پیر، 22 فروری، 2021

ذہنی مضبوطی

 

ذہنی مضبوطی

قلم کلامی :قاسم علی شاہ

’’جب آپ وہ چیزیں چھوڑ دیتے ہیں جو آپ کو روکے ہوئے ہیں تو آپ غیر معمولی کرنے کے قابل ہوجاتے ہیں!‘‘

ایمی مورِن

انگریزی میں ایک کتاب 13 Things Mentally Strong People Don`t Do شائع ہوئی ہے۔ اس کی کتاب کی مصنفہ ایمی مورن ایک ماہر نفسیات ہے۔ اس کتاب کا موضوع ذہنی صحت ہے۔ اس کتاب کا پس منظر یہ ہے کہ مصنفہ اپنی زندگی بڑی خوش خرم گزار رہی تھی کہ اچانک اسے دو قریبی احباب کی اموات کا سامنا کرنا پڑا جس میں ایک اس کا رشتے دار اور دوسرا اس کا شوہر تھا۔ ان غموں کی وجہ سے اس کی زندگی میں خوشیاں ختم ہوگئیں۔ پھر اسے ایک اور شخص ملا جس سے اس نے شادی کی۔ یہ شادی بہت خوب رہی۔ جب ایمی دوبارہ اپنی نارمل زندگی گزارنے لگی تو اس نے اُن لوگوں پر تحقیق شروع کی جو پریشانیوں اور مصیبتوں کا شکار ہونے کے باوجود ان سے نکل آتے ہیں۔ تحقیق کے بعد اس نے مذکورہ بالا کتاب لکھی۔ یہ بہت اہم بات ہوتی ہے کہ آدمی اپنے پروفیشن پر لکھے۔ وہ زیادہ پُر اثر ہوتا ہے، کیوں کہ اس میں اپنی زندگی کے حقیقی تجربات ہوتے ہیں۔

ذہنی طور پر مضبوط ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کے خیالات، رویہ، نظریات اور جذبات اس کے کنٹرول میں ہوں۔ بہت سے لوگ ایسے ہیں جو بات بات پر غصہ نکالتے نظر آتے ہیں، کیونکہ غصہ ان کے کنڑول میں نہیں ہوتا۔اگر بندے کا ردِعمل اس کے کنٹرول میں نہیں ہے تو وہ ذہنی طور پر مضبوط نہیں ہے۔ اس سے بڑی ذہنی مضبوطی اور کیا ہوسکتی ہے کہ تلوار دشمن کی گردن پر ہو اور وہ تھوک دے اور تلوار واپس ہوجائے اور کہا جائے کہ میں بدلہ نہیں لوں گا۔ انھیں پتا تھا کہ اگر اس وقت تلوار چلی تو اس کو ایمان نہیں چلائے گا بلکہ غصہ چلائے گا، اور غصہ حرام ہے۔

ذہنی طور پر مضبوط لوگوں کی درج ذیل خصوصیات ہوتی ہیں :

1 خودپر ترس نہ کھانا

ذہنی طورپر مضبوط لوگوں کی پہلی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ وہ خودترسی کا شکار نہیں ہوتے۔ خود ترسی کی بیماری میں انسان اپنے آپ پرترس کھانا شروع کر دیتا ہے۔ جن لوگوں میں خود ترسی کی بیماری پائی جاتی ہے، وہ اپنے ہی مسئلوں کو سب سے بڑے مسئلے سمجھتے ہیں۔ اپنے آپ کو بدقسمت اور منحوس سمجھتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ہم ہی سب سے زیادہ مشکل میں ہیں۔ ایسے لوگ اکثر شکایتیں کرتے نظر آتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ سب سے زیادہ محنت ہم کررہے ہیں جبکہ ثمر دوسروں کو مل رہا ہے۔ ایسے لوگ ان لوگوں کی تلاش میں رہتے ہیں جو اُن کی تکلیفوں اور غموں کی حمایت کریں۔

خود ترسی سے بچنے کا بہترین حل یہ ہے کہ اپنی گفتگو کو مثبت بنائیں۔ کم ازکم وہ گفتگو ضرور ہونی چاہیے جو اپنے آپ سے ہو۔ اگر ایسے دوست احباب ہیں جو متحمل مزاج اور مثبت ہیں تو اُن میں اٹھیں بیٹھیں اور اُن سے رائے لیں۔

