اتوار، 30 جولائی، 2017

جونیئر صحافیوں کے لیے2۔۔۔۔۔۔۔جاوید چودھری

ملک میں آج کل بچوں کے اغواءکا سلسلہ بھی چل رہا ہے‘ ہمارے چینلزروزانہ درجنوں خبریں دیتے ہیں‘ میں یہ ایشو بھی پڑھ رہا ہوں‘میں پولیس کے ان افسروں سے بھی رابطہ کر رہا ہوں جو مجرموں سے تفتیش کر رہے ہیں یا پھر اغواءکا ڈیٹا جمع کر رہے ہیں اور میں کوئی ریٹائر اغواءکار بھی تلاش کر رہا ہوں‘ یہ کوشش بھی میرے کام میں میچورٹی پیدا کر ے گی ‘ میں اسی طرح پانامہ لیکس‘ ٹی او آرز اور دنیا نے اس ایشو پر کیا قانون سازی کی اس پر بھی معلومات جمع کر رہا ہوں‘ یہ اضافی معلومات بھی آنے والے دنوں میں میرے کام آئیں گی‘ میرے پاس کیرئیر کے شروع میں تین موٹے موٹے رجسٹر ہوتے تھے‘ میں اخبارات سے اہم خبریں کاٹ کر ان رجسٹروں میں چپکا دیتا تھا‘ میں کتابوں کے اہم واقعات‘ اہم معلومات اور خوبصورت فقرے بھی ان رجسٹروں میں درج کر دیتا تھا‘ یہ معلومات‘ یہ واقعات اور یہ خبریں میرے خزانے تھے اور یہ آج تک میرے کام آ رہے ہیں‘ 2010ءکے بعد آئی فون اور آئی پیڈ نے رجسٹروں کی جگہ لے لی‘ میں اب خبروں کی تصویریں کھینچ کر فون میں محفوظ کر لیتا ہوں اور اہم معلومات فون کی نوٹ بک میں ٹائپ کر لیتا ہوں‘ آپ بھی یہ کر سکتے ہیں‘میں پچھلے 22 برسوں سے ایک اور پریکٹس بھی کر رہا ہوں‘ میں شروع میں روز تین اخبار پڑھتا تھا‘ یہ تعداد اب بڑھتے بڑھتے 19 اخبارات تک پہنچ چکی ہے‘ میں ان کے علاوہ اخبار جہاں‘ میگ‘ فیملی‘ ٹائم‘ نیوزویک اور ہیرالڈ بھی پڑھتا ہوں‘ میں یہ ٹاسک دو گھنٹے میں پورا کرتا ہوں‘ آپ دو اردو اور ایک انگریزی اخبار کو اپنی اولین ترجیح بنا لیں‘ آپ یہ تینوں اخبارات پورے پڑھیں اور اس کے بعد باقی اخبارات صرف سکین کریں‘ اخبارات کی 90 فیصد خبریں مشترک ہوتی ہیں‘ آپ ان نوے فیصد خبروں پر سرسری نظر دوڑائیں اور باقی دس فیصد ایکس کلوسیو خبروں کو تفصیل کے ساتھ پڑھ لیں‘ پیچھے رہ گئے میگزین‘ آپ افورڈ کر سکتے ہیں تو آپ یہ میگزین خرید لیں‘ دوسری صورت میں آپ دفتر یا بک سٹالز پر ان میگزین کی ورق گردانی کریں اور آپ کو جو مضمون اچھا لگے آپ موبائل سے اس کی تصویر کھینچ لیں اور جب فرصت ملے موبائل کھولیں‘ مضمون کی تصویریں نکالیں اور پڑھنا شروع کر دیں یوں آپ کی فرصت بھی کارآمد ہو جائے گی اورآپ کے علم میں بھی اضافہ ہو گا یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے ہم اگر جونیئر صحافی ہیں تو ہم اتنے اخبارات اور رسائل کیسے خریدیں گے‘ مجھے بھی کیریئر کے شروع میں یہ مسئلہ پیش آیا تھا‘ میں نے اس کا دلچسپ حل نکالا‘ میں ایک گھنٹہ پہلے دفتر چلا جاتا تھا‘ اخبارات کی فائل نکالتا تھا اور ساتھیوں کے آنے سے پہلے تمام اخبارات دیکھ لیتا تھا‘ آج کل انٹرنیٹ نے سہولت پیدا کر دی ہے‘آ پ دنیا جہاں کے اخبارات آن لائین پڑھ سکتے ہیں‘ آپ اسی طرح پانچ کالم نگاروں کی فہرست بنائیں‘ آپ انہیں روز ”فالو“ کریں‘ یہ عادت بھی آپ میں گہرائی پیدا کر دے گی‘ میں تیس برسوں سے کتابوں کی سمریاں بھی بنا رہا ہوں‘ میں جو کتاب پڑھتا ہوں‘ اس کی اہم معلومات‘ واقعات اور فقرے ڈائری میں لکھ لیتا ہوں‘ یہ ڈائری ہر وقت میرے بیگ میں رہتی ہے‘ مجھے جب بھی وقت ملتا ہے میں ڈائری کھول کر اپنی سمریاں پڑھتا ہوں‘ یہ عادت میری یادداشت کو تازہ کر دیتی ہے‘ میں نے پچھلے 16 برس سے بیگ کی عادت بھی اپنا رکھی ہے‘ میں درمیانے سائز کا ایک بیگ ہمیشہ ساتھ رکھتا ہوں‘ بیگ میں میرا رائیٹنگ پیڈ‘ آئی پیڈ‘ کوئی ایک کتاب اور ڈائری ہوتی ہے‘ مجھے جہاں فرصت ملتی ہے میں کتاب‘ ڈائری یا آئی پیڈ کھول کر بیٹھ جاتا ہوں‘ آپ بھی یہ عادت اپنا لیں‘ یہ آپ کےلئے بہت فائدہ مند ہو گی‘ مجھے سفر کے دوران‘ ریستورانوں‘ کافی شاپس اور واک میں اکثر اوقات لوگ ملتے ہیں‘ یہ لوگ مجھ سے سوال بھی کرتے ہیں لیکن میں جواب دینے کی بجائے ان سے پوچھتا ہوں ”آپ کیا کرتے ہیں“ وہ جواب میں اپنا پروفیشن بتاتے ہیں اور میں پھر ان سے ان کے پروفیشن کے بارے میں پوچھنے لگتا ہوں یوں میری معلومات میں اضافہ ہو جاتا ہے‘ آپ بھی اپنے ملاقاتیوں کو بتانے کی بجائے ان سے پوچھنا شروع کر دیں‘ آپ کے پاس بھی معلومات کا انبار لگ جائے گا اور آخری بات آپ یہ نقطہ پلے باندھ لیں جرا

¿ت اور غیر جانبداری صحافت کی روح ہے‘ آپ کسی قیمت پر غیرجانبداری کو قربان نہ ہونے دیں‘ آپ یہ پیشہ چھوڑ دیں لیکن آپ کی غیرجانبداری پر آنچ نہیں آنی چاہیے‘ آپ اپنے اندر سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ کہنے کا حوصلہ بھی پیدا کریں‘ آپ کو خواہ پوری دنیا گالی دے لیکن آپ سچ کو سچ کہتے چلے جائیں آخر میں آپ ہی کامیاب ہوں گے‘ آپ کبھی تالی بجوانے یا واہ واہ کرانے کےلئے جھوٹ کا رسک نہ لیں‘ کیوں؟ کیونکہ آپ جھوٹ لکھ یا بول کر تھوڑی دیر کےلئے تو واہ واہ کرا لیں گے لیکن بعد ازاںآپ کا پورا کیریئر تباہ ہو جائے گا۔ میں آپ کو یہاں 2014ءکے دھرنوں کی مثال دیتا ہوں آپ کو یاد ہو گا 2014ءمیں میڈیا دو حصوں میں تقسیم ہو گیا تھا‘ پہلا حصہ دھرنے کا حامی تھا‘ اس حصے کو دھرنے میں انقلاب بھی نظر آتا تھا اور حکومت کی گرتی ہوئی دیوار بھی جبکہ دوسرے حصے کا خیال تھا یہ دھرنا کامیاب نہیں ہو سکے گا‘ یہ لوگ اور ان لوگوں کو پارلیمنٹ ہاس تک لانے والے دونوں ناکام ہو جائیں گے‘ عوام نے میڈیا کے پہلے حصے کےلئے جی بھر کر تالیاں بجائیں‘ یہ لوگ قائدین انقلاب بھی کہلائے جبکہ دوسرے حصے کو دل کھول کر برا بھلا کہا گیا‘ انہیں گالیاں بھی دی گئیں اور ان پر حملے بھی ہوئے لیکن نتیجہ کیا نکلا؟ وہ لوگ جنہیں غدار‘ لفافہ اور بکا کہا گیا یہ آج بھی پیشہ صحافت میں موجود ہیں‘ یہ آج بھی عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں جبکہ کنٹینر پر چڑھ کر تبدیلی کا چاند دیکھنے والے تمام صحافیوں کا کیریئر ختم ہو گیا‘ میڈیا مالکان آج ان کے ایس ایم ایس کا جواب تک دینا پسند نہیں کرتے چنانچہ نقصان کس کا ہوا؟ ان لوگوں کا جو وقتی واہ واہ کے ریلے میں بہہ گئے تھے اور فائدہ کن کو پہنچا جنہوں نے سیلاب میں بھی زمین سے قدم نہ اٹھائے‘ آپ دوسری مثال ایم کیو ایم کی لیجئے‘ الطاف حسین نے 22اگست کو ٹیلی فون پر خطاب کیا‘ یہ تقریر اینٹی پاکستان اور ناقابل برداشت تھی‘ ملک کے بچے بچے نے الطاف حسین کی مذمت کی‘ یہاں بھی میڈیا دوگروپوں میں تقسیم ہو گیا‘ پہلے گروپ کا مطالبہ تھا حکومت ایم کیو ایم پر پابندی لگا دے جبکہ دوسرے گروپ کا کہنا تھا جرم الطاف حسین نے کیا ہے‘ ایم کیو ایم نے نہیں چنانچہ سزا صرف اور صرف الطاف حسین کو ملنی چاہیے‘ میں میڈیا کے دوسرے گروپ میں شامل ہوں‘ عوام مجھے اس جسارت پر بھی بڑی آسانی سے گالی دے سکتے ہیں لیکن حقائق اس کے باوجود حقائق رہیں گے اور حقیقت یہ ہے آپ دنیا میں جس طرح کسی شخص سے اس کی شہریت نہیں چھین سکتے بالکل آپ اسی طرح کسی سیاسی جماعت پر اس کے نظریات کی بنیاد پر پابندی نہیں لگا سکتے‘ مولانا مودوی کو 1948ءمیں جہاد کشمیر کی مخالفت میں گرفتار کیا گیا‘یہ 1953ءمیں تحریک ختم نبوت میں بھی گرفتار ہوئے اور ریاست نے انہیں موت کی سزا تک سنا دی لیکن جماعت اسلامی پر پابندی نہیں لگی‘ جئے سندھ کے جی ایم سید نے پوری زندگی پاکستان کا وجود تسلیم نہیں کیا لیکن جئے سندھ پر پابندی نہیں لگی‘عوامی نیشنل پارٹی کے قائدخان عبدالغفار خان نے پاکستان میں دفن ہونا پسند نہیں کیا تھا‘ ان کی قبر آج بھی جلال آباد میں موجود ہے لیکن اے این پی نے بعد ازاں حکومتیں بھی بنائیں اور یہ آج بھی ایوانوں میں موجود ہے‘ پاکستان پیپلز پارٹی کے عسکری ونگ الذوالفقار نے بم دھماکوں اور ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دی لیکن ریاست پیپلز پارٹی پر پابندی نہ لگا سکی‘ پارٹی نے اس کے بعد تین بار وفاقی حکومتیں بنائیں‘ آپ اسی طرح بلوچستان کی سیاسی جماعتوں کا ڈیٹا دیکھ لیجئے‘بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل)‘ بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی)‘ نیشنل پارٹی ‘ جمہوری وطن پارٹی اور پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی ان تمام بلوچ سیاسی جماعتوں پر مختلف اوقات میں مختلف الزام لگتے رہے لیکن ریاست نے ان پرکبھی پابندی نہیں لگائی‘میرے کہنے کا مطلب ہے سیاسی جماعتوں پر پابندیاں نہیں لگا کرتیں اور اگر ریاستیں یہ غلطی کر بیٹھیں تو پھر سیاسی جماعتیں ملیشیا بن جاتی ہیں‘ یہ ملک میں چھاپہ مار کارروائیاں شروع کر دیتی ہیں اور کوئی ملک یہ افورڈ نہیں کر سکتا‘ آپ اگر صحافی ہیں تو آپ پھر جرم اور مجرم کو ”فوکس“ کریں‘ آپ کبھی مجرم کے گھر اور لواحقین کو جرم کی سزا نہ دیں‘ ایم کیو ایم بطور سیاسی جماعت ایک حقیقت ہے‘ آپ اس حقیقت کو ہمیشہ حقیقت مانیں‘ پیچھے رہ گئے الطاف حسین اور ان کے سہولت کار تو تمام پاکستانی ان کی حرکتوں‘ ان کی فلاسفی اور ان کے خیالات کے خلاف ہیں‘ ریاست کو بہرحال ان کا منہ بند کرنا ہوگا۔ آپ جونیئر صحافی ہیں‘ آپ یاد رکھیں حقائق داغ دار سیب کی طرح ہوتے ہیں‘ عقل مند لوگ سیب کا صرف گندہ حصہ کاٹتے ہیں‘ پورا سیب نہیں پھینکتے‘ آپ بھی صرف گندہ حصہ کاٹیں پورے سیب کو ٹھوکر نہ ماریں۔


