اتوار، 29 جنوری، 2017

امن کی زمین پر برداشت کی کھاد (سیاحت سری لنکا)

گال سری لنکا کے جنوب مغربی صوبے کا دارالحکومت ہے‘ کولمبو سے سوا سو کلومیٹر کے فاصلے پر ایک بڑی سیاحتی منزل ہے‘ آپ وفاقی دارالحکومت سے نکلتے ہیں اور ڈیڑھ گھنٹے میں گال پہنچ جاتے ہیں‘ گال کا کرکٹ اسٹیڈیم کرکٹ کے متوالوں میں پوری دنیا میں مشہور ہے‘ ہماری ٹیم کئی بار یہاں گئی اور عوام نے اسکرین پر گال سٹی دیکھا‘ شہر ڈچ جہاز رانوں نے تین سو سال قبل آباد کیا‘ یہ لوگ انڈیا جاتے ہوئے سولہویں صدی میں یہاں پہنچے اور علاقے کی خوبصورتی کے اسیر ہو گئے۔
گال ڈچ جہاز رانوں کی آمد سے قبل مچھیروں کی ایک غیر آباد بستی تھا‘ لوگ مچھلیاں پکڑتے تھے‘ سکھاتے تھے اور بیچ دیتے تھے‘ مچھلیوں کے علاوہ کوکونٹ‘ پپیتا اور اننناس ان کی کل میراث ہوتے تھے‘ موسم گرم مرطوب تھا‘ لوگوں کی جلد سیاہ اور آنکھیں موٹی تھیں‘ ڈچ جہاز رانوں کو جگہ کے ساتھ ساتھ لوگ بھی پسند آ گئے چنانچہ یہ یہاں بس گئے‘ علاقے کو اپنی ملکیت میں رکھنے کے لیے انھوں نے یہاں مضبوط اور وسیع قلعہ تعمیر کیا‘ یہ قلعہ آج تک قائم ہے‘ فصیل شہر سمندر کے ساتھ ساتھ چلتی ہے‘ چاروں کونوں میں فوجی پوسٹیں ہیں‘ پرانے زمانے میں ان پوسٹوں پر یقیناً توپیں نصب ہوں گی۔
شہر قلعے کے اندر آباد تھا‘ گلیاں کھلی اور پتھریلی تھیں‘ مکان ہسپانوی طرز کے تھے‘ چھتیں بلند اور چوبی تھیں‘ کھڑکیاں اونچی اور دروازے موٹے تھے‘ گھروں میں روشنی کے لیے لکڑی کی جالیاں بنائی گئی تھیں‘ دیواروں پر بیلیں چڑھی ہوئی تھیں اور گلیوں میں فوارے اور گھوڑوں کے لیے چھوٹے چھوٹے تالاب بنائے گئے تھے‘ یہ قلعہ بعد ازاں پرتگالیوں کے قبضے میں آیا اور پھر برطانیہ نے ہتھیا لیا‘ یورپ کی یہ تینوں تہذیبیں آج بھی قلعے کی گلیوں سے چپکی ہیں‘ آپ جوں جوں گلیوں میں پھرتے ہیں آپ کو یورپی تہذیب کی خوشبو مبہوت کرتی جاتی ہے‘ آپ ماضی میں اترتے چلے جاتے ہیں۔
ہم بدھ 25 نومبر کو گال پہنچے‘ کولمبو سے گال کا سفر یاد گار تھا‘ ہائی وے کے دونوں اطراف سبزہ تھا‘ زمین دکھائی نہیں دیتی تھی‘ ہم نے کولمبو سے ناریل کے درختوں کے ساتھ سفر شروع کیا اور یہ سفر گال تک جاری رہا‘ راستے میں چائے کے چھوٹے چھوٹے چند باغات بھی آئے‘ سری لنکا کی چائے پوری دنیا میں مشہور ہے‘ یہ لوگ سیکڑوں اقسام کی چائے اگاتے ہیں‘ چائے کے زیادہ تر باغات سری لنکا کے سات اضلاع میں ہیں‘ یہ اضلاع ٹی ڈسٹرکٹ کہلاتے ہیں‘ چائے کا پودا پہاڑ کی اترائیوں پر اگتا ہے‘ کیوں؟ کیونکہ چائے نازک ہوتی ہے۔
اگر جڑوں میں پانی اکٹھا ہو جائے تو پودا مرجھا جاتا ہے چنانچہ چائے کے باغات پہاڑ کی اترائیوں پر اس طرح لگائے جاتے ہیں کہ بارش کا پانی پودوں کو سیراب کرے اور آگے نکل جائے‘ یہ جڑوں میں اکٹھا نہ ہو‘ چائے کی ساتوں ڈسٹرکٹس پہاڑی علاقوں پر مشتمل ہیں لہٰذا زیادہ تر باغات وہاں ہیں‘ سری لنکا ان باغات سے ہر سال اربوں ڈالر کماتا ہے‘ چائے کے مالکان نے باغوں میں چائے خانے بھی بنا رکھے ہیں‘یہ باغ سے چائے کے تازہ پتے توڑتے ہیں‘ گرم پانی میں ڈالتے ہیں‘ دم دیتے ہیں اور مہمانوں کو پیش کر دیتے ہیں۔
یہ لوگ چائے میں دودھ نہیں ڈالتے‘ کولمبو شہر میں پرتگالیوں کے دور کی ایک خوبصورت مارکیٹ ہے‘ یہ مارکیٹ دو سو سال قبل فوجی چھاؤنی تھی‘ حکومت نے چھاؤنی کو مارکیٹ میں تبدیل کر دیا‘ یہ علاقہ ’’انڈی پینڈنس اسکوائر‘‘ کہلاتا ہے‘ یہ خوبصورت لان‘ فواروں اور اونچی سفید عمارتوں کا کمپلیکس ہے‘ کمپلیکس میں سری لنکا کا ایک روایتی چائے خانہ بھی ہے‘ میں جب بھی سری لنکا جاتا ہوں اس چائے خانے میں ضرور جاتا ہوں اور وہاں گھنٹوں بیٹھا رہتا ہوں‘ چائے خانے کے کاؤنٹر پر چائے کے بیسیوں برانڈز رکھے ہوتے ہیں۔
آپ کسی ڈبے پر ہاتھ رکھ دیں‘ ویٹر کیتلی میں ابلتا ہوا پانی ڈالے گا‘ لوہے کی چھاننی میں چائے کی پتیاں ڈالے گا‘ وہ چھاننی کیتلی کے اندر رکھے گا‘ ڈھکن لگائے گا اور کیتلی میز پر رکھ دے گا‘ آپ کے سامنے چھوٹی سی ریت کی گھڑی بھی رکھ دی جائے گی‘ گھڑی کی ریت جب نچلے خانے میں آ جائے گی تو آپ چھاننی کیتلی سے نکال دیں اور چائے کپ میں ڈال کر پی جائیں‘ چائے کو دم کے لیے عموماً دو سے پانچ منٹ دیے جاتے ہیں‘ میں اس وزٹ کے دوران بھی تین بار اپنے ساتھیوں کے ساتھ اس چائے خانے میں گیا اور ہم دیر تک وہاں بیٹھے رہے۔
کولمبو سے گال کے درمیان چائے کے باغات تھے لیکن یہ چھوٹے چھوٹے غیر پیداواری باغ تھے‘ لوگوں نے شاید یہ باغ اپنی ضرورت کے لیے لگائے تھے لیکن کوکونٹ اور پام کے بلند درختوں کے آگے یہ باغ بہت خوبصورت لگتے تھے‘ راستے میں بارش شروع ہو گئی‘ بارش نے ماحول کو مزید رومانوی بنا دیا‘ آپ تصور کیجیے تاحد نظر سبزہ ہو‘ سبزے کے اوپر بارش کی باریک پھوار ہو‘ پھوار کے درمیان ہموار سڑک ہو اور سڑک پر سبک خرام گاڑیاں ہوں یہ منظر کتنا شاندار ہو گا؟
وین میں ہم چھ صحافی تھے‘ ہارون الرشید الگ گاڑی میں سفر کر رہے تھے‘ وہ اپنی بزرگی اور روحانی طاقت بچانے کے لیے ہم لفنگے صحافیوں سے دور دور رہتے تھے‘ مظہر برلاس احتیاطاً ان کے ساتھ بیٹھے تھے جب کہ ہم لوگ آرام دہ وین میں تھے‘ ہمارے ساتھ دو خواتین فریحہ ادریس اور نیلم نواب بھی سفر کر رہی تھیں‘ یہ ہمارے پنجابی لہجوں سے تنگ تھیں‘ ہم لوگ جہاں تک ہو سکا خواتین کا احترام کرتے رہے لیکن عامر ملک اور شوکت پراچہ زیادہ دیر برداشت نہ کر سکے‘ یہ بھی قہقہے لگانے لگے‘ خواتین تنگ آ گئیں‘ میری شخصیت میں بے شمار خامیاں ہیں۔
ان خامیوں میں سے ایک خامی غیر سنجیدگی بھی ہے‘ میں سفر میں زیادہ دیر تک سنجیدہ نہیں رہ سکتا‘ میں ہم سفروں میں غیر ضروری حد تک گھل مل جاتا ہوں‘ ہم لوگ ایک دوسرے کے لیے اجنبی تھے لیکن سفر کی غیرسنجیدگی نے چند گھنٹوں میں ہمارے درمیان اجنبیت کی دیوار گرا دی اور ہم نے یہ پانچ دن قہقہوں میں گزار دیے‘ خواتین اور ہارون الرشید سنجیدہ اور مہذب لوگ تھے چنانچہ ہم نے مہذب لوگوں کو ایک گاڑی میں اکٹھا کر دیا‘ خواتین ہارون الرشید کی روحانی پناہ میں چلی گئیں اور ہم نے لفنگا پن شروع کر دیا یوں قافلہ دو حصوں میں تقسیم ہو گیا۔
معززین اور غیر معززین‘ معززین روحانیت اور فلسفے پر گفتگو کرتے رہے اور ہم لفنگے ایک دوسرے کو لطیفے سناتے اور پیٹ پکڑ کر لوٹ پوٹ ہوتے رہے‘ مظہر برلاس اور شوکت پراچہ دونوں میری نئی دریافتیں ہیں‘ مظہر برلاس کھلے ذہن اور کھلے دل کے انسان ہیں‘ یہ بڑی سے بڑی بات پانی کی طرح پی جاتے ہیں جب کہ شوکت پراچہ میں دیہاتی کھرا پن ہے‘ یہ زندگی کے تقریباً تمام معاملات پر ذاتی رائے رکھتے ہیں اور دنیا میں ’’ذاتی رائے‘‘ رکھنے والے لوگ قابل احترام ہوتے ہیں۔
رائے کا ٹھیک یا غلط ہونا اتنا اہم نہیں ہوتا جتنا اہم رائے کا مالک ہونا ہوتا ہے اور یہ شخص ذاتی رائے رکھتا ہے‘ میں ان سے بہت انسپائر ہوا‘ گال سیاحوں سے بھرا تھا‘ زیادہ ترسیاح یورپ سے آئے تھے‘ یہ شاٹس اور شرٹس میں گلیوں میں گھوم رہے تھے‘ ساحل گوری چمڑی سے اٹا پڑا تھا‘ لوگ نیکروں میں ریت پر لیٹے تھے اور گرم سورج ان کے سفید جسموں کو گدگدا رہا تھا‘ چائے خانے‘ ریستوران اور سووینئر شاپس بھی گاہکوں سے بھری پڑی تھیں‘ گال میں غلامی کے دور کی ایک قدیم لائبریری بھی تھی۔
یہ لائبریری 1832ء میں قائم ہوئی اور یہ آج تک قائم ہے‘ الماریوں میں دو سو سال پرانی کتابیں ہیں‘ کتابوں کے آخری صفحات پر ان گوروں کے نام بھی لکھے ہیں جو یہاں آئے اور ان کتابوں سے استفادہ کیا‘ شہر میں اڑھائی سو سال پرانی مسجد بھی ہے‘ یہ مسجد عرب تاجروں نے بنائی تھی‘ ان تاجروں کی نسل آج بھی گال میں موجود ہے اور یہ اس مسجد کو آباد کیے ہوئے ہیں‘ یہ مسجد ساحل پر واقع ہے‘ یہ دن میں پانچ مرتبہ ساحل پر لیٹے جوان جسموں سے مخاطب ہوتی ہے‘ یہ انھیں پیغام دیتی ہے’’لوٹ آؤ تمہارے رب کے دروازے آج بھی تمہارے لیے کھلے ہیں‘‘ گال کی گلیوں میں امن اور برداشت بہتی ہے‘ اس بہتے ہوئے امن اور کروٹ بدلتی برداشت میں ہم جیسے مسافروں کے لیے بے شمار سبق چھپے ہیں۔
یہ بتاتے ہیں ترقی امن کی زمین میں برداشت کی کھاد میں پنپتی ہے‘ آپ کے پاس اگر امن کی زمین اور برداشت کی کھاد نہیں تو آپ کبھی ترقی نہیں کر سکتے‘ سری لنکا چند برس پہلے تک دنیا کا خوفناک ترین ملک تھا‘ تامل ٹائیگرز نے ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی‘ یہ لوگ خودکش جیکٹ تک کے موجد تھے لیکن آج چند برس بعد سری لنکا پوری دنیا کے لیے کھلا ہے‘ 2016ء میں سری لنکا میں 28 لاکھ سیاح آئے اور سری لنکا نے ان سیاحوں سے ہماری برآمدات سے زیادہ رقم کمائی‘ کاش ہم بھی کسی دن بیٹھیں اور اپنے ضمیر کی عدالت میں یہ پٹیشن فائل کریں ’’اگر سری لنکا دنیا کو اپنی جانب متوجہ کر سکتا ہے تو ہم کیوں نہیں کرسکتے‘‘ ہو سکتا ہے یہ سوال ہمیں اس راستے پر ڈال دے جہاں سے ترقی اور امن کا سفر شروع ہوتا ہے۔
جاوید چوہدری


