پیر، 31 اکتوبر، 2016

سلطان نورالدین محمود زنگیؒ کا حضور اکرمﷺ کے جسد مبارک کی حفاظت کرنا


سلطان نورالدین محمود زنگیؒ بظاہر  ایک جنگجو  اور مجاہد حکمران تھے۔ مگر در پردہ وہ ایک نہایت  عابدو زاہد انسان تھے۔عام مسلمانوں کی طر ح وہ پانچوں وقت باجماعت نماز ادا کر تے ، رمضان المبارک کے پورے روضے رکھتے ۔ لیکن سلطان کا ایک پوشیدہ عمل یہ بھی تھا کہ وہ ہر رات سرور کونین ﷺ پر بڑے پر سوز لہجے میں  دورد وسلام بھیجتے تھے ۔یہاں تک کہ ان کی آنکھوں سے آنسوجاری ہو جاتے  پھر وہ اسی حالت میں سو جاتے ۔ ہر اہل ایمان کی طرح  سلطان نورالدین زنگی ؒ  کی بھی ایک ہی خواہش تھی کہ کسی دن خواب میں حضور اکرم ﷺ  انہیں بھی اپنے دیدار سے مشرف فرمائیں۔ سلطان کا یہ عمل برسوں سے جاری تھا ۔
557ھ کی ایک رات  جب وہ سوئے تو دیدار مصطفی ﷺ سے ان کی تشنہ آرزو  سیراب ہو گئی۔ سرور کونینﷺ فرما رہے تھے کہ " نورالدین:یہ دونوں آدمی مجھے ستا رہے ہیں ۔ جلدی اٹھو اور ان کے شر کا خاتمہ کرو۔" سر کار دوعالمﷺ کی زیارت کے بعد  سلطان نورالدین زنگیؒ کو  دو اور نورانی چہر ے نظر آئے ۔ ان دونوں کی بڑی بڑی داڑھیاں تھیں  اور رنگ بہت زیادہ گورا تھا۔ پھر دو نورانی چہر ے بھی غائب ہو گئے۔
سلطان نورالدی زنگی ؒ  کی آنکھ کھل گئی اور وہ گھبرا  کر اٹھ بیٹھے ۔ بہت ہی عجیب خواب تھا ۔ ایک حضور اکرم ﷺ نے سلطان عاد ل کو اپنی زیارت سے بھی شرف یاب کیا اور شکایتا یہ بھی فرمایا تھا کہ دو آدمی آپﷺ کو ستا رہے ہیں۔ سلطان نور الدین زنگیؒ اس خواب  کی تعبیر سمجھنے سے قاصر رہے ۔ پھر ان پر وحشت طاری ہو گئی اور وہ رو رو کر رات بھر توبہ استغفار کر تے رہے یہاں تک کہ فجر کی آذان ہو گئی پھر سلطان نورالدین زنگی ؒ نے نماز ادا کی ۔ کچھ دیر حسب معمول قرآن مجید کی تلاوت کر تے رہے  اس کے بعد دربار آراستہ کیا ۔ یہ وہ زمانہ  تھا جب سلطان دمشق میں مقیم تھے۔
امرائے دربار نے بڑی حیرت سے سلطان عاد ل کی طر ف دیکھا ۔ وہ خلاف توقع بجھے بجھے نظر آ رہے تھے حاضرین  دربار نے سلطان کی  اس کیفیت کو طبیعت کی ناسازی پر محمول کیا ۔پھر تھوڑی ہی دیر بعد سلطان عاد ل کے پاس ایک اہم مقدمہ پیش کیا گیا۔ والئی شام کچھ دیر تک دونوں فریقین کے بیانات سنتے رہے ۔ لیکن امراء نے محسو س کر لیا کہ سلطان ذہنی طور پر دربار میں موجود نہیں ہیں اور مقدمے کی سماعت کے دوران کہیں کھو جاتے ہیں۔پھر یکا یک سلطان خود ہی  اٹھ کھڑے ہوئے اور امرائے دربار سے مخاطب ہوتے ہوئے بولے ۔"اس وقت ہمارا ذہن حاضر نہیں ہے ۔ یہ مقدمہ پھر کسی دن پیش کیا جائے ۔"سلطان عادل کے مصاحب خاص  اسد الدین شیر کوہ (سلطان صلاح الدین ایوبیؒ  کے چچا) معتمد خاص یوسفؒ (سلطان صلاح الدین ایوبیؒ) تیزی سے آگے بڑھے اور سلطان کے پیچھے پیچھے چلنے لگے ۔ سلطان نور الدین زنگی ؒ دربار سے نکل کر دمشق کے محل میں چلے گئے ۔
سپہ سالار اسدالدین شیر کوہ   نے بصد احترام عرض کیا  " سلطان عادل  کی طبیعت کچھ ناساز معلوم ہوتی ہے؟""ہاں کچھ ایسا ہی ہے" سلطان نے کھوئے کھوئے لہجے میں کہا  ۔ ان کے چہر ے کی افسردگی میں اضافہ ہو گیا تھا۔"اگر اجازت ہو تو طبیب خا ص کو طلب کیا جائے" اسد الدین شیر کوہ  نے گھبرائے ہو ئے لہجے میں کہا ۔"اس معاملے میں طبیب کچھ نہیں کر سکتا "سلطان نے پر سوز لہجے مٰیں کہا۔"تم ایسا کر و کہ  فوری طور پر دمشق کے تمام غریبوں میں کپڑے، اناج اور زر نقد تقسیم کر دو۔  اس بات کا خاص خیال رکھا جائے کہ کوئی غریب  ان صدقات سے محروم نہ رہے۔"
پھر جب اسد الدین شیر کو ہ اور یوسف (سلطان صلاح الدین ایوبیؒ) خلوت سلطانی سے جانے لگے تو  سلطان نورالدین محمود زنگی ؒ نے ان دونوں کو روک کر مزید  ہدایت دیتے ہوئے کہا "جب تم ضرورت مند وں میں صدقات تقسیم کر نے لگو تو ان سے یہ درخواست بھی کر نا  کہ  وہ اپنے سلطان کے لیے دعا کریں۔" 
اسدالدین شیر کوہ اور یوسف (سلطان صلاح الدین ایوبیؒ) نے سلطان کے اس حکم کو بڑی حیرت سے سنا اور خلوت گا ہ سے نکل کر چلے گئے ۔پھر جب وہ دونوں دمشق کے غریبوں میں صدقا ت تقسیم کر رہے تھے تو ایک ہی خیا ل ان کے ذہن میں گردش کر رہا تھا کہ سلطان کی گزشتہ بیماری ابھر آئی ہے  جسے سلطان عاد ل اپنی بے پناہ ہمت کے سبب امرائے سلطان سے چھپارہےہیں۔"ہمیں کسی سنگین صو'رت حال  کے لیے تیار رہنا چاہیے۔"اسدالدین شیرکو ہ  نے انتہائی راز داری سے اپنے بھتیجے یوسف (سلطان صلاح الدین ایوبیؒ) کو مخاطب کر تے ہو ئے کہا ۔
اسدالدین شیر کو ہ اور یوسف(سلطان صلاح الدین ایوبیؒ) اس مخصو ص کمر ے میں داخل ہوئے جہاں سلطان نورالدین محمود زنگیؒ آرام کر رہے تھے ۔ اس وقت بھی  سلطان عادل کا چہر ہ بجھا بجھا ہوا تھا اور کسی گہری سوچ میں گم تھے اپنے سپہ سالار اور معتمد خاص کو دیکھ کر اٹھ کھڑے ہوئے ۔"سلطان عاد ل کے  حکم کے مطابق صدقا ت غریبوں اور مسکینوں میں تقسیم کر دیئے گئے"۔ اسد الدین شیرکو ہ نے بصد احترام عرض کیا۔"دمشق کے سارے باشندے سلطان عادل کی سلامتی جا ن اور  عظیم الشان فتوحات کے لئے  دست بہ دعاہیں۔"یہ سن کر سلطان نورالدین محمود زنگیؒ کے ہونٹو ں پر اداس سی مسکراہٹ آئی۔"اللہ تعالیٰ تمام اہل ایمان کو جزائے خیردے۔ مجھ ناتواں کو جس قدر فتوحات حاصل ہوئیں وہ سب اسی قادر مطلق  کے رحم وکر م کا صدقہ تھیں ۔ اب تو بس ایک ہی آرزو ہے  کہ بیت المقد س میں  حاضر ہو کر خطبہ دوں  اور اپنے اللہ تعالیٰ کی کبریائی بیان کر تا ہوا رخصت ہو جاؤں۔""وہ دن بھی ضرور آئے گا سلطان عادل ۔"یوسف(سلطان صلاح الدین ایوبیؒ) نے کسی قدر پر جوش لہجے میں  کہا "مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو اس سعادت سے بھی محروم نہیں رکھے گا۔ ""یہ تو وہی جانتا ہے کہ کون بامراد ہو گا اور محرومی کس کا مقد ر بنے گی؟"سلطان نور الدین محمود زنگیؒ کا لہجہ کچھ اور اداس ہو گیا۔"اب آپ کی طبیعت کیسی ہے "سلطان کی مایوسانہ گفتگو سے اسدالدین شیرکوہ کی تشویش بڑھ گئی۔"ہماری گزارش ہے کہ آپ اس  سلسلے میں کسی قسم کی کوتاہی نہ برتیں  اور بلاتاخیر طبیبان خاص سے مشور ہ کر لیں ورنہ ہم زندگی بھر یہ سوچ کر شرمندہ رہیں گے کہ ہم نے اپنا فر ض منصبی ادا نہیں کیا۔"سلطان نورالدین زنگیؒ نے اپنے دونوں معتمدہ خاص کو مخاطب کر تے ہوئے کہا  "تم مستعدی کے ساتھ اپنی سرحدوں کی نگرانی کرو اور سختی کے ساتھ بند گان خدا  کے حقوق ادا کر تے رہو  میں نے اپنا معاملہ طبیبی حقیقی کے سپرد کر دیا ہے ۔وہی میر ی بیماری کے جاننے والا ہے  اور وہی شفا دینے والا ہے۔ "اسدالدین شیر کوہ اور یوسف(سلطان صلاح الدین ایوبیؒ)سلطان عادل کے جواب سے مطمئن نہیں تھے ۔ ان کے خیال میں بیماری کے موقع پر دعا کے دوا  کا جاری رکھنا بھی ضروری تھا ۔ مگر وہ حاکم وقت کے ساتھ مزید بحث نہیں کر سکتے تھے ۔ مجبورا مختلف اندیشو ں میں گھر ئے ہوئے سلطان کی خلوت گا ہ سے نکل گئے۔
دوسری رات آئی سلطان نورالدین زنگی ؒ  نماز عشاء کے بعد حسب معمول سرور کونین ﷺ کی بارگا ہ میں درد وسلام بھیجا۔اس دوران سلطان کی آنکھو ں اشکوں کا سیل رواں جاری تھا ۔پھر اسی گریہ زاری  کی حالت میں دعا کر تے ہوئے سو گئے۔ پھر جیسے ہی سلطان نورالدین زنگی ؒ کی آنکھ لگی ، خواب میں وہی منظر دوبارہ ابھر آیا۔رسالت مآب ﷺسلطان کو مخاطب کر کے فرما رہے تھے "نورالدین : یہ لوگ مجھے بہت ستا رہے ہیں ۔ جلدی اٹھو ااور ان کےفتنہ و شر کا خاتمہ کر و" اتنا فرما کر سرکار دوعالم ﷺ تشریف لے گئے ۔ اس کے بعد خواب کا دوسرا منظر ابھرا  وہی دو نورانی چہر ے ۔ لمبی لمبی سفید عبائیں ، سفید داڑھیاں وہی دلکش خدوخال  جن سے انتہائی معصومیت جھلک رہی تھی۔  پھر کچھ دیر بعد دونوں چہر ے بھی غائب ہو گئے۔ گھبرا کر سلطان نورالدین زنگی ؒ کی آنکھ کھل گئی ۔ پورا جسم پسینے سے شرابور تھا ۔ پیغمبر اسلام ﷺ کی زبان مبار ک سے ادا ہونے والے مقد س کلما ت  کی باز گشت پھر سنائی دی۔ "نورالدین یہ لوگ مجھے بہت ستا رہے ہیں ۔"سلطان نورالدین زنگی ؒ   کے جسم پر لرزہ طاری ہو گیا  اور آنکھوں سے آنسو بہنے لگے  سلطان عاد گھبر ا کر سجدے میں چلے گئے ۔پھر اس وقت تک گریہ زاری  کے ساتھ  اس وقت تک توبہ استغفار کر تے رہے  جب تک آذان فجر نہ ہو گئی۔