جاوید چودھری

جونیئر صحافیوں کے لیے۔۔۔۔۔۔جاوید چودھری

ملک میں صحافیوں کی تین اقسام ہیں‘ سینئر صحافی‘ مڈ کیریئر جرنلسٹ اور جونیئر صحافی‘ سینئر صحافی 60 سال سے 80 سال کے درمیان ہیں‘ یہ صحافت کی بلیک اینڈ وائیٹ ایج میں پیدا ہوئے‘ یہ سائیکل اور تانگوں پر سفر کرتے رہے‘ یہ ہاتھ سے لکھتے تھے اور خوش نویس ان کی خبریں بٹر پیپر پر قلم اور دوات سے کاپی کر دیتے تھے‘ یہ خوش نویس کاتب کہلاتے تھے اور یہ عمل کتابت۔ یہ صحافی ادیب بھی ہوتے تھے‘ شاعر بھی‘ نقاد بھی اور سکولوں‘ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں استاد بھی‘ آپ 1980ءسے قبل ملک کے کسی بڑے شاعر‘ نقاد یا پروفیسر کاپروفائل دیکھ لیجئے وہ آپ کو کسی نہ کسی دور میں صحافت سے وابستہ ملے گا‘ ہمارے سینئرز نے اپنی آنکھوں سے اخبارات کو رنگین ہوتے‘ ملک میں ٹیلی ویژن آتے‘ کمپیوٹر کو کاتبوں کی جگہ لیتے اور انٹرنیٹ کو انسانی زندگی کا حصہ بنتے دیکھا‘ یہ انتہائی پڑھے لکھے‘ تجربہ کار‘ کمٹڈ اور بے غرض لوگ ہیں بس ان میں دو خامیاں ہیں‘ یہ عمر رسیدہ ہونے کی وجہ سے تارک الدنیا ہو چکے ہیں‘ دوسرا‘ یہ لوگ‘ ان کی ٹیکنالوجی‘ ان کے ایشوز اور ان کی زبان ماضی بن چکی ہے‘ یہ اب زیادہ ”ریلی وینٹ“ نہیں رہے‘ دوسری قسم مڈ کیریئر جرنلسٹس کی ہے‘ یہ ہم لوگ ہیں‘ ہماری عمریں 45 سے 55 کے درمیان ہیں‘ ہم لوگوں نے جب یہ پروفیشن جوائن کیا تو اس وقت یونیورسٹیوں میں صحافت کے شعبے بھی تھے‘ جنگ‘ نیوز‘ نیشن‘ پاکستان اور خبریں جیسے نئے اخبارات بھی تھے‘ کمپیوٹر بھی جڑیں پھیلا چکا تھا‘ ای میل بھی شروع ہو چکی تھیں‘ ان پیج بھی آ چکا تھا اور کلر پرنٹنگ پریس بھی موجود تھے‘ ہم لوگ جب اسٹیبلش ہو گئے تو ایکسپریس گروپ بھی میدان میں آ گیا اور پرائیویٹ نیوز چینلز کا آغاز بھی ہو گیا یوں صحافیوں کی آسودگی کا دور شروع ہو گیا اور ملک کے زیادہ تر مڈکیریئر جرنلسٹس پرنٹ سے الیکٹرانک میڈیا میں آنے لگے جبکہ میرے جیسے چند سرپھرے دونوں کشتیوں میں سوار ہو کر اپنے جوڑ ڈھیلے کرانے لگے‘ پاکستان میں 2002ءسے 2014ءتک الیکٹرانک میڈیا کا بوم رہا‘ بڑے کاروباری گروپوں نے الیکٹرانک میڈیا میں چھلانگ لگا دی‘ دھڑا دھڑ چینل بننے لگے‘ ان چینلز نے میڈیا انڈسٹری کو بکرا منڈی بنا دیا‘ ایک بکرا ایک دن ایک چینل پر نظر آتا تھا اور وہ اگلے دن دوسرے چینل پر بیٹھا ہوتا تھا‘ نئے چینلز پرانے چینلز
کے پورے پورے رپورٹنگ سیکشنز اور نیوز رومز خرید لیتے تھے جبکہ اینکرز اور نیوز اینکرز باقاعدہ سٹاک ایکسچینج بن گئے‘ خریداری کے اس خوفناک عمل نے میڈیا انڈسٹری میں دو خلاءپیدا کر دیئے‘ پہلا خلاءاخلاقی تھا اور دوسرا تکنیکی‘ الیکٹرانک میڈیا اِدھر سے اُدھر اور اُدھر سے اِدھر کی چھلانگ بازی میں قابل خرید جنس سٹیبلش ہو گیا جس کی وجہ سے عوام میں صحافیوں کی عزت کم ہو گئی‘ دوسرا‘ میڈیا دنیا کی ان چند انڈسٹریز میں شامل ہے جن میں کارکن آہستہ آہستہ پروان چڑھتے ہیں‘ سب ایڈیٹر کو سب ایڈیٹر بننے کےلئے تین سال مشقت کی بھٹی سے گزرنا پڑتا ہے‘ رپورٹر پانچ سال میں تیار ہوتا ہے‘ میگزین کے لوگ چھ سال میں پروان چڑھتے ہیں‘ کالم نگار دس سال میں میچور ہوتے ہیں اور ایڈیٹر کو کم از کم 20 سال کا تجربہ چاہیے مگر لے لو‘ پکڑ لو‘ خرید لو‘ آپ پیسے بتائیں کی اپروچ نے میڈیا کے سارے کچے پھل توڑ دیئے‘ سب ایڈیٹر سب ایڈیٹر بننے سے پہلے نیوز ایڈیٹر بن گئے‘ رپورٹر ٹریننگ کے دوران ہی چیف رپورٹر ہو گیا‘ میگزین ان پڑھوں کے قابو آ گئے اور یہ ان پڑھ دو تین برسوں میں میگزین ایڈیٹر بن گئے ‘ یہ تمام لوگ ٹریننگ کے بغیر ٹیلی ویژن چینلز میں پہنچ گئے اور اس عمل نے میڈیا انڈسٹری میں خوفناک تکنیکی خلاءپیدا کر دیا‘ آپ کو شاید یہ جان کر حیرت ہو گی ہماری پوری میڈیا انڈسٹری میں اس وقت صرف تین ایڈیٹرز ہیں‘ باقی تمام ادارے ایڈیٹرز کے بغیر چل رہے ہیں‘ ملک میں پچھلے 20 سال میں کوئی نیا کالم نگار پیدا نہیں ہوا اور ملک میں دس سال سے کسی میگزین ایڈیٹر‘ نیوز ایڈیٹر اور چیف رپورٹر نے جنم نہیں لیا‘ یہ پرنٹ میڈیا کی صورتحال ہے جبکہ الیکٹرانک میڈیا کہیں زیادہ خوفناک بحران سے گزر رہا ہے‘ ٹیلی ویژن چینلز میں انڈے سے باہر آنے والا ہر چوزا اگلے ہی دن چوبارے پر چڑھ کر بانگ دینے لگتا ہے‘ یہ بانگ اگر ایک چوبارے تک رہتی تو بھی شاید حالات اتنے خراب نہ ہوتے اور یہ لوگ دس برسوں میں ٹرینڈ ہو جاتے لیکن یہ چوزے دو دن بعد چوبارہ بدل لیتے ہیں اور اپنی ناتجربہ کاری کے ساتھ سینئر ہو جاتے ہیں‘ ہمارے جونیئر کارکنوں نے ان حالات میں صحافت میں قدم رکھا‘ یہ ٹریننگ کے بغیر اس بحر بیکراں میں آ گئے‘ یہ بحران اس وقت بحرانوں کی ماں بن گیا جب ایسے لوگ بھی میڈیا میں آ گئے جنہوں نے یونیورسٹیوں اور کالجوں میں نام نہاد صحافت بھی نہیں پڑھی تھی‘ یہ ایم بی اے ہیں‘ یہ سافٹ ویئر انجینئر ہیں اور یہ ناکام ڈاکٹر ہیں لیکن یہ چھاتہ باندھ کر صحافت کی چھت پر اتر آئے اور یہ مارتے دھاڑتے وہاں پہنچ گئے جہاں یہ پوری انڈسٹری کا حوالہ بن گئے ہیں‘ میں دعوے سے کہہ رہا ہوں ہمارے میڈیا نے دس برسوں میں جتنی بدنامیاں سمیٹیں ان کے ذمہ دار ”نان پروفیشنل جرنلسٹ“ہیں‘ آپ پیمرا کے نوٹسز کا تجزیہ کر لیں‘ پیمرا نے 95 فیصد نوٹسز نان پروفیشنل جرنلسٹوں کو جاری کئے ہیں‘ آپ جرمانوں‘ سزاں اور پروگراموں کی بندش کا ریکارڈ بھی نکال لیجئے‘ آپ کو ان میں بھی نان پروفیشنل جرنلسٹ اور نان پروفیشنل ادارے ملیں گے‘ ٹیلی ویژن میں بولنا اہم ہوتا ہے لیکن آپ نے کب بولنا ہے‘ کب خاموش رہنا ہے اور کب بولنے والے کو چپ کرانا ہے یہ زیادہ اہم ہوتا ہے اور یہ وہ باریکی ہے جسے کوئی نان پروفیشنل جرنلسٹ نہیں سمجھ سکتا خواہ اس کا تجربہ پچاس سال ہی کیوں نہ ہو اور یہ نان پروفیشنل جرنلسٹوں کی وہ خامی ہے جس کا نقصان پوری انڈسٹری کو ہو رہا ہے‘ میں مڈ کیریئر جرنلسٹ ہوں‘ میں ٹریننگ کے اس ہولناک دور سے گزرا ہوں جس میں ہمارے سینئر ہمیں نیوز روم میں مرغا بنا دیتے تھے‘ ہماری غلط لفظ‘ غلط سرخی اور غلط فقرے پر سرے عام بے عزتی کی جاتی تھی‘ ہمارے سینئر ”فیورٹ ازم“ کو گناہ سمجھتے تھے‘ ہم اخبار میں اپنی مرضی کی خبر دے دیں یا متن کو ”سلانٹ“ کر دیں یہ ممکن ہی نہیں تھا‘ صحافی کرپٹ سب ایڈیٹر‘ رپورٹر یا کالم نگار کے پاس نہیں بیٹھتے تھے‘ ہم جونیئر کسی کرپٹ رپورٹر کے ساتھ دیکھ لئے جاتے تھے تو ہمارے سینئر ہمارے کان کھینچ لیتے تھے‘ ہماری سرِعام مذمت کی جاتی تھی‘ ہمارے سینئر ہمیں روز کوئی نہ کوئی نئی بات بھی سکھاتے تھے‘ وہ کہتے تھے آپ جب تک خبر کو تین بار ٹھیک نہ کر لیں اسے کمپوزنگ سیکشن میں نہ بھجوائیں اور وہ کہتے تھے جس خبر کوآپ نہیں سمجھ سکے اُسے قاری کیسے سمجھے گا؟ میں ٹریننگ کے اس خوفناک عمل سے گزرا ہوں‘ میں آج جب اپنے جونیئرز کو دیکھتا ہوں تو مجھے ان پر ترس آتا ہے‘ آج تک کسی کو ان بے چاروں کو سکھانے کی توفیق نہیں ہوئی اور اگر کسی نے سکھایا بھی تو وہ خود نان پروفیشنل چھاتہ بردار صحافی تھا اور اس نے انہیں سلگتے ہوئے بم کو لات مارنا‘ بلا تحقیق الزام لگا دینا‘ اندھی سنسنی پھیلا دینا‘ چیخنا چلانا‘ دوسرے کی بات نہ سننا‘ مخاطب کی بات مکمل نہ ہونے دینا اور جہاں سے دو لاکھ روپے زیادہ مل جائیں وہاں چلے جائیں سکھا دیا۔ میں یہ سطریں اپنے جونیئر ساتھیوں کےلئے لکھ رہا ہوں‘ آپ نے اگر ان سے کچھ سیکھ لیا تو آپ میرے لئے دعا کر دیجئے گا اور آپ کو اگر کوئی فائدہ نہ ہوا تو آپ مجھے ایک ناگوار ”بیپر“ سمجھ کر ”ڈراپ“ کر دیجئے گا‘ میں جونیئر تھا تو میں نے ”ویری فکیشن“ کو اپنی عادت بنا لیا تھا‘ میں جو بھی واقعہ پڑھتا تھا میں اسے ”ویری فائی“ کرتا تھا‘ آپ بھی ”ویری فکیشن“ کو عادت بنا لیں‘ آپ نیوز کاسٹر ہیں تو آپ چھٹی کے وقت وہ تمام خبریں اکٹھی کریں جو آپ دن بھر پڑھتے رہے‘ آپ انٹرنیٹ پر بیٹھیں اور آپ ان خبروں کوویری فائی کرنا شروع کر دیں‘یہ مشق آپ کے اعتماد میں بھی اضافہ کرے گی اور آپ کا علم بھی بڑھائے گی‘ میں نے کیریئر کے شروع میں اضافی معلومات کو بھی عادت بنا لیا تھا مثلاً پچھلے چار دن سے پاکستان اور افغانستان کا چمن بارڈر بند ہے‘ میں نے یہ خبر پڑھنے کے بعد چمن کی تاریخ پڑھی‘ چمن کو چمن کیوں کہا جاتا ہے‘ آبادی کتنی ہے‘ سرحد کب بنی‘ یہ سرحد پاکستان اور افغانستان کی دوسری سرحدوں سے مختلف کیوں ہے‘ تجارت کتنی ہوتی ہے‘ سرحد کا موجودہ تنازعہ کیا ہے اور اس کا زیادہ نقصان کس کو ہو رہا ہے وغیرہ وغیرہ‘ یہ اضافی معلومات موضوع پر میری گرفت مضبوط کر رہی ہیں‘ آپ اگر رپورٹر‘ نیوز اینکر یا تجزیہ کار ہیں تو آپ بھی یہ مشق کر یں آپ کے تجزیئے میں گہرائی پیدا ہو جائے گی‘ آپ کے سوالوں میں ورائٹی بھی آ جائے گی‘ ملک میں آج کل بچوں کے اغواءکا سلسلہ بھی چل رہا ہے‘ ہمارے چینلزروزانہ درجنوں خبریں دیتے ہیں‘ میں یہ ایشو بھی پڑھ رہا ہوں۔