جمعہ، 27 جنوری، 2017

سری لنکا سے (سیاحت)

سری لنکا کے لوگ اور موسم دونوں مختلف ہیں، تین چوتھائی دنیا اس وقت سردی سے ٹھٹھر رہی ہے، لوگ انگیٹھیوں کے قریب بیٹھے ہیں لیکن سری لنکا میں لوگ ٹی شرٹس، شاٹس اورسلیپروں میں پھر رہے ہیں اور کمروں میں اے سی اور پنکھے آن ہیں اور آپ دن کے وقت باہر نہیں نکل سکتے، موسم میں ایک گیلا پن، ایک مرطوب بھاری پن ہے، آپ باہر نکلتے ہیں تو آپ کی جلد چند لمحوں میں چپچپا سی جاتی ہے‘ لوگ بہت دھیمے، عاجز اور منظم ہیں‘ یہ آپ کا راستہ نہیں کاٹتے، ٹریفک پانی کی طرح بہتی رہتی ہے، گاڑی کے پیچھے گاڑی ہوتی ہے اور کوئی گاڑی کسی دوسری گاڑی کو ’’اوور ٹیک‘‘ کرنے کی کوشش  نہیں کرتی، میں نے پچھلے تین دن میں کولمبو شہر میں ہارن کی آواز نہیں سنی، فضا میں پولوشن بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔
گاڑیاں دھواں نہیں دیتیں، پٹرول بھی کثافت سے پاک ہے، شہر میں ہزاروں کی تعداد میں رکشے ہیں، سری لنکن انھیں ’’ٹک ٹک‘‘ کہتے ہیں، یہ ٹک ٹک بھی ’’ساؤنڈ لیس‘‘ اور رواں ہیں، آپ ان کی آ واز سنتے ہیں اور نہ ہی آپ کو ان کے سائلنسر سے دھواں نکلتا دکھائی دیتا ہے، بسیں بھی صاف ستھری ہیں، ٹرینیں پرانی ہیں لیکن وقت کی پابند اور منظم ہیں۔
آپ کو پورے کولمبو شہر میں کچرہ، گند اور بدبو نہیں ملتی، سڑکیں صاف ہیں، آپ کو ان پر کاغذ، ٹشو پیپر اور ماچس کی ڈبی تک نظر نہیں آتی، چوک اور چوراہوں میں پولیس، چیک پوسٹس اور ناکے بھی دکھائی نہیں دیتے، ہوٹلوں میں بھی سیکیورٹی کے بندوبست نہیں ہیں۔ آپ چلتے چلتے کسی بھی فلور اور کسی بھی کمرے میں چلے جائیں آپ کو کوئی نہیں روکے گا، آپ کو عوام بھی چیختے چلاتے یا احتجاج کرتے دکھائی نہیں دیتے، خوانچہ فروش، دکاندار اور وین کے کنڈیکٹر بھی ’’جی باجی جی‘‘ کرتے نظر نہیں آتے اور آپ کو کوئی شخص کسی دوسرے سے دست و گریبان بھی دکھائی نہیں دیتا، یہ ساری باتیں، یہ ساری حرکتیں عجیب ہیں، ہم پاکستانی ان کے عادی نہیں ہیں کولمبو شہر میں سلیقہ ہے، بازار صاف ستھرے ہیں، فٹ پاتھ بھی ہموار ہیں، دکانیں دکانوں کے اندر ہیں، یہ ابل کر فٹ پاتھ پر نہیں آتیں اور لوگ دھیمے اور شائستہ ہیں۔
ADVERTISEMENT
میں اتوار کی صبح کولمبو پہنچا، سوموار سے ملاقاتیں شروع ہو گئیں، انفارمیشن منسٹری کے ڈائریکٹر جنرل سے ملاقات ہوئی، وہ ایک متکبر نوجوان تھا، پاکستان کے دورے کرتا رہتا تھا، پیمرا کے چیئرمین ابصار عالم کا دوست ہے اور یہ سری لنکا میں پیمرا قسم کی اتھارٹی بنانا چاہتا ہے لیکن اس کا رویہ انتہائی غیر مناسب تھا، وہ اڑھائی گھنٹے کی تاخیر سے دفتر پہنچا اور دفتر پہنچنے کے بعد وہ جس طرح ہم لوگوں سے مخاطب ہوا وہ انداز غلط تھا، یہ رویہ سری لنکا کی سرکاری پالیسی کا غماض تھا، پاکستان نے 2002ء میں سری لنکا پر بہت بڑا احسان کیا تھا، جافنا میں بغاوت چل رہی تھی، تامل ٹائیگرز نے سری لنکا کی چولہیں ہلا کر رکھ دی تھیں۔ ملک تقسیم کے قریب تھا، بھارت اور امریکا باغیوں کو سپورٹ کر رہے تھے، اس کڑے وقت میں سری لنکا کے آرمی چیف نے جنرل پرویز مشرف سے رابطہ کیا اور ان سے مدد طلب کی، وہ جنرل مشرف کے کورس میڈ تھے۔
جنرل مشرف نے سری لنکا کے لیے ہتھیاروں کے ڈپو کھول دیے، پاکستانی فوج نے سری لنکا کو نہ صرف ہتھیار دیے بلکہ یہ ہتھیار سی ون تھرٹی جہازوں میں بھر کر جافنا بھی پہنچائے گئے، پاکستان نے سری لنکن فوجیوں کو ٹریننگ بھی دی اور انھیں جاسوسی اور مواصلاتی مدد بھی فراہم کی، یہ مدد، ٹریننگ اور ہتھیار ٹرننگ پوائنٹ ثابت ہوئے، سری لنکا نے باغیوں کو کچل دیا اور یوں ملک ٹوٹنے سے بچ گیا۔ تامل ٹائیگرز نے اس مدد کے جواب میں 2006ء میں پاکستانی سفیر بشیر ولی محمد پر خود کش حملہ کیا، سفیر بچ گئے لیکن سات لوگ ہلاک ہو گئے، پاکستان نے اس حملے کے باوجود سری لنکا کی مدد جاری رکھی، جنرل کیانی کے دور میں بھی لنکن فوج کی ٹریننگ، ہتھیاروں کی سپلائی اور انٹیلی جنس شیئرنگ ہوتی رہی یہاں تک کہ سری لنکا نے تامل ٹائیگرز پر پوری طرح قابو پا لیا، ملک کا بچہ بچہ پاکستان کی اس مدد سے واقف ہے چنانچہ آپ سری لنکا کے کسی بھی دفتر میں چلے جائیں۔
آپ کسی بھی شخص سے ملیں وہ نہ صرف پاکستان کے احسان کو تسلیم کرے گا بلکہ جھک کر آپ کا شکریہ بھی ادا کرے گا لیکن اس تمام تر اعتراف کے باوجود سری لنکا بری طرح بھارتی دباؤ کا شکار ہے، بالخصوص لنکن حکومت بھارت کی مرضی کے خلاف دم تک نہیں مارتی، حکومت کے تمام اہلکار پاکستانیوں کی بے انتہا عزت کرتے ہیں لیکن جہاں پاکستان اور بھارت کے درمیان چوائس کا معاملہ آتا ہے یہ ہمیشہ بھارت کا ساتھ دیتے ہیں شاید اس کی وجہ بھارت کی معیشت اور سری لنکا کی جغرافیائی کمزوری ہے، یہ ملک بھارت سے صرف 35 منٹ کی سمندری دوری پر واقع ہے، دونوں ملکوں کے درمیان بحرہند کی چھوٹی سی آبی پٹی حائل ہے، سری لنکا خوراک سے لے کر کپڑوں، گاڑیوں اور رکشوں تک کے لیے بھارت کا محتاج ہے، بھارت اگر سری لنکا کے چاول اور دالیں روک لے تو ملک میں قحط کی صورت حال پیدا ہو جائے، ملک کی پبلک ٹرانسپورٹ، محکمہ تعلیم اور محکمہ صحت بھی بھارت کے قبضے میں ہے، بھارتی کمپنیاں جب چاہتی ہیں سری لنکا کو مجبور کر دیتی ہیں۔
بھارت سری لنکا کے سیاسی حلقوں میں بھی بھاری سرمایہ کاری کرتا ہے، سیاسی جماعتوں کو باقاعدہ فنڈز بھی دیے جاتے ہیں اور انھیں اثر و رسوخ بھی فراہم کیا جاتا ہے، بھارت سری لنکا میں اپنی مرضی کی پوری پوری حکومت لے آتا ہے، بیورو کریٹس بھی بھارتی یونیورسٹیوں اور اداروں سے نکلتے ہیں، نوجوان ویزے کے بغیر انڈیا جا اور آ سکتے ہیں، زبان بھی ملتی جلتی ہے بالخصوص سری لنکا کے تامل اور بھارتی تاملوں میں کوئی فرق نہیں، ان کا لباس اور خوراک تک یکساں ہے، بھارتی تامل اور لنکن تامل دونوں رجنی کانت کے فین ہیں چنانچہ اگر دیکھا جائے تو سری لنکا بری طرح بھارت کی معیشت، ثقافت اور انڈسٹری کے زیراثر ہے۔
یہ شاید بھارت کے بغیر سروائیو نہیں کر سکتا، یہ لوگ پاکستان کے احسانات تسلیم کرتے ہیں، یہ پاکستانیوں کا شکریہ بھی ادا کرتے ہیں لیکن یہ بھارت کے سامنے دم بھی نہیں مارتے چنانچہ سری لنکا میں گھومتے ہوئے آپ کو حضرت امام حسینؓ کا وہ واقعہ یاد آ جاتا ہے جس میں بتانے والے نے بتایا تھا کوفہ کے لوگوں کے دل آپ لیکن تلواریں یزید کے ساتھ ہیں۔ یہ لوگ پسند ہمیں کرتے ہیں، یہ ہمارے احسان مند بھی ہیں لیکن یہ ساتھ ہمیشہ بھارت کا دیتے ہیں، سری لنکا میں دو پاکستانی افسر بہت مشہور ہیں، بریگیڈئر طارق اور لیفٹیننٹ کرنل راجل ارشاد خان، بریگیڈئر طارق  نے جنرل ضیاء الحق کے دور میں سری لنکا کے فوجیوں کو ٹریننگ دی تھی۔
یہ ٹریننگ لنکن فوج کی بنیاد بنی چنانچہ سری لنکا کے زیادہ تر فوجی بریگیڈئر طارق کے فین ہیں، عام لوگ بھی ان کا نام جانتے ہیں، بریگیڈئر طارق یقیناً اس وقت ریٹائر زندگی گزار رہے ہوں گے، یہ اس وقت کہاں ہیں، میں نہیں جانتا لیکن سری لنکا کے لوگ انھیں مس کر رہے ہیں، میری بریگیڈئر طارق سے درخواست ہے یہ سری لنکا کا دورہ کریں اور اپنے شاگردوں سے ملاقات کریں، کرنل راجل اس وقت سری لنکا میں ملٹری اتاشی ہیں یہ لنکن بیورو کریسی، فوج، سیاسی غلام گردشوں، بزنس کمیونٹی، میڈیا اور عام لوگوں میں بہت مقبول ہیں، لوگ انھیں دن رات ٹیلی فون کرتے رہتے ہیں اور یہ نہ صرف ان کی بات توجہ سے سنتے ہیں بلکہ ان کی مدد بھی کرتے ہیں، یہ سری لنکا کے دفتروں سے وہ کام چند لمحوں میں کرا لیتے ہیں جو شاید وزیراعظم اور صدور بھی مہینوں میں نہ کرا سکیں۔
سری لنکا اور پاکستان کے تعلقات بہت دلچسپ ہیں، دونوں ملکوں کی حکومتیں ایک دوسرے سے دور ہیں، پاکستانی حکومت کے کاغذات سری لنکا کی وزارتوں میں پھنس جاتے ہیں اور سری لنکا کے خطوط کا جواب پاکستان کے دفتروں میں شٹل کاک بن جاتا ہے لیکن دونوں ملکوں کی افواج ایک دوسرے کے بہت قریب ہیں، سری لنکا کی فوج پاکستان نواز ہے اور پاکستانی فوج سری لنکا کی فوج کی مدد کے لیے ہر وقت تیار رہتی ہے، سری لنکا کے بریگیڈئر سے اوپر تمام افسر درجنوں بار پاکستان کا دورہ کر چکے ہیں، یہ پاکستانی اداروں سے ٹریننگ بھی لیتے ہیں اور ہتھیار بھی چنانچہ ہم کہہ سکتے ہیں دونوں ملکوں کی فوجیں ایک سائیڈ پر کھڑی ہیں اور حکومتیں دوسری جانب، تعلقات کی یہ نوعیت تبدیل ہونی چاہیے۔
ملکوں کے ملکوں سے تعلقات ہونے چاہئیں‘ فوجوں کے فوجوں یا پولیس کے پولیس سے نہیں، کیوں؟ کیونکہ اداروں کے اداروں سے تعلقات لوگوں کی وجہ سے ہوتے ہیں اور جب لوگ تبدیل ہو جاتے ہیں تو تعلقات کی نوعیت بھی بدل جاتی ہے لیکن جب ریاست کے ریاست سے تعلقات ہوں تو یہ تعلقات لوگوں کی تبدیلی سے تبدیل نہیں ہوتے، ہمیں پاکستان کو سری لنکا اور سری لنکا کو پاکستان کا دوست بنانا ہو گا، یہ دوستی پاک چین دوستی کی طرح لازوال ہو جائے گی ورنہ دوسری صورت میں بھارت کسی دن سری لنکا کی فوج کو ہم سے بہتر پیکیج آفر کرکے دوستی کی یہ پتنگ بھی لوٹ لے گا، یہ سری لنکا کو ہم سے مزید دور کر دے گا، ہماری حکومت کو یہ نقطہ سمجھنا ہو گا۔
جاوید چوہدری


جمعرات، 26 جنوری، 2017

جب جسم دعا بن جائے (دعا مانگنے کا طریقہ)