2 اپنی طاقت کاکنڑول اپنے ہاتھ میں رکھنا

رسول حمزہ کہتے ہیں کہ ادیب،شاعر، فلسفی، دانشور بسا اوقات محفل میں ا کیلا ہوتا ہے اور بسا اوقات وہ تنہائی میں میلہ لگائے بیٹھا ہوتا ہے۔ یہ فوکس کا کمال لیول ہے کہ آدمی سب کے ساتھ ہو، لیکن وہ وہاں ہو جہاں وہ رہنا چاہ رہا ہے۔ ذہنی طور پر مضبوط لوگ اپنی طاقت کا ریموٹ کنڑول اپنے ہاتھ میں رکھتے ہیں۔ وہ یہ اختیار دوسروں کو نہیں دیتے۔ جن لوگوں کو اپنے آپ پر اختیار نہیں ہوتا ان کی نشانی یہ ہے کہ وہ تنقیدکا زیادہ اثر لیتے ہیں۔ انھیں فیڈبیک کی بہت زیادہ پروا ہوتی ہے اور کسی کے کہنے پر بہت جلد غصے میں آجاتے ہیں۔

3 تبدیلی قبول کرنا

جو لوگ ذہنی طور پر مضبو ط ہوتے ہیں، وہ تبدیلی سے نہیں گھبراتے۔ آج کل دنیا میں سب سے زیادہ چینج مینجمنٹ (Change Management) پڑھائی جا رہی ہے۔ ٹیکنالوجی اتنی تیزی سے تبدیل ہورہی ہے کہ چینج مینجمنٹ پڑھنا بہت ضروری ہوگیا ہے۔

بعض لوگوں کا تکیہ ہی بدل جائے تو انھیں نیند نہیں آتی، جبکہ بعض ہر جگہ خراٹے بھرتے نظر آتے ہیں۔ بعض طلبہ کا قلم بدل جائے تو وہ لکھ نہیں سکتے،ایسے لوگ جب بھی تبدیلی کے بارے میں سنتے ہیں تو وہ اینزائٹی میں چلے جاتے ہیں، جبکہ بعض لوگوں کو اس کی کوئی پروا نہیں ہوتی۔ وہ کسی بھی صورت حال کو قبول کرلیتے ہیں کیونکہ ان کا کام پر فوکس ہوتا ہے۔

4 تبدیل ہونے والی چیزوں پر فوکس کرنا

ذہنی طور پر مضبوط لوگ اپنا فوکس ان چیزوں پر رکھتے ہیں جنھیں وہ تبدیل کرسکتے ہیں۔ وہ طے کرلیتے ہیں کہ ہمیں صرف ان چیزوں پرکام کرنا ہے جو بدل سکتی ہیں۔ جو ہتھیار نتیجہ دے سکتا ہے، وہ طاقت میں ضرور آتا ہے۔

ذہنی طور پر کمزور لوگوں کے پاس بے شمار ایسی خواہشیں ہوتی ہیں جن کا اُن سے دُور دُور تک واسطہ نہیں ہوتا۔ ایسے لوگ بہت سوں کو بدلنا چاہتے ہیں، لیکن خود کو نہیں بدتے۔ ایسے لوگ سارا اخبار پڑھ کر ایسی خبروں پر تبصرہ کرتے تھے جنھیں وہ تبدیل نہیں کرسکتے، آج کل ایسے لوگ زیادہ تر فیس بک مل جائیں گے جو ایک سے ایک عجیب پوسٹ لگائیں گے، پھر انھی طرح کے کمزور ذہن رکھنے والے اس پر اس سے بھی عجیب کمنٹ کریں گے۔ پھر وہ ان کا جواب دیں گے اور یوں ایک بے مقصد سلسلہ چل نکلتا ہے۔

5 ہرایک کو خوش کرنے کی کوشش نہ کرنا

ذہنی طور پرمضبوط لوگوں میں ہر ایک کو خوش کرنے کی فکر و خواہش نہیں ہوتی، کیونکہ وہ یہ حقیقت جانتے ہیں کہ ہر ایک کو خوش نہیں کیا جاسکتا۔ ایسے لوگ ہر ایک کو جواب نہیں دیتے۔ وہ صرف یہی کہتے ہیں کہ وقت جواب دے گا۔ مزا ہی اس بات میں ہے کہ مخالفت ہو، تنقید ہو، لیکن اس کے باوجود آدمی آگے بڑھتا چلا جائے۔