جاوید چودھری

شعبہ صحافت کے لیے۔۔۔۔۔۔۔۔جاوید چودھری

ملک کی مختلف یونیورسٹیوں میں اس وقت صحافت کے شعبے قائم ہیں‘ ہم اگر کسی دن طالب علموں کا ڈیٹا جمع کریں تو تعداد لاکھ تک ضرور پہنچ جائے گی گویا ملک میں ہر دو تین سال بعد لاکھ نئے ”صحافی“ پیدا ہو رہے ہیں لیکن کیا یہ نوجوان واقعی صحافی ہیں؟ یہ دس کروڑ روپے کا سوال ہے! میرے پاس یونیورسٹیوں کے ٹورز آتے رہتے ہیں‘ مجھے شروع میں تیس چالیس طالب علموں کی میزبانی میں دقت ہوتی تھی لیکن پھر ہم نے گھر میں بیس تیس لوگوں کی مہمان نوازی کا مستقل انتظام کر لیا یوں اب میرے پاس مختلف یونیورسٹیوں کے شعبہ صحافت کے طالب علم آتے رہتے ہیں اور میں ان سے سیکھتا رہتا ہوں‘ میں نے ان چند ”انٹریکشنز“ کی بنیاد پر چند نتائج اخذ کئے ہیں‘ میں یہ نتائج یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز اور شعبہ صحافت کے چیئرمینوں تک پہنچانا چاہتا ہوں‘ میری خواہش ہے میری رائے کو صحافت کے ایک کارکن کا مشورہ سمجھ کر سنجیدگی سے لیا جائے‘ صحافت کے وہ طالب علم جو میڈیا انڈسٹری کو جوائن کرنا چاہتے ہیں وہ بھی میری رائے کو سینئر کی تجویز سمجھ کر چند لمحوں کےلئے توجہ ضرور دیں مجھے یقین ہے‘ یہ توجہ ان کے کیریئر میں اہم کردار ادا کرے گی۔ میں دس مختلف یونیورسٹیوں کے بارہ ٹورز کی خدمت کر چکا ہوں‘ یہ خدمت ایک ہولناک تجربہ تھی‘ مثلاً مجھے ان بارہ ٹورز کے زیادہ تر نوجوان کتاب سے دور ملے اور اگر کسی سے زندگی میں کتاب پڑھنے کی غلطی سرزد ہو چکی تھی تو وہ کتاب کے نام سے ناواقف نکلا اور اگر اسے کتاب کا نام یاد تھا تو مصنف کا نام اس کے ذہن سے محو ہو چکا تھا اور اگر اسے مصنف اور کتاب دونوں کے نام یاد تھے تو وہ موضوع اور کرداروں کے نام ضرور بھول چکا تھا‘ مثلاً مجھے ان بارہ ٹورز کے طالب علم اخبار سے بھی دور ملے اور یہ ٹیلی ویژن بھی نہیں دیکھتے تھے‘ میں ایک وفد سے دو گھنٹے گفتگو کرتا رہا آخر میں پتہ چلا‘ یہ مجھے کامران خان سمجھ رہے ہیں اور یہ میرے جیو چھوڑنے پر حیران ہیں‘ زیادہ تر طالب علموں کو یہ معلوم نہیں تھا‘ میرے کالم اور میرے شو کا نام کیا ہے‘ میں شروع میں اسے اپنی غیر مقبولیت سمجھتا رہا اور یہ سوچتا رہا لوگ اب مجھے پڑھ اور دیکھ نہیں رہے لیکن جب میں نے دوسرے صحافیوں اور

دوسرے پروگراموں کے بارے میں پوچھا تو معلوم ہوا یہ انہیں بھی نہیں جانتے لہٰذا میں نے اطمینان کا سانس لیا‘ مجھے یہ جان کر بھی خوشی ہوئی یہ لوگ صدر پاکستان‘ چاروں گورنرز‘ تین صوبوں کے وزراءاعلیٰ اور سپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینٹ کے نام سے بھی واقف نہیں ہیں‘ یہ لوگ قومی اسمبلی اور سینٹ کے ارکان کی تعداد بھی نہیں جانتے‘ یہ آج بھی بل کلنٹن کو امریکا کا صدر اور ٹونی بلیئر کو برطانیہ کا وزیراعظم سمجھتے ہیں‘ یہ عمران خان کے فین ہیں لیکن عمران خان نے کس کس حلقے سے الیکشن لڑا اور یہ قومی اسمبلی کی کس نشست سے ایوان کے رکن ہیں‘ ان میں سے کوئی نہیں جانتا تھا‘ میں اس وقت حیران رہ گیا جب ایک نوجوان نے قذافی کا نام لیا اور میں نے اس سے قذافی کا پورا نام پوچھ لیا‘ وہ نہیں جانتا تھا‘ میں نے اس سے قذافی کے ملک کا نام پوچھا وہ بالکل نہیں جانتا تھا‘ میں نے صدام حسین اور حسنی مبارک کے بارے میں پوچھا‘ وہ ان دونوں سے بھی ناواقف تھا‘ میں نے باقی طالب علموں سے پوچھا وہ بھی نابلد تھے‘ آپ بھی یہ جان کر حیران ہوں گے یہ نوجوان قائداعظم اور علامہ اقبال کے بارے میں بھی دو دو منٹ نہیں بول سکتے تھے‘ یہ نہیں جانتے تھے مشرقی پاکستان کو مشرقی پاکستان کیوں کہا جاتا تھا اور یہ نائین الیون کی تفصیل سے بھی واقف نہیں تھے‘ آپ کمال دیکھئے جنوبی پنجاب کی ایک یونیورسٹی کے دو طالب علموں نے مجھ سے آٹو گراف لئے باقی کلاس نے حیرت سے پوچھا ”یہ آپ کیا کر رہے ہیں“ میں نے بتایا ”آٹو گراف دے رہا ہوں“ ان کا اگلا سوال تھا ”آٹو گراف کیا ہوتا ہے“ میرے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا‘ میں شروع میں طالب علموں کو اس جہالت کا ذمہ دار سمجھتا تھا لیکن جب تحقیق کی تو پتہ چلا اس علمی گراوٹ کی ذمہ دار یونیورسٹیاں اور صحافت کے شعبے ہیں‘ یونیورسٹیاں طالب علموں کی ذہنی نشوونما پر توجہ نہیں دے رہیں‘ کتاب‘ فلم اور سفر سیکھنے کے تین بڑے ذرائع ہیں‘ یونیورسٹیاں ان تینوں کو حرف غلط کی طرح مٹا چکی ہیں‘ تقریریں‘ مباحثے اور مشاہیر کے ساتھ سیشن علم پھیلانے کے بڑے ٹولز ہوتے ہیں‘ یونیورسٹیاں ان سے بھی فارغ ہو چکی ہیں‘ پیچھے صرف سلیبس بچتا ہے اور یہ بھی 70 سال پرانا ہے اور طالب علم اسے بھی پڑھنا پسند نہیں کرتے‘یہ پچاس سال پرانے نوٹس کی فوٹو سٹیٹس کرواتے ہیں‘ رٹا لگاتے ہیں‘ امتحان دیتے ہیں اور باقی وقت موبائل فون چیٹنگ پر خرچ کر دیتے ہیں اور یوں علم و عرفان کے عظیم ادارے جہالت کی خوفناک فیکٹریاں بن چکے ہیں۔ یہ چند خوفناک حقائق ہیں ‘میں اب یونیورسٹیوں کے ارباب اختیار کے سامنے چند تجاویز رکھنا چاہتا ہوں‘ ہمارے وائس چانسلرز تھوڑی سی توجہ دے کر صورتحال تبدیل کر سکتے ہیں‘ ہمارے تحریری اور زبانی الفاظ پھل کی طرح ہوتے ہیں اگر درخت نہیں ہو گا تو پھل بھی نہیں ہو گا‘ ہمارے طالب علموں کے دماغ خالی ہیں‘ اگر ان کے ذہن میں کچھ نہیں ہو گا تو پھر یہ کیا بولیں گے‘ یہ کیا لکھیں گے لہٰذا یونیورسٹیاں اور شعبہ صحافت سب سے پہلے طالب علموں کی دماغی ٹینکیاں فل کرنے کا بندوبست کریں‘ یہ ان کے ذہن کو درخت بنا دیں‘ پھل خود بخود آ جائے گا‘ آپ شعبہ صحافت کے سلیبس کو دو حصوں میں تقسیم کرد یں‘ ایک حصہ تکنیکی تعلیم پر مشتمل ہو اور دوسرا انٹلیکچول ایجوکیشن پر مبنی ہو۔ 100 کتابوں‘ 50 فلموں اور 25 مقامات کی فہرستیں بنائیں‘ یہ تینوں صحافت کے طالب علموں کےلئے لازمی قرار دے دی جائیں‘ کتابوں میں 50 کلاسیکل بکس‘ 25 دو سال کی بیسٹ سیلرز اور 25 تازہ ترین کتابیں شامل ہوں‘ یہ کتابیں اساتذہ اور طالب علم دونوں کےلئے لازم ہوں‘ فلموں میں 25 آل دی ٹائم فیورٹ‘15 دس سال کی اکیڈمی ایوارڈ یافتہ فلمیں اور باقی 10 اُس سال کی بہترین فلمیں ہوں جبکہ 25 مقامات میں قومی اسمبلی اور سینٹ‘ چاروں صوبوں کی صوبائی اسمبلیاں‘ گورنر ہاس اور وزراءاعلیٰ ہاسز‘ دنیا کے پانچ بڑے ملکوں کے سفارتخانے‘ آثار قدیمہ کے پانچ بڑے پاکستانی مراکز‘ جی ایچ کیو‘ آئی جی آفسز اور میڈیا ہاسز شامل ہونے چاہئیں‘ آپ ان کے ساتھ ساتھ نائین الیون سے لے کر ترکی کی تازہ ترین ناکام فوجی بغاوت تک دنیا کے دس بڑے ایشوز کو بھی سلیبس میں شامل کر دیں‘ یہ ایشوز طالب علموں کو ازبر ہونے چاہئیں‘ آپ ملک کے بیس بڑے ایشوز کو دو طالب علموں میں تقسیم کر دیں مثلاً دو طالب علموں کو بجلی کا بحران دے دیا جائے‘ دو کے حوالے گیس کا ایشو کر دیا جائے اور باقی دو دو میں پٹرول‘ پانی‘ سیلاب‘ دہشت گردی‘ صنعت‘ بے روزگاری‘ صحت‘ تعلیم‘ ٹریفک‘ منشیات‘ انسانی سمگلنگ‘ اغواءبرائے تاوان‘ بھتہ خوری‘ پراپرٹی مافیا‘ ٹیکس اصلاحات‘ آبادی کا پھیلا‘ بے ہنری‘ سیاحت‘ ماحولیاتی آلودگی‘ خوراک کی کمی اور بے راہ روی جیسے ایشوز تقسیم کر دیئے جائیں‘ یہ طالب علم پورا سال ان ایشوز پر ریسرچ کرتے رہیں‘ یہ ہر ماہ دوسرے طالب علموں کو ان ایشوز پر ایک ایک گھنٹے کی پریذنٹیشن بھی دیں یوں یہ طالب علم ان ایشوز کے ایکسپرٹس بن جائیں گے اور باقی طالب علم ان کی پریذنٹیشن دیکھ اور سن کر ان ایشوز سے واقفیت پا لیں گے اور آپ طالب علموں کےلئے اخبار‘ ٹیلی ویژن اور ریڈیو بھی لازمی قرار دے دیں‘ طالب علموں کے گروپ بنائیں‘ ہر گروپ روزانہ دو اخبار پڑھے‘ ٹی وی کا کوئی ایک شو مسلسل فالو کرے اور کوئی ایک ریڈیو روزانہ سنے‘ یہ گروپ ان دونوں اخبارات‘ اس شو اور اس ریڈیو کا ایکسپرٹ ہونا چاہیے‘ ان سے متعلق تمام انفارمیشن ان کی فنگر ٹپس پر ہونی چاہیے‘ یہ گروپ انٹرن شپ بھی انہی اداروں میں کرے‘ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے یونیورسٹیوں کے پاس وسائل کہاں سے آئیں گے؟ یہ بھی بہت آسان ہے‘ آپ ڈیپارٹمنٹس کی کمپیوٹر لیبس فوراً بند کر دیں‘ ملک میں تھری جی اور فور جی آنے سے کمپیوٹر‘ لیپ ٹاپ اور ٹیبلٹس متروک ہو چکے ہیں‘ آپ اب کمپیوٹر لیبس پر بلاوجہ رقم خرچ کر رہے ہیں‘ ملک میں اب موبائل فون کمپیوٹر لیب ہیں‘ آپ ڈیپارٹمنٹس میں تگڑا وائی فائی لگائیں اور طالب علموں کو موبائل فون کے مثبت استعمال کی عادت ڈال دیں‘ آپ ہر ماہ لاکھوں روپے بچا لیں گے‘ آپ طالب علموں کو بتائیں اخبار‘ ٹیلی ویژن‘ ریڈیو‘ کتابیں‘ فلمیں اور تحقیقی مواد یہ تمام چیزیں موبائل فون پر دستیاب ہیں‘ آپ یہ سہولتیں فون سے حاصل کرسکتے ہیں یوں یونیورسٹی کے پیسے بھی بچیں گے اور طالب علم پڑھ‘ سن‘ دیکھ اور سیکھ بھی لیں گے اور پیچھے رہ گئے صحافت کے طالب علم تو میرا مشورہ ہے آپ اگر صحافی بننا چاہتے ہیں تو آپ ان تمام تجاویز کو تین سے ضرب دیں اور آج سے کام شروع کر دیں‘ میں آپ کو کامیابی کی گارنٹی دیتا ہوں‘ آپ ہم سب سے آگے نکل جائیں گے۔
جاوید چودھری