دوسرے سلطان عاد ل نے پہلے سے زیاد ہ صدقا ت غریبوں میں تقسیم کرائے۔سلطان کو اس خواب نے اس قدر رنجید ہ کر دیا تھا وہ کمر ے سے با ہر نہ نکل سکے  اور نہ دربار آراستہ کیا ۔ سلطان کی اس گوشہ نشینی سے سے امرائے سلطان میں شدید اضطراب پیدا ہو گیا ۔ تمام عہد داران سلطنت  سلطان نورالدین زنگی ؒ سے ملاقات کر نے  صورت حال جاننا چاہتے تھے  مگر سلطان عاد ل نے ملنے سے انکار کر دیا ۔ سارا دن کمر ے میں رہے ۔ یہاں تک کھانا بھی برائے نام کھایا ۔ تمام وقت عباد ت کے ساتھ یہ دعا کر تے رہے۔ "ائے اللہ :اپنے عاجز و ناتواں بندے  کو ہدایت دے اور میر ی مشکل کشائی فرما۔"
پھر تیسری رات بھی سلطان نورالدین زنگیؒ نے  وہی خواب دیکھا ، ہدایت مل چکی تھی ۔ خواب ٹوٹا تو سلطان عادل کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے ۔ والئ شام بستر سے اترے اور مدینہ منورہ کی طرف رخ کر کے  دست بدستہ کھڑے ہو گئے پھر نہایت رقت امیز  لہجے میں عرض کرنے لگے "اس غلام کے ہوتے ہوئے یہ ممکن نہیں  کہ کوئی ملعون  و بدبخت میرے آقا ﷺ اذیت پہنچائے ۔"
دوسرے دن سلطان نورالدین محمود زنگیؒ نے اسدالدین شیر کوہ  اور یوسف (سلطان صلاح الدین ایوبیؒ) کو اپنی خلوت گاہ میں طلب کیا ۔ پھر رازدارنہ طور پر اسدالدین شیر کوہ  دمشق کا منتظم اعلیٰ  مقر ر کیا اور بیس معتمد امراء  کو اپنے ساتھ لے کر دمشق سے نکل کھڑے ہوئے  ان امراء میں یوسف (سلطان صلاح الدین ایوبیؒ) بھی شامل تھا ۔فوج کا ایک دستہ چند میل آگے تھا  اور دوسرا چند میل پیچھے ۔درمیان میں سلطان نورالدین محمود زنگیؒ اپنے امراء کے ساتھ سفر کر رہے تھے۔آگے جانے والے فوجی دستے کو صرف اتنا معلوم تھا کہ ان کی منزل مدینہ منورہ ہے۔ باقی فوج اور امراء اس راز  سے بے خبر تھے کہ سلطان عادل کے ارادے کیا ہیں ۔سب ایک دوسرے سے آنکھوں ہی آنکھو ں سے سوال کر رہے تھے۔ مگر کسی کے پاس اس سوال کا کوئی جواب نہیں تھا  اور کسی میں اتنی جرات بھی نہیں تھی کہ سلطان عادل سے اس سفر کا مقصد معلوم کر سکے۔ سلطان نورالدین محمود زنگی ؒ کی طر ف سے تمام امراء اور سپاہیوں  کے لئے ایک ہی حکم جاری ہو اتھا  کہ راستے میں کم سے کم آرام کریں اور اپنے گھوڑوں کی رفتا ر تیز رکھیں۔
دمشق سے مدینہ منورہ پہنچنے میں 25 دن لگتے تھے مگرسلطان نورالدین محمود زنگیؒ اور ان کے لشکر  نے یہ طویل فاصلہ اپنی تیز رفتاری کے سبب 15 دن میں طے کیا اور سولہویں دن نماز فجر کے بعد  سلطان عادل اور ان کی پوری فوج گھوڑوں سے اتر کر مدینہ منورہ کی حدود میں داخل ہوئی۔ یہ اس ارض مقد س کا احترام تھا۔ مشہور فقہیہ و محدث حضرت امام مالکؒ  اس خیال سے زندگی بھر مدینہ منورہ میں ننگے پاؤں پھرا کر تے تھے  کہ کہیں ان کے جوتے اس مقام پر نہ پڑ جائیں جہاں حضور اکرم ﷺ گزرے ہوں۔
سلطان نورالدین محمود زنگی ؒ کی اچانک آمد کی خبر سن کر گورنر مدینہ سلطان  عاد ل کے استقبال کو پہنچے  ۔ ان کی زبان پر بس ایک ہی سوال تھا ۔"آپ پہلے تو کبھی اس طر ح مدینہ منورہ حاضر نہیں ہوئے ۔آخر اس کی کیا وجہ؟"
سلطان نورالدین محمود زنگیؒ نے سرگوشی میں کچھ کہا جسے گورنر مدینہ حیر ت  زدہ رہ گئے ۔پھر سلطان عاد ل کے ہمراہ آئے ہوئے فوجی دستے  اور مدینہ منورہ کے سپاہیوں نے ملکر  پورے شہر کی ناکہ بندی کر دی  کسی گورنر کی اجازت کے بغیر مدینہ منورہ سے باہر جانے کی اجازت  نہیں تھی۔
پھر سلطان نورالدین محمود زنگیؒ نے گورنر مدینہ کی وساطت سے  ایک طویل و عریض میدان  کو عارضی طور پر قناتو ں  سے بند کرادیا۔ تمام امراء اور گورنر مدینہ سلطان عادل کے اس عمل پر حیران تھے۔ ان تمام کاموں سے فارغ ہونے کے بعد سلطان عادل نے گورنر مدینہ سے کہا "آپ اعلان کرا دیجئے کل ہماری طر ف سے تمام اہل مدینہ کی ضیافت ہے ۔سب لوگ ہمارے ساتھ کھانا کھاہیں گے  اور اس کے ساتھ یہ تنبیہ بھی کرا دیجئے کہ جو شخص اس دعوت میں شریک نہیں  ہو گا وہ سزا کا مستحق  قرار پائے گا۔ "
تھوڑی دیر بعد گورنر مدینہ کے ہرکارے  گلی گلی کوچے کوچے  یہ اعلان کر نے لگے ۔ بڑا عجیب اعلان تھا تمام اہل مدینہ حیرت زدہ رہ گئے ۔مگر اس حیر ت کے ساتھ انہیں مسرت بھی تھی  کہ وہ سلطان نورالدین محمود زنگیؒ جیسے نیک سیرت حکمران  کی دعوت میں شریک ہوں گے۔
پھر دوسرے دن جب طویل وعریض میدان مقامی باشندوں سے بھر گیا  تو انتہائی پر تکلف  اور لذیز کھانوں سے مہمانوں کی تواضع کی گئی اس دوران سلطان نورالدین محمود زنگیؒ اپنے امراء ،گورنر مدینہ اور دوسرے افسران مدینہ  کے ساتھ دروازے میں کھڑے ہو گئے ۔ جوشخص کھا نے سے فارغ ہو جا تا  وہ اسی دروازے سے باہر آتا۔ سلطان عادل اس شخص کو بڑے غور سے دیکھتے پھر جانے کی اجازت دے دیتے ۔دروازے پر موجود تما م امراء اور مدینہ منورہ کے تمام چھوٹے بڑے سرکار افسران بڑے حیران تھے  کہ آخر سلطان نورالدین محمود زنگی ؒ کو کس کی تلاش ہے؟پھر جب دعوت کا آخری مہمان بھی کھانا کھا کر چلا گیا تو سلطان عادل نے بڑی مایوسی سے اپنے سر کو جنبش دی۔ "ان میں سے تو کوئی بھی نہیں" سلطان نورالدین محمود زنگیؒ کےلہجے میں انتہائی اداسی جھلک رہئ تھی اور وہ چہر ے سے بہت زیاد ہ پریشان نظر آرہے تھے۔
"سلطان عادل آپ کسے ڈھونڈ رہے ہیں ؟" گورنر مدینہ نے سلطان عادل سے پوچھا ۔سلطان نورالدین زنگیؒ نے اپنے دل کی بات بتانے کی بجائے  گورنر مدینہ سے سوال کیا "آپ سمجھتے ہیں کہ میر ی دعوت میں اس ارض مقد س کے تمام  رہنے والے شریک ہوئے تھے؟""میرا تو یہی خیال ہے "گورنر مدینہ نے جواب دیا ۔"اس قدر سخت احکام جاری کیے گئے تھے کہ کوئی شخص شریک محفل  ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا۔"گورنر مدینہ کا جواب سن کو سلطان عادل بہت زیادہ پریشان نظر آرہے تھے ۔دیگر افراد بھی عجیب سی فکر میں مبتلا تھے کہ اچانک  مدینہ منورہ کے ایک انتظامی افسر  نے سلطان عادل کو مخاطب کر تے ہوئے کہا ۔"صرف دو افراد اس دعوت میں شریک نہیں ہوئے تھے ۔"سلطان نورالدین محمود زنگیؒ نے گھبرا کر اس شخص سے پوچھا  "وہ دونوں کون ہیں؟""سلطان عادل :وہ دونوں نہایت عابد وزاہد انسان ہیں۔"مدینہ منور ہ کے انتظامی افسر نے جواب دیتے ہوئے کہا "وہ دونوں تارک الدنیا لوگ ہیں دن رات عباد ت میں مصروف رہتے ہیں کسی دعوت میں شریک ہونا بڑی بات ہے وہ لوگوں سے ملنا بھی گورا نہیں کر تے  اگر انہیں کچھ وقت ملتا ہے تو وہ جنت البقیع میں لوگو ں کو پانی پلاتے ہیں ۔"ان دونوں نادیدہ افراد کا سن کر سلطان نورالدین زنگی ؒ کے چہر ے پر اطمینان  و آسودگی  کا رنگ ابھر آیا۔پھر سلطان عادل نے گورنر مدینہ سے کہا  کہ ان دونوں کو سر دربار پیش کیا جائے۔
پھر جب وہ دونوں عابد و زاہد انسان سر دربار لائے گئے تو سلطان نورالدین محمود زنگیؒ نےایک نظر میں انہیں پہچان لیا ۔ یہ وہی دونوں تھے  جن کے چہر ے سلطان عادل کو خواب میں دیکھا ئے گئے تھے اور سرکا ر دوعالمﷺ  نے ان ہی کے بار ے میں فرمایا تھا  کہ یہ لوگ مجھے ستا رہے ہیں۔ ان دونوں کو دیکھ سلطان نورالدین محمود زنگی ؒ جو اضطراب میں اپنی نشست سے کھڑے ہو گئے ۔ پھر بڑی مشکل سے سلطان عادل نے اپنے جذبات پر قابو پایا  اور ان نورانی چہر ے رکھنے والوں کو مخاطب کر تے ہوئے کہا