یہ لوگ دوسروں کی خفگی کی بجائے اپنی منزل کو سامنے رکھتے ہیں۔ یہ زندگی کا اصل لطف ہے۔ سب کو خوش نہیں کیا جاسکتا، بس انسان اللہ کی خوشی اور اپنی خواہش کو سامنے رکھے اور جو ویژن اس نے طے کیا ہے، تمام تر مخالفتوں اور تمام تر تنقیدوں کے باجود وہ آگے بڑھتا چلا جائے۔ کنواں کھودیے، لیکن پھر پیچھے مڑ کر نہ دیکھئے کہ کون پانی پی رہا ہے۔ اس بات سے آزاد ہو جائیے کہ آپ کی چیزوں اور آپ کے کاموں سے لوگ کس طرح فائدہ اٹھا رہے ہیں۔

6 تخمینی خطرات لینا

ذہنی طور پر مضبوط افراد تخمینی خطرات (Calculated Risks) لینے کے عادی ہوتے ہیں۔ مشاورت ضرور کرتے ہیں، لیکن فیصلہ خود کرتے ہیں۔ جن افراد کی زندگی میں اکثر و بیشتر چیلنج رہتے ہیں وہ ذ ہنی طور صحت مند اور نارمل رہتے ہیں۔ وہ ڈپریشن کا شکار نہیں ہوتے، کیونکہ چیلنج انھیں ذہنی اور جذباتی طور پر تازہ رکھتا ہے، زندہ رکھتا ہے، لڑنے پر مجبور کرتا ہے۔ پھر اسے ہر قسم کے حالات کا سامنا کرنے کیلئے تیار کرتا ہے۔ جس کی زندگی میں کوئی چیلنج نہیں ہوتا، وہ عمومی طور پر ڈپریشن کا شکار ہوجاتا ہے۔ اگر ساری کامیابیاں اکھٹی ہی مل جائیں تو ذہنی طورپر نارمل رہنا مشکل ہوجاتا ہے۔ چنانچہ وہ خطرات سے بہت گھبراتے ہیں۔

7 ماضی میں نہ رہنا

ذہنی طور پر مضبوط لوگ اپنے ماضی میں نہیں رہتے۔ جن لوگوں کے پاس صرف اچھا ماضی ہوتا ہے، اُن کا حال اکثر مشکل ہوجاتا ہے۔ انھیں بیماری لگ جاتی ہے جسے نرگسیت کہتے ہیں۔ ایسے لوگ ہر وقت ماضی کا تذکرہ کرتے رہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کا فن پروان نہیں چڑھ پاتا۔ ایسے لوگ یہ دعا کرتے رہتے ہیں کہ کاش ماضی دوبارہ آجائے۔ ایسے لوگوں کے پاس ماضی کے پچھتاوے ہوتے ہیں۔ ان کی گفتگو زیادہ تر ماضی پر مشتمل ہوتی ہے۔ اصل یہ ہے کہ ماضی سے سیکھ کر آگے نکلا جائے۔ ذہنی طور پر مضبوط لوگ یہ گُر جانتے ہیں۔ماضی سے نکلنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ اپنا حال اچھا کیجیے۔ اپنے حال میں رنگ بھریے۔ اپنے حال کو پُرلطف بنائیے۔

8 غلطی کو بار بار نہ دہرانا

ذہنی طور پر مضبوط ایک ہی غلطی بار بار نہیں دہراتے۔ آدھ گھنٹہ نکالیے اور ماضی کی اُن غلطیوں کی فہرست بنائیے جن کی وجہ سے آپ کو بہت زیادہ تکلیف یا خفت اٹھانا پڑی۔ اپنے سامنے اپنے آپ کو رکھیں۔ جو لوگ ذہنی طور پر مضبوط نہیں ہوتے، وہ اکثر ایک جگہ پر پھنس جاتے ہیں، کیونکہ انھوں نے یہ سیکھا ہی نہیں ہوتا کہ کیسے اپنی غلطیوں سے بہتری لانی ہے۔وہ اپنی غلطیوں کا تجزیہ کرنے کو وقت کا ضیاع سمجھتے ہیں۔ ایسے لوگ زیادہ تر ڈپریشن میں رہتے ہیں۔