جمعرات، 27 جولائی، 2017

علم کی دنیا کا سفر اور تبدیلی...........سید قاسم علی شاہ


غلام علی "علم  کی دنیا " ویب سائٹ  کے اونر  سید قسم علی شاہ سے "علم  کی دنیا " کے سفر  اور تبدیلی  کے موضوع پر  بات  کرتے  ہوئے  کہتے ہیں  کہ جب بچہ  میٹر ک کرتا ہے تو اس وقت سب سے  بہت بڑا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آگے کیا  کرنا  ہے ۔یہ وہ وقت ہوتا ہے جہاں  پررہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے  لیکن  اس وقت   درست رہنمائی  کرنے والا کوئی  نہیں ہوتا ۔   جب  میں نے  میٹر ک  کیا تو مجھے بھی اس صورتحال سے گزرنا پڑا  تو اس وقت  میں نے سوچا کہ  کوئی ایسا ذریعہ ہونا چاہیے  جس سے  رہنمائی   مل سکے ۔میرے ذہن میں خیال آیا کہ ایسا  آن لائن   ذریعہ ہونا چاہیے  کہ بچہ جہاں پر بھی ہو اس  کو وہیں پر ساری معلومات  مل جائے۔ اسی  خیال  کو لے کر    میں نے  www.ilamkidunya.com ویب سائٹ  بنائی۔ کوئی بھی ادارہ  یا   کمپنی بنتی  ہے تو  اس کا آغاز ایک  مقصد  سے  ہوتا ہے اور وہ مقصد ہی اسے  آگے لے کر چلتا ہے ۔"علم کی دنیا"  کا شروع ہی سے یہ مقصد ہے کہ    طالب علموں کو، تعلیمی اداروں میں داخلے میں، فیلڈ کے انتخاب  میں، کیریئر  کے  انتخاب   میں ،  جابز  کے حصول میں رہنمائی فراہم کی جاسکے۔ سی ایس ایس  پاکستان  میں ایک  بہت بڑا امتحان ہے  نوجوانو ں کی  بہت بڑی تعداد  ایسی ہے  جو اس امتحان کو دینا چاہ رہی ہوتی ہے۔ اس صورتحال  کو مدِ نظر رکھتے ہوئےویب سائٹ پر پچھلے سالوں کے پیپرز ، نتائج ، معلوماتی ویڈیوز  اور امتحان کے بارے   رہنمائی دی گئی  ہے جو انہیں  ایک کلک  مل سکتی ہیں۔
کام کے آغاز میں  کافی  مشکلات  اورامتحانات  کا سامنا  کرنا پڑتا ہے ۔ کام کو چلانے کے لیے ٹیم  کی ضرورت  ہوتی ہے  مجھے  ایسے  لوگ درکار تھے جن  میں  کچھ  کرنے  کی جستجو تھی۔ جن کے ذہن میں یہ تھا کہ ہم نے سیکھنا ہے مگر  ایسے  لوگ آسانی سے  نہیں  ملتے ۔ ہمارے ہاں  زیادہ تر  لو گ یہ چاہتے ہیں کہ ہمیں  محنت بھی نہ کرنی پڑے اور جلد از جلد باس بن جائیں اگر دیکھا جائے تو اس  سلسلے میں ان کا بھی  قصور  نہیں ہے ۔ ہمارے  تعلیمی  ادارے جس طرح کی بچوں کو تعلیم دے رہے ہیں اس سے ان  کے ذہن  میں ایسی  باتیں بیٹھ جاتی  ہیں۔ اگر جذبہ  سچا ہو تو اللہ تعالیٰ بھی راستے  بنا دیتا  ہے اور اچھے  لوگ  بھی ملنا شروع ہو جاتے ہیں۔ کسی بھی  نئے  کام کے شروع کے دو تین سال کوشش، معاش اور وقت  کی انویسٹمنٹ کے ہوتے ہیں ۔ کامیابی  کے لیے یہ چلہ لگانا بہت ضروری ہوتاہے۔شروع کے انہیں سالوں  میں بندے کی قابلیت کا پتا چلتا ہے۔
جب  اس  ویب سائٹ کا آغاز ہوا  تو اس  وقت  کالجوں اور یونیورسٹیوں کو   انفارمیشن  ٹیکنالوجی  کا اتنا  پتا  نہیں تھا۔جب ان سے  اپنے پروجیکٹ کے  متعلق بات  کی  تو انہوں نے کافی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا۔ چیزیں شروع  میں مشکل  ضرور ہوتی ہیں  لیکن  جب  ان  کے سامنے  کھڑے  ہونے کا فیصلہ  کر لیا جائے تو آسانی آنا شروع ہو جاتی ہے۔جیسے جیسے  وقت گزرتا گیا  تعلیمی اداروں کا ہمارے  اوپر اعتماد بڑھتا گیا۔آج انفارمیشن  ٹیکنالوجی   میں بہت  تبدیلی آ چکی ہے۔  آج ہر  طالب علم  اپنی تمام تر  معلومات  انٹر نیٹ پر  ہی سرچ کرتا ہے ۔اب تعلیمی ادارے  سمجھنے لگ  گئے  ہیں  اس  کے بغیر کام  نہیں چل سکتا۔ اب  انہوں نے اپنے آپ کو انفارمیشن ٹیکنالوجی  پر شفٹ  کیا ہے ۔ اتنا کچھ ہونے کے باوجود  ابھی بہت   خلاء ہے خاص کر سرکاری تعلیمی اداروں میں انفارمیشن ٹیکنالوجی  کااس طرح  استعمال نہیں ہو رہا  جس طرح ہونا چاہیے۔ اردگرد   کےممالک کے تعلیمی ادارے انفارمیشن ٹیکنالوجی  میں  بہت آگے  نکل چکے  ہیں  ۔ ہمارے ہاں  پہلا قد م  ہے ابھی بڑا کام ہونے والا  ہے۔
اس ویب سائٹ کا  ایک  مقصد یہ تھا کہ بچوں کے  تعلیمی معاملات  میں ان  کی رہنمائی کی جا سکے اس  کے ساتھ  ساتھ ایک  مقصد یہ بھی تھا کہ ان کی کردار سازی بھی کی جائے۔  لوگ ہمیشہ اچھی   شخصیات  کی پیروی  کرتے  ہیں  لیکن زیادہ  تر  لوگوں  کی ان شخصیات  تک رسائی  نہیں  ہوتی۔ ہم نے کوشش کی  کہ ان شخصیات  تک  رسائی  کو ممکن  بنایا  جا سکے ان  شخصیات میں جاوید چوہدری، بلال قطب،پروفیسر احمد رفیق اختر  اور بہت  سارے  لوگ  شامل ہیں ۔ ہم نے ان شخصیات کے لیکچرز  کروائے  اور ان کوویب سائٹ پر اپ لوڈ  کیا   اس  کے علاوہ  وہ  تمام  سوالات  جو  نوجوانوں کے ذہن میں آتے  ہیں  ان شخصیات  کے ذریعے  ان  کے جوابات دیئے ۔ کیر یئر  کونسلنگ  ایک ایسا شعبہ  ہے   جس میں پاکستان  میں بہت  مسئلہ ہے اس  مسئلے  کے حل  کے لیےبھی  ان شخصیات  سے  کیریئر  کونسلنگ   پر   لیکچرز  کروائے جارہے  ہیں ۔ اس   تجربے کا بہت شاندار نتیجہ رہا ہزاروں کی تعداد  میں  نوجوانو ں، طالب علموں ، والدین اور دوسرے لوگوں  نے  ان لیکچرز  کو دیکھا  ، سنا   اور لوگوں تک پہنچایا  یہ  بہت بڑی  کامیابی ہے ۔لوگوں کی بہت اچھی اور مثبت فیڈ بیک مل رہی ہے ۔ دنیا میں  بہت کم ایسا ہے  کہ تعلیم  کے حوالے  سے اتنا زیادہ ویب سائٹ کو وزٹ  کیا جاتا ہو  جتنا ہماری ویب سائٹ کو   کیا جاتا ہے۔اس وقت  یہ ویب سائٹ پاکستا ن  کی چند  بڑی ویب سائٹس  میں سے ایک ہے ۔آنے والے سالوں  میں ہمارا پروگرام  ہے کہ ہم آئن ٹیوشنز اور آئن لائن کلاسسز شروع کریں تاکہ  بچے  گھر  میں بیٹھے بیٹھے تعلیم حاصل کر سکیں۔
اس وقت جو تعلیمی ادارے  کام  کر رہے ہیں   وہ بغیر  مقصد کے  کام کر رہے ہیں  ان  کے  کوئی گولز  نہیں ہیں اور نہ ہی ان  کا  کوئی ویزن ہے  جس  کی  وجہ سے ان اداروں سے  جو بچے  فارغ ہو رہے ہیں ان  کا  کوئی مقصد نہیں  ہوتا اور نہ ہی ان میں  کوئی ویزن  ہوتا ہے ۔   زیادہ تر تعلیمی ادارے  کمرشلائزڈ   ہو گئے ہیں اس  میں اتنی  بری بات  بھی  نہیں ہے لیکن  ویزن  کا نہ ہونا بہت   بری بات ہے۔    بدقسمتی سے  تعلیمی اداروں  کا فوکس  یہ ہے  کہ  زیادہ  سے زیادہ  بچوں  کو اپنے ادارے   میں    لایا جائے   اور  اپنے  کاروبار  کو ترقی  دی جائے۔تعلیمی ادارے  بچوں کی  میموری میں اضافہ کر رہے ہیں  اور ان  کا ٹارگٹ  بچوں  کو سیکھنا نہیں  بلکہ  ڈگری دینا ہوتا ہے جب  یہ چیز  ہو تو پھر  نمبر تو آئیں  گے لیکن کردار سازی  نہیں ہوگی۔ اگر تعلیمی ادارے  بچوں  میں کردار سازی اور مثبت اپروچ پیدا کر یں تو بہتری آ سکتی  ہے۔ دوسری طرف   والدین اور طالب علموں کے ذہن   میں بھی یہ بات ہوتی ہے کہ ہم  نے ڈگری لینی ہے ،نوکری کرنی  ہے  اور بس ۔ کردار سازی کے حوالے سے میڈیا کا کردار اہم   ہے  میڈیاکو چاہیے  کہ وہ تخلیقی ذہن کے لوگوں کو آگے لے کر آئے ۔  میڈیا اداکاروں  اور کھلاڑیوں کو تو سپر سٹار  بناتا ہے  لیکن ایک اچھے تخلیقی رائٹر، اچھے پروفیسر ، اچھے سائنسدان   کو سپر سٹار  نہیں بناتا یہ بہت  بڑا المیہ  ہے۔ ہمیں  جن  لوگوں کو   ویلیو دینی  چاہیے تھی ان کو ویلیو نہیں دے رہے  جس  کی وجہ سے  معاشرہ تنزلی کی طرف  جارہا ہے جو صحیح لوگ ہیں  ان کی حوصلہ افزائی کی  جانی چاہیے ۔
 اس وقت   ملک میں صرف  نوکری  کارجحان  ہے اس کی وجہ  یہ ہے کہ   کاروبار کے مقا بلے میں  نوکری کو  بہت زیادہ پر موٹ کیا ہے ۔ ہر شخص کی خواہش ہے کہ اسے  گورنمنٹ  کی  جاب ملے  جہاں  پر  اسے  کام  نہ کرنا پڑے  لیکن یہ سمجھنا ہوگا کہ جب  کام نہیں  کیا  جائے اور نہ اپنے آپ  میں ذمہ داری پیدا  کی جائے گی  تو پھر صلاحیتوں دھیمک  لگنا شروع ہو جائے گی۔ دو تین گھنٹے  کام  کرنا اچھا تو لگے  گا لیکن  بندہ کچھ سیکھ  نہیں سکے گا جب ایک  مدت گزرے گی تو  بندہ  کہے گا کہ  میں نے نوکری  کر کے اپنے آپ کو ضائع  کیا ۔ نوکری    بریانی  کی  طرح  ہوتی  ہے  جس  کو  کھانے کا  مزا تو آتا ہے  لیکن اس  سے پیٹ  نہیں  بھرتا۔ کاروبار  میں  بہت سارے  لوگوں سے  ملنا   پڑتا ہے ، بندہ دنیا  گھومتا ہے ،  پیسہ  کماتا ہے  ایک وقت ایسا آتا ہے کہ  پیسہ  پیچھے  رہ جاتا ہے اور   مقصد آگے آ جاتا ہے ۔ کاروبار میں  لوگ اس  لیے  نہیں آنا چاہتے کہ   کیونکہ  اس میں  چیلنجز ہوتے   ہیں  ،مشکلات  آتی ہیں ، اتار چڑھاؤآتے  ہیں۔ کاروبار  میں نہ آنے کی  ایک  وجہ یہ بھی ہوتی ہے  جب  کوئی بندہ  کام شروع  کر  تا ہے  اگر وہ ایک دو  سال  نہ  چلے تو  اس کے گھر والے  اس  کو تانے  مار ماراسے کاروبار سے  بدزن  کر دیتے ہیں ۔  کسی بھی   کام  کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ جو بندہ  یہ سمجھتا ہے کہ اس   میں توانائی ہے ، صلاحیت ہے ، آئیڈیاز ہیں اسے  ضرور   کاروبار  کرنا چاہیے۔   کاروبار  میں مشکلات ضرور آئیں گی  لیکن انہیں  مشکلات   میں کامیابی   ملے گی۔ یہ کبھی  نہیں  ہوسکتا   ہر چیز  پر فیکٹ   مل  جائے  ۔  ذہن میں  یہ بات  ہونی   چاہیے   کہ  کوئی  بھی فیل ہو سکتا ہے ۔جب ذہن  یہ ہوتا ہے  کہ  میں نے کچھ  کرنا ہے  توا س میں انسان وہ  کچھ  کر جاتا ہے   جس کے بارے میں  دوسرے  لوگ  سوچ بھی  نہیں سکتے ۔ جب انسان راستے  کا انتخاب کر لیتا ہے  تو اللہ تعالیٰ  آسانیاں پیدا  کرنا شروع  کر دیتا ہے۔


بدھ، 26 جولائی، 2017

ڈرائیور کے بیٹے کی میٹرک میں تیسری پوزیشن۔۔۔۔۔۔۔۔۔روزنامہ ایکسپرس

ایکسپریس نیوز کے مطابق فیصل آباد بورڈ میں میٹرک کے امتحان میں سرکاری اسکول کے طالب علم حافظ محمد زید نے تیسری پوزیشن لے کر ثابت کردیا کہ مقصد نیک، ارادے مضبوط اور جذبے جواں ہوں تو کامیابی قدم چومتی ہے۔گورنمنٹ ہائی اسکول فیصل آباد کے طالب علم حافظ محمد زید نے میٹرک جنرل گروپ میں 975 نمبر حاصل کرکے تیسری پوزیشن حاصل کی۔ حافظ محمد زید کے والد نجی کمپنی میں 15 ہزار ماہانہ تنخواہ پر ڈرائیور ہیں۔ایکسپریس نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ہونہار طالب علم نے بتایا کہ والد نے بھاری اخراجات کے باوجود انہیں تعلیم دلائی۔ حافط زید نے درپیش مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ گاؤں سے اسکول بہت دور ہے، روزانہ طویل فاصلہ طے کرکے اسکول پہنچنا پڑتا ہے، اگرچہ آنے جانے میں مشکلات کا سامنا رہا لیکن ہمت نہیں ہاری اور پڑھائی مکمل کی تاہم باقی بھائیوں کے لئے اسکول جانے کی سہولت نہیں جس کی وجہ سے ان کی تعلیم میں رکاوٹیں حائل ہیں۔ پوزیشن ہولڈر طالب علم کے والد محمد اسلم نے کہا کہ کم آمدنی کے باوجود بچوں کو تعلیم دلوانا ان کا خواب ہے۔
روزنامہ ایکسپرس


منگل، 25 جولائی، 2017

اللہ کرے (یاسر پیرزادہ)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاوید چودھری