 "تم لوگ کون ہو اور مدینہ منورہ میں کیا کر تے ہو؟"
وہ دونوں سلطان نورالدین محمود زنگی ؒ نے ناآشنا تھے اس لئے بے نیازی کے لہجے میں کہنے لگے
 "ہم قربت رسول (ﷺ) چاہتے ہیں  اس کے سوا ہمیں دنیا کی کوئی شے سے غرض نہیں۔"
سلطان نورالدین محمود زنگیؒ ان دونوں کا اندازہ گفتگو دیکھ چونک اٹھے ۔پھر سلطان عادل نے سخت لہجے میں  انہیں مخاطب کر تے ہوئے کہا
"تم اپنے بیان کی وضاحت کر و  کہ آخر کس طر ح رسول اللہ ﷺکی قربت تلاش کر تے ہو؟"
ان دونوں نے اسی بے نیازنہ لہجے میں جواب دیتے ہو ئے کہا ۔
"ہم نے روضہ رسول (ﷺ) کے قریب مکان کرا ئے پر لیا ہے اسی میں دن رات عبادت کر تے ہیں یا پھر گبند رسول (ﷺ)کی زیارت کرتے ہیں  تا کہ قلب و نظر کو سکون حاصل ہو۔ "
"سچ سچ بتاؤ تم لوگ کون ہو؟"
یکا یک سلطان نور الدین محمود زنگی ؒ کا لہجہ غضب ناک ہو گیا تھا۔
"کیا مسلمان کے علاوہ کوئی اور بھی روضہ رسول( ﷺ)کی قربت کا طلب گا رہو سکتا ہے ؟"
ان میں سے ایک نے بلند آواز میں کہا جیسے وہ سلطان عادل پر اپنے زہد و تقویٰ کا رعب ڈال رہا ہو۔
"تمہاری ظاہری شکلیں تو اہل ایمان کی سی ہیں مگر تم مجھے اند ر سے مسلمان نظر نہیں آتے ۔"
سلطان نورالدی محمود زنگیؒ کی آواز سے بدستورغصہ جھلک رہا تھا ۔
"ایک مسلمان کو زیب نہیں دیتا کہ وہ دوسرے مسلمان پر شک کرے ۔"
دوسرے شخص نے انتہائی ناگورا لہجے میں کہا ۔
"دلوں نیتوں کا حال تو  صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے ۔ "
"بے شک"
سلطان نور الدین محمود زنگیؒ  پر جلا ل لہجے میں کہا ۔
"مگر میں نے ایسا کوئی مسلمان نہیں دیکھا کہ جو رسول اللہ ﷺ کا نام لے اور ان کے اسم مقدس کے ساتھ ﷺ نہ کہے ۔ اتنی طویل گفتگو میں تم نے ایک بار بھی سرکار دوعالم ﷺپر درود وسلام نہیں بھیجا ۔پھر تم کس طر ح رسول اللہ ﷺ کی قربت کے طلب گار ہو سکتے ہو۔ حق تعالیٰ میری بدگمانی کو معاف کرے۔ مگر مجھے تمہارے اہل ایمان ہونے پر شک ہے۔"
یہ کہہ کر سلطان نورالدین محمود زنگیؒ اپنی مسند سے اٹھے  اور اپنے سپاہیوں کو حکم دیا "جب تک میں واپس نہ آؤں  ان دونوں کو اپنی تحویل میں رکھو  اور سخت نگرانی کرو۔ "پھر سلطان نورالدین محمود زنگیؒ اپنے امراء ، گورنر مدینہ اور دیگر مقامی افسروں کے ساتھ اس مکان پر پہنچے جہاں وہ دونوں عابد و زاہد انسان دن رات عباد ت کیا کر تے تھے ۔یہ ایک چھوٹا سا مکان تھا جس میں موجود مختصر سا سامان مکینوں کی زہدانہ زندگی  کی گواہی دے رہا تھا ۔ بظاہر وہاں کوئی قابل اعتراض شے نظر نہیں آ رہی تھی ۔ سلطان نورالدین محمود زنگیؒ ان دونوں کی طرف سے مطمن نہیں تھے ۔سلطان عادل نے کمر سے اپنی تلوار کھولی  اور تلوار سے مکان نے فرش کو زورزور سے ٹھوکنا شروع کر دیا ۔ پھر ایک جگہ انہیں چٹائی کے  نیچے فرش ہلتا ہوا محسوس ہوا ۔ سلطان نورالدین محمود زنگیؒ  بہت تیزی سے جھکے اورچٹائی کو الٹ دیا پھر سب کی آنکھوں کے سامنے ایک عجیب منظر تھا ۔چٹائی کے نیچے پتھر کی ایک چوڑی سل رکھی تھی ۔ سلطان نورالدین محمود زنگیؒ  نے اپنے امراء کو اس سل کو ہٹا نے کا حکم دیا ۔ جب وہ سل ہٹائی گئی تو ہر شخص حیرت زدہ رہ گیا ۔وہاں پتھر کے برابر ایک خلا ء موجود تھا  جو کسی سرنگ کی نشاندہی کر رہا تھا ۔
سلطان نورالدین محمود زنگیؒ پر چند لمحوں کےلئے سکتہ سا  طاری ہو گیا۔پھر سلطان عادل نے ایک مشعل روشن کر نے کا حکم دیا ۔ اس کے بعد سلطان عاد ل مشعل لے کر اکیلے اس سرنگ میں داخل ہوئے یہاں تک کہ کچھ دور جانے کے بعد وہ سرنگ ختم ہو گی پھر جو منظر سلطان نورالدین محمود زنگیؒ کے پیش نظر تھا اسے دیکھ سلطان عادل کے جسم پر لرزہ طاری ہو گیا اور بے اختیا ر آنکھوں سے آنسوبہنےلگے ۔
سر کار دوعالم ﷺ کے پائے اقدس نظر آرہے تھے ۔ سلطان عاد ل نے مضطر ب ہو کر اپنے دونوں ہونٹ پائے اقدس پر رکھ دیئے ۔ وہ قدم جنہیں چومنے کےلئے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ علیہم اجمٰعین بے چین رہتے تھے ، آج وہ عظیم سعاد ت سلطان نورالدین محمود زنگیؒ  کے حصے میں آئی ۔"ائے اللہ تعالیٰ:میں گناہ گار اس قابل نہیں تھا ۔" سلطان نورالدین محمود زنگیؒ  حضوراکرم ﷺ      کے پائے اقد س اپنی آنکھوں سے مل رہے تھے اور زاروقطار رو رہے تھے۔پھر جب سلطان عادل کا پورا چہرہ آنسوؤں سے دھل گیا تو انہوں نے آخر ی بار سردار انبیاء ﷺ کے مقد س قدموں کو چوما۔ اور الٹے پاؤ ں واپس لوٹے پھر جب سرنگ سے باہر آئے تو سارے امراء اور گورنر مدینہ اپنی اپنی جگہ ساکت و جامد کھڑے تھے ۔ پھر جب انہوں نے سلطان عادل  کی سرخ آنکھیں اور آنسوؤ ں سے بھیگا ہوا چہرہ دیکھا تو پریشان نظر آنے لگے ۔
پھر گورنر مدینہ کے استفسا ر کر نے پر سلطان عادل نےصرف اتناہی بتایا کہ وہ دونوں شیطان سرنگ کھو د کر میر ے آقاﷺ  کے مقد س قدموں تک پہنچ گئے تھے۔یہ سن کر تما م لوگوں کا خون کھول اٹھا ۔ مگر سلطان نورالدین محمود زنگیؒ  نے انہیں ضبط وتحمل  کی تلقین کی  اور دوبار مجرموں کو اپنے روبر و طلب کیا ۔
اب ان کے لئے کوئی راہ فرار نہیں تھی ۔ مجبورا انہیں اعتراف کر نا پڑا ۔"ائے سلطان:ہم یہودی ہیں اور اپنی قوم کی طرف سے تمہارے رسول (ﷺ) کا جسم اطہر چرانے پر مامور  ہوئے ہیں ۔ ہمارے نزدیک اس سے بڑھ کر کار ثواب کوئی اور نہیں ہے۔ لیکن افسوس تم نے ہمیں اس وقت  گرفتار کر لیا جب ہمارا تھوڑا ساکام باقی رہ گیا تھا ۔اگر ہمیں دو تین دن کہ مہلت مل جاتی توہم اپنے مقصد میں کامیاب ہوجاتے۔"
ان دونوں کی ناپاک گفتگو سن کا سلطان نورالدین محمود زنگیؒ  شدت سے غضب سے بے قابوہو گئے اور چیختے ہوئے ان سفید شیطانوں کو مخاطب کر کے کہنے لگے "تم اپنے ناپاک مقصد میں کس طرح کامیاب ہوسکتے تھے  جبکہ کہ تمہاری نقل و حرکت کی نگرانی وہ آنکھ کر رہی ہے جسے کبھی اونگھ بھی نہیں آتی ۔ "یہ کہہ کر سلطان عادل اپنی مسند سے اترے اپنی شمشیر بے نیام کی  اور دونوں کے سر قلم کر دیئے۔
پھر جب ان شیطانوں کی لاشیں ٹھنڈی ہو گئیں  تو سلطان نورالدین محمود زنگیؒ نے دوسرا حکم جاری کیا "ان دونوں کے سر نیزوں پر بلند کر کے ارض مقدس  کے گلی کوچوں میں پھراؤ  اور تشہیر کر و کہ اہل مدینہ  لوگو ں کے چہروں اور لباس سے دھوکہ نہ کھاہیں۔ "پھر جب دیار  سرکار دوعالم ﷺ کے رہنے والے ان مردودوں پر لعنت بھیج چکے تو سلطان نورالدین محمود زنگیؒ نے آگ جلانے کا حکم دیا ۔یہ آگ ایک وسیع میدان میں جلائی گئی  جہاں ہزاروں اہل ایمان یہ عبرت ناک منظر دیکھنے کے لئے جمع ہوئے تھے ۔پھر جب آگ کے شعلے بلند ہونے لگے تو سلطان نورالدین محمود زنگیؒ نےان دونوں یہودیوں کی لاشیں  اپنے ہاتھوں سے اٹھا کر  آگ میں ڈال دیں ۔پھر جب وہ راکھ ہو گئے تو سلطان نورالدین محمود زنگیؒ نے انہیں مخاطب کر تے ہوئے کہا ۔"یہ آگ تو بجھ گئی ۔مگر وہ آگ کبھی سر د نہیں ہوگئی جس کامزہ تم قیامت میں چکھو گے ۔ "
اس کے بعد سلطان نورالدین محمود زنگیؒ نے پورے مدینہ کو طواف کیا ۔ سلطان عادل ارض مقد س کے ہر گلی کوچے سے گزرے ۔ آنکھیں اشک برسا رہی تھیں  اور زبان سے بس ایک کلمہ جاری تھا۔ "میر ے آقا ﷺ:میں اپنی قسمت پر نازاں ہوں  کہ آپﷺ نے اس خدمت کےلئے  غلام کو منتخب فرمایا۔ "
طواف مدینہ کے بعد سلطان نورالدین محمود زنگیؒ نے اپنی نگرانی میں روضہ اطہر  کے چاروں طر ف اتنی گہری خندق کھدوائی  کہ پانی نکل آیا پھر اس خندق کو سیسے سے بھر دیا گیا ۔ یہ سیسے کی دیوار آج بھی حضوراکرم ﷺ کے روضہ اقد س کے گر د موجود ہے  اور انشاءاللہ قیامت تک موجود رہے گی۔
آج بھی اہل مدینہ سلطان نورالدین محمود زنگیؒ کا نام نہایت محبت و احترام سے لیتے ہیں  اور ان کا شمار ایسے برگزیدہ انسانوں میں کر تے ہیں جن پر خود سرورکونینﷺ نے اپنے اعتماد کا اظہار کیا اورعاشق رسولﷺ ہونے کی تصدیق فرمائی۔