وہ آنکھیں مانگ رہا تھا اور بادشاہ اسے دیکھ کر رک گیا‘ ہم میں سے بعض لوگوں کی دعاؤں میں‘ درخواستوں میں اور التجاؤں میں کوئی ایسی تڑپ چھپی ہوتی ہے جو گزرتے قدموں کو رکنے پر مجبور کر دیتی ہے۔
آپ کبھی گزرتے ہوئے غور سے دائیں بائیں دیکھیں آپ کو اپنے اردگرد کئی ایسے لوگ ملیں گے جو سر سے پاؤں تک دعا‘ عرض اور درخواست ہوں گے‘ ان کی آنکھوں کے اندر ایک التجا‘ ایک پکار ہوگی۔ میں نے زندگی میں ایسے بے شمار لوگ‘ بے شمار جانور اور بے شمار پودے دیکھے ہیں جو التجا کی اس بلندی پر تھے جو چلتے قدموں کو منجمد کر دیتے تھے ‘ یہ منہ سے کچھ نہیں بولتے تھے لیکن دیکھنے والوں کو ان کے وجود کی ایک ایک نس پکارتی ہوئی دکھائی دیتی تھی لیکن لاہور شہر کی آبادی مغل پورہ کا وہ کتا ان سب سے آگے تھا‘ میں اس کی تڑپ کو آج تک نہیں بھول سکا‘ میں جب بھی دعا کرنے لگتا ہوں‘ مجھے وہ کتا یاد آ جاتا ہے اور میری دعائیں پھیکی پڑ جاتی ہیں۔
میں ایک وقت میں ایک صاحب حال کا شاگرد تھا‘ یہ مجھے ہر شام مغل پورہ لے جاتے تھے‘ ریلوے ٹریک کے ساتھ ایک چھوٹی سی ٹوٹی پھوٹی مسجد تھی‘ مسجد کے سائے میں ایک بیمار کتا لیٹا ہوتا تھا‘ کتا خارش کے مرض میں مبتلا تھا‘ مرض کی وجہ سے اس کے بال جھڑ چکے تھے اور جسم پر سفید سفید داغ تھے اور ان میں سے بعض داغوں سے خون رستا رہتا تھا‘ میرے بزرگ تھیلے سے خوراک کا پیکٹ نکالتے‘ کھول کر کتے کے سامنے رکھ دیتے‘ میں مسجد کے نلکے سے پانی کی بالٹی بھر کر لاتا‘ بزرگ کتے کے برتن میں پانی ڈالتے اور اس کے بعد کتے کے زخموں پر مرہم لگانا شروع کر دیتے‘ وہ یہ کام کئی دنوں سے کر رہے تھے‘ میں نے ایک دن واپسی پر ان سے پوچھا ’’جناب یہ کیا ہے‘‘ وہ مسکرا کر بولے ’’یہ کتا دس ولیوں کے برابر ہے‘‘ میں نے حیرت سے ان کی طرف دیکھا‘ وہ بولے ’’یہ التجا کے اس درجے پر فائز ہے جہاں خالق اور مخلوق کے درمیان ڈائریکٹ ڈائلنگ شروع ہو جاتی ہے۔
مخلوق جو کہنا چاہتی ہے خالق اس کے بولے بغیر سن لیتا ہے‘‘ میرے بزرگ نے کہا ’’تم کبھی اس کتے کی آنکھوں میں جھانک کر دیکھنا‘ تمہیں اس سے مقناطیسی شعاعتیں نکلتی دکھائی دیں گی‘ یہ التجا کی شعاعیں ہیں جو عرش کو ہلا کر رکھ دیتی ہے‘‘ میں نے ان سے پوچھا ’’آپ اس کی خدمت کیوں کر رہے ہیں‘‘ وہ بولے ’’بیماری اور لاچاری کے اس عالم میں اس کا اللہ تعالیٰ سے مقناطیسی رابطہ ہے‘ میں خدمت کے ذریعے اس مقناطیسی رابطے میں اپنی عرض ڈال دیتا ہوں اور یوں میری التجا بھی اس تک پہنچ جاتی ہے‘‘میں نے اگلے دن کتے کو غور سے دیکھا‘ اس میں واقعی کچھ تھا۔ میرے بزرگ پرانے اجڑے اور جلے ہوئے درختوں کی خدمت بھی کرتے تھے‘ وہ گزرتے ہوئے اچانک کسی درخت کے پاس رک جاتے تھے‘ اسے پانی دیتے تھے اور اس کے پرانے پتے اور سوکھی ٹہنیاں صاف کر دیتے تھے‘ وہ لاکھوں کے ہجوم میں حاجت مند کو بھی تلاش کرتے تھے۔
وہ اچانک کسی کے پاس رک جاتے تھے‘ اسے ایک سائیڈ پر لے جاتے تھے‘ اس سے اس کا مسئلہ پوچھتے تھے اور مسئلہ حل کرانے کے لیے اس کے ساتھ چل پڑتے تھے‘ میں ان سے اکثر پوچھتا ’’آپ کو کیسے علم ہو جاتا ہے فلاں شخص‘ فلاں درخت اور فلاں جانور کسی مسئلے میں الجھا ہوا ہے اور اس کو آپ کی مدد چاہیے ‘‘ وہ  ہنس کر جواب دیتے تھے ’’التجا انسان کے چہرے پر تحریر ہوتی ہے‘ مانگنے والا اپنی طلب خواہ ہزاروں مسکراہٹوں میں چھپالے لیکن یہ ننگے کے ننگ کی طرح سامنے آ جاتی ہے‘ بس دیکھنے والی آنکھ چاہیے‘‘ میں ان سے پوچھتا تھا ’’لیکن آپ پکارنے والے کی پکار پر کبھی نہیں رکتے‘ آپ ہمیشہ خاموش لوگوں کے پاس رکتے ہیں‘ کیوں؟‘‘ وہ بولے ’’پکار جعلی ہوتی ہے کیونکہ سچی التجا سب سے پہلے آپ کے لفظوں کو مفلوج کرتی ہے‘ آپ اگر بول رہے ہیں‘ آپ اگر مانگ رہے ہیں تو اس کا مطلب ہے آپ ابھی مجبوری کی انتہا تک نہیں پہنچے‘‘ وہ کہتے تھے ’’آپ جب تک زبان سے مانگتے رہتے ہیں اللہ تعالیٰ اس وقت تک آپ کی نہیں سنتا لیکن جب آپ کی زبان رک جاتی ہے اور پورا جسم دعا بن جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ آپ پر اپنی قبولیت کے سارے دروازے کھول دیتا ہے‘‘۔
