتا ہے  جس کی وجہ سے  وہ مسائل  کا شکار ہوتاہے حالانکہ  ہر حصے  کا  ایک اپنا کام  ہے  اور انسان کو  باقی حصوں کو  بھی تسلیم کرنا چا ہیے ۔رشتوں کا  تعلق جذبات کے ساتھ  ہے  بعض لوگ بہت  جذباتی ہوتے ہیں  اور اپنے جذبات  کے ہاتھوں بہت نقصان اٹھاتے ہیں اگر  وہ سلوا میتھڈ  تیکنیک  کا استعمال  کریں  تو  اپنے  جذبات  کو کنٹرول  کر سکتےہیں ۔اس  کا طریقہ  یہ ہے کہ  جب  سونے لگیں  تو ایک گلاس پانی  کا لیں اور  اپنی آنکھوں کو 20 ڈگری اوپر  کر کے  پانی  کو پی  لیں اس سے پہلے   اپنے دماغ  کو پیغام دیں جو  خواہشیں ہوں   اس  کا اظہار کریں   جب  پانی  پی  لیں  اور سو جائیں کسی سے گفتگو    نہ  کریں کچھ  عرصہ ایسا  کرنے سے تبدیلی آجائے گی۔
کاروبار سٹریس والا کام ہے  جو لوگ کاروبار  سے  منسلک  ہوتے ہیں  و ہ خود ہی اپنے ملازم  ہوتے ہیں انہیں کسی باس  کا سامنا نہیں کرنا پڑتا بلکہ اپنے آپ کا سامنا  کرنا ہوتا ہے  جب بندہ خود اپنا باس  ہو  تو  پھر زیادہ سٹریس ملتی ہے اس سٹریس  سے    نکلنے  کا حل یہ ہے  کہ سب سے پہلے  بندے  کو یہ دیکھنا  چاہیے  کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے  کن  صلاحیتوں  سے نواز ا  ہے  پھر ان صلاحیتوں کے   مطابق  کام  کرنا چاہیے  اس  سے سٹریس  کم  ہوگی۔  نپولین ہل  کہتاہے  کہ انسان جو  کچھ  سوچ سکتا ہے  وہ  اسے  حاصل بھی کر سکتا ہے۔جس کو ٹیم سے  کام لینا  نہیں  آتا   اسے کاروبار نہیں کرنا چاہیے  اس  کے لیے بہتر ہے  کہ وہ جاب  کر لے ۔ دنیا میں جتنے بھی  کاروباری  لوگ ہیں  انہیں  اپنی ٹیم سے  کام لینا آتا  ہے جس  کی وجہ  سے  وہ اپنے کام  میں کامیاب ہوتے ہیں  ۔  جب  کام  مختلف  ہاتھوں میں تقسیم   ہو تو پھر  سٹریس  نہیں ہوتی  ۔ سٹریس  سے بچنے کے لیے  دوپہر  کے وقت   کھانے کے بعد تھوڑی دیرکے لیے قیلولہ  ضرور کرنا چاہیے یہ قیلو لہ  سٹریس   کو ختم  کر   دیتا ہے ۔ جب  بندہ کام  کر  رہا  ہوتا ہے   تو   اس سے  بہت سار ا ڈیٹا  آر ہا ہوتا ہے  جس  کو  وہ مینج  کر  رہا ہوتا ہے  جس کی وجہ سے وہ   تھکاوٹ  کا شکار  ہو جاتا ہے  اگر تھوڑی دیر  کے لیے  آرام  کر لیاجائے تو  وہ ڈیٹا  دماغ   میں جمع ہو جاتا ہے اور تھکاوٹ دور ہو جاتی ہے     ویسے  بھی قیلولہ حضور اکرمﷺ کی سنت ہے۔  اگر  کوئی شخص صبح نو سے  شام پانچ بجے تک  کام کرتا ہے  اسے چاہیے آدھ گھنٹہ  بعد ایک چھوٹا  سا  وقفہ ضرور کرے  اور اپنی آنکھیں بند کر کے  لیٹے  اس دوران  کوئی  سوچ   نہیں ہونی چاہیے  اس سے  سٹریس  ختم ہو جائے گی۔
انسانی دماغ کے دوحصے ہیں دایاں اور بایاں ۔ بائیں حصے  میں انسان  کا ماضی ہوتا ہے  انسان نے  زندگی میں  جو کچھ بھی کیا ہوتا ہے وہ   اس حصہ  میں ہوتا ہے  جبکہ   جو  بایاں حصہ   ہے اس میں انسان  کا مستقبل   ہے  انسان  نے جو  کچھ کرنا ہوتا ہے  وہ اس  حصہ  میں    ہوتا  ہے ۔ انسانی  دماغ  کا  یہ مسئلہ ہے کہ  یا  تو یہ ماضی میں رہتا ہے  یا پھر  مستقبل میں یہ لمحہ  موجودہ میں نہیں رہتا جو لوگ لمحہ موجود  میں   رہتے ہیں  وہ  صاحبِ حال  ہوتے ہیں۔ جتنے بھی صوفیائے کرام ہیں  وہ  لمحہ موجود  میں  رہتے ہیں انہوں نے اپنے دماغ کو ایکٹیو کیا ہوتا ہے  ۔ دماغ کو  ایکٹیو  کرنے  کا آسان طریقہ یہ ہے کہ کسی کھلی جگہ  بیٹھا  جائے جہاں پر کوئی  شور نہ  ہوں  ،آنکھیں  بند کر کے اپنے اور  کائنات  کے بارے  میں سوچیں  اس  سے دماغ ایکٹیو ہو جائے گا  صوفیا بھی اسی طرح غوروفکر  کیا  کرتے  تھے ۔ ایک وقت  تھاجب ڈیرے  ہوتے  تھے  جہاں  پر بڑے   لوگ بیٹھا کرتے تھے  جو  لوگوں  کے دکھ درد  کو سنا  کرتے اور ان کو ان کا حل بتاتے تھے جس  سے ان  کے سٹریس میں  کمی  ہوتی تھی اس وقت کسی نفسیات کے ڈاکٹر کی ضرورت نہیں  ہوتی تھی۔ اہل علم اور دانشور وں کی نشستیں  ہوتی تھیں   جیسے داستان سرائے  میں  باباجی اشفاق احمد  او ر حضرت واصف علی واصف ؒ  کی  نشستیں  یہاں  سے لوگوں  کو  علم  اور وذڈم  ملتا تھا ۔ اب نہ  تو وہ بابے  اور نہ  ہی  وہ   نشستیں آج اس خلاء کو پر  کرنے کی ضرور ت ہے اس حوالے  سے میں نے بھی  بیٹھک  بنائی  ہے  جہاں پر لوگوں  کو   مائنڈ سائنسز کے بارے  میں بتایا جاتا  ہے اور  مائنڈ سائنسز  کے ذریعے  ان  کے مسائل  پر  بات  کی جاتی ہے اس  کے علاوہ  باباجی  اشفاق احمد   کی طرز  پر دوبارہ اس  طرح   کی نشتیں  آباد کرنے  کی کوشش  ہے تاکہ  لوگوں کو وزڈم  ملے اور ان کے رویوں  میں تبدیلی  اور پرامن معاشرے کا قیام ہو ۔