1۔         (فاتح اعظم سلطان صلاح الدین ایوبیؒ، خان آصف ، صفحہ 134 تا 146)

مدینہ منورہ کی تاریخ


مدینہ طیبہ کا  پہلا نام یثرب تھا ۔ یثرب بن قابل حضرت نوح علیہ السلام  کے بیٹے سام  کے پو تے قابل  کا بیٹا تھا۔جو سب سے پہلے وہاں اترا۔ علامہ سمہودی ؒ کی تحقیق یہ ہے کہ حضر ت نو ح ؑ کے طوفان کے بعد سب سے پہلے یہی بستی آباد ہوئی۔حدیث مبارک:حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ جب کشتی نوحؑ سے 80 افراد اترے جہاں انہوں نے قیام کیا۔ وہ جگہ سوق الثمانین کہلائی۔ یہ لوگ وہاں بڑھے تو 72 زبانوں میں منقسم ہو گئے۔ ان میں سے ایک جماعت نے بذریعہ الہام عربی زبان وضع کی اور سر زمین مدینہ پاک میں سکونت اختیار کی۔ انہیں لو گوں نے سب سے پہلے یہاں زراعت کی اور کھجور کے درخت لگائے انہیں عمالقہ کہا جاتا ہے۔
علامہ سمہودیؒ کے بیان کے مطابق: سب سے پہلے عوض کا بیٹا عبیل یثرب میں آباد ہوا (اس سے معلوم ہوا کہ یثرب اس سےپہلے تھا)یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہاں سب سے پہلے یثرب بن فائتہ بن میلائل بن ارم بن عبیل بن عوص بن سام بن حضرت نوحؑ ہوا۔ اسی وجہ سے یہ یثرب کہلایا۔ علامہ سمہودیؒ کی ایک اور روایت ہے کہ حضرت موسیٰ اورحضرت ہارون ؑ دونو ں بھائی حج بیت اللہ کے لئے آئے تو دونوں نے مدینہ منورہ میں قیام فرمایا۔ ان دنوں یہ شہر یہود کامرکز تھا۔ احتیاط کے طور پر دونوں بھائیوں نے احد شریف کی چوٹی پر قیام کیا۔ احد شریف پر ہی سیدنا ہارون ؑ کا انتقال ہوا۔
کلبی نے لکھا کہ عبیل عاد بن عوس بن ارم بن سام مقام جحفہ جو مکہ اور مدینہ  کے درمیان آج کل میقات  احرام ہے یہاں رہتا تھا اس  کا بڑا خاندان تھا  عاربہ کے ایک قبیلے کا مورث اعلی تھا اور جس نے یثر ب کو آباد کیا وہ انہی میں سے تھا۔مسعود ی نے لکھا ہے کہ جس نے یثر ب کو آباد کیا وہ یثرب بن بائلہ بن مہابل بن بن عبل عوص تھا۔سہیلی نے لکھا ہے کہ  یثرب کو آباد کرنے والا عمالیق سے  یثرب بن مہلائل بن عوص بن عملیق تھا۔حدیث مبارک:ابی منذر فرماتے ہیں انہیں سلیمان بن عبداللہ بن حنظلہ نے بیان کیا ہے کہ جب سیدنا موسیٰ ؑ حج بیت اللہ کے لیے آئے تو مدینہ منورہ سے گزرہوا۔ اس مقام پر انہوں نے نبی کریم ﷺ کے شہر ہونے کے آثار پائے۔ ابن زبالہ لکھتے ہیں: جب عمالقہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں قیام پذیر ہوئے تو تکبرو سر کشی کرنے لگے ۔سیدنا موسیٰ ؑ نے فرعون کے غرق ہونے کے بعد ملک شام کو فتح کیا۔ یہاں کے موجودہ کنعانی ہلاک کر دیے گئے تو عمالقہ کو ہلاک کرنے کے لئے ایک بڑی فوج حجاز روانہ کی ۔ جب بخت نصر نے بیت المقدس پر  اور یہود کو ہلاک کیا تو قوم نے مشورہ کیا کہ امن کی جگہ عرب کے علاوہ کہیں نہیں ہو سکتی۔ چنانچہ ان کے احبار و علماء نے حضور سید عالم ﷺ کے متعلق پڑھا تھا کہ وہ ذات نخل کے شہر میں ظہور فرمائیں گے۔ چنانچہ شام سے نکلنے کے بعد جہاں انہیں ان صفات کا ظہور معلوم ہوتا ٹھہر جاتے۔ پھر مزید تحقیق کرتے گئے۔ یہاں تک کے یثرب کو تمام صفات مذکورہ سے مو صوف پا یا اور اس اپنا مستقل ٹھکانہ بنا لیا۔
حضور اکرم ﷺکی مدینہ آمد سے ایک ہزار سال پہلے تبع اول حمیری مدینہ منورہ سے گزرا ۔ تبع اول اور اہل مدینہ  اوس اور خزرج کے درمیان شدید جنگ رہی۔ تبع اول نے مدینہ پر چڑھائی کی اور اسے برباد کرنے کی قسم اٹھائی۔ علماء یہود نے کہا کہ تو ایسا نہیں کر سکے گا کیونکہ ہم نے اس کا نام تورات میں پڑھا ہے۔ یہ نبی آخرالزمان ﷺ کی بستی ہے۔ جو بنی اسماعیل میں سے ہوں گے۔ ہم یہاں نہیں جائیں گے۔ ہو سکتا ہم اس نبی محترم کی زیا رت کر لیں ۔ ورنہ ہمار ی قبروں پر تو کبھی نہ کبھی ان کے جوڑوں کا غبار پڑ ہی جائے گا۔ جوہمارے لئے کافی ہوگا۔ اس نے سبھی علماء کی رہائش کا اہتمام کر دیا اور ایک خط لکھ کر بڑے عالم کو دیا اور کہا جب حضور ﷺتشریف لائیں تو پیش کر دینا۔چنانچہ ایک ہزار سال بعد اس عالم کی نسل میں سیدنا ابو ایوب انصاری ؓ پیدا ہوئے۔
جب حضور ﷺکی جلوہ گری ہوئی تو آپ نے یہ خط حضرت ابو یعلیؓ کو دیا کہ حضور ﷺ کے سپرد کر دیں۔ حضور ﷺ نے ابو یعلی ؓ کو دیکھتے ہی فرمایا؛ابو یعلی ؓ تو ہے؟ عر ض کی جی ہاں؛ فرمایا تبع اول کا خط جو میرے نام ہے مجھے دے دو، ابو یعلیؓ  فرماتے ہیں میں یہ سن کر حیران رہ گیا اس اسے قبل میں آپﷺ کو پہچانتا نہ تھا۔ میں نے عرض کیا آپﷺکی صورت مبارکہ کا ہنوں جیسی نہیں پھر آپ نے مجھے کیسے پہچان لیا۔فرمایا میں محمد رسول اللہ ہوں۔ "لاؤ وہ خط" جب میں نے خط دیا تو پڑھ کر تین بار فرمایا، ترجمہ "تبع جی آیا نوں"۔
1۔      (المواہب الدنیہ،صفحہ 75)
2۔      (خلاصتہ الوفاء)
3۔     (وفاء الوفا، خلاصتہ الوفا، جذب القلوب)
4۔      (خلاصتہ الوفاء)
5۔      (تاریخ ابن خلدون)
6۔      (خلاصتہ الوفاء)
7۔      (وفاء الوفا، خلاصتہ الوفا، جذب القلوب)
8۔      (ثمرات الاوراق، وفاء الوفاء، جذب القلوب، مقدمہ میزان الادیان، بالفاظ متقاربہ  حجتہ اللہ علی العلمین، تاریخ ابن عساکر)

9۔      (مدینہ الرسولﷺ ، ابو النصر منظور احمد شاہ صاحب)

حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ


سلمان آپ کا نام ہے۔ ابو عبداللہ کنیت فارس کے ایک قصبہ جئیی کے رہنے والے تھے آپ کی عمر اڑھائی سو سے ساڑھے تین سو سال کے  درمیان تھی۔بعض اہل سیر کے مطابق آپ نے حضر ت عیسی علیہ السلام کےحواریوں کا زمانہ پایا ہے۔ آپ فرماتے ہیں میرے والد بستی کے نمبردار تھے۔آتش کدہ کی نگرانی میرے سپرد تھی۔ایک دفعہ میں ایک گرجا کے قریب سے گزرا تو ان کی دعا ہو رہی تھی جس نے میرے  دل پر اثر کیا اور میں نے یقین کر لیا یہ عقیدہ بہتر ہے۔میں نے اپنے والد کو کہا کہ دین نصرانیت حق ہے۔ بس پھر کیا تھا مصائب کے پہاڑ ٹوٹ پڑے اور مجھے گھر میں بند کر دیا۔  ایک قافلہ کے ساتھ شام بھاگ گیا اور وہاں جا کر پوچھا یہاں بڑا عالم کون ہے؟ لوگ کے کہنے پر میں ایک بڑے پادری کے پاس چلا گیا اور اپنی داستان سنائی میں اس کے پاس رہا مگر وہ اچھا عالم نہیں تھا۔ حریض، طماع اور خائن تھا۔ اس کے مرنے پر لوگوں کو معلوم ہوا اس کے پاس سات مٹکے اشرفیوں سے بھرے ہو ئے تھے۔ لوگوں نے اس کی میت کوسولی پر چڑھا کر سنگسار کر دیا اور اس کی جگہ دوسرے عالم کو رکھا لیا جو نہایت عابد، زاہد،متقی اور شب دار تھا مجھے اس سے اس قدر محبت ہوئی کہ پہلے کیسی سے نہیں ہوئی جب اس کی موت کا وقت قریب آیا تو میں نے پوچھا اب کہاں حاضری دوں۔اس نہ کہا کہ موصل کے فلاں عالم کے پاس چلے جاو۔ جب اس کی بھی موت کا وقت آیا تو اس نے کہا نصیبین کے فلاں عالم کے پاس چلے جاو۔ جب اس کی موت کا وقت آیا تو میں نے پوچھا اب کیا کرنا چاہیے۔ اس نے کہا کہ میری معلوما ت کےمطابق آخرالزمان نبیﷺ کے ظہور کا زمانہ قریب ہے۔وہ کھجوروں کے علاقہ کی طرف ہجرت کریں گے۔اس پادری نے آپؓ کو یہ علامات بتائں
1      وہ صدقہ کا مال نہیں کھائیں گے۔
2      وہ ہدیہ قبول کر لیں گے۔
3     نخلستانی علاقہ کی طرف ہجرت کریں گے۔
4 دونوں شانو ں کے درمیان مہر نبوت ہو گی۔
ایک دفعہ ایک قافلہ عرب جا رہا تھا میرے پاس گائیں بکریاں جمع ہو گئ تھیں میں نے کہا کہ میں یہ سارا مال تمیں دے دوں گا مجھے  اپنے ستا تھ عرب لے چلو مگر انھوں نے مجھے غلام بنا کر وادی قریٰ کے ایک یہودی کے ہاتھ بیچ دیااس یہودی نے بنو قریظہ کےیہودی کے ہاتھ بیچ دیا یہ یہودی مجھے سر زمین مدینہ الرسول ﷺ میں لے آیا باغا ت دیکھے، کھجوریں مشاہدہ کیں۔ دل نے یقین کر لیا نخلستان تو پہنچ گیا ہوں
سیدنا سلمان ؓ فرماتے ہیں دیار محبوب ﷺ میں پہنچنے تک میں دس بار بکا اور میرے خریداروں نے بڑی بے رغبتی لا پرواہی سے چند ٹکوں میں خریدا۔میں اپنے یہود ی مالک کے باغ میں کام کرتا رہااورپھر حضوراکرم ﷺ ہجرت فرما کر مدینہ میں پہنچ گئے۔میں درخت پر شاخوں کی کانٹ چھانٹ کر رہا تھا ۔ میرا مالک نیچے بیٹھا ہوا تھا میرے مالک کا ایک رشتہ دار آیا اس نے کہا ۔ اللہ تعالیٰ انصار کو غارت کرے قبا کے اندر کسی شخص کو رسول و نبی مانے بیٹھے ہیں۔ وہ مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے آیا ہے۔ جب اس یہودی کی آواز میرے کانوں تک پڑی تو مجھ پر وجد طاری ہو گیا جسم میں اس قدر لرزہ ہوا کہ مجھے خطرہ ہوا کہ میں نیچے نہ گر پڑوں یہودی آپ کی حالت پر سخت متعجب ہوا۔میں نیچے اترا اور اس یہودی سے کہا یار کیا بات کر رہے تھے اب ذرا پھر بتا۔ میرے مالک نے ناراضگی کے ساتھ مجھے طمانچہ مارااور کہا تمہیں ایسی باتوں سے  کیا تعلق۔ چلو اپنا کام کرو۔ خبردار ایسی بات کی۔
پہلی علامت کی تصدیق
پہلی علامت نخلستان والی تھا جو مدینہ آتے ہی پوری ہوگئ تھی۔یہ پہلی تصدیق باعث اطمینان تھی۔
دوسری علامت کی تصدیق
دوسری علامت کے مطابق میں صدقہ لے کر قبا حاضر ہوا اور عرض کی حضورﷺ یہ صدقہ قبول کریں آپ کے  لیے اورآپ کے صحابہ ؓ کے لایاہوں قبول فرمائیں۔آپ نے فرمایا میر ے لیے صدقہ جائز نہیں اور صدقہ صحابہ کرام ؓ کے سپرد کر دیا میں نے منظر دیکھ کر یقین کر لیا کہ یہی رسولﷺ ہیں۔
تیسر ی علامت کی تصدیق
جب حضور اکرم ﷺ قبا سے مدینہ جلوہ گر ہوے تو پھرکچھ لے کر حاضر ہوا عرض کی حضورﷺ تو آپ صدقہ قبول نہیں کرتے اب ہدیا لایا ہوں قبول فرمائیں تو آپ نے قبول کر لیا تو میرا یقین مزید بڑھ گیا۔
چوتھی علامت کی تصدیق
ایک حضور اکرم ﷺ جنت البقیع میں ایک جنازہ کے ساتھ تشریف لے گئے میں نے جھک کر سلام کیا میں آگے سے اٹھ کر پشت مبارک کے پیچھے آکر بیٹھ گیا کہ مہر نبوت کی زیارت کر سکوں۔ حضور ﷺ میر ی اس کیفیت کو جان گئے۔ فورا پشت مبارک سے چادر اٹھا دی میں مہر نبوت کو دیکھا چوما اور رو دیا ۔ حضورﷺ نے فرمایا؛ سامنے آؤ میں سامنے آگیا۔
آپ اسلام قبو ل کرنے کے بعد بھی اپنے مالک کے با غ میں کام کرتے رہے۔ ایک دن حضورﷺ نے فرمایا؛ اے سلمانؓ اپنے آقا سے کتابت کر لو وہ تمہیں آزاد کر دے گا۔ آپ نے اپنے آقا سے بات کی اس نے کہاچالیس اوقیہ سونا ادا کردو اور تین سو درخت کھجوروں کے لگا دو جب وہ پھل دینے لگ جائیں تو تم آزاد ہو۔
سیدنا سلمانؓ نے سارا واقعہ حضور ﷺ سے عر ض کیا ۔ آپ نے صحابہ کرام ؓ  سے فرمایا سلمانؓ کے لیےپودوں سے امداد کرو۔کوئی دس لے آیا، کوئی بیس یہاں تک کے تعداد پوری ہو گئ۔ سلمان فارسیؓ سے فرمایا جاؤ گڑھے بنا کر رکھو پودے میں خود آکر لگاؤں گا۔گڑھے تیار ہو گئے۔ حضورﷺ تشریف لائے اور اپنے دستے مبارک سے پودے گڑھوں میں رکھ دیئے اور دعا برکت فرما دی۔ ایک سال بھی نہ گزرنے پا یا تھا  کہ باغ نے پھل دے دیا۔ تین سو پودوں میں سے ایک بھی ایسا نہ تھا جو خشک ہو گیا ہویا پھل نہ دیا ہو۔پھر ایک دن ایک شخص نے دربار رسالت ﷺ میں حاضر ہو کر سونے کی ڈلی پیش کی آپ نے فرمایا سلمانؓ کہاں ہے؟عرض کی حاضر ہوں۔ فرمایا سونا لے جاؤ اور اپنے مالک کا یہ بھی قرض بھی چکا دو۔ میں نے عرض کی کہ سونا تھوڑا ہے۔ فرمایا اللہ تعالیٰ اس سے تمہارا قرض ادا کر دے گا۔ چنانچہ سونا تولا گیا تو وہ ٹھیک چالیس اوقیہ تھا۔اس باغ میں کھجور کےدو درخت 75-1974  تک زیارت گاہوعوام و خواص بنے رہے 1976ء میں یہ دونوں درخت کا ٹ دیے گئے بلکہ جلا دیے گئے کہ لوگ ان کا ادب و احترام کرتے ہیں۔
جب آپ مدائن کے امیر  تھے تو ایک مرتبہ شام کا ایک تاجر کچھ سامان لے کر مدائن آیا۔تو حضرت سلمان فارسی ایک عام آدمی کی طرح سٹر ک پر پھر رہے تھے۔شام کے اس تاجر نے آپ کو  مزدور سمجھااور آپ سے کہا کہ گٹھٹر ی اٹھا لو۔ آپ نے کسی تامل اور توقف کے بغیر اس کو اٹھا لیا ، کچھ دیر بعد جب مدائن کے باشندوں نے آپ کو دیکھا تو اس شامی تاجر سے کہا کہ "یہ امیر مدائن ہیں" اس پر وہ تاجر بہت حیران ہوا اور شرمندہ بھی اور آپ سے معذرت کے ساتھ درخواست کی کہ وہ بوجھ اتار دیں ۔لیکن آپ راضی نہ ہوئے اور فرمایا کہ "میں نے ایک نیکی کی نیت کر لی ہے  اب جب تک وہ پوری نہ ہو یہ سامان نہ اتاروں گا " چنانچہ سامان کو منزل پر پہنچا کر ہی دم لیا۔
1۔      (طبقات ابن سعد، ص88، جلد4)
2۔      (جہاں دیدہ، مفتی تقی عثمانی ،ص51،52)

3۔      (مدینہ الرسولﷺ،ص 282 تا 290 ، ابو النصر منظور احمد شاہ صاحب) 