بادشاہ نے بھی خواجہ غریب نواز کی درگاہ پر ایک مانگنے والے کو دیکھا‘ مانگنے والا دونوں آنکھوں سے اندھا تھا ‘ وہ درگاہ کے دروازے پر بیٹھ کر اللہ تعالیٰ سے گڑگڑا کر دعا کر رہا تھا ’’اے میرے مولا خواجہ غریب نواز کے صدقے مجھے آنکھیں دے دو‘‘ وہ گڑگڑا کر دعا کر رہا تھا‘ بادشاہ اورنگزیب عالمگیر تھا‘ وہ مذہب کے معاملے میں عام لوگوں سے مختلف اپروچ رکھتا تھا لہٰذا وہ ہر غیر معمولی حرکت‘ ہر غیر معمولی واقعے پر رک جاتا تھا اور ٹھیک ٹھاک گوشمالی کرتا تھا۔ اورنگ زیب مانگنے والے کے پاس رکا اور اس سے پوچھا ’’تم کتنے عرصے سے آنکھیں مانگ رہے ہو‘‘ اندھے نے جواب دیا ’’میں پانچ سال سے اس درگاہ پر بیٹھا ہوں اور خواجہ کے صدقے اللہ تعالیٰ سے بینائی مانگ رہا ہوں‘‘ اورنگ زیب نے اندھے سے کہا ’’میرا نام اورنگ زیب ہے‘ میں ہندوستان کا بادشاہ ہوں‘ پوری دنیا جانتی ہے میں اگر زبان سے لفظ نکال دوں تو پھر میں اس پر پورا پورا عمل کرتا ہوں‘میں اپنے وعدے سے ایک انچ پیچھے نہیں ہٹتا‘ میں خواجہ کے مزار پر حاضری دینے جا رہا ہوں‘ میں آدھے گھنٹے تک واپس آؤں گا۔
اگر میرے آنے تک تمہاری بینائی واپس آ گئی تو ٹھیک ورنہ دوسری صورت میں میرے جلاد تمہارا سر اتار دیں گے‘‘ بادشاہ نے یہ کہا‘ اپنا جلاد اندھے کے سر پر کھڑا کیا اور مزار کے اندر چلا گیا‘ اندھے پر موت کا خوف طاری ہو گیا‘ وہ سجدے میں گرا اور اللہ سے دردناک انداز سے دعا کرنے لگا‘ یا باری تعالیٰ میں پانچ سال سے آنکھوں کو رو رہا تھا‘ تم نے آنکھیں نہ دیں‘ اب میری جان پر بن گئی ہے‘ تم مہربانی فرما کر تھوڑی دیر کے لیے ہی سہی مجھے بینائی لوٹا دو‘ میں اس ظالم بادشاہ کے ہاتھوں سے بچ جاؤں‘ وہ گڑگڑاتا تھا اور دعا کرتا تھا‘ دعا کرتا تھا اور گڑگڑاتا تھا‘ گڑگڑانے کے اس عمل کے دوران اس کی زبان ساکت ہو گئی اور اس کا پورا وجود التجا بن گیا‘ وہ سجدے میں پڑا تھا اور اس کے جسم کی تمام نسیں اللہ تعالیٰ سے التجا کر رہی تھیں‘ اس کی التجا اللہ تعالیٰ تک پہنچ گئی۔
اس کے دماغ میں روشنی کا ایک چھناکا ہوا اور اس کی بینائی لوٹ آئی‘ اس نے آنکھیں کھولیں‘ خواجہ غریب نواز کا مزار دیکھا‘ قہقہہ لگایا اور شکرانے کے لیے سجدے میں گر گیا‘ بادشاہ حاضری کے بعد واپس آیا تو اس نے اندھے کو قہقہے لگاتے دیکھا‘ بادشاہ مسکرایا اور نرم آواز میں بولا ’’تم پانچ سال سے دعا کر رہے تھے لیکن تمہاری دعا الفاظ تک محدود تھی‘ تم چند آیتیں دہراتے تھے اور پھر ان کے بعد بینائی کی دعا کر دیتے تھے‘ تمہاری دعا میں لفظ تھے‘ تڑپ نہیں تھی‘ میں نے تمہیں قتل کی دھمکی دی تو تمہاری دعا میں تڑپ پیدا ہو گئی اور یوں تم نے چند لمحوں میں قدرت کو اپنی طرف متوجہ کر لیا‘‘ اورنگ زیب نے کہا ’’تم منہ سے مزید دس سال بھی مانگتے رہتے تو تمہیں بینائی نہ ملتی کیونکہ اللہ تعالیٰ لفظوں سے متاثر نہیں ہوتا‘ اسے متوجہ کرنے کے لیے تڑپ ضروری ہوتی ہے اور تمہاری دعائیں تڑپ سے خالی تھیں‘‘۔
اورنگ زیب عالمگیر کا فارمولا درست تھا‘ ہم میں سے اکثر لوگوں کی دعائیں تڑپ سے خالی ہوتی ہیں چنانچہ یہ قدرت کے دروازے تک نہیں پہنچ پاتیں‘ ہم تڑپ کی کمی کو حلق کے زور‘ لفاظی اور گریہ و زاری سے پورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن قدرت ناسمجھ نہیں ہوتی‘ یہ لفظوں اور برستی آنکھوں کے پیچھے جھانکنا جانتی ہے لہٰذا یہ ہماری دعاؤں‘ ہماری عرض کو سائیڈ پر رکھ دیتی ہے اور ہم دس دس سال تک دعاؤں کے بعد ایک دن اللہ تعالیٰ سے شکوہ کرتے ہیں باری تعالیٰ ہم تو دس سال سے آپ کی زنجیر عدل ہلا رہے ہیں مگر آپ نے ہم پر توجہ ہی نہیں دی۔ شائد اس وقت اللہ تعالیٰ ہم نادان لوگوں کی طرف دیکھ کر فرماتا ہوگا ’’میں کیسے سنوں‘ میں تو تڑپ کی زبان سمجھتا ہوں اور تم مجھے عربی‘ اردو اور پنجابی سے بہلارہے ہو‘‘ میں نے ایک بار ملک کے ایک نامور سرجن سے پوچھا تھا ’’صحت دوا میں ہوتی ہے یا دعا میں‘‘ اس نے ہنس کر جواب دیا ’’اگر مرض چھوٹا ہو تو دوا میں اور بڑا ہو تو دعا میں‘‘ میں نے پوچھا ’’اور دعا سے مریض کتنے عرصے میں ٹھیک ہو جاتا ہے‘‘ ڈاکٹر صاحب نے ہنس کر جواب دیا ’’مریض خود کرے تو عرصہ لگ جاتاہے اور اگر اس کی ماں کرے تو وہ جلدی ٹھیک ہو جاتا ہے‘‘ میں نے پوچھا ’’ماں کیوں؟‘‘ ڈاکٹر نے جواب دیا ’’ماں کی دعا میں تڑپ ہوتی ہے۔
یہ منہ سے کچھ نہیں کہتی لیکن اس کا انگ انگ دعا بن جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس وقت ہمیشہ کرم کرتا ہے‘ اس وقت ہمیشہ رحم کرتا ہے‘‘ میرے بزرگ کہا کرتے تھے ’’اللہ تعالیٰ کی زبان تڑپ ہے‘ یہی وجہ ہے اللہ کے ہر نبی میں تڑپ تھی اور کوئی ولی بھی اس وقت تک ولی نہیں بن سکتا جب تک اس کی روح میں تڑپ پیدا نہیں ہو جاتی‘ جب تک اس کے اندر سے آواز نہیں نکلتی‘‘۔
جاوید چوہدری