9 حسد سے بچنا

ذہنی طور پر مضبوط لوگ دوسروں کی کامیابیوں پر حسد نہیں کرتے۔ جوشخص حسد کرتا رہتا ہے، وہ اپنی توانائی ضائع کرتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادکا مفہوم ہے کہ حسد نیکیوں کو ایسے کھاجاتا ہے، جیسے آگ سوکھی لکڑی کو کھاجاتی ہے۔ انسان کی روحانی بیماریوں میں غالباً حسد سب سے خطرناک بیماری ہے۔ چالیس سال کی عمر میں پہنچ کر پیچھے مڑ کر دیکھیں تو آپ کو اپنی عمر کے کئی لوگ ملیں گے جو اپنے کامیاب ساتھیوں پر تنقید کر رہے ہو تے ہیں۔ جب آدمی یہ سوچتا ہے کہ ہمارا ساتھی آگے کیسے نکل گیا؟وہ ہم سے منفردکیسے ہوگیا؟ تو اس کا مطلب ہے کہ وہ شخص ذہنی طورپر مضبوط نہیں ہے۔

حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، ’’کسی کو عزت دے کر دیکھو، اگر وہ اہل ہوگا تو وہ اور اچھا ہوجائے گا؛ اہل نہیں ہوگا تو اپنی کمینگی کا اظہار ضرور کرے گا۔‘‘ جوشخص آپ کی عزت نہیں کرتا، اس کی عزت کرنا شروع کر دیجیے۔ اگر پھر بھی ٹھیک نہ ہو تو سمجھ جائیے کہ اس میں کمینگی کی خصلت ہے۔

10 ہار نہیں ماننا

ذہنی طور پر مضبوط لوگ پہلی ناکامی کے بعد اپنی جدوجہدنہیں چھوڑتے۔ وہ اپنی پہلی ناکامی کو آخری ناکامی نہیں سمجھتے۔ جو شخص اپنی پہلی ناکامی کو آخری ناکامی سمجھے گا، وہ کڑھے گا اور اندر ہی اندر جلے گا۔ جب بھی آدمی پہلی غلطی سے سیکھ کر آگے بڑھتا ہے، وہ کامیاب ہوجاتا ہے۔ ذہنی طور پر مضبوط لوگوں میں مستقل مزاجی ہوتی ہے۔ اگر انھیں کئی دفعہ بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑے تو وہ ہر بار اتنے ہی جنون کے ساتھ دوبارہ جدوجہد شروع کردیتے ہیں۔

11 اپنی تنہائی سے نہ ڈرنا

ذہنی طور پر مضبوط لوگ اپنی تنہائی سے نہیں ڈرتے۔ تنہائی میں انسان کی ملاقات اپنے آپ سے ہوتی ہے۔ اگر آدمی کا کردار اچھا نہیں ہے تو جب اس کی تنہائی میں اپنے آپ سے ملاقات ہوتی ہے تو اسے بہت تکلیف ہوتی ہے۔ لیکن اگر وہ اچھا انسان ہے تو اس کو تنہائی میں خوشی محسوس ہوگی۔ جب بھی انسان اپنے آپ کو اندر سے مکمل محسوس کرے گا، وہ تنہائی سے محظوظ ہوگا۔

12 یقین ہونا کہ دنیا کچھ بگاڑ نہیں سکتی

ذہنی طور پر مضبوط لوگوں کو یقین ہوتا ہے کہ دنیا ان سے کچھ چھین نہیں سکتی اور نہ ان کا کچھ بگاڑ سکتی ہے۔ ذہنی طور پر کمزور لو گ سمجھتے ہیں کہ ساری دنیا ہماری مخالف ہے۔ ایسے لوگ اپنی کوئی چیز شیئر نہیں کرتے۔ ایسے لوگ کچھ بتاتے نہیں ہیں۔ وہ جن منصوبوں پر کام کررہے ہوتے ہیں، وہ بالکل شیئر نہیں کرتے۔ اگر آپ کا ارادہ سچا ہے، خواہش سچی ہے تو ساری دنیا کی طاقتیں آپ کی معاون و مددگار ہو جاتی ہیں۔