بات بہت عجیب تھی۔والدنے اس کی طرف غور سے دیکھا‘ ہنسی کنٹرول کی اور پوچھا”ذرا پھر سے کہنا‘ کیا کرنا چاہتے ہو؟“۔ نوجوان نے پراعتماد لہجے میں جواب دیا”سی ایس ایس“والد نے باقاعدہ قہقہہ لگایا اور اس کے کان میں سرگوشی کی”جو مرضی کرو لیکن مجھ سے کسی مدد کی امید مت رکھنا“بیٹے نے ہاں میں سر ہلا دیا‘ والد ادبی شخصیت تھے‘ انہیں اپنے بیٹے کی قابلیت کا علم تھا مگر یہ امید نہیں تھی کہ بیٹا پہلی کوشش
ہی میں پاکستان کا سب سے بڑا امتحان پاس کر لے گالہٰذا وہ بیٹے کے دعوے کو نوجوانی کا زعم سمجھ کر بھول گئے۔ والدکواس وقت حیرت کا جھٹکا لگا جب بیٹے نے آ کر بتایا”ابو میں نہ صرف سی ایس ایس میں پاس ہوگیا ہوں بلکہ میں نے کم عمری میں سی ایس ایس کرنے کا ریکارڈ بھی بنا لیا ہے“۔باپ سکتے میں آگیالیکن اگلے ہی لمحے اس نے بیٹے کو سینے سے لگالیا۔ لڑکاآنے والے دنوں میں واقعی ہونہار نکلا۔یہ ہونہار لڑکا اپنی محنت اور قابلیت سے ترقی کی منازل طے کرتا رہا۔ ادبی شوق وراثت میں ملا تھا لہٰذا کتابیں اس کی اولین ترجیح تھیں‘ کالم لکھنے کا شوق چرایا تو چپکے سے ایک کالم لکھ کر اخبار کو بھیج دیا اور نام ایسا رکھا کہ کوئی پہچان ہی نہ سکے کہ یہ کس معروف شخصیت کا بیٹا ہے۔کالم چھپ گیا اورپھر اس نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا‘دنیا آج اسے مستند اور مدلل کالم نگار کی حیثیت سے جانتی ہے‘جی ہاں میں یاسرپیرازادہ کی بات کر رہا ہوں‘ یاسر پیرزادہ سے اکثر پوچھاجاتاہے والد کا نام عطاء الحق قاسمی ہے مگر انہوں نے اپنے نام کے ساتھ قاسمی کیوں نہیں لگایا؟یہ جواب دیتے ہیں قاسمی صاحب بھی کسی دور میں اپنا پورا نام پیرزادہ عطاء الحق قاسمی لکھتے تھے‘ سو مجھے پیرزادہ پسند آگیا‘ میں نے رکھ لیا‘پیرزادہ صاحب آج کل سی ڈی اے کے ممبر ایڈمنسٹریشن ہیں‘یہ کمپیوٹرائزڈروٹین کے مالک ہیں‘ صبح چار بجے بھی سوئیں تو سات بجے اٹھ جاتے ہیں اور
جب جاگتے ہیں تو پھر سوتے نہیں ہیں‘پر کشش شخصیت کے مالک ہیں‘ یہ دلیل کا ہتھیار ساتھ لے کر چلتے ہیں‘آپ ان سے کسی بھی موضوع پر بحث کرلیں‘آپ ان سے جیت نہیں سکتے‘ دلیل کے بغیر یاسر پیرزادہ کو فتح کرنا آسان کام نہیں ہوتا‘ یاسر پیرزادہ نے آج سے چھ ماہ قبل سی ڈی اے کا چارج سنبھالا تو افسروں اور ملازمین کے
ذہن میں ایک ایسے ادبی آفیسر کی شکل آئی جسے دفتری مو شگافیوں اور روایتی سرکاری امور سے کوئی رغبت نہ ہولیکن پیرزادہ صاحب نے چھ ماہ میں حیران کن کام کر کے سب کو حیران کر دیا
یاسر پیر زادہ نے چھ ماہ میں ثابت کر دیا کام کرنے کی نیت ہو تو وقت خودبخود پھیل جاتاہے‘ چوبیس گھنٹے 28 گھنٹوں کے برابر ہو جاتے ہیں۔یہ سی ڈی اے کے واحد ممبر ایڈمنسٹریشن ہیں جنہوں نے اسلام آباد کے شہریوں کیلئے پہلی مرتبہ اسلام آباد ایپ متعارف کرائی یوں شہریوں اور غیر ملکی سیاحوں کو دارالخلافہ سے متعلق معلومات تک رسائی ہو گئی‘یہ ایپ مفت انسٹال کی جاسکتی ہے اور خاصی معلوماتی اور شاندار سہولت ہے سی ڈی ا ے میں ای فائلنگ جیسا سسٹم ممکن نہیں تھا
اسلام آباد دنیا کے ان چند دارالحکومتوں میں شمار ہوتا ہے جس میں آج بھی فائل سسٹم چل رہا ہے لیکن یاسر پیرزادہ نہ صرف ای سسٹم متعارف کرایا بلکہ اس پر عملی کام کا باقاعدہ آغاز بھی ہوچکا ہے۔یہ کام سی ڈی اے کا ایک پیسہ خرچ کئے بغیر محض این آئی ٹی بی کے تعاون سے چار ماہ میں مکمل ہو گیا اور اب ایڈمنسٹریشن کی تمام فائلیں کمپیوٹر پر پراسس کی جاتی ہیں‘ یہ بات سی ڈی اے جیسے ادارے میں معجزے سے کم نہیں‘سی ڈی اے میں کئی برسوں سے ایک کمپلینٹ سیل موجود تھا مگر اس کا کوئی پرسان حال نہیں تھا
یاسر پیرزادہ نے اسے آن لائن کمپلینٹ سیل میں تبدیل کر دیا‘ اب صارفین اپنی شکایتیں ویب سائٹ‘ ای میل یا فون کی مدد سے درج کرواتے ہیں‘شکایت کے جواب میں خود کار نمبر جینریٹ ہوجاتا ہے اور پھر یہ شکایت خود بخود متعلقہ ڈائریکٹر کے فون اور کمپیوٹر پر آجاتی ہے اور اس وقت تک ”پینڈنگ‘‘ تصور ہوتی ہے جب تک مسئلہ حل نہ ہو جائے۔ اس خود کار نظام کے تحت افسروں کی کارکردگی بھی مانیٹر ہوتی رہتی ہے‘ اس کام میں بھی سی ڈی اے کا ایک پیسہ خرچ نہیں ہوا
یہ پراجیکٹ بھی تین ماہ میں مکمل ہو گیا‘آپ اگر اسلام آباد میں رہتے ہیں تو آپ نے سی ڈی اے کی موبائل کمپلینٹ وین بھی دیکھی ہوں گی‘، یہ بھی یاسر پیرزادہ کاکارنامہ ہیں۔یاسرپیرزادہ نے نجی بینک سے معاہدہ کرکے اسلام آباد کے شہریوں کو پراپرٹی ٹیکس اور پانی کے بلوں کی آن لائن ادائیگی کی سہولت فراہم کر دی‘ اس کام پر بھی کوئی پیسہ خرچ نہیں ہوا‘ بینک نے یہ سہولت مفت فراہم کی‘ یہ کام بھی چھ ماہ میں مکمل ہواجبکہ پنجاب حکومت نے اس کام پر تین سال لگائے
یاسر پیرزادہ کا کمال ہے یہ سرکار کا پیسہ خرچ کروائے بغیر کام کرنے کا انوکھا طریقہ نکال لیتے ہیں‘ انہوں نے ایک ملٹی نیشنل کمپنی کو اسلام آباد میں سات لاکھ درخت لگانے پررضا مند کر لیا‘یہ کام بھی مفت ہوگا“یاسر پیرزادہ نے سی ڈی اے کے 14 ہزار سے زائد ملازمین کیلئے سرکاری گھروں کی الاٹمنٹ کا شفاف سسٹم بنا دیا‘ سی ڈی اے کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسے افسروں اور ملازمین سے سرکاری گھرواپس لے لئے گئے جنہیں ادارے کی طرف سے پلاٹ الاٹ ہو چکے ہیں اور وہ ان پر گھر تعمیر کر چکے ہیں
سی ڈی اے کے تمام ملازمین کو اب شفاف ویٹنگ لسٹ کے مطابق گھر الاٹ ہو رہے ہیں اور ہر قسم کی آؤٹ آف ٹرن الاٹمنٹ بند ہو چکی ہیں‘سی ڈی اے ملازمین کوہاؤس بلڈنگ‘ کار اور موٹر سائیکل ایڈوانس کی سہولت دیتا تھا‘یہ سہولت برسوں سے بند تھی‘یاسر پیرزادہ نے یہ سہولت دوبارہ شروع کرا دی‘ سی ڈی اے کے کم آمدن والے ملازمین کی فلاح و بہبود اور شفاف پالیسی کے تحت تبادلے اور ترقیاں دینے کی منظوری بھی ہوگئی تاکہ ادارے میں کرپٹ افراد کی کی حوصلہ شکنی ہو سکے
ادارے میں شفافیت کیلئے یاسر پیرزادہ نے ایک دلچسپ حل نکالا‘ گھروں کی الاٹمنٹ کی ویٹنگ لسٹ ہو یا پھر افسروں اور ملازمین کی سینیارٹی لسٹ ہو یہ ہر چیز سی ڈی اے کی ویب سائٹ پر ڈال دیتے ہیں تاکہ ہر کوئی آسانی سے یہ فہرستیں دیکھ سکے‘ماضی میں ان فہرستوں کا حصول عام ملازم کے لئے عذاب سے کم نہیں تھا۔یہ سی ڈی اے کے ایک ایسے انوکھے افسر ہیں جنہوں نے کئی سالوں سے زیر التواء انکوائریاں چند دنوں میں منطقی نتیجے تک پہنچا دیں
یاسر پیرزادہ نے ادارے کے ملازمین کی فوری داد رسی کے لیے اپنے دروازے افسروں اور ملازمین کے لیے یکساں بنیادوں پر کھول دیئے‘اس قدم سے وہ نادیدہ قوتیں پسپائی پر مجبور ہو گئیں جو ملازمین کے نام پر ذاتی مفادکے حصول کے لیے سرگرداں رہتی ہیں۔سی ڈی اے نے اسلام آباد کی مختلف شاہراؤں کو قومی ہیرو اور نامور شخصیات کے نام سے منسوب کرنے کا عمل شروع کیا تھا‘ یہ عمل بھی کئی برسوں سے عدم توجہی کا شکار تھا‘ پیرزادہ صاحب نے یہ عمل دوبارہ شروع کر دیا
یہ اب تک کئی شاہراہوں کو ملک کی خدمت کرنے والے ہیروز کے نام منسوب کرچکے ہیں‘ان میں احمد ندیم قاسمی روڈ کے علاوہ‘ صفوت غیور شہیدروڈ اورکیپٹن مبین شہید روڈزبھی شامل ہیں‘یاسر پیرادہ نے سی ڈی اے کی آمدن میں اضافہ کرنے کا بھی ایک حل نکال لیا ہے‘ اسلام آباد الیکٹرک کمپنی نے گزشتہ کئی برسوں سے سی ڈی اے کے واجبات ادا نہیں کئے‘ سی ڈی اے یہ واجبات وصول کرنے کی بجائے الٹا آئیسکو کو ہر مہینے مختلف قسم کی ادائیگیاں کرتا ہے
پیرزادہ صاحب نے جب ان واجبات کی فائل زندہ کروائی تو معلوم ہوا آئیسکو کے ذمے سی ڈی اے کے اڑھائی ارب روپے نکلتے ہیں‘ آئیسکو کے پاس اب اس ادائیگی کے سوا کوئی چارہ نہیں اور یہ بھی محض ایک شخص کی کوششوں سے ممکن ہوا‘ یہ مختصر سفر جہاں یاسر پیرزادہ کی جذباتی لگن کو ظاہر کرتا ہے وہاں یہ آنے والے دنوں میں سی ڈی اے جیسے ادارے کی ہیئت کی تبدیلی کے آثار کو بھی ظاہر کرتا ہے کیونکہ محض چھ ماہ میں ادارے میں ایسی طوفانی اصلاحات آسان کام نہیں تھااوریہ کام وہی کرسکتا ہے جو میرٹ اور ایمانداری پر یقین رکھتا ہو‘گھوڑوں کے شہر میں اکیلا آدمی شاید اسی کو کہتے ہیں
ہم من حیث القوم ایک دلچسپ مرض کا شکار ہیں‘ ہم ہر کام کرنے والے شخص کے خلاف ہو جاتے ہیں‘ لوگ پوری زندگی کام نہ کریں ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہوتا لیکن اگر کام نہ کرنے والوں میں سے کوئی شخص کام کرنا شروع کر دے تو ہم تلوار لے کر اس کی ٹانگیں کاٹنے میں مصروف ہو جاتے ہیں‘ یاسر پیرزادہ بھی آج کل اسی عمل سے گزر رہے ہیں‘ لوگ دن رات انہیں کام کرنے کی سزا دینے کی کوشش کر رہے ہیں‘ لوگوں کا خیال ہے یہ پوسٹنگ انہیں ”انعام“ میں ملی ہے
00یہ غلط ہے‘ کیوں؟ کیونکہ میں جانتا ہوں یاسر پیرزادہ کو لاہور سے عشق ہے‘ یہ لاہور نہیں چھوڑنا چاہتا تھا لیکن اسے لاہور چھوڑنے پر مجبور کر دیا گیا تھا‘ اس کے پاس صرف ایک آپشن تھااور یاسر پیرزادہ نے لاہور چھوڑ کر وہ آپشن لے لیا‘یہ راز کیا راز ہے‘ یہ میں آپ کو پھر کبھی بتاؤں گا‘ سردست صرف اتنا کہنا ہے یاسر پیرزادہ اسلام آباد شہر کیلئے بہت کچھ کر رہے ہیں‘ یہ مزید بہت کچھ کرنا چاہتے ہیں‘ اللہ کرے یہ کرتے رہیں‘ کرتے رہیں۔
جاوید چودھری