اتوار، 22 جنوری، 2017

چھ ڈاکٹر(Healthy Life Tips)

’’انسان کو زندگی میں چھ ڈاکٹروں کی ضرورت پڑتی ہے‘ آپ غریب ہیں یا امیر آپ کو ان ڈاکٹروں کی خدمات حاصل کرناہوں گی‘‘ وہ مسکرایا اور دونوں ہاتھوں سے اپنا ننگا پاؤں سہلانے لگا‘ وہ پاؤں سے بھی 97 سال کا نہیں لگتا تھا‘ میں اسے دیکھ کر حیران ہو رہا تھا‘ انسان اپنی عمر چھپا سکتا ہے لیکن ہاتھ‘ پاؤں‘ گردن اور آنکھیں ہمیشہ راز کھول دیتی ہیں‘ یہ چاروں عمر کے چغل خور ہیں‘ آپ جتنی بھی احتیاط کر لیں مگر عمر گزرنے کے ساتھ آپکے پاؤں سوکھ جاتے ہیں‘ ہاتھوں اور گردن پر جھریاں پڑ جاتی ہیں اور آنکھوں کے گرد گدیاں سی بن جاتی ہیں‘ آپ کو دنیا میں ایسے انسان بہت کم ملیں گے جن کے یہ چاروں اعضاء عمر کے ساتھ متاثر نہ ہوئے ہوں‘ وہ بھی ایک ایسا ہی شخص تھا۔
وہ زندگی کی 97 بہاریں دیکھ چکا تھا‘ اس کے پوتے اور نواسیاں بال بچے دار تھیں لیکن وہ اپنی آٹھویں بیوی کے ساتھ بھرپور زندگی گزار رہا تھا‘ وہ کسی بھی طرح چالیس پینتالیس سے بڑا دکھائی نہیں دیتا تھا‘ میں لمبا سفر طے کر کے اس کے پاس ایمسٹرڈیم گیا‘ وہ شہر کے مضافات میں چھوٹے سے گاؤں میں رہتا تھا‘ پنشن کی رقم میاں بیوی کے لیے کافی تھی‘ وہ مہینے میں آٹھ دن کوچنگ کرتا تھا‘ پچاس یورو فی کس چارج کرتا تھا اور لوگوں کو صحت مند‘ خوش حال اور پرمسرت زندگی کا طریقہ بتاتا تھا۔
میں نے بھی اسے پچاس یورو ادا کیے اور اس کی ’’اوپن ائیر اکیڈمی‘‘ میں بیٹھ گیا‘ جارج نے یہ اکیڈمی گھر کے چھوٹے سے لان میں بنا رکھی تھی‘ لوگ بلاکس کے بینچوں پر بیٹھتے تھے اور وہ ننگی زمین پر گھاس پر بیٹھ کر انھیں لیکچر دیتا تھا‘ ہمارے گروپ میں چھ لوگ تھے‘ دو لڑکیاں اور چار لڑکے‘ ہم سب ایک دوسرے کے لیے اجنبی تھے لیکن ہمارا مسئلہ کامن تھا‘ ہم ’’موت تک صحت مند زندگی‘‘ کا راز معلوم کرنا چاہتے تھے‘ ہم بینچوں پر تھے اور وہ ہمار سامنے ننگے پاؤں ننگی زمین پر براجمان تھا۔
وہ بولا ’’ہم انسان ہیں تو پھر ہم صحت مند زندگی کے لیے چھ ڈاکٹروں کے محتاج ہیں‘‘ ہم خاموشی سے اس کی طرف دیکھتے رہے‘ وہ بولا ’’یہ چھ ڈاکٹر‘ سورج‘ آرام‘ ایکسرسائز‘ خوراک‘ خدا پر اعتماد اور ہمارے دوست ہیں‘‘ وہ رکا‘ اپنا ایک پاؤں اٹھا کر گود میں رکھا اور اسے دونوں ہاتھوں سے سہلانے لگا‘ وہ بولا ’’آپ اگر دن میں ایک گھنٹہ اپنے جسم کو سورج کی روشنی دیتے ہیں‘ آپ اگر آٹھ گھنٹے سوتے ہیں‘ ایک گھنٹہ آرام کرتے ہیں اور ایک گھنٹہ سستاتے ہیں‘ آپ اگر روزانہ ایکسرسائز کرتے ہیں‘ آپ اگر متوازن خوراک کھاتے ہیں‘ آپ اگر خدا کی ذات پر یقین رکھتے ہیں اور آپ اگر دوست بنانا اور دوستی نبھانا جانتے ہیں تو پھر آپ کی میڈیکل ٹیم پوری ہے۔
آپ کو مزید مشورے کی ضرورت نہیں‘ آپ میری طرح صحت مند بھی رہیں گے اور آپ کی عمر میں بھی لمبی ہو گی‘‘ وہ رکا‘ لمبا سانس لیا اور بولا ’’آپ کو پوری زندگی ان چھ ڈاکٹروں کی ضرورت ہو گی‘ آپ ڈاکٹر سن‘ ڈاکٹر سلیپ‘ ڈاکٹر ایکسرسائز‘ ڈاکٹر ڈائیٹ‘ ڈاکٹر بی لِیو اور ڈاکٹر فرینڈ کو اپنے ساتھ رکھیں اور صحت مند زندگی گزاریں‘‘ میں نے اس سے پوچھا ’’ڈاکٹر سن ہمارے لیے کیوں ضروری ہے‘‘ اس نے قہقہہ لگایا اور بولا ’’سورج انرجی ہے‘ یہ ڈاکٹر ہماری پوری کہکشاں کو توانائی دیتا ہے‘ یہ نہ ہوتا تو شاید زمین پر زندگی بھی نہ ہوتی چنانچہ ہم اس کے بغیر اچھی اور صحت مند زندگی کیسے گزار سکتے ہیں؟
آپ کو اس کا ہاتھ بہرحال پکڑنا ہو گا‘‘ وہ رکا اور بولا ’’ڈاکٹر سلیپ ہمارے ٹوٹے ہوئے سیلز کی مرہم پٹی کرتا ہے‘ ہمارا جسم سارا دن ٹوٹ پھوٹ کے عمل سے گزرتا ہے‘ ہمارے سیلز آٹھ گھنٹے میں بری طرح زخمی ہو جاتے ہیں‘ ہم جب آنکھیں بند کرتے ہیں تو ڈاکٹر سلیپ آ کر ہمارے ان زخمی سیلوں پر مرہم لگا دیتا ہے‘ یہ انھیں دوبارہ کارآمد بنا دیتا ہے‘ آپکے پاس اگر یہ ڈاکٹر نہیں تو آپ کے زخمی سیل مرنے لگیں گے اور یوں آپ گھل گھل کر ختم ہو جائینگے‘ میں روزانہ آٹھ گھنٹے سوتا ہوں‘ میں ہر تین گھنٹے بعد آدھ گھنٹے کے لیے ایزی چیئر پر بیٹھ جاتا ہوں اور دن میں دو بار ہلکی سی نیند لیتا ہوں‘ یہ سستانا‘ یہ آرام اور یہ نیند مجھے اندر سے مضبوط کر دیتی ہے چنانچہ میں صحت مند ہوں‘‘ وہ رکا‘ لمبی سانس لی اور بولا ’’ڈاکٹر ایکسرسائز ڈاکٹر کم اور سرجن زیادہ ہے‘ یہ میرے اندر جنم لینے والی بیماریوں کو کاٹ کر باہر نکال دیتا ہے۔
ایکسرسائز انسان کو برتن کی طرح اندر سے صاف کرتی ہے‘ آپ اس ڈاکٹر کی خدمات حاصل کریں‘ یہ آپ کو اندر سے مضبوط بنا دے گا‘‘ میں نے ہاتھ کھڑا کر دیا‘ وہ میری طرف متوجہ ہو گیا‘ میں نے پوچھا ’’ہمیں کون سی ایکسرسائز کرنی چاہیے‘‘ وہ بولا ’’کوئی بھی ایکسرسائز جس میں آپ کا سانس چڑھ جائے اور جسم پسینے میں بھیگ جائے‘‘ وہ رکا اور بولا ’’میں دن میں تین بار ایکسرسائز کرتا ہوں‘ صبح خالی پیٹ واک کرتا ہوں‘ شام کو سائیکل چلاتا ہوں اور رات کے وقت کسرت کرتا ہوں‘‘ میں نے ایک بار پھر ہاتھ کھڑا کر دیا‘ وہ میری طرف متوجہ ہو گیا۔