اتوار، 30 اکتوبر، 2016

زادہ راہ


زاد ہ راہ ان چیزوں کو کہتے ہیں جو سفر میں آپ اپنے ساتھ رکھتے ہیں یہ سامان آپ کی منزل نہیں ہوتا مگر یہ آپ کو منزل مقصود تک پہنچنے  میں معاون و مددگار ہوتا ہے ۔ دنیاکے تمام صوفی فکری طور پر اس مقام پر پہنچ  جاتے ہیں   انہیں یہ بات سمجھ آجاتی ہے کہ دنیا کا مال واسباب، آسائشیں، گھر ، گاڑی   یہ سب زادہ راہ ہیں  یہ منزل نہیں ہیں اس کے برعکس جتنے دنیا دار لوگ ہوتے ہیں وہ زادہ راہ کو اپنی منزل سمجھ لیتے ہیں ۔حضرت موسیٰ علیہ السلام اور فرعون  کی کہانی  ایک بہت بڑا  سبق ہے کہ تاریخ میں جب کبھی سمجھنا ہو  کہ کس کی سوچ موسیٰؑ جیسی ہے اور کس کی سوچ فرعون جیسی ہے  تو پھر زادہ راہ کو سمجھنا بڑا آسان ہو جاتا ہے ۔ جتنے بھی دنیا دار لوگ ہیں  وہ اس حقیقت تک نہیں پہنچ پاتے  کہ وہ تمام چیزیں جو زندگی میں آتی ہیں وہ تمام زادہ راہ ہیں  وہ کوئی منزل یا  مقام نہیں ہیں  جبکہ اس کے برعکس ایک صوفی  دنیاوی چیزوں کو معاونت کے طور پر استعمال کرتا ہے  اور منزل تک پہنچ جاتا ہے۔
جب ہم نظریہ ترجیحات  کو پڑھتے ہیں تو  پتا چلتا ہے کہ  دنیا میں بہت لوگ ایسے ہیں جو زندگی کا بڑا حصہ  گزارنے کے باوجود بھی ترجیحات کا تعین نہیں کر پاتے   انہیں یہ  نہیں پتا چلتا کہ زندگی میں اہم کیا ہے  اور کیا اہم نہیں ہے  ۔ اگر کسی بھی احمق کی آسان تعریف جاننا چاہیں تووہ یہ ہے کہ وہ ان چیزوں کو بہت زیادہ قدر دے گا  جو قدر کے لائق نہیں ہیں  اور کسی بھی سمجھ دار انسان  کی تعریف جاننی ہے تو وہ یہ ہے کہ وہ ان تمام چیزوں کو اہمیت دیتا ہے جو شائد دنیا کی نگاہ میں تو بے کار ہوں  لیکن اصل میں وہ بڑی ہی فائدہ مند ہیں ۔ سفر جس کو اگر زندگی کا سفر کہا جائے اس کی بڑی آسان سی تعریف  یہ ہے کہ پیدائش سے موت تک کا وقت سفر کا وقت ہے اور یہ زندگی کا سفر ہے اس سفر کے اندر وہ تمام چیزیں وہ تمام آسانیاں  جو ہمیں ملتی ہیں آخر کار ان کو چھوڑ کر جانا ہوتا ہے  یہ ہماری ساتھ نہیں جا سکتیں  سکندر اعظم نے دنیا فتح کی لیکن جب وہ مرنے لگا تو اس نے کہا  میرے دونوں ہاتھ کفن سے باہر نکال دینا تاکہ دنیا کو پتا لگ جائے  کہ دنیا کو فتح کرنے والا جب دنیا سے جاتا ہے تو خالی ہاتھ جاتا ہے ۔
جتنے بھی صوفیا کرام  ہیں وہ بڑی جلدی اس حقیقت تک پہنچ جاتے ہیں  کہ تمام دنیاوی چیزیں یہ معاون تو ضرور ہیں مگر یہ انجام نہیں ہیں ،یہاں کہانی ختم  نہیں ہوتی،  یہ حاصل نہیں ہے  جس حاصل پر دنیا دار فخر کرتی ہے ۔ ہمیں یہ ضرور دیکھنا چاہیے کہ وہ تمام قلعے اور محل جو سدا  رہنے کے لیے بنائے گئے تھے محل تو رہ گئے مگر ان قلعوں میں رہنے والے  فنا ہو گئے تاج محل محبت کی نشانی کے طور پر بنایا گیااس کو بنانے والے غرق ہو گئے  مگر تاج محل آج بھی موجود ہے  اس سے ثابت ہواکہ پتھروں کی زندگی زیادہ ہے  انسانوںکی زندگی کم ہے  ۔
زادہ راہ کی حقیقت کو سمجھنے کے بعد  دنیا کو چھوڑنا بڑا آسان ہو جاتا ہے  جو زادہ راہ کو نہیں سمجھتا اور وہ دنیا کے ساتھ جڑا ہوا ہے وہ آسانی سے چھوڑ نہیں سکتا  جیسے جسم پر ایک پھوڑا نکلا ہوتا ہے اس کو ختم  کرنے کے لیے سرجری کرنی پڑتی ہے   ۔ وہ تمام  لوگ جو زادہ راہ کی حقیقت کو نہیں سمجھ پاتے وہ کنجوس ہوتے ہیں ، تنگ دل ہوتے ہیں اگر آپ کا مال  یا کمائی آپ کے کام میں نہیں آ رہی  تو پھر ساری کمائی غرق ہو جائے گی  وہ مال جو بڑا سنبھال  کر رکھا ہے آپ دوسروں کو ایسے دے کر چلے جائیں گے  جیسے وہ کبھی آپ کا نہیں تھا  پھر  جب انسان تما م دنیا وی چیزوں کو چھوڑ کر  جاتا ہے تو یہ ساری چیزیں اس کے لیے حسرت بن جاتی ہیں ۔
ایک لمحے کے لیے سوچیں وہ تمام فکریں  جوہمارے ساتھ جڑی ہوئی ہیں ان کو ایک ٹرے میں رکھ دیا جائے اور سو سال پیچھے چلے جائیں تو ہم  دیکھیں گے اس وقت بھی جو ہماری طرح لوگ تھے ان کی فکریں بھی ہمار ی جتنی تھیں  وہ بھی چلے گئے  اور  ان  کے ساتھ ان کی فکریں بھی چلی گئیں، انکے ساتھ محبت کرنے والے بھی چلے گئے جن سے وہ محبت کرتے تھے  وہ بھی چلے گئے ۔ ہماری اپنے والدین سے محبت و شفقت ہوتی ہے  لیکن اگر ہمار ے سامنے ہمارے پڑدادہ آ جائیں  تو ہمیں ان سے محبت نہیں ہو گی  ہمیں یہ تو پتا  ہوگا  کہ ہم ان کی نسل ہیں  لیکن ان سے ہمار ا کوئی جذباتی تعلق  نہیں ہوگا  یہ اس لیے ہے کہ زمانہ بدل گیا ۔ لفظ انتقال پراپرٹی میں استعمال   ہوتا ہے اور اس کو زندگی میں بھی استعمال کیا جاتا ہے  اور کہاجاتا ہے کہ فلاں شخص انتقال کر گیا ہے  انتقال منتقل سے نکلا ہے  اس کا مطلب ہے یہ چیز کسی کی تھی اور اب کسی کی ہو گئی ہے   اسی طرح زندگی ہمیں ملی ہوتی ہے یہ ہم سے چھن جاتی ہے  کسی اور  کو مل جاتی ہے  اور یہ زندگی کا کارواں چلتا رہتا ہے  فقط ہم نہیں ہوتے  جو یہ سمجھ جاتا ہے کہ زندگی اتنی بے معانی سی چیزہے پھر وہ تمام دنیاوی چیزوں کو زادہ راہ بناتا  ہے  اور کوئی بڑا مقصد  حاصل کر لیتا ہے ۔
 زادہ راہ کی سب سے پہلی نشانی یہ ہے بندہ چھوٹے جھگڑوں میں نہیں پڑتا وہ چھوٹے جھگڑوں کو اپنی زندگی سے نکالنا شروع کر دیتا ہے  اس کی زندگی سے میں اور تو کے جھگڑے ختم ہوجاتے ہیں  کیونکہ اس کو پتا ہوتا ہے کہ جس کو وہ میں کہہ رہا ہے وہ اس کا نہیں ہے اور نہ وہ کسی کا رہنا ہےجب یہ پتا لگ جاتا ہے تو زندگی کو چھوڑنا آسان ہو جاتا ہے ۔حضرت واصف علی واصف ؒ فرماتے ہیں "باقی کی محبت بقا کی طرف لے کر جاتی ہے اور فانی کی محبت انسان کو فنا کی طرف لے کر جاتی ہے " یہ بہت بڑا ثبوت ہے زادہ راہ کو سمجھنے کے بعد کسی بڑی منزل کے مسافر بننے کا۔ اسی  رازکو  جب  حضرت علی بن عثمان الحجویرؒ نے پالیا  تو  ہزار سال  بعد بھی وہ  زندہ ہیں ، اسی راز کو حضرت بابا بلھے شاہ ؒ نےپالیا تو سینکڑوں سال بعد بھی  ان کا نام ہے، اسی راز کی  سقراط کو سمجھ آگئی کہ مجھے مارا جا سکتا ہے میر ی فکر ، سچ،سوچ ،بات اور خیال کو  نہیں مارا جاسکتا، ان نظریات اور عقائد کو ختم نہیں کیا جاسکتا  جو میں سوچتا ہوں۔