13 جلد نتیجہ نہ چاہنا

ذہنی طور پر مضبوط لوگ جلد نتیجہ نہیں لینا چاہتے۔ وہ اپنی کوشش کا نتیجہ اپنی خواہش کے بجائے قوانین فطرت کے حوالے کرتے ہیں۔ نظم قدرت میں کوئی کام جلدی نہیں ہوتا، ہر شے کا ایک وقت ہوتا ہے اور نتیجہ اپنا وقت پورا کرنے پر آتا ہے۔ زندگی میں عادت بنائیے کہ جلد نتائج نہیں لینے۔ جلدی نتیجے میں گوبھی آلوہی بنتے ہیں، لیکن اگر نتیجہ صبر اور اطمینان سے ہوتو درخت بنتا ہے۔ اگر زندگی میں بڑا کرکے دکھانا ہے تو پھر بڑی چیزوں کو جاننے کیلئے بڑا وقت چاہیے۔ جس کا کام بڑا ہوتا ہے، اس کے کام کو زمانہ سراہتا ہے۔ جلد باز آدمی اپنے ذہن کی توانائی صرف اس بات پر لگاتا رہتا ہے کہ کب نتیجہ آئے گا جبکہ مضبوط ذہن رکھنے والا انسان اپنی ذہنی توانائی کو بچائے گا۔ پودا لگائے گا۔ مڑ کر نہیں دیکھے۔ آگے چلا جائے گا۔ ایڈیسن کہتا ہے کہ ’’میں نے اپنی کوئی بھی ایجاد کی، اس ایجاد کی وجہ یہ تھی کہ میں پچھلی ایجاد بھول چکا تھا۔ اگر وہ مجھے یاد رہتی تو میں اس کے عظمت کے مینار پر ہی کھڑا رہتا اور نئی ایجاد نہ کرسکتا۔‘‘

آپ اپنے آپ کو ذہنی طور پر مضبو ط کرنا چاہتے ہیں تو ایمی مورِن کے مشورے کے مطابق، درج بالا تیرہ کام نہ کیجیے۔



اتوار، 21 فروری، 2021

گوگل

 

گوگل

گوگل  کا مطلب:

دنیا کے سب سے بڑے اور کامیاب سرچ انجن گوگل www.googl.com کے نام سے تو سب واقف ہیں لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ اس کا مطلب کیا ہے؟ دراصل لفظ Google ایک ریاضیاتی اصطلاح Googol سے بنایا گیا ہے۔لفظ Googol ایک ننھے بچے کی ایجاد ہے جو مشہور ریاضی دان ایڈورڈ کاسنر کا بھتیجا تھا۔ ایڈورڈ یہ سوچ رہے تھے کہ اگر 1 کے بعد 100 صفر ہوں تو اس نمبر کا نام کیا ہونا چاہیے اور اس دوران ان کے کان میں ننھے بچے کی آواز پڑی جو ”گوگول“ سے ملتی جلتی تھی اور یوں انہوں نے اس نمبر کا نام گوگل (Googol) رکھا دیا۔ انٹرنیٹ کمپنی گوگل نے اس میں تھوڑی سی تبدیلی کرکے اسے Google بنا لیا اور یہ نام اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ یہ کمپنی کروڑوں اربوں کی تعداد میں معلومات انتہائی مربوط طریقے سے صارفین کو فراہم کرتی ہے۔

گوگل  کیا ہے؟

گوگل ایک ویب سرچ انجن ہے  جو کہ ویب پیجز کو ڈھونڈ کر  صارف  کے سامنے لاتا ہے۔دور حاضر میں  اس سرچ انجن جیسی کوئی اور ویب سائٹس   نہیں ہے کیونکہ یہ وہ واحد ذریعہ ہے کے جس کی بدولت دنیا بھر کی ویب سائٹس پر ٹریفک جاتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پوری دنیا میں موجود کسی بھی ویب سائٹس پر 80 فیصد ٹریفک سرچ انجن کے ذریعے آتا ہے۔

گوگل کب وجود میں آیا:

ویب سائٹ www.wikipedia.org کے مطابق گوگل کو سب سے پہلے 4 ستمبر 1998ءمیں اسٹینفورڈ یونیورسٹی، کیلیفورنیا، امریکہ  کے دو طالب علموں لیری پیج اور سرگئی برن سرچ انجن  کے  طور پر لے کر آئے۔گوگل  کو پہلے "بیک رب " کا نام دیا گیا ہے۔