میں نے کہا ’’آپ ایک ریٹائر شخص ہیں‘ آپ پورا دن ایکسرسائز کر سکتے ہیں لیکن ہم ورکنگ پیپل ہیں‘ ہم نے اپنے پروفیشن‘ جاب اور فیملی کو بھی وقت دینا ہوتا ہے‘ ہم دن میں تین تین بار ایکسرسائز کیسے کر سکتے ہیں‘‘ اس نے قہقہہ لگایا‘ انگلی سے میری طرف اشارہ کیا اور بولا ’’ویری گڈ کوئسچن‘ میں نے ایکسرسائز کا یہ شیڈول ریٹائرمنٹ کے بعد شروع نہیں کیا‘ یہ میری جوانی کی روٹین ہے‘ میں صبح خالی پیٹ پیدل دفتر جاتا تھا‘ مجھے دفتر پہنچنے میں ایک گھنٹہ لگتا تھا‘ یہ گھنٹہ میری مارننگ واک ہوتی تھی‘ میں ناشتہ دفتر میں کرتا تھا‘ میں پچھلے ستر سال سے شام کے وقت لوگوں کے گھروں میں پمفلٹ پھینک رہا ہوں۔
میں روز اشتہاری کمپنی سے پمفلٹ لیتا ہوں‘ شام کے وقت سائیکل پر بیٹھتا ہوں‘ سائیکل چلاتا جاتا ہوں اور گھروں میں پمفلٹ پھینکتا جاتا ہوں‘ مجھے اس سے جو آمدنی ہوتی ہے میں وہ رقم خیرات کر دیتا ہوں یوں میری ایکسرسائز بھی ہو جاتی ہے اور چیرٹی بھی اور رات کو میں جم میں باقاعدہ ’’مسل ایکسرسائز‘‘ کرتا ہوں‘ میں نے پوری زندگی اپنے مہمانوں کو پارکوں میں ملاقات کا وقت دیا‘ میں چلتے چلتے بات کرتا ہوں اور چلتے چلتے بات سنتا ہوں یوں ڈاکٹر ایکسرسائز ہمیشہ میرے ساتھ رہتا ہے‘‘ وہ رکا۔
لمبی سانس لی اور بولا ’’انسان دنیا کی واحد مخلوق ہے جسے اپنے قدکاٹھ اور وزن کے مقابلے میں انتہائی کم خوراک کی ضرورت ہوتی ہے‘ ہمیں خوراک کو دوائی کی طرح استعمال کرنا چاہیے‘ ہم یہ نہیں کریں گے تو دوائی ہماری خوراک کی جگہ لے لے گی‘ آپ گرین ٹی پئیں‘ چائے میں چینی اور دودھ استعمال نہ کریں‘ پھل اور سبزیاں کھائیں‘ گوشت ہفتے میں ایک بار کھائیں‘ مچھلی‘ انڈہ اور چکن روزانہ لیکن تھوڑا تھوڑا لیں اور آپ ایک گھنٹے میں پانی کی ایک بوتل پی جائیں‘ انسان سولہ گھنٹے جاگتا ہے‘ روزانہ پانی کی سولہ بوتلیں اس کے اندر جانی اور باہر نکلنی چاہئیں‘ آپ یہ کر کے دیکھ لیں‘ ڈاکٹرڈائیٹ پوری زندگی آپ کی حفاظت کرے گا‘‘۔
وہ رکا‘ لمبا سانس لیا اور بولا ’’آپ خدا کی ذات پر سو فیصد اعتماد رکھیں‘ دنیا میں کوئی نقصان نقصان اور کوئی فائدہ فائدہ نہیں ہوتا‘ یہ صرف وقت کی بات ہوتی ہے‘ نقصان اور فائدہ دونوں چند دن‘ چند ماہ یا چند سالوں کے بعد بے معنی ہو جاتے ہیں‘ آقا اور غلام چند برسوں کی تکلیف اور چند سالوں کی آسائش ہوتی ہے‘ رخمی صحت مند ہو جاتا ہے اور صحت مند زخمی ہو کر بیڈ پر پڑا ہوتا ہے‘ آپ اپنی کامیابی اور ناکامی دونوں کو من جانب اللہ سمجھ لیں‘ آپ سکھی ہو جائیں گے‘ بچوں کو امیر ہونا نہ سکھائیں‘ خوش ہونا سکھائیں تاکہ یہ بڑے ہوں تو یہ چیزوں کی اہمیت دیکھیں‘ ان کی قیمت نہ پڑھیں۔
دنیا کا جو شخص آپ سے محبت کرتا ہے وہ آپ کو کبھی چھوڑ کر نہیں جائے گا اور جو چلا گیا وہ آپ کا تھا ہی نہیں‘ انسان ہونے اور انسان بننے میں بڑا فرق ہوتا ہے‘ دنیا کا ہر شخص انسان ہے لیکن کیا وہ اشرف المخلوقات بھی ہے؟ یہ اس کے رویئے‘ یہ اس کی سوچ اور یہ اس کی شائستگی طے کرتی ہے‘ انسان ہونے کے بجائے انسان بننا سیکھو‘ سکھی رہو گے‘ جیتنا چاہتے ہو تو اکیلے دوڑو‘ کامیاب ہونا چاہتے ہو تو لوگوں کو ساتھ لے کر آہستہ آہستہ چلو‘ زندگی اچھی گزرے گی‘ ہم مسافر ہیں اور ہمارا خدا ہمارا ٹریول ایجنٹ‘ ہمارے روٹس‘ ہماری منزلیں اور ہمارے ساتھی مسافر دنیا میں ہر چیز ہمارے ٹریول ایجنٹ نے طے کر دی ہے۔
آپ اگر سفر کو انجوائے کرنا چاہتے ہیں تو آپ لائف کے اس پیکیج کو قبول کر لیں آپ کی زندگی اچھی ہو جائے گی اور آپ اگر تنگ ہونا چاہتے ہیں تو آپ اس پیکیج پر اعتراضات شروع کر دیں‘ آپ کی زندگی عذاب ہو جائے گی‘ پیکیج پر اعتماد سیلف کانفیڈنس پیدا کرتا ہے اور یہ سیلف کانفیڈنس آپ کو اچھی زندگی فراہم کرتا ہے چنانچہ یہ ڈاکٹر بھی زندگی کے لیے انتہائی ضروری ہے‘‘ وہ رکا لمبا سانس لیا اور بولا ’’اور ہاں ڈاکٹر فرینڈ بھی آپ کی زندگی کے لیے انتہائی ضروری ہے۔
آپ کی زندگی میں ایسے لوگ ضرور ہونے چاہئیں جن سے مل کر آپ قہقہے لگا سکیں‘ آپ جن کے ساتھ اپنی خوشیاں‘ اپنی اداسیاں اور اپنے غم شیئر کر سکیں‘ یہ ڈاکٹرہمارے جذبات کی مرہم پٹی کرتے ہیں‘ یہ نہ ہوں تو ہم اپنے ٹوٹے جذبوں کے لہو میں ڈوب کر مر جائیں ‘ ہماری عمر چھوٹی اور غم لمبے ہو جائیں‘‘۔
وہ رکا‘ لمبا سانس لیا‘ اٹھا‘ بوٹ پہنے اور بولا ’’ہم باقی گفتگو واک کے دوران کریں گے‘‘۔
جاوید چوہدری