  کیا جسم کی موت فقط موت  ہے  یہ صر ف اس کےلیے موت ہے جو صرف مادی سطح پر جی رہا ہے جو فکری سطح پر جی رہا ہے اس کا جسم مرے بھی تو وہ شائد نہیں مرے گا کیونکہ اس کی سوچ نہیں مری اس کی سوچ میں اتنی طاقت ہو تی ہے کہ وہ صدیوں پر محیط ہو جاتی ہے آنے والے وقت میں اس سوچ کے کئی محافظ پید ا ہو جاتےہیں  وہ زمانوں پر راج کرتی ہے  ۔انسان کی  جسمانی عمر شائد چند سال ہے لیکن نظریات کی عمر جسمانی عمر سے زیادہ ہوتی ہے دنیا کے بہت سارے  ایسے نظریات  ہیں جو آج تک قائم ہیں آج بھی ہم ڈھونڈنے جائیں تو ہمیں عدل پہ ایسا جملہ نہیں ملے گا  کہ کوئی شخص یہ کہہ دے کہ "دجلہ وفرات کے کنارے اگر کتا مر جائے تو عمر اس کا جواب دہ ہے"آج بھی ہم بہادری ڈھونڈنے جائیں  تو تاریخ میں یہ جملہ کہیں نہیں ملے گا کہ "شیر کی ایک دن کی زندگی گیڈر کی سوسالہ زندگی سے بہتر ہے"بڑے بڑے نام تو چلے گئے  لیکن ان کی سوچ اب بھی باقی ہے دنیا میں جہاں کہیں بھی قانون پڑھایا جاتا ہے تو حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کا نام آتا ہے اور کہاجاتا ہے  کہ ان سے بڑا منصف  کوئی نہیں آیا ۔
جب سوچ  اور فکر کو دوام ہے تو کیا ہماری سوچ اور افکار اس قابل ہیں کہ صدیوں بعد زندہ ہوں گے کیا وہی روٹی کے جھگڑے ، وہی چھوٹے چھوٹے مسئلے، ٹکے ٹکے کے عشق مجازی، صرف بچے پالنے کے لیے حرام کمانا، فقط گھر بنانے کےلیے دھوکہ دینا، چھوٹی سی گاڑی لینے کے لیے چار لوگوں سے ہاتھ کر دینا ۔ کیا یہ سوچ اس قابل ہے کہ اگر اس سوچ کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش کیا جائے تو قبول ہو جائے گی ؟۔۔۔۔۔۔ کیا یہ سوچ اس قابل ہے کہ ہم اس  پر شکر ادا کر سکیں ، کیا یہ فکر خودہی چل رہی ہے  یا شعور ی طور پر چل رہی ہے  کیا اس پر  فخر کیا جا سکتا ہے ، کیا یہ سوچیں اس قابل ہیں کہ کسی کو بتائی جا سکیں، کیا یہ سوچیں ایسی ہیں  کہ اس سوچ کے سفر میں کسی کو شامل کیا جا سکے ، کیا یہ سوچیں اس قابل ہیں اگر ہمارے ماں باپ کے سامنے  سوچیں کھولنی پڑیں شرم تو نہیں آنے لگ پڑے گی ۔ اگر ہم فخر اور اللہ تعالیٰ کے شکر کے ساتھ اپنی سوچوں کو زمانے کے سامنے رکھنے کے قابل ہو جاتے ہیں تو پھر ہم عام انسان نہیں رہیں گے  اگر سوچیں اس قابل نہیں ہیں تو پھر توبہ کرنی چاہیے  اس نام پر تہجد پڑھنی چاہیے  کہ ائے میرے مالک مجھے اچھا سوچنا سیکھا، اے میرے مالک میری فکروں سے آزاد کر ۔
ہمیں زندگی میں یہ سوچنا چاہیے کہ   مادی چیزیں بہت ضرور ی ہیں  مگر یہی سب کچھ نہیں ہیں  یہ مادی چیزیں تو اقبال ؒ اور جناحؒ کے پاس بھی تھیں  مگر ان کی سوچ بڑی تھی  ان کا ٹارگٹ بڑا تھا ، ان کا مشن کا بڑا تھا ، ان کا کام اتنا بڑ ا تھا کہ وہ تمام چیزیں  جن پر لوگ  بڑے فخر کرتے ہیں ان کے لیے وہ فخر نہیں تھیں حضرت واصف علی واصف ؒ فرماتےہیں "بندہ اندر سے خالی ہو اس کے پاس حسن خیال نہ ہو تو وہ اپنی ہر مادی چیز کی تعریف چاہتا ہے" اگر کپڑوں کے اندر  کا انسان زبردست نہیں ہے تو  اسے ہر اس مادی چیز کی ضرورت پڑے گی جس کی دنیا میں تعریف ہوتی ہے ، اسے عہدے کی بھی ضرورت پڑے گی،اسے پروٹوکول کی بھی ضرورت پڑے گی، اس کا دل  کرے گا کہ سارے لوگ کھڑے ہوں،  اس کا دل کرے گا کہ اس کا نام لیا جائے، اس کا دل کرے گا کہ سارے اس کے آگے جھک جائیں یہ تب  تک ہوگا جب تک اس کے اندر کا  دیا روشن نہیں ہو جاتا ۔  ایلے شفک  کہتی ہے کہ "روشن اندر ہوتا ہے تو بندہ باہر سے روشن  نظر آتا ہے"یہ کتنی عجیب بات ہے  کہ آپ کی روشنی مستعار ہو آپ خود چمک ہی نہ رہے ہوں اور چمکنے کا ڈرامہ کر رہے ہوں اگر آپ کے سوچ اور  افکار  چمک رہے ہیں  تو پھر آپ خوش قسمت ہیں  آپ سمجھ گئے ہیں کہ یہ سب کچھ زادہ راہ ہیں۔
چیزوں کو چھوڑنا سیکھیں  کبھی ان میں جذبات نہ ڈالیں  چیزیں بیچتے اور دیتے ہوئے کبھی تکلیف نہیں ہونی چاہیے  جوچیز دوبارہ آ سکتی ہے اس کے لیے رونا نہیں چاہیے جبکہ زندگی میں ہم  کتنی چیزوں کے لیے روتے ہیں  حالانکہ وہ دوبارہ آ سکتی ہیں جبکہ جن چیزوں کےلیے رونا چاہیے اس کے لیے نہیں روتے ہمیں کوئی نہیں کہتا کہ خدا کے بندوں اگر ایمان نہیں ہے تو اس کے لیے التجاء کرواگر عشق رسول ﷺ نہیں ہے آنکھوں سے کبھی  ان کی یاد میں آنسو نہیں ٹپکے تو التجاء کرو اپنی عاجزی پیش کرو، اگر ضد اور اکڑ ہے تو اس کے لیے دعا کرو  کہ اے میرے مالک میں سر تو جھکاتا ہوں مگر وہ اندر سے نہیں جھکتا  میں سجدے تو کرتا ہوں  لیکن وہ سجدے صرف میر ی ٹکریں ہیں میرا وجود تو ہوتا ہے مگر میر ی روح شامل نہیں ہوتی ۔ اللہ تعالیٰ برداشت نہیں کرتا کہ بندہ بندے سے عشق کرے وہ کہتا ہے محبت ٹھیک ہے  لیکن عشق کے قابل صرف میں ہوں تو نے کیسے سمجھ لیا کہ اتنی  پرستش  کسی اور کی بھی کرنی ہے  جب بندہ ایسا کر تا ہے تو وہ اسی سے ذلیل کروا دیتا ہے وہ کہتا ہے جو تیری چاہ تھی وہ چاہ ہی غلط تھی اگر تو اس چاہت کی طرف آ جاتا ہے جو اصل چاہ تھی تو پھر یقین کر تیرا سر بھی فخر سے بلند ہوتا تیرے راستے بھی آسان ہوتے اور جن چیزوں کےلیے تو مر رہا تھا شائد وہ تیرے قدموں میں گری ہوئی ہوتیں لیکن تو نے ڈیل ہی چھوٹی کی  کہ وہ تمام چیزیں جو معتبر نہیں تھیں تو ان کو اتنا معتبر جانا توآج ان غیر معتبر چیزوں کے لیے خوار ہورہا ہے ۔
آج ہی فہرست بنائیں کہ  زادہ راہ کیا کیا ہیں آپ کوجان کر حیرت ہوگی کہ ایک لمبی  فہرست ہے  ، زادہ راہ سے دل نہ لگائیں دل کسی بڑے مقصد سے لگائیں  کسی انقلاب سے لگائیں  کسی بڑی سوچ سے لگائیں ۔ہدف بہت بڑا ہوناچاہیے کیا عجیب ہے کہ ہماری زندگی صرف ہم تک ہی ہو اور کیا عجیب ہے کہ ہماری کی زندگی سے کتنی زندگیا ں جنم لے لیں  کیا کمال ہے کہ ہماری زندگی  ہمارے کام نہ آئے اور کیا کمال ہے کہ ہماری زندگی سے کتنی زندگیوں میں معاونت پیدا  ہو جائے ،آسانیاں پید ا ہو جائیں ۔ جو کسی مقصد کے لیے مر تےہیں وہ مرتے نہیں ہیں اور جو بغیر مقصد کے جیتے ہیں وہ جیتے نہیں ہیں جن کی زندگی میں کوئی فہم ہے فراست ہے کوئی مقصد ہے کوئی شعور ہستی ہے  کوئی جواز ہستی ہے پھر وہ تمام چیزوں کو زاد راہ بنا کر آگے نکل جائے گااللہ تعالیٰ سے دعاہے  کہ ائے میرے مالک اگر ہستی ہے تو جواز ہستی بھی ہواگر زندگی ہے تو مقصد حیات بھی ہو۔