گوگل کب اور کیسے بنا اس حوالے سے ڈیوڈ کولر نامی صاحب نے اپنی ایک مختصر یادداشت میں بیان کی ہیں۔ وہ لکھتے ہیں کہ انٹرنیٹ پر گوگل کے نام اور اس ویب سائٹ کے قیام سے متعلق بے بنیاد تحریروں کی بھرمار ہے جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ ان کے بقول ستمبر 1997 میں کیلیفورنیا کی اسٹینفرڈ یونیورسٹی کے طالب علموں لیری پیج اور سرگی برن نے ایک نیا سرچ انجن ایجاد کیا تھا جو ایک منفرد طریقے پر کام کرتا تھا۔ وہ اسٹینفرڈ یونیورسٹی کے کمپیوٹر سائنس ڈیپارٹمنٹ کے ایک کمرے میں دوسرے چند گریجویٹ طالب علموں کے ساتھ بیٹھا کرتے تھے۔ ایک روز وہ اپنے ساتھیوں شون اینڈرسن، تمارا منزنر اور لوکاس پریرا کے ساتھ اس سوچ بچار میں مصروف تھے کہ وہ انٹرنیٹ اپنے اس نئے سرچ انجن کا نام کیا رکھیں۔ اس بارے میں سب ہی دوست سر جوڑ کر بیٹھے تھے۔ ان میں سے لیری ممکنہ ناموں کو شارٹ لسٹ کر رہے تھے جبکہ شون بھی اس عمل میں پیش پیش تھے۔لیری اور شون، وائٹ بورڈ پر منتخب موزوں ترین ناموں کو درج کر کے ان کے معنی اور مناسبت کے حوالے سے تفصیلات لکھنے میں مصروف تھے۔ اسی دوران شون نے زبانی طور پر ’’googolplex‘‘ لفظ تجویز کیا تو لیری نے فوراً ہی اسے مختصر کر کے ’’googol‘‘ کردیا جو کسی غیرمعمولی طور پر بڑے عدد کو ظاہر کرتا ہے۔ شون سے سننے میں غلطی ہوئی اور اس نے غلطی سے ڈومین نیم تلاش کرتے دوران googol کی جگہ google ٹائپ کردیا جو لیری برن، دونوں کو بہت پسند آیا۔ خوش قسمتی سے یہ ڈومین نیم دستیاب بھی تھا اس لیے چند روز بعد لیری پیج نے google.com کے نام سے ڈومین  نیم حاصل کر لیا اور یوں انٹرنیٹ کا مشہور ترین سرچ انجن ’’گوگل‘‘ وجود میں آیا۔ اس وقت بھی اگر آپ انٹرنیٹ سروس ’’ہو اِز‘‘ (Who Is) استعمال کرتے ہوئے تلاش کریں گے تو آپ کو معلوم ہو گا کہ ڈومین نیم google.com کی اوّلین رجسٹریشن 15 ستمبر 1997 کے روز کروائی گئی تھی۔

دلچسپ حقائق:

ایک دلچسپ  چیز  یہ ہے کہ 1999ء میں گوگل کو 5 کروڑ ویب پیجز کے انڈیکس بنانے میں ایک ماہ لگا تھا اور 2012 ءمیں یہی ٹاسک ایک منٹ سے بھی کم وقت میں مکمل کیا گیا۔ اسی طرح ایک سنگل گوگل سرچ کے دوران ایک ہزار کمپیوٹرز استعمال ہوتے ہیں جو صارف کو 0.2 سیکنڈز میں کوئی نہ کوئی جواب فراہم کرتے ہیں۔

امریکی جریدے فوربز کے مطابق اوسطاً گوگل 40 ہزار سرچ فی سیکنڈ کرتا ہے یعنی ایک روز میں ساڑھے تین  ارب۔

ویب سائٹwww.reviw42.com کے مطابق گوگل ستر ہزار سے زائد سرچ فی سیکنڈ  یعنی ایک دن میں پانچ ارب چالیس کروڑ۔

ویب سائٹ www.broadbandsearch.net کے مطابق سرچ کے حوالے  دوسرے سرچ انجن  کے مقابلے  میں گوگل  کا92.96 فیصد حصہ ہے۔

گوگل نے www.youtube.com کو 2006ء میں ایک ارب ساٹھ کروڑ ڈالر میں خریدا جو اب دنیا کا دوسرا بڑا سرچ انجن بن چکا ہے۔  یوٹیوب پر اب روزانہ ایک ارب  ویڈیوز دیکھی جاتی ہیں۔ 

گوگل  نے 2018ء میں اشتہار  کی مد میں 116 ارب ڈالر  سے  زائد  کا ریونیو کمایا۔

ویب سائٹwww.statista.com  کے مطابق 2020ء میں گوگل 80.5 فیصد ریونیوصرف اشتہار اور یوٹیوب سے  کمایا۔