جمعہ، 20 جنوری، 2017

لائف ٹپس (2)

تحائف کو اسپیشل بنایئے
 کہا جاتا ہے تحائف کے تبادلے سے محبت بڑھتی ہے۔آج کل گفٹ شاپس سے تحائف وغیرہ آسانی سے مل جاتے ہیں اور ساتھ ان کی پیکنگ بھی کر دی جاتی ہے۔ اگر اپنے کسی پیارے کو تحفہ دیتے ہوئے ’’پرسنل ٹچ‘‘ دیا جائے تو وہ شخص اسے دیر تک یاد رکھتا ہے۔ آپ تحفے کے ساتھ کا غذ پر چند سطریں لکھ دیجیے۔ ہاتھ سے بنے ٹوکن اور کارڈ وغیرہ بھی تحفے کے ساتھ دیجیے۔یہ عمل دوسرے شخص کو خوشگوار احساسات سے ہمکنار کر دیتا ہے۔
 زندگی میں ترقی اور تعلقات کی پائیداری کے لیے بہت ضروری ہے کہ مثبت انداز فکر اپنایا جائے۔ہمارے ہاں شک،تجسس اور منفی تنقید اب ہر مجلس میں عام ہوتی جا رہی ہے۔ نئے سال کے عزائم میں ہم چیزوں کے حوالے سے اپنا زاویہ نظر بدلنے کو بھی شامل کر سکتے ہیں۔ مثبت سوچنے والے لوگ بہت کم پریشان ہوتے ہیں اور ان کے دوستیاں دیرپا اور مضبوط ہوتی ہیں۔
 اپنے احباب میں کتاب بینی کے شوقین دوستوں سے ملیے اور ان سے مختلف موضوعات پر اچھی کتابوں کے بارے میں پوچھئیے ۔ایک فہرست مرتب کر کے باری باری وہ کتابیں پڑھ ڈالیے۔ مطالعے کے دوران کتاب کے اہم مقامات کو نشان زد کیجیے یا پھر نوٹس لیجیے ۔ اس طرح آپ کے پاس حوالے کے طور پر مختلف موضوعات پر معلومات جمع ہو جائیں گی جو آئندہ آپ کے لیے مفید ثابت ہوں گی۔ اپنے مطالعے کے نتائج کو اپنے دوستوں سے بھی شیئر کریں ۔ممکن ہے اس گفتگو کے دوران دوستوں سے نئی معلومات اور آئیڈیاز آپ کو مل جائیں۔ اس طرح ایک سال میں آپ اپنے شعور میں نمایاں ترقی محسوس کر سکیں گے۔

روزنامہ ایکسپرس


پاکستانی میڈیکل کی طالبہ کا کارنمہ

جامعہ کراچی اور سرسید یونیورسٹی  کے طالبعلموں نے دل کے دورے سے خبردار کرنے والا ایک آلہ بنایا ہے جو کسی مریض میں ہارٹ اٹیک کا پتا لگا کر خبردار کرسکتا ہے اور وہ قریبی عزیزوں کو ایس ایم ایس سے مطلع کرنے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔
جامعہ میں واقع ڈاکٹر پنجوانی سینٹر فار مالیکیولرمیڈیسن اینڈ ڈرگ ریسرچ (پی سی ایم ڈی ) کی پی ایچ ڈی طالبات اور سرسید یونیورسٹی آف انجینیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کے ایک طالبعلم نے مشترکہ طور پر یہ آلہ تیار کیا ہے۔ پاکستان میں تیار کیا جانے والا یہ اپنی نوعیت کا واحد پروٹوٹائپ ہے جس میں موجود سرکٹ ڈسپلے پر دل دھڑکنے کی رفتار ظاہر کرتا رہتا ہے۔
فی الحال یہ ایک نمونہ یا پروٹوٹائپ ہے جسے مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔  صبا مجید، کنول افتخار، ماہا شاہد، عائشہ عزیز، مہوش سبحان، مہوش تنویراور مریم آسکانی نے اس کے پیرامیٹرز اور اصول وضع کئے ہیں جب کہ سرکٹ ڈیزائننگ اور تیاری کا کام سعد احمد خان نے کیا ہے جو سرسید یونیورسٹی سے وابستہ ہیں۔ تمام طالبات نے یہ پروجیکٹ ڈاکٹر پروفیسر شبانہ سیم جی کی نگرانی میں بنایا ہے۔
ٹیم میں شامل طالبات پی سی ایم ڈی میں فارماکولوجی میں پی ایچ ڈی اسکالر ہیں۔ ان میں ایک بلوچ طالبہ مریم آسکانی بھی ہیں جو کراچی کے علاقے لیاری میں رہائش پذیر ہیں اور اپنے خاندان میں ڈاکٹریٹ کرنے والی پہلی لڑکی ہیں۔ مریم نے بتایا کہ انہیں بچپن سے ہی پڑھنے کا شوق تھا اور اب ان کی تعلیم کو دیکھ کر خاندان کے دیگر لوگ بھی اپنی بچیوں کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کررہے ہیں۔
صبا مجید نے ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ آلے کو انگلی پر پہنا جاتا ہے جو نبض اور جسمانی درجہ حرارت کو نوٹ کرتا رہتا ہے ۔ اگریہ دونوں اشاریئے معمول سے ذیادہ یا کم ہوں تو اس کا الارم بج جاتا ہے اور اس میں جی ایس ایم ٹیکنالوجی سے مریض کے مقام کی نشاندہی بھی کی جاسکتی ہے جبکہ سم کارڈ کے ذریعے ایمبولینس، ڈاکٹر، عزیز رشتے دار سمیت کئی افراد کو ایس ایم ایس کے ذریعے مریض کی کیفت سے آگاہ بھی کیا جاسکتا ہے۔
ہارٹ اٹیک ڈٹیکشن ڈیوائس نامی یہ آلہ ای سی جی کی  جگہ تو نہیں لے سکتا لیکن ابتدائی صورتحال سے خبردار کرسکتا ہے۔ دل کے دورے میں فوری طور پر ابتدائی طبی امداد ضروری ہوتی ہے اور ہر گزرتا ہوا منٹ بہت قیمتی ہوتا ہے۔ اسی لیے ابتدائی حالت ظاہر کرکے یہ جانی نقصان سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔
طالبات کے مطابق اسے اسلام آباد میں منعقدہ ایک اختراعاتی مقابلے کے لیے طبی و حیاتیاتی اختراع کے زمرے کے لیے تیار کیا گیا تھا۔ اس مقابلے کا نام ڈسٹنگوئشڈ انوویشن کولیبریشن اینڈ اینٹرپرونیئرشپ (ڈائس) تھا جہاں اس نے پہلا انعام حاصل کیا تھا۔
ایکسپریس ٹریبیون کے مطابق اس پروٹوٹائپ کی تیاری پر 30 ہزار روپے کی لاگت آئی ہے تاہم تمام طالبات نے اتفاق کیا کہ اسے مریضوں پر آزمانے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ آلے کی معیاربندی اور کیلبریشن  کی بہت ضرورت ہے جو فیلڈ ورک کے بعد ہی ممکن ہوگی۔ دوسری جانب پورے آلے کو کسی کڑے (ہینڈ بینڈ) میں سمونے سے یہ مزید بہتر، مختصر اور مؤثر ہوسکتا ہے۔