اتوار، 23 جولائی، 2017

مارکیٹنگ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سیدقاسم علی شاہ

مارکیٹنگ
مارکیٹنگ کی تاریخ   اتنی ہی پرانی ہے  جتنی دنیا پرانی ہے۔ جس طرح ہر انسان  ہر وقت  متحرک  نظر آتا ہے ، لمحہ بہ لمحہ  اس  میں تبدیلیاں آ تی ہیں اسی طرح  مار کیٹنگ میں بھی لمحہ لمحہ تبدیلیاں  آ تی رہتی    ہیں۔ روز نئے نئے آئیڈیاز  رہے ہیں،  ہر  روز  کچھ نہ  کچھ بدل رہا ہے ایسی صورت  میں آج کے دور میں کسی بھی کاروبار کی  کامیابی  میں  مارکیٹنگ کو   بنیادی حثییت حاصل ہے، لیکن اس کے باوجود آج بھی بہت ساری  کمپنیاں ، ادارے اور لوگ ایسے  ہیں جوپرانے اور  سادہ  مارکیٹنگ ٹولز  استعمال کرتے  نظر آتے ہیں اور ان  کے  کسٹمرز  کی  تعداد  میں اضافہ ہو  ر ہا ہے۔ مارکیٹنگ  کے اس  انداز کی عمر  زیادہ نہیں لمبی  ہوتی۔ مارکیٹ  میں اپنی  جگہ  بحال رکھنے کے لیے ہرلحاظ سے  اپ ڈیٹ رہنا پڑتا ہے۔مارکیٹنگ کا اصل  مقصد  کسی بھی  پراڈکٹ کی  عوام کے دلوں میں جگہ بنانی ہوتی ہے۔ دلوں میں  جگہ  بنانے کے لیے پراڈکٹ کے ساتھ جذبات  کا ہونا بہت ضروری ہوتا ہے  ۔ انسان  کی زندگی میں  جذبات  کا بہت  اہم کردار ہے ۔ جس  پراڈکٹ  کے ساتھ  جذبات   منسلک ہوتے ہیں  وہ لوگوں کے دلوں میں جگہ  بناتی ہے مثال کے طور پر فیس بک نے  نئے سال کے آغاز  پرایک ویڈیو چلا ئی  جس میں دیکھا  جا سکتا تھا کہ کون کون سی پوسٹ پر سب سے زیادہ  لائک  ہو ئے  ہیں ۔جو شخص  فیس بک استعمال کرتا ہے  وہ دیکھنا چاہے گا کہ  اس کی پوسٹ کتنی دفعہ  لائک  ہوئی ہے ۔اس ویڈیو کی وجہ سے فیس بک  کی ٹریفک میں بہت  زیادہ اضافہ  ہوا۔ بڑی کمپنیاں ، ادارے  اپنی پراڈکٹ  میں  جذبات  شامل کر کے  اربوں روپے  کما رہے ہیں۔
ایک ٹرینڈ یہ  بھی ہے کہ ٹی وی  پر زیادہ سے زیادہ اشتہار دیا جائے یا زیادہ سے زیادہ  ڈائریکٹ  مارکیٹنگ  کی جائے یا پھر پراڈکٹ  ہی اتنی اعلی  معیار کی بنائی  جائے  کہ ایک بندہ  اس کو خریدے اور دس لوگوں  کو بتائے ۔ اس  میں  کوئی شک  نہیں  کہ پروڈکٹ  اچھی ہونی چاہیے  لیکن  اس کے  ساتھ ساتھ مختلف طریقوں  سے  اس کی تشہیر کی  جائے تو  پھر پروڈکٹ  بکتی ہے۔  اگر صرف تشہیر   پر ہی سار ا زور  لگا دیا جائے اور پروڈکٹ کی کوالٹی پر توجہ ہی   نہ  دی جائے تو  پھر چیز کا  بکنا مشکل ہو جاتا ہے۔  کسی شخص  کو تشہیر  کے ذریعے  ایک یا دو دفعہ  تو بے وقوف  بنایا  جا سکتا ہے لیکن  بار بارایسا   نہیں  کیا جاسکتا ہے کیونکہ یہ میڈیا  کا دور ہے اب  ہر شخص لمحہ بہ لمحہ اپ ڈیٹ رہتا ہے ۔ جو  لوگ ڈھول  پر زیادہ زورلگار اپنی  پراڈکٹ   بیچ  رہے ہوتے ہیں ایسے لوگوں  کی پراڈکٹ  زیادہ دیر تک مارکیٹ  میں  رہ  نہیں پاتی۔ مارکیٹنگ یہ  نہیں ہے کہ  پراڈکٹ  کو بیچا  جائے  بلکہ مارکیٹنگ یہ ہے کہ  کسٹمر میں اعتماد  پیدا کیا جائے  تاکہ وہ بار  بار  آئے ۔جتنے بھی برینڈز   ہیں  وہ اپنا سار ا زور  پراڈکٹ  کی  کوالٹی اور اپنی ساکھ بنانے میں لگا دیتےہیں ۔ جب ایک دفعہ ساکھ بن  جاتی ہے  توپھر  پراڈکٹ  بار بار  بکتی ہے یہی  کامیابی کا اصول ہے۔
دیکھا گیا ہے کہ بعض لوگ  اپنے بوتیک کا افتتاح کسی مشہور  اداکارہ  یا  کسی مشہور شخصیت سے  کرواتے ہیں  ۔ انہوں نے  میڈیا کو  بلایا  ہوتا ہے ۔ بھرپور انداز  میں اس کی تشہیر  کی جاتی ہے  لیکن ایک سال بھی نہیں گزرتا  کہ وہاں پر کسی سموسے بیچنے  والے  کی ریڑھی لگی ہوتی ہے۔اس کی وجہ یہ  ہوتی ہے کہ ان لوگوں میں  مستقل مزاجی  نہیں ہوتی کامیابی  کے لیے  مستقل مزاج ہونا  پڑتا ہے قطعہ  نظر اس کے   کہ کوئی بوتیک  کھولا ہے  یا  کوئی کاروبار چلا یا ہے۔ شروع  میں کاروبار  میں   کچھ  نقصان  ہو  جاتا ہے اسی  نقصان کی وجہ سے 80 فیصد  لوگ درمیان  ہی چھوڑ رکر چلے جاتےہیں ۔ایک اچھے آئیڈیے  کو چلنے   کے لیے   کچھ عرصہ درکار ہوگا ۔ کوئی  بھی کاروبار  ایک  بچے  کی طرح  ہوتا ہے  اور اس کی بچے  کی طرح  پرورش  کی  جاتی ہے۔صرف کسی اداکارہ  سےافتتاح کروا کر  میڈیا  میں خبر  لگا دینے  سے  کامیابی ممکن نہیں  ہوتی  کامیابی کے  لیے  مارکیٹنگ  کے ساتھ ساتھ مستقبل مزاجی  بہت ضروری  ہوتی ہے۔
بعض اوقات ایک بڑا برینڈ  ایک خاص سطح پرجا کر     مارکیٹنگ  چھوڑ دیتا ہے یہ اس صورت  میں  ہوتا  ہے جب  اس  برینڈ کی مارکیٹ  میں  اجارہ داری  ہواور اسے مارکیٹنگ  کی ضرورت   نہ رہے ۔اگرایک ہی چیز ایک  ہی جگہ  سے   ملے  تو  اس صورت  میں  مارکیٹنگ کی ضرورت نہیں رہتی۔   مارکیٹ  میں  نمبر  ون رہنے  کے لیے  لوگوں  کے دلوں  میں اعتماد میں اپنا اعتماد بحال  رکھنا بہت ضروری  ہوتا ہے اور اس کے لیے مارکیٹنگ  کرنی پڑے گی۔  دنیا کی  بڑی  کمپنیاں   اپنے کسٹمرز کو ساتھ  لے  کر چلتی    ہیں  یہی ان کی  کامیابی  کا راز ہے ۔ جو لوگ   اس  چیز کو نہیں دیکھتے اوردرمیان  میں چھوڑ کر چلے جاتےہیں وہ  پیچھے رہ جاتے ہیں۔ سیٹھ کلچر  میں  مارکیٹنگ کا کانسپٹ کم  ہو تا ہے۔ان لوگوں کے پاس  خوش قسمتی سے وراثتی پیسہ ہوتا ہے ۔ایسے لوگوں  کے پاس کوئی ویثرن نہیں ہوتا  ۔  یہ لوگ اپنے آپ کو عقل  مند سمجھتے ہیں ، یہ جتنا  کماتے ہیں  بس اسی خوشی میں رہتے ہیں ۔  ایسے  لوگ  اکثر بتاتے  ہوتے ہیں  کہ ہمارے  بڑے  بہت امیر  ہوا  کرتے  تھے  ۔ ہمارے  بڑے بڑے  برینڈز  تھے  یہی وجہ ہے کہ اکستان  کی اب  تک   کوئی ایک  کمپنی  بھی ملٹی  نیشنل   نہیں  بنی  اس  کی  ایک بڑی  وجہ  یہ ہے کہ  ہم لوگ کہتےہیں ہمارے  پاس  جتنا  ہے  وہ کافی  ہے۔
بعض لوگ پراڈکٹ کو  بیچنا  ہی کافی سمجھتے ہیں۔اگر کسٹمر کے ساتھ  تعلق اور  اعتماد  پیدا   نہ ہو   تو پراڈکٹ  کی  سیل گرنا شروع ہو جاتی  ہے ۔اگر کسٹمر کے  ساتھ تعلق   پر فوکس  ہوگا  تو پھر سیل  میں اضافہ ہوگا ۔ ایک  سیمنٹ   کمپنی  نے 24 گھنٹے   کے لیے کال سینڑ  بنایا ہوا ہے  تاکہ اگر  کسی بھی کسٹمر کو کسی قسم  کا  مسئلہ ہوتو  وہ رابطہ  کر  سکے ۔ لوگ   میڈیا کو مارکیٹنگ کی غرض سے ایک  ایک  منٹ  کے لاکھوں روپے ادا  کرتے ہیں  اگر  یہی  لاکھوں  روپے  لوگوں پر لگائے جائیں  تو اس  سے ناصرف  معاشرے  میں بہتری  آتی  ہے بلکہ مارکیٹنگ بھی ہو جاتی ہے۔ پھر یہ  مارکیٹنگ  وقتی  نہیں  رہتی عرصہ دراز تک  لوگوں  کے ذہنوں میں رہتی  ہے۔ ٹی وی  پر اشتہار  دینے   کی بجائے  معاشرے  کے لیے  خدمات  دینی چاہییں ۔خدمات  کے لیے  سب سے پہلے     کمپنی سب سے پہلے   اپنے ملازمین سے شروع کرے ، ان   کی گرومنگ  کروائے ،  ان کی بات چیت بہتر  کروائے ، ان کی سوفٹ  صلاحیتوں  کو بہتر  کرے ہو سکتا ہے اس  طرح  کرنے سے  وہ بھی ترقی  کر جائیں اگر وہ ترقی نہیں  بھی  کرتے  لیکن  دل لگا کر ضرور  کام کریں گے۔ اس  کے علاوہ  جب ملازمین کی گرومنگ  ہوئی  ہو گی  تو جب  کوئی باہر  کا بندہ آ کر دیکھےگا  تو وہ کہنے   پر مجبور  ہو جائے گا کہ   کمپنی کا معیار اوپر سے  نیچے تک ایک جیسا ہے  اور یوں   کمپنی ایک برینڈ  بن جائے گی۔ بھارت   کے ایک گاؤں میں   جہاں پر بجلی نہیں تھی ، پانی  نہیں  تھا،  بچوں کے  لیے سکول  نہیں تھا ، غربت  بہت زیادہ تھی   نیسلے   کمپنی نے  اس گاؤں    کے لوگوں  کو تعلیم دی ، بجلی دی، پانی دیا   نتیجہ تین چار سال بعد اسی گاؤں سے  نیسلے  کودودھ کی شکل  میں خام مال ملنا شروع ہوگیا  اور  گاؤں  والوں کی حالت بھی بہتر  ہو گئی  ۔  اس چیز کو دیکھتے  ہوئے نیسلے  نے  کئی اور گاؤں  پر  بھی انویسٹمنٹ  کرنا شروع  کردی۔ اس طرح   دوسرے گاؤں سے ستر ہزار  لوگ نیسلے  منسلک ہو گئے اب   ان کے گھروں  میں بجلی  ہے،صاف پانی  ہے ،ان کے بچوں کے  لیے سکولز ہیں  اور ان کا  معیارِ زندگی  بھی بلند ہو رہا ہے  ۔ جب خدمات  پیش  کی جائیں تواس سے کاروبار میں برکت  بھی پڑتی  ہے اور کاروبار ترقی  بھی  کرتا ہے۔ اگر کسی کو بھوک لگی ہو اور اس کو مچھلی   دے  دی جائے تو یہ بڑی بات  نہیں ہے   لیکن  اگر اس کو مچھلی پکڑنا سکھا  دیا  جائے تو  وہ   محتاجی سے آزاد ہو جائے گا۔
اس وقت  ہمارے  ہاں  جو  مارکیٹنگ پڑھائی جا رہی ہے  وہ  باہر  کے  ملکوں کی  مثالوں اور  لکھی  ہو ئی  کتابوں  سے پڑھائی جا رہی ہے   ۔ اس میں  کوئی شک نہیں  کہ  کچھ  بنیادی اصول ہوتے ہیں  لیکن  یہ  یاد رہنا چاہیے کہ باہر کے ملکوں   کی  شرح خواندگی  اور ہے ان کا  معیار ِ زندگی  کچھ اور ہے  جبکہ  ہمارا   کچھ  اور  ہے  تو ایسی صورت  میں  مارکیٹنگ  بھی  یہاں کی  صورتحال  کو  مد ِ نظر  رکھ  پڑھائی جانی چاہیے۔  جو  بچے  پڑھ  رہے ہوتے  ہیں ان  کے پاس اس حوالے  نئے نئے آئیڈیاز ہوتے ہیں  ان کے آئیڈیاز پر  توجہ نہیں دی جاتی ۔کچھ  نیا کرنے کے لیے  تجربہ  کار   لوگوں  کی  بجائے  ایسے  نوجوانوں  سے   کام لینا چاہیے  اس کی وجہ  یہ ہے کہ  جو  تجربہ  کار  شخص ہوتا ہے  وہ  اپنے تجربے  کی حدود  میں رہ  کر  کام  کرتا ہے  اس  سے نئے  نئے آئیڈیا ز  نہیں  آتے ۔ نئے آئیڈیا ز وہی  لے کر آتےہیں   جو نیا سوچتے ہیں  ۔ہمیں چاہیے  کہ ہم  اپنے  نوجوانوں  پر انویسٹ  کریں ان کو آگے  لے  کر جائیں ۔ مینجمنٹ   میں  تجربہ  کار  لوگوں  کی ضرورت  ہوتی ہے  لیکن مارکیٹنگ    کے ڈیپارٹمنٹ    میں  تجربہ  کار  لوگوں کے ساتھ ساتھ نوجوان بھی  ہونے چاہییں  تاکہ تجربے  اور  نئے آئیڈیاز  کو لے  کر چلا   جائے۔