 گوگل کے ملازمین کی تعداد پچاس ہزار سے زائد ہے۔

اس وقت گوگل کے سی ای او سندر پچائی  کا تعلق بھارت سے ہے۔ جس کی سالانہ تنخواہ دس ارب سے زائد ہے۔

گوگل کمپنی میں پرانے ملازمین کو گوگلرز کہا جاتا ہے جبکہ نئے ملازمین کو نوگلرز کہا جاتا ہے۔ دونوں ہی قسم کے ملازمین کو اپنے پالتو جانور دفتر لانے کی اجازت ہے اگر یہ جانور تربیت یافتہ ہیں اور دفتر میں گندگی نہیں کریں۔

 ذرائع: ڈی ڈبلیو ڈاٹ کام،عدنان خان،وکی پیڈیا،ڈیلی پاکستان ڈاٹ کام،بی بی سی ڈاٹ کام،ایکسپرس ڈاٹ پی کے۔



ہفتہ، 20 فروری، 2021

دنیا میں بولی جانے والی زبانیں

 

دنیا میں  بولی جانے والی زبانیں

زبا ن کی تعریف:

 بولنے، بات کرنے، اپنے احساسات، جذبات وخیالات کو دوسروں تک پہنچانے  کے صوتی اور لفظی وسیلے کو زبان کہتے ہیں۔

مادری زبان:

مادری زبان کسی بھی شخص کی وہ زبان ہوتی ہے جو اسے اپنے گھر اور خاندان سے ورثے میں ملتی ہے۔مختلف اعداد و شمار کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ بولی جانے والی مادری زبان چینی ہے جسے دنیا کی 16 فیصد آبادی یعنی 1 ارب 20 کروڑ افراد بولتے اور سمجھتے ہیں۔
اس کے بعد 42 کروڑ 50 لاکھ ہندی، 43 کروڑ ہسپانوی، 34 کروڑ انگریزی اور 20 کروڑ افراد عربی بولتے ہیں۔ پنجابی 11 اور اردو بولی جانے والی زبانوں میں 19 ویں نمبر پر ہے۔

دنیا میں بولی جانے والی زبانوں  کی تعداد:

ایک جائزے کے مطابق دنیا میں اس وقت کُل چھ ہزار آٹھ سو نو زبانیں بولی جاتی ہیں۔ ایک اور جائزے کے مطابق دنیا میں تقریباً 6500 زبانیں بولی جاتی ہیں جبکہ آکسفورڈ یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے مطابق دنیا بھر میں تقریباً 6 ہزار 9 سو 12 زبانیں بولی جاتی ہیں۔

دنیا میں بولی جانے والی بڑی زبانیں :

چین میں بولی جانے والی مینڈرین زبان آبادی کے لحاظ سے دنیا کی سب سے بڑی زبان سمجھی جاتی ہے جبکہ انگریزی زبان دوسرے نمبر پر آتی ہے۔ "اردو – ہندی" کو اگر ایک زبان تصور کیا جائے تو آبادی کے لحاظ سے تیسرا نمبر  اس کا بنتا ہے لیکن اگر ہندی کو الگ زبان کے طور پر دیکھا جائے تو عالمی زبانوں کی فہرست میں اس کا نمبر چھٹا بنتا ہے (پانچویں نمبر پر بنگالی ہے) اور اردو بائیسویں نمبر پر چلی جاتی ہے۔اس کے علاوہ عربی اور ہسپانوی زبانوں  کا شمار بھی بڑی  زبانوں میں ہوتا ہے ۔

سب سے زیادہ زبانیں  کہاں بولی جاتی ہیں:

گوگل رپورٹ کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ زبانیں پاپوانیوگنی میں بولی جاتی ہیں ،جن کی تعداد 820 ہے،دوسرے نمبر پر انڈونیشیا ہے ،جہاں لوگ 742 مختلف زبانیں بولتے ہیں،تیسرے نمبرپر نائیجریا ہے، جہاں کے  لوگ516 زبانوں میں بات کرتے ہیں۔ ایک اور روپورٹ  کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ 860زبانیں پاپوا نیو گنی، دوسرے نمبر پر انڈونیشیا جہاں  516  زبانیں  ،  تیسرے  نمبر  پر نائیجیریا  جہاں  425  زبانیں   بولی جاتی ہیں ۔