(Weekly Sitting “Zad e Rah” Syed Qasim Ali Shah)

جمعہ، 28 اکتوبر، 2016

سات درخت


1۔      معاش کا درخت
  ہم درخت سے دوچیزیں لیتے ہیں ایک چھاؤں  اور دوسرا پھل، چھاؤں ٹھنڈی ہوتی ہے  جبکہ پھل میٹھا ہوتا ہے  ، اگر ہمیں زندگی   میں ٹھنڈی   چھاؤں اور  میٹھے  پھل کو لینا ہے  تو ہمیں سات درخت لگانے پڑیں گے ۔ اس  شخص کی زندگی میں روشنی ہوگی  جس    کی زندگی میں سات درخت  ہیں ،لوگ زندگی میں سات درخت نہیں لگاتے  صرف ایک ہی  درخت لگاتےہیں  اور اسی  کو کامیابی سمجھتےہیں  اور اس  درخت کانام  ہے  معاش ۔  جب تک بقیہ  چھ درخت نہیں لگائیں گے کامیابی  نہیں ملے گی۔
 بگ بینگ   کے مفروضے کے مطابق  اس  کائنا ت  کی عمر یا   زندگی کی عمر چودہ  کھرب  سال  ہے  جبکہ اس  زمین  کی عمر چار کھرب  پانچ سو ارب سال  ہے  اور اس میں انسانی  زندگی   کی عمر پینتیس لاکھ ہے ۔ اتنے زیادہ وقت  میں  آج کے انسان  کے پاس صرف   ساٹھ برس ہوتے ہیں  ان ساٹھ  برس  میں  شعور والی زندگی  بہت تھوڑی ہوتی  ہے ۔جس کے پاس شعور ہوتا  ہے اس کے پاس قوت فیصلہ  ہوتی ہے  جبکہ شعور کا حساب  ہونا ہے   کیو نکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے  میں نے حساب لینا ہے ۔ جب شعور والی زندگی  اتنی مختصر اور  مہنگی   ہے تو  پھر سوال  ہے کہ   کیا ہم نے  کبھی   اس کے بارے میں سنجیدگی سے  سوچا ؟ کیا کبھی اس کی ترجیحات  بنائیں ؟  ہمیں  مہینے  کی ایک کمائی تنخوا ہ  کی صورت  میں ملتی ہے  ہم اس کی  پلاننگ  کرتےہی  جبکہ  جو کل کمائی  ہے اس  کے بارے  میں   سوچتے  نہیں ہیں  ،ہم نے صرف  پیسے کو  اپنی ترجیح  بنایا  ہوا ہے  ،ہم نے ہر چیز کو مادے کے ساتھ جوڑ دیا ہے ۔لوگوں کے پاس  پیسہ ہوتا  ہے  لیکن  بعض اوقات سکون نہیں ہوتا ،  بعض اوقات عز ت نہیں ہوتی ،  بعض اوقات اپنے آپ  کا پتا نہیں ہوتا ،  بعض اوقات ایمان نہیں ہوتا ،  بعض اوقات اپنی ذات نہیں ہوتی ۔   معاش کا درخت ضرور ہونا چاہیے  لیکن صرف   معاش کا درخت نہیں  ہونا چاہیے۔   
      خدمت کا درخت
زندگی  میں  سب سے خوبصورت  چیز  اطمینان قلب ہے ۔ جو سکون بانٹنے میں  ملتا  ہے  وہ کمانے  میں نہیں ملتا  یہ شائد اس  لیے  کہ اللہ تعالیٰ  کی صفت   ب بھی  بانٹنا  ہے ۔ زندگی میں  دوسرا   خدمت  کا درخت  ضرور لگائیں،    پروفیسر  معیذ  صاحب  کہتےہیں  " جو بندہ  یہ کہتا ہے  میں امیر ہو جاؤں تو بانٹوں گا  وہ  کبھی نہیں بانٹےگا کیو نکہ وہ  امیر تو ہو جائے گا لیکن حوصلہ  نہیں  ہوگا " جو بندہ آدھی روٹی خود کھاتا ہے اور آدھی بانٹ دیتا  ہے وہ بڑا انسان بنتا ہے ۔ خدمت  کا قطعی مطلب یہ  نہیں ہے   کہ پیسے ہوں تو خدمت    ہو گی   ہے   خدمت تو مزاج سے  ہوتی  ہے حدیث مبارک کا مفہوم ہے "سخاوت دل سے  ہے مال سے نہیں "۔ خدمت  کا مطلب ہے   معاوضہ بندے سے نہیں ملنا  اللہ تعالیٰ سے ملنا ہے ۔ خدمت میں چوکیداری  نہیں کرنی   بس نیکی  کرنی ہے اور دریا  میں ڈال دینی ہے  ۔ خدمت عقل کی زکوٰۃ  ہے، یہ فہم کی زکوۃ ہے ،یہ ذہانت کی زکوۃ ہے ، یہ بڑے پن  کی زکوۃ ہے ۔ اگر  میٹھا  پھل کھانا اور  ٹھنڈی چھاؤں لینی ہے  تو پھر خد مت  اللہ تعالیٰ  کےلیے  ہونی چاہیے ۔
3۔      فیملی کا درخت
فیملی بہت اہم ہے  اور اس کو اہم سمجھنا بھی  چاہیے   اس کی ضروریات کو اہم سمجھنا چاہیے ۔ فیملی  کی تین ضروریات ہوتی ہیں  ہم ایک  کو پورا کر کے  دو سے کنارہ کشی کر جاتے ہیں ، پہلی ضرورت   پیسہ ہے    دوسری توجہ ہے  ، توجہ کا مطلب ہے بیوی   بچوں  کی تمام چیزوں  کے ساتھ  تعلق ہو، تیسری  ضرورت قربانی ہے  کیو نکہ تعلق  کی قیمت  قربانی ہے  ، تعلق قربانی مانگتا ہے ۔ وہ لوگ  جوان تینوں میں سے ایک  رکھتے ہیں باقی نکال دیتےہیں  وہ زیادتی   کرتےہیں  ان کا درخت کبھی  بھی میٹھا پھل  اور ٹھندی چاؤں  نہیں دیتا ۔
4۔      پیشے کادرخت
 زندگی  میں انسان کا دو چیزوں کے ساتھ زیادہ  وقت گزرتا ہے ایک پیشہ  دوسرا بیوی اس لیے  دونوں کا انتخاب  سو  بار سوچنے کے بعد کرنا چاہیے ۔  ہم نے دنیا کا کوئی کام کرنا  ہو   اس  میں چاہے کپڑے خریدنے ہوں،  جوتے خریدنے ہو ، کوئی بیماری  ہو  یا کوئی اور  چیز  ہو  اس کے   لیے سو لوگوں سے  مشورہ کرتے ہیں لیکن جس کے  ساتھ ہماری زندگی  گزرنی ہوتی  ہے  اس  کے  بارے میں  مشورہ ہی نہیں کرتے ۔ انسان کو اللہ تعالیٰ نے انتخاب کی طاقت دی ہے  یہ  کسی اور مخلوق  کو نہیں ملی،انسان  اپنے  مزاج کے مطابق  اپنے   پیشے کو منتخب کرتا ہے ، انتخاب میں غلطی  ہو سکتی ہے  ممکن ہے  نوکری والا  بندہ  کاروبار  کرتا ہو،  ممکن ہے  کاروبار والا  نوکری کرتا ہو ، ممکن ہے  نوکری جس طرح کی چاہیے  تھی  ویسی نہ ہو ، ممکن ہے  کاروبار جس طرح کا چاہیے تھا  ویسا نہ ہو لیکن  اس بارے میں سوچنا ضرور چاہیے اور  مشور ہ ضرور کرنا چاہیے۔ زندگی میں  غلط ٹرین ہو ں   تو اتر   کر صحیح ٹرین  پکڑنےمیں شرم محسوس  نہیں کرنی چاہیے ۔ اپنی زندگی  میں چیزیں چھوڑنے کی طاقت ، ہمت ، جرات  پیدا کریں کیو نکہ جو  چھوڑ سکتا  ہے وہی آگے جا سکتا ہے   پھر اس  کو  ٹھنڈی چھاؤ ں ملتی ہے اور  میٹھا پھل بھی ملتا ہے ۔ جس پیشے   سے بندہ  انجوائے   نہیں کرتا   وہ پیشہ پھرسوالیہ نشان ہے ، جس  کے لیے  اس کا ہم سفر راحت کا سبب نہیں  ہے   تو پھر سوالیہ نشان  ہے  حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں "دوست سے سکون نہیں  ہے  اورد شمن سے تکلیف نہیں ہے تو پھر   نہ دوست دوست ہے  اور نہ دشمن دشمن۔ "
5۔      ساکھ کا درخت
اس  میں کوئی شک  نہیں  ہے کہ عزت اور ذلت اللہ تعالی کے  ہاتھ میں ہے  لیکن بندے کو  وہ  کام کرنے چاہییں  جو عز ت کا  سبب بنیں  کیو نکہ اللہ تعالیٰ نے  بتا دیا ہے  یہ کام عزت والے  ہیں یہ  ذلت والے ہیں ۔یہ اتنی اہم چیز ہے کہ    بندے  کو نہیں  دیکھا جاتا  بلکہ اس کی  ساکھ کو دیکھا جاتا ہے  اس   لیے ہمیشہ زندگی میں  ساکھ  برقرار رکھیں  لیکن  یہ  بات   بھی یاد رہیں کہ  ساکھ ہو نے کے باوجود بھی  مسئلے  رہیں گے ، اچھا ہونے کے باوجود لوگ برا  کہیں گے ۔ جس چیز کاکوئی حل نہیں  ہے  اس  کی فکر مندی چھوڑ دیں   بس آنکھیں نیچی کر کے   چلتے جائیں  ایک دن سر اٹھے گا دنیا ساتھ ہوگی ۔  اپنی نگاہوں میں  اپنے  آپ  کو  بھی گرنے نہ دیں۔ دنیا میں سب سے بڑا مجرم اپنی ذات کا مجرم ہوتا ہے ، لوگوں میں چور پن ہوتا ہے ، جس کی اپنی نگاہوں میں اپنی عزت نہیں ہے  وہ کسی  کی عزت کیا کرے گا  ، جو  چیز ہے ہی نہیں  وہ  کیسے دی جا سکتی ہے  عزت تو  عزت دار بند ہ کرتا ہے ۔ساکھ کو اہم سمجھیں اس پر انوسٹمنٹ کریں ، وقت لگائیں ۔  بندے کی دوستوں  اور دشمنوں سے  بھی پہچان ہونی چاہیے ، شاہین  شاہین کے ساتھ ہی اڑتا ہے مردار کھانے والے  گدھ کے ساتھ نہیں اڑتا۔ تعلق    کی وجہ پیسہ نہیں ہونا چاہیے  بلکہ نظریہ ہونا چاہیے حضرت علی المرتضی ؒ رضی اللہ عنہ فرماتےہیں "نظریے کا ساتھ ازلی اور ابدی ہوتا ہے۔" طے کریں  کن کے ساتھ کام کرنا ہے  کن کے ساتھ کام  نہیں کرنا  کئی، لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کے ساتھ صرف دوستی رکھی جا سکتی ہے  کام نہیں کیاجا سکتا  کیو نکہ  اپنے کا جواب دیا جا سکتا ہے ۔جس  کے ساتھ  کھڑا نہیں ہوا  جاسکتا اس کے  ساتھ تعلق مت رکھیں۔
6۔      مذہب کا درخت
زندگی میں   یقین ہے، ایمان ہے ، روحانیت ہے ، روح زندہ ہے ، عباد ت ہے،اس درخت کو بھی اہم سمجھنا چاہیے ۔حضور اکرم ﷺ نے جن تمام انداز کے ساتھ نماز ادا  کی وہ سب سنت ہیں  اب جو  بھی جس انداز میں پڑھ رہا ہےاگر اس   کی نیت  یہ ہے  کہ یہ میرے  رسول کریم ﷺ کی سنت ہےتو ثواب ہے۔ وہ تمام  نیکیوں کے کام  جو آپ کو سکون دیتےہیں  ان کو ضرور  کریں  کیو نکہ آپ کی عبادت ، روحانیت اور دین ان سے جڑا ہوا ہے ۔
7۔      ذات کا درخت
اپنی ذات  کو بھی سکون چاہیے اس درخت کو  بھی اہم سمجھنا چاہیے ۔ تنہائی کو انجوائے کرنا سیکھیں،  اپنی پسند کی  کتابیں  خریدیں ، اپنے بے لوث  دوست کے ساتھ  وقت گزاریں، صبح  کے  وقت گیلے گھاس  پر چل  سکون حاصل کریں  تاکہ اللہ تعالیٰ  کی نعمتوں کااحساس ہو ۔  ہم نے سب سے زیادہ اپنی ذات کے ساتھ وقت گزارنا ہوتا ہے اگر ہم  اپنے اچھے دوست نہیں ہیں ، اپنی ذات کے ساتھ اچھا تعلق نہیں ہے تو  پھر یہ درخت  ٹھنڈی چھاؤں نہیں دے گا  اور نہ ہی میٹھاپھل دے گا ۔
آج سے ان درختوں کے  بیج لگائیے  کچھ دنوں بعد آپ کو محسو س ہوگا کہ پودابننا شروع ہوگیا  ہے۔ 

 (The Seven Trees of Life, Syed Qasim Ali Shah)