جمعہ، 21 جولائی، 2017

ناکام بزنس مین کی نشانیاں

ناکام بزنس مین کی 50 نشانیاں .
دنیا میں ہر 10 میں سے 8 بزنس اپنی شروعات کے پہلے 18 مہینوں کے اندر ہی فلاپ ہو جاتے ہیں۔سمال بزنس کی ناکامی کی یہ شرح براہِ راست ملکی معشت پر اثرانداز ہوتی ہے۔
* پاکستان میں Start-ups کی ناکامی کی شرح 90% ہے۔
* یعنی 10 میں سے 9 بزنس ناکامی کا شکار ہو جاتے ہیں۔
* سمال بزنس ایڈمنسٹریشن (SBA) کی رپورٹ کیمطابق 66% بزنس محض دو سال تک ہی سروائیو کر پاتے ہیں۔
* باقی 24% اگلے پانچ سال کے اندر ناکام ہو جاتے ہیں۔
اگر آپ ایک ناکام بزنس مین ہیں تو کیا آپ نے کبھی ناکامی کی وجوہات کا تجزیہ کیا ہے؟
کیا ان وجوہات کو دور کر کے آپ ایک کامیاب بزنس مین بن سکتے ہیں؟
سمال بزنس میں ناکامی کی صورت میں ہماری معیشت ہر سال عربوں روپے کے خسارے کا بوجھ اٹھاتی ہے۔پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کی معیشت جہاں اکثریت خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کرتی ہے اس بار کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ 
میں نے بزنس میں ناکامی کی وجوہات ایک چیک لسٹ کی صورت میں مرتب کرنے کی کوشش کی ہے۔ان 50 خامیوں کو دور کیے بنا آپ کبھی ایک کامیاب بزنس مین نہیں بن سکتے۔
بزنس کیا ہے؟
آکسفورڈ ڈکشنری کیمطابق
“A person146s regular occupation, profession, or trade”
افراد کے بکھرے ہوئے ہجوم اور کوششوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کر کے ان کوششوں کو ایک مثبت ،کارآمد اور منافع بخش ڈائریکشن فراہم کرنا اصل میں بزنس کہلاتا ہے۔ بزنس ایک شخص کو کئی پہلوؤں سے معاشرے کا ایک ذمہ دار فرد بناتا ہے۔زیرِ نظر آرٹیکل میں ہم نے ان چند پہلوؤ ں کی نشاندہی کی کوشش کی ہے جو ایک بزنس مین کی ناکامی کا سبب بنتی ہیں۔امید ہے ہماری یہ کوشش معاشرے کے ایک اہم طبقے کے لئے مفید ثابت ہوگی۔
1: مقاصد کا تعین نہ کرنا
واضح مقاصد کا تعین نہ کرنا ایک ناکام بزنس مین کی سب سے پہلی کوتاہی ہے۔اگر آپ کی منزل ہی طے نہیں تو محض چلتے رہنا کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔ایک کامیاب بزنس مین کا ذہن واضح مقاصد کا تعین کرنا جانتا ہے۔آپ کو کیا کرنا ہے؟ اور کیوں کرنا ہے؟صرف پیسہ کمانے کے علاوہ آپ کے بزنس کے اور کیا مقاصد ہو سکتے ہیں؟یہ وہ چند سوال ہیں جن کا مثبت اور واضح جواب نہ صرف مقاصد کے تعین کے لئے اہم ہے بلکہ ان کے حصول کے لئے ایک بہتر لائحہ عمل ترتیب دینے میں بھی نہایت سود مند ہے۔
2: وسیع سوچ کا فقدان
ایک ناکام بزنس مین محدود سوچ کا حامل ایسا فرد ہوتا ہے جس کی سوچ ایک مخصوص دائرہ کار میں ہی گردش کرتی ہے۔وہ اپنے بزنس کو وسعت دینے کے لئے نئے ذرائع کی کھوج اور ان کے حصول میں ناکام رہتا ہے۔جبکہ ایک وسیع سوچ نئے سے نئے مواقع تلاش کرتی ہے۔ایک کامیاب بزنس مین کی یہی وسیع سوچ کاروباری وسعت کو جنم دیتی ہے۔
3: خود انحصاری Independent Nature
خود پر انحصار کرنا ایک کامیاب بزنس کی طرف اہم قدم ہے۔ایک ناکام بزنسمین میں خود اپنی کوششوں اور اپنے وسائل پر انحصار کرنے کی شدید کمی پائی جاتی ہے۔یہ کمی اسے بے اطمینانی کا شکار بنائے رکھتی ہے اور وہ تمام اہم مسائل کے حل کے لئے دوسروں سے رجوع کرتا ہے۔یہ خامی بہت جلد ناکامی سے دوچار کر دیتی ہے۔
4: پرکھنے کی صلاحیت
ایک ناکام بزنس مین کی حالات و معاملات کو پرکھنے اوروقت کے تقاضوں کے مطابق فیصلہ کرنے کی صلاحیت مفقود ہوتی ہے۔Judgement کی یہ صلاحیت عقل و شعور پر منحصر ہوتی ہے جسمیں کمی کی بنا پر وہ بار بار نقصان سے دوچار ہوتا ہے۔
5: ضرورت سے زیادہ پرامیدی
حالات و واقعات سے ہمیشہ بہتری کی امید رکھناایک عام آدمی کے لئے تو فائدہ مند ہو سکتا ہے مگر ایک بزنس مین کے لئے نہیں۔یاد رکھیں سب کچھ ویسا نہیں ہوتا جیسا آپ چاہتے ہیں۔خاص طور پر بزنس میں جہاں ہر قدم پر بدلتے حا لات ایک بزنس مین کی پالیسیوں پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ایک کامیاب بزنس مین اس حقیقت سے پوری طرح آگاہ ہوتا ہے۔جبکہ ایک ناکام بزنس مین کی پالیسیوں کی بنیادحقائق کے ادراک کی بجائے پرامیدی و خوش فہمی پر رکھی ہوتی ہے۔یہی ضرورت سے زیادہ خوداعتمادی اور خوش امیدی خسارے کا سبب بنتی ہے۔
6: پروفیشنل ازم کی کمی
ایک بیوقوف اور بے ہنر بزنس مین کے اندر پروفیشنل ازم کی شدید کمی پائی جاتی ہے۔یہ پروفیشنل ازم مہارت اور تجربے سے پیدا ہوتی ہے۔چونکہ ایک ناکام بزنس مین میں ان دونوں چیزوں کی کمی ہوتی ہے اور اسی کمی کا اظہار وہ بزنس لائف میں کئی اہم موقع پر کر کے کامیابی کے اکثرمواقع ضائع کر لیتا ہے۔
7: لیڈ ٹائم مینجمنٹ Lead-time management
وہ Gap جوکنزیومر کے آرڈر سے لیکر مطلوبہ پروڈکٹ یا سروس کی ڈلیوری پر محیط ہوتا ہے کسی بزنس یا کمپنی کا لیڈ ٹائم کہلاتا ہے۔
Lead Time Reduction کسی بزنس یا کمپنی کی کامیابی کا نہایت اہم نقطہ ہے۔ایک ناکام بزنس مین اس نقطہ پر کبھی فوکس نہیں کرتا۔جو ایک بزنس مین کی غیرذمہ داری کی علامت ہے۔
8: عوامی رجحان سے ناواقفیت
ایک کامیاب بزنس مین ہمیشہ جدید اور بدلتے ہوئے عوامی رجحانات سے باخبر رہتا ہے اور ان کو مدِنظر رکھ کر اقدامات کرتا ہے۔جبکہ ایک ناکام بزنس مین بدلتے ماحول اور جدید رجحانات سے ناواقفیت کی بنا پر محض اپنی سوچ کے مطابق فیصلے کرتا ہے
9: مستقل مزاجی کا فقدان
مستقل مزاجی کسی بھی معاملے میں کامیابی کی اہم سیڑھی ہے ۔ ایک ناکام بزنس مین کے اندرمستقل مزاجی کا سخت فقدان پایا جاتا ہے۔ محض وقتی اور چھوٹی چھوٹی ناکامیوں سے مایوس ہو کر وہ اپنی حکمتِ عملی اور فیصلے بدلتا رہتا ہے اور کبھی ایک مستقل سوچ پر قائم نہیں رہتا۔
10: اجنبیوں کو ویلکم کریں
اجنبیوں کو خوش آمدید کہنا اور ان سے اچھے تعلقات قائم کرنا ایک بزنس مین کے لیے بہت اہم ہوتا ہے۔اس سے بزنس کے نئے زاویوں اور رجحانات کا پتہ چلتا ہے۔مگر ایک ناکام بزنس مین اس کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔بلکہ وہ ایک قسم کے Fear of unknownمیں مبتلا ہوتا ہے۔
11: مارکیٹ سے ناواقفیت
پروڈکٹ ایویلیوایشن،کسٹمر وائس،ریسورسز اینڈ فائینینسنگ وغیرہ مارکیٹ کے اہم پہلو ہیں۔ایک ناکام بزنس مین کبھی مارکیٹ سے پوری طرح آگاہ نہیں ہوتا۔یہ ادھوری واقفیت اس کی ناکامی کا بڑا سبب ہوتی ہے۔
12: غیر منصفانہ لین دین Unfair Dealings
Unfair Dealingیا دیانتداری کی عدم موجودگی بزنس مین کی ناکامی کا نہایت افسوسناک پہلو ہے۔بزنس کی یہ تیکنیک وقتی طور پر تو فائدہ مند ہو سکتی ہے مگر ایک دیر پا کامیابی کی بنیاد نہیں بن سکتی۔ایک ناکام بزنس مین اپنی بددیانتی کی بدولت مارکیٹ میں ایک معیاری ساکھ نہیں بنا پاتا اور با لآخر ناکامی سے دو چار ہو جاتا ہے۔
13: لوکیشن Location
کسی بزنس کی کامیابی بہت حد تک ایک اچھی لوکیشن کے انتخاب پر بھی انحصار کرتی ہے۔ ایک کامیاب بزنس مین ایک بہترین لوکیشن کا انتخاب کر نا اور اس کے مطابق ایک بہتر فریم ورک تشکیل دینا جانتا ہے۔ جبکہ ایک مناسب لوکیشن کا اندازہ نہ کر پاناایک ناکام بزنس مین کی اہم خاصیت ہوتی ہے۔اسی خاصیت کی بنا پر وہ بعض اوقات ترقی کے اہم مواقع گنوا بیٹھتا ہے۔
14: نا ا ہل انتظامیہ Lack of Management
ایک ناکام بزنس مین کے اندر مینجمینٹ کی صلاحیت ناپید ہوتی ہے۔وہ ایک مناسب بزنس سٹریٹیجی مرتب کرنے اور اس پر عمل درآمد میں ناقص کارکردگی کا مظاہرہ کرتا ہے۔اپنے ماتحت لوگوں کی کارکردگی کے حوالے سے وہ ایک پروپر شیڈول وضع کرنے میں ناکام رہتا ہے۔ یہ Mismanagement بزنس مین کی نااہلی کا ثبوت اور اس کی ناکامی کی بنیادی وجہ ہوتی ہے۔
15: کسٹمر کا اطمینان Customer Satisfaction
ایک بہتر کسٹمر سروس کی فراہمی ایک بہتر کیش فلو کا سبب بنتی ہے اور ایک اچھا کیش فلو ہی ایک کامیاب بزنس کی بنیاد بنتا ہے۔ایک ناکام بزنس مین کی محدود سوچ صرف ارننگ تک ہی محدود ہوتی ہے جبکہ پروڈکٹس یا سروسز کا بہتر معیار جو ایک اچھی ارننگ کی ضمانت ہے اس کے لئے قابلِ ترجیح نہیں ہوتا۔
16: ادھوری بزنس پلاننگ
کسی بزنس میں کامیابی ایک معقول اور Long-term planning کا تقا ضا کرتی ہے۔ایک بیوقوف بزنس مین چونکہ دور اندیشی کی صلاحیت سے عاری ہوتا ہے اس لئے وہ ایک دیر پا اور جامع حکمتِ عملی تشکیل دینے میں ناکام رہتا ہے۔یہی ناقص پلاننگ کسی نا کسی مرحلے پر ناکامی کی صورت میں سامنے آتی ہے۔
17: ترقی پسند سوچ کا فقدان
ترقی پسند سوچ کا فقدان ایک ناکام بزنس مین کی اہم نشانی ہے۔اپنی محدود سوچ یا ناکامی کے خوف کی بنا پر وہ کبھی اپنے بزنس کے ایک مخصوص حدود اربع کو کراس کرنے کی کوشش نہیں کرتا جبکہ 21ویں صدی کے تیزی سے بدلتے ہوئے رجحانات ایک جدید اور ترقی پسند سوچ کا تقاضا کرتے ہیں۔
18: مالی ریسورسز کی کمی
ایکStart-upکے لئے مالی سپورٹ جسم میں روح کی حثییت رکھتی ہے۔بزنس کی شروعات اس لحاظ سے نہایت اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔تاہم ایسے ہر مرحلے میں کچھ ریسورسز ایسے ضرور موجود رہتے ہیں جو fundingکے حوالے سے بہترین وسیلہ بن سکتے ہیں۔ایک کامیاب بزنس مین نشیب و فراز کے ان مراحل میں با آسانی ایسے ذرئع کھوجنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔جبکہ ایک ناکام بزنس مین میں یہ صلاحیت مفقود ہوتی ہے۔
19: محنت و لگن کا فقدان
محنت ولگن کی کمی ایک ناکام بزنس مین کی وہ خاصیت ہے جو اسے کبھی کامیابی سے ہمکنار نہیں ہونے دیتی۔بزنس ایک ذمہ داری کا نام ہے جس کو احسن طریقے سے نبھانا ایک کامیاب بزنس مین کی پہچان ہے۔مگر ایک ناکام بزنس مین اپنے ان فرائض سے غفلت کا مرتکب ہوتا ہے۔
20: ٹائم مینجمنٹ Time Management
ناقص Time Management کے سبب ایک ناکام بزنس مین ہمیشہ وقت کی قلت کا شکار رہتا ہے۔حالات و معاملات کو ڈیل کرتے وقت وہ اس بات کا تعین نہیں کر پاتا کہ کون سی چیز زیادہ وقت اور توجہ کی متقاضی ہے۔اس کا بہت سا وقت جو نہایت اہم اور ضروری معاملات پر خرچ ہونا چاہیے تھا غیر اہم معاملات کی نظر ہو جاتا ہے۔
21: غیر سنجیدہ رویہ
عقل و شعور کی کمی غیر سنجیدہ رویے کو جنم دیتی ہے۔بعض اوقات حد سے زیادہ خود اعتمادی بھی اس رویے کا سبب بنتی ہے۔بزنس جیسے اہم معاملے میں غیر سنجیدہ رویہ کامیابی کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ایک ناکام بزنس مین تمام معاملات میں ایسے ہی غیر سنجیدہ رویے کا مظاہرہ کرتا ہے۔
22: نئے مواقع کی تلاش
نئے مواقع کی تلاش کسی بزنس کی کامیابی کے لئے سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہے۔ایک ناکام بزنس مین نئے مواقع کی تلاش اور ان کی پہچان کی صلاحیت نہیں رکھتا۔بزنس مین کا یہ رویہ ہر گزرتے دن کے ساتھ اس کی بزنس ایکٹیویٹی کا دائرہ کارتنگ کرتا چلا جاتا ہے۔
23: تخلیقی سوچ کی کمی