ربیکا سولنٹ اور جوشوا جیلی شاپیرو کی شائع کردہ ’’نان اسٹاپ میٹروپولس: اے نیویارک سٹی اٹلس‘‘ میں منفرد انداز سے جائزہ لے کر بتایا گیا ہے کہ نیویارک سٹی کے علاقے کوینز میں بولی جانے والی زبانوں کی تعداد سب سے زیادہ یعنی تقریباً 800 ہے۔ 460 مربع کلومیٹر رقبے پر پھیلے ہوئے علاقے کوینز کی آبادی 23 لاکھ 40 ہزار نفوس پر مشتمل ہے لیکن حیرت انگیز طور پر یہ لسانیاتی تنوع کے اعتبار سے صرف امریکا ہی نہیں بلکہ دنیا بھر میں سب سے بھرپور ہے۔ سولنٹ کے مطابق صرف کوینز میں جتنی زبانیں بولی جاتی ہیں اتنی دنیا کے کسی ملک میں ایک ساتھ نہیں بولی جاتیں۔

بھارتی اخبار کے مطابق 1903 ءسے 1928ءکے دوران کئے گئے انڈین سول سروس کے افسر گریرسن کے سروے میں بتایاگیا تھاکہ بھارت میں 733 زبانیں بولی جاتی ہیں، اب مزید 47 نئی زبانیں دریافت ہوئی ہیں ،جس کے بعد ملک میں 780 زبانیں بولی جاتی ہیں۔

 پاکستانی ماہرین لسانیات کے مطابق ملک میں مختلف لہجوں کے فرق سے 74 زبانیں بولی جاتی ہیں۔

 

ایک سے زیادہ ممالک میں بولی  جانے والی زبانیں:

زیادہ ممالک  میں بولی جانے والی زبانوں کی درجہ بندی:

نمبر شمار

زبان

ممالک کی تعداد

1

انگریزی

59

2

فرانسیسی

29

3

عربی

25

4

ہسپانوی

24

5

رشین

12

6

پرتگالی

11

12

جرمن

7

13

اطالوی

6

14

چینی

4

15

ڈچ

3

 

انٹرنیٹ  پر زبان  کے  استعمال کے لحاظ درجہ بندی:

زبان کے لحاظ سے انٹرنیٹ استعمال  کرنے  والوں کی درجہ بندی کچھ یوں ہے:

نمبر شمار

زبان

تعداد

1

انگریزی

1،186،451،052

2

چینی

888،453،068

3

سپینش

363،684،593

4

عربی

237،418،349

5

پرتگیزی

171،750،818

6

انڈونیشین/ ملائیشین

198،029،815

7

فرنچ

151،733،611

8

جاپانی

118،626،672

9

رشین

116،353،942

10

جرمن

92،525،427

 

 ختم ہوتی زبانیں:

اقوام متحدہ کے مطابق دنیا بھر میں ہر 2 ہفتے میں ایک زبان اپنی تمام تر ثقافت اور ادب سمیت  ختم ہوجاتی ہے۔نوے فیصد زبانیں ایسی ہیں جن کے بولنے والوں کی تعداد ایک لاکھ سے کم ہے۔ 537زبانیں ایسی ہیں جن کے بولنے والے پچاس سے بھی کم رہ گئے ہیں، لیکن زیادہ افسوس ناک حالت ان 46 زبانوں کی ہے جو آئندہ چند برسوں میں ختم ہونے والی ہیں کیونکہ ان کو بولنے والا صرف ایک ایک انسان باقی ہے۔ایک سروے کے مطابق بھارت میں قدیم ترین زبان سنسکرت بولنے والوں کی تعداد 10 ہزار رہ گئی ہے۔ اندازہ ہے کہ گزشتہ ایک صدی کے دوران بھارت میں ایک سو سے دو سو زبانیں  ختم ہو چکی ہیں۔آکسفورڈ یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے مطابق دنیا بھر میں 516  زبانیں ناپید ہوچکی ہیں۔ یونیسکو کے مطابق ہر 14 دن بعد دنیا میں بولی جانے والی ایک زبان  ختم ہوجاتی ہے۔
ذرائع:بی بی سی ڈاٹ کام،اردوصفحہ ڈاٹ پی کے،روزنامہ جنگ،اردو پوائنٹ ڈاٹ کام،ساٹیسٹا ڈاٹ کام،ورلڈ وائڈ سٹیٹس ڈاٹ کام،اردوڈاٹ سیاست ڈاٹ کام،اردو نوٹس ڈاٹ کام۔