ایک تخلیقی سوچ بزنس کی روایتی حد بندیوں سے نکل کر نئی تیکنیکس وضع کر سکتی ہے۔سٹیو جوبز نے کہا تھا’جدت ہی وہ خوبی ہے جو ایکLeader اور ایک Followerمیں فرق واضح کرتی ہے۔یاد رکھیے بزنس کی کامیابی آپ کی ڈگریوں یا تعلیم پر نہیں بلکہ آپ کی ذہانت و مہارت پر انحصار کرتی ہے۔بِل گیٹس کہتا ہے’میں کسی یونیورسٹی کا پوزیشن ہولڈر نہیں ہوں لیکن یونیورسٹیوں کے کئی پوزیشن ہولڈرز میرے ملازمین میں شامل ہیں‘۔
24: ریسرچ اور نالج کا فقدان Lack of Research and knowledge
ایک ناکام بزنس میں مارکیٹ ریسرچ اور نالج کو کبھی اہمیت نہیں دیتا۔وہ نئے رجحانات سے بے خبر رہتا ہے۔مارکیٹ میں متعارف کرائے جانیوالی جدید پروڈکٹس اور سروسز ایک بزنس مین کے لئے نئی راہیں کھولتی ہیں۔مگر ایک ناکام بزنس مین اپنی غیر تحقیقی سوچ کی بنا پر ان امکانات سے بے خبر رہتا ہے۔
25: سماجی تعلقات Social Contacts
معاشرتی و سماجی کونٹیکٹ کسی بزنس کی کامیابی کے لئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ایک ناکام بزنس مین Social Contactsکی اہمیت سے ناواقف ہوتا ہے۔اس کے معاشرتی و سماجی روابط محدود ہوتے ہیں۔اپنی اسی کمی کی وجہ سے وہ اپنے بزنس کو ایک وسیع پلیٹ فارم مہیا نہیں کر پاتا۔
26: ’انا پرستی‘ آپ کی کامیابی کی دشمن
انا پرستی ایک ناکام بزنس مین کی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔یہ اس کے پبلک ریلشنز کو براہِ راست متاثر کرتی ہے۔ اور اس کے تعلقات کو محدود کر دیتی ہے جبکہ ایک کامیاب بزنس مین نہایت ملنسار اور سوشل ہوتا ہے۔لوگوں کی ایک بڑی تعداد کے ساتھ اس کے اچھے مراسم قائم ہوتے ہیں جوبزنس کے ایک وسیع نیٹ ورک کے قیام میں مددگار ہو سکتے ہیں۔
27: سٹینڈرڈائزیشن Standardization
پروڈکٹس یا سروسز کی تیاری و فراہمی میں جدید اور سٹینڈرڈ تیکنیکس کا استعمال Standardization کہلاتا ہے۔ پروڈکٹس کی یہ سٹینڈرڈائزیشن ہی کسی بزنس یا کمپنی کو مقابلے کی دوڑ میں شامل کرتی ہے۔ ایک ناکام بزنس مین ایسی کسی تیکنیک کے استعمال اورایپلیکیشن کی ضرورت محسوس نہیں کرتاجس کے نتیجے میں اس کے بزنس یا کمپنی کا معیار گرتا چلا جاتا ہے۔
28: ادھوری سیل سٹرٹیجی Imperfect Sales Strategy
سیل سٹریٹیجی کسی کمپنی کی ترقی میں نہایت اہم کردار ادا کرتی ہے اور تمام تر پروفٹ کا دار ومدار اسی پالیسی ہر ہوتا ہے۔ایک ناکام بزنس مین مارکیٹ،کسٹمرز اور لوکیشن کی مناسبت سے ایک بہتر سیلز پالیسی تشکیل دینے میں بیوقوفی اور نا تجربہ کاری کا مظاہرہ کرتا ہے۔
29: ان ٹارگٹڈ اپروچ ٹو کسٹمر Untargeted Approach to Customers
پوٹینشل کسٹمرز تک رسائی بزنس مین کی اہم کامیابی ہوتی ہے۔ایک ناکام بزنس مین اپنی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے سیلز اور پروموشن کے اہم مواقع ضائع کر بیٹھتا ہے
30: کوالٹی آف سروس Quality of Service
پروڈکٹس اور سروسز کی بہتر کوالٹی بزنس میں کامیابی کی ضمانت ہے۔ناکام بزنس مین معیاری کوالٹی جیسے اہم معاملے کو نظرانداز کیے رکھتا ہے۔اور یہ غفلت بالآخر اس کی ناکامی پر منتج ہوتی ہے۔
31: لیڈرشپ کا فقدان
کامیاب بزنس مین اصل میں ایک اچھا لیڈر ہوتا ہے جو اپنے بزنس اور اپنے ماتحت کام کرنے والے افراد کی درست رہنمائی کی صلاحیت رکھتا ہے۔وہ حالات و معاملات کی درست سمت کا تعین کر سکتا ہے۔جبکہ ایک ناکام بزنس مین کے اندر لیڈرشپ کی یہ صلاحیت سرے سے موجود ہی نہیں ہوتی۔
32: سپلائی چین Supply Chain
سپلائر سے کسٹمر تک کسی پروڈکٹ یا سروس کی منتقیلی ایک آرگنائزڈ سسٹم کا تقاضا کرتی ہے جسکی عدم موجودگی سے تجارتی نظام بدنظمی کا شکار ہو جاتا ہے اور یہی بدنظمی با لآخر خسارے کا سبب بنتی ہے۔ایک ناکام بزنس مین اس پہلو کی طرف سے بھی لاپروائی کا مظاہرہ کرتا ہے۔یا پھر اس میں اس کی صلاحیت یہ موجود نہیں ہوتی۔
33: سورس آف انفارمیشن کی عدم موجودگی
مارکیٹ کے مسائل،کسٹمر ٹرینڈزاوردوسری کمپنیوں کے رجحانات اور طریقہ کار کے بارے میں معلومات ایک بزنس مین کے لئے انتہائی اہمیت کی حامل ہوتی ہیں۔یہ معلومات کئی طرح کے مسائل کی شناخت اور نئے مواقع کی تلاش میں مددگار ہوتی ہیں۔ایک ناکام بزنس مین کو معلومات کے ذرائع کی اہمیت کا اندازاہ نہیں ہوتا اور نہ وہ اس کے مناسب انتظام کی کوشش کرتا ہے۔
34: لائسنسز Licensing
پروڈکٹ،سروس یا اپنے بزنس آئیڈیاز کی Licensing ایک انتہائی اہم امر ہے جو کئی طرح کے مسائل سے بچاتا ہے۔ایک ناکام بزنس3 مین اپنی کم علمی یا محض سستی کی وجہ سے اس امر میں غفلت برتتا ہے۔جبکہ ایک کامیاب بزنسمین ایسے تمام اصول و قوانین پر عمل پیرا ہوتا ہے۔
35: سیلف ایجوکیشن
سیلف ایجوکیشن ایک بزنس مین کے لئے نہایت اہمیت رکھتی ہے۔بزنس میگیزینز اور آن لائن بزنس ٹریننگ پروگرامز بزنس کے نئے رجحانات اور تیکنیکس سے آگاہ کرتے ہیں۔مگر ایک ناکام بزنس مین اپنی سیلف ایجوکیشن کا کوئی پلان تشکیل نہیں دیتا۔یہ لاعلمی اسے بزنس کی دنیا میں پیچھے دھکیلنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔
36: اپنے مشن سے وابستگی
کمپنی یا بزنس کے لئے ایک پراثر حکمتِ عملی ترتیب دینے کے لئے بزنس مین کے ذہن میں ایک واضح مشن ہونا ضروری ہے۔یہ مشن ایک گائیڈلائن کا کام کرتا ہے۔ایک ناکام بزنس مین کو اول تو مشن کا ادراک ہی نہیں ہوتا اور ہو بھی تو وہ اپنے مشن سے وابستگی کو اہمیت نہیں دیتا۔
37: کاروباری حریفوں کا تجزیہ Competitors Analysis
بزنس کے میدان میں اپنے مدِمقابِل بزنس مینوں کی پروڈکٹس اور سروسز کے معیار اور ان کی بزنس کی تیکنیکس کے بارے میں معلومات نہایت اہمیت رکھتی ہے۔مقابلے کی اس دوڑ میں ایک بزنس مین کی خامی دوسرے کی خوبی بن جاتی ہے۔ایک ناکم بزنس مین اس امر میں بھی کوتاہی برتتا ہے اور دوسرں کی نسبت خسارے میں رہتا ہے۔
38: ترجیحات کا تعین
یاد رکھیے کچھ چیزیں ارجنٹ ہوتی ہیں جبکہ کچھ اِمپورٹینٹ ہوتی ہیں۔ایک کامیاب بزنس مین ان دونوں میں فرق کرنا بخوبی جانتا ہے۔جبکہ ایک ناکام بزنس مین اپنی ترجیحات کا تعین نہیں کرپاتاکہ کونسا معاملہ فوری توجہ کا متقاضی ہے ۔اس ناسمجھی کی وجہ سے بہت سے ضروری اور فوری حل طلب مسائل غفلت کا شکار ہو جاتے ہیں۔
39: ناقص یادداشت
بزنس میں کامیابی ایک بہترین یادداشت کا تقاضا کرتی ہے۔ایک کامیاب بزنس مین اچھے حافظے کا مالک ہوتا ہے اور نہایت باریک نقاط کو بھی ذہن نشیں رکھتا ہے۔جبکہ ایک ناکام بزنس مین اچھی یاد داشت کا مالک نہیں ہوتا۔اسی خامی کی وجہ سے بہت سی چھوٹی چھوٹی اہم چیزیں اگنور ہو جاتی ہیں۔
40: حساب کتاب میں لاپرواہی Deficient Accounting
حساب کتاب جیسے اہم معاملے میں بھی ایک ناکام بزنس مین لاپروائی اور بے دھیانی کا مظاہرہ کرتا ہے۔ایسی کمپنی کا اکاؤنٹینگ سیکشن غفلت کا شکار ہوتا ہے۔ اس غفلت کا براہِ راست اثر کمپنی کے بجٹ پر پڑتا ہے۔
41: موقع شناسی
ایک کامیاب بزنس مین کی سب سے اہم خوبی موقع شناسی ہوتی ہے وہ مشکلات کے ہجوم میں بھی ایک سنہری موقعے کی پہچان کی صلاحت رکھتا ہے جبکہ ایک ناکام بزنس مین اپنی اس ناشناسی کی وجہ سے کئی اہم مواقع گنوا بیٹھتا ہے۔
42: تفریح کے لئے وقت نہ نکالنا
اکثر ناکام بزنس مینوں کے پاس تفریح کے لئے بھی وقت نہیں ہوتا۔مسلسل کام ذہنی تھکاوٹ کا باعث بنتا ہے اور کارکردگی کو متاثر کرتا ہے ۔کامیاب بزنس مین اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہوتا ہے۔جبکہ ایک ناکام بزنس مین مسلسل کام کر کے ذہنی تھکاوٹ کا شکار ہوجاتا ہے۔
43: بچت کی بہتر تیکنیکس سے ناواقفیت
ایک بزنس مین کے لئے خریداری نہیں بلکہ خریداری کا طریقہ کار زیادہ اہم ہوتا ہے۔ایک کامیاب بزنس مین ہمیشہ نقد اخراجات سے گریز کرتا ہے۔وہ بارٹر سسٹم کو اپناتا ہے اور اشیاء کے بدلے اشیاء کے لین دین کو اہمیت دیتا ہے۔جبکہ ایک ناکام بزنس مین بچت کے طور طریقے اپنانے کی کوشش نہیں کرتا اور غیر ضروری اخراجات کی روک تھام کے لئے اقدامات نہیں کرتا ۔یہ روش اسے بہت جلد مالی بحران کا شکار بنا دیتی ہے۔
44: پبلک مینیجمنٹ سکِلز
بزنس اصل میں کئی افراد کی کوششوں کو ایک پلیٹ فارم مہیا کرنے اور ان کی مشترکہ کوششوں سے ایک مفید نتیجہ برآمد کرنے کا نام ہے۔ایک کامیاب بزنس مین کے اندر لوگوں کی ایک بھیڑ کو ایک آرگنائزڈ گروپ میں تبدیل کرنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔جبکہ ایک ناکام بزنس مین پبلک مینجمینٹ کے اس ہنر سے نا آشنا ہوتا ہے۔
45: سٹاف کا انتخاب Policy Staff Hiring
کمپنی کے کلچر،انوائرنمنٹ اور ڈیمانڈ کے مطابق معقول اور قابل افراد کا انتخاب ایک اہم امر ہے۔ایک ناکام بزنس مین کسی فرد کو ہائر کرتے وقت اس کی خوبیوں، خامیوں اور اس کے اندر موجود پوٹینشل کا صیح اندازہ نہیں کر پاتا۔یہ ناموزوں ہائرنگ بزنس پر اثر انداز ہوتی ہے۔
46: سٹاف ٹرینگ Staff Training
کسی کمپنی یا آرگنائزیشن کی انویسٹمنٹ کا ایک بڑا حصہ سٹاف پر خرچ ہوتا ہے ۔لہٰذا سٹاف کی ہائرنگ اور ٹریننگ کے مناسب انتظامات بہت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔کامیاب بزنس مین اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہوتا ہے کہاایک قابل مگر ناتجربہ کار شخص کو ایک بہتر ماحول اور ٹریننگ فراہم کر کے ایک بہتر آؤٹ پٹ لیا جا سکتا ہے۔ایک ناکام بزنس مین ان اہم عوامل کا ادراک نہیں رکھتا۔
47: آفس کے بے حساب اخراجات
آفس کے اخراجات نہایت توجہ طلب اور ضروری عوامل میں شامل ہیں ۔ایک ناکام بزنس مین کو نہ تو ان اخراجات کا صیح اندازہ ہوتا ہے اور نہ وہ ان کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرتا ہے۔اسطرح بہت سے چھوٹے چھوٹے مگر غیر ضروری اخراجات بجٹ پر اثرانداز ہوتے ہیں۔
48: ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی Over Confidence
ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی کسی بھی امر میں ناکامی کا سبب بن سکتی ہے۔ایک ناکام بزنس مین Over Confidenceکا شکار ہوتا ہے۔وہ حالات کو مدِنظر رکھنے کی بجائے اپنی سوچ کو مدِ نظر رکھ کر فیصلے کرتا ہے جو نقصان کا باعث بنتے ہیں۔
49: بزنس نیٹ ورک کا قیام
ایک مناسب بجٹ کے اندررہتے ہوئے اپنے بزنس کو مارکیٹ کرنا ایک کامیاب بزنس مین کا سب سے بڑا ہنر ہے جس کوبروئے کار لا کروہ ایک بہتر اور منافع بخش بزنس نیٹ ورک کی تشکیل کرتا ہے۔ایک ناکام بزنس مین کارآمد اور مفید نیٹ ورک کے قیام میں ناکام رہتا ہے اور اس کا بہت سا بزنس پوٹینشل غیر نتیجہ خیز سرگرمیوں میں ضائع ہو جاتا ہے۔
50: جدید ذرائع سے ناواقفیت
ڈیجیٹل مارکیٹنگ کے اس دور میں بزنس کو وسعت دینے اور زیادہ منافع بخش ذرائع کی تلاش کے لئے جدید طریقہ کار کو اپنانا ایک کامیاب بزنس مین کی نشانی ہے۔جبکہ ایک ناکام بزنس مین بزنس کے روایتی طور طریقوں کا پابند بنا رہتا ہے اور اپنے نیٹ ورک کے پھیلاؤ کے لئے آسان اور تیز ترین ذرائع کو استعمال میں نہیں لاتا۔
گروپس کی دیگر حضرات کئ پوسٹ کا بغور مشاہدہ کرتے ہوے شاید پہلے خوداعتادی کی کمی, اپنے اندر رچی بسی ناکامیوں کی وجوہات اور بزنس سکلز پہ نظر ثانی اور اسکے پریکٹیکل انلیلسز کی ضرورت ہے. وگرنہ ایڈیا شاید اپنے مقاصد پورے نہ 
کر سکی