صبا مجید کے مطابق اس کامیابی کے بعد ہمیں مزید وسائل کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ امراضِ قلب کے ماہرین، بایومیڈیکل انجینئر اور دیگر پروفیشنلز کی ایک سرگرم ٹیم کی ضرورت ہے تاکہ اس کام کو مزید آگے بڑھایا جاسکے۔ دوسری جانب اس کی کامیابی کے لیے امراضِ قلب کے ماہرین اور بایو میڈیکل انیجینئروں پر مشتمل ایک ماہرانہ ٹیم کی ضرورت پر بھی زوردیا گیا ہے۔
روزنامہ ایکسپرس


جمعرات، 19 جنوری، 2017

پیسہ کمانے کا راز

سان فرانسسکو:نوجوانی کے ایام میں یا تو ہم اپنے والدین کے پیسے پر عیش کرتے ہیں اور امید رکھتے ہیں کہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد کمائی شروع کریں گے۔ لیکن ٹیمر تھامسن ایسا نہیں ہے اور وہ صرف 17سال کی عمر میں ہی 30ہزار ڈالر(31لاکھ روپے )ماہانہ کماتا ہے۔Kindleکے لئے اپنی ویب سائٹ سے کورسزدینے والے ٹھامسن کا ”بزنس انسائیڈر“سے بات کرتے ہوئے کہناتھا کہ اس کی کامیابی کی پانچ وجوہات ہیں،آئیے آپ کو بھی بتاتے ہیں۔
ایکشن کریں
اس کا کہنا ہے کہ ہمیشہ عمل کریں صرف زبانی کلامی کی نہ چیزیں کریں۔”اکثر لوگ باتیں ہی کرتے ہیںاور عملی طور پر ان کا عمل صفر ہوتا ہے۔“ اس کا کہنا ہے کہ جب تک آپ عملی طور پر کچھ نہیں کریں گے تب تک آپ کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکیں گے۔
ناکامی سے مت گھبرائیں
زندگی میں غلطیاں ہوتی رہتی ہیں لہذا ناکامی سے کبھی مت گھبرائیں۔ ”اگر زندگی میں ناکامی ہو تو ہمت نہ چھوڑیں کیونکہ ہر ناکام تجربے کے بعد ہی کامیابی کا سفر شروع ہوتا ہے۔آپ اپنی غلطیوں سے سیکھتے ہیں اور پھر کامیابی آپ کے قدم چومتی ہے۔
ایک ناکامی کے بعد اپنی توجہ کا محور تبدیل نہ کریں بلکہ اپنا فوکس رکھیں۔”سب سے طاقتور چیز جو آپ کرسکتے ہیںاور وہ یہ کہ اپنے محور پرتوجہ رکھیں۔آپ اس وقت زیادہ ترقی کرتے ہیں جب آپ کسی ایک چیز پر توجہ رکھتے ہیں۔
اپنے اردگرد مثبت لوگوں کو رکھیں
انسان اپنے اردگردافراد کی وجہ سے کافی اثر لیتا ہے اور اگرآپ کے گرد منفی خیالات کے لوگ رہیں گے تو آپ کی سوچ بھی منفی ہوتی جائے گی لہذا کوشش کریں کہ اپنے ملنے جلنے والے افراد کا دائرہ مثبت رکھیں۔”منفی خیالات والے افراد آپکو بھی ناکامی کا درس ہی دیں گے لہذا مثبت سوچ رکھنے والے افراد سے تالمیل رکھیں۔
کبھی بھی نہ رکیں
اپنی زندگی میں مقصد رکھیں اور جب یہ حاصل ہوجائے تو رک نہ جائیں بلکہ آگے کی جانب سفر جاری رکھیں۔اگر کوئی مقصد حاصل کرنے کے بعد آپ رُک جائیں گے تو پھر آپ کا سفر پیچھے کی جانب شروع ہوجائے گا۔”بڑی کمپنیاں پہلے چھوٹی تھیں لیکن ان کی روزبروز کی ترقی کی بدولت یہ اس مقام پر پہنچی ہیں لہذا آپ کو بھی ایک مقصد حاصل کرنے کے بعد اگلے کی طرف بڑھنا ہے۔

روزنامہ پاکستان

لائف ٹپس

سیرو سیاحت کے لیے وقت نکالیے
 زندگی میں دلچسپی پیدا کرنے کے لیے تنوع بہت ضروری ہے۔ مسلسل کام کے دوران جب کبھی چھٹیاں ملیں تو خوبصورت مناظر سے آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچانے کے لیے پُرفضا مقامات کی سیر کو نکل جایئے۔ کوشش کیجیے کہ آپ کے ساتھ خاندان کے لوگ یا پھر دوست احباب بھی ہوں۔ دوستوں کے ساتھ بیتا یہ وقت آپ کی یادوں کی گیلری میں رنگ بھر دے گا اور جسمانی طور پر بھی آپ خود کو تر وتازہ محسوس کریں گے۔
ورزش لازمی کیجئے
 تندرست دماغ ہی اچھے اور تعمیری خیالات کو جنم دے سکتا ہے اور اس کے لیے آپ کے جسم کا توانا ہونا بہت ضروری ہے۔اگر آپ صبح اٹھ کر پہلا کام ورزش کریں گے تو آپ کے جسم پر بہت مثبت اثرات پڑیں گے۔ صبح کی ورزش کے دوران جسم سے بہنے والے پسینے کے ساتھ ساتھ اینڈروفینز(جسم میںموجود افیونی مادے) باہر نکل آتے ہیں۔ اگر آپ سستی اور کاہلی سے جان چھڑانا چاہتے ہیں تو صبح کی ورزش کو اپنا معمول بنانا ہو گا۔
جائزہ لیجیے
 راہ کے پتھر درحقیقت ہمارے سفر کو مزید بڑھانے کا سبب بنتے ہیںاور یہ ضروری نہیں کہ ہمارا ہر کام اعلی درجے کی کامیابی پر منتج ہو۔توقع کے عین مطابق محنت کا نتیجہ نہ ملنے پر مایوس نہیں ہو نا چاہے بلکہ اسباب کا تجزیہ کر کے اپناکام جاری رکھنا چاہیے۔ اس مقصد کے لیے وہ جملہ ذہن میں رکھیے جو ایک کارٹون کی تصویر کے ساتھ لکھا ہوتا ہے کہ’’میں نے بہت سی غلطیاں کیں اور کافی کچھ سیکھا۔میں کچھ اور غلطیاں کرنے کے بارے میں بھی سوچ رہا ہوں۔‘‘ مطلب یہ کہ ناکامیوں میں بھی مثبت پہلو تلاش کر کے اپنے آئندہ کے منصوبوں کی تکمیل کی جانی چاہیے۔
اپنے ماحول کو مرتب کیجیے
 اپنے کمرے اور کام کی جگہ پر موجود الماریوں اور میز وغیرہ سے غیر ضروری اشیاء اٹھا دیجیے۔ اس سے آپ کو اپنے متعلق اشیاء کی ملکیت کا احساس ہو گا۔ماحول کی صفائی اور اس میں ترتیب آپ کے کام کی کارکردگی میں اضافے کے ساتھ ساتھ کام میں آپ کی دلچسپی کو بھی بڑھائے گی۔ یہ گھر اور دفتر دونوں میں ضروری ہے۔ بے ترتیب کتابیں ، فائیلوں کے انبار اور کام کی میز پر بکھری ہوئی اسٹیشنری تخلیقی کام کرنے والوں پر اچھا اثر نہیں ڈالتی۔
الیکٹرانک ڈیوائسز کا محدوداستعمال 
 اپنے لیے مخصوص اوقات میں ٹیلی فون،ٹیبلٹ اور لیپ ٹاپ وغیرہ کو خود سے دور رکھیے۔ اس کا مقصد اپنے لیے ایک ایسے ماحول کی تیاری ہے جو ہمیں مکمل طور پر سکون اور آرام فراہم کرنے میںمعاون ثابت ہو سکے۔بہت سے لوگ جب سونے لگتے ہیں تو سوشل میڈیا سائٹس (ٹویٹر ،انسٹاگرام اور فیس بک وغیرہ)ا نھیں کچھ اس طرح مصروف کرلیتی ہیں کہ وقت گزرنے کا احساس تک نہیں ہوتا۔بہتر ہے نئے سال کی آمد پر سوشل میڈیا کی مصنوعی دنیا کو کم سے کم وقت دینے کا عزم کیا جائے۔ سوشل میڈیا سائٹس اور ٹی وی پر ضیاع سے بچنے والا وقت تعمیری سرگرمیوں میں صرف کیجیے۔
روزنامہ ایکسپرس

اتوار، 15 جنوری، 2017

ارفع کریم پاکستان کا حقیقی چہرہ

کم عمرترین مائیکروسافٹ سرٹیفائیڈ پروفیشنل ارفع کریم 1995 میں فیصل آباد میں پیدا ہوئی۔ مائیکروسافٹ کارپوریشن کی دعوت پر جولائی 2005 میں ارفع کریم امریکا گئیں جہاں مائیکروسافٹ کے بانی چیئرمین بل گیٹس نے خصوصی طورپران سے ملاقات کی اورانہیں مائیکروسافٹ سرٹیفائیڈ ایپلی کیشن کی سند سے نوازا۔
ارفع کریم نے اپنی خداداد صلاحیتوں سے آئی ٹی کی دنیا میں وہ اعزازحاصل کیا جوان سے پہلے کوئی حاصل نہ کرسکا، ارفع کریم مائیکروسافٹ پروفیشنل ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین نعت خواں اورمقرر بھی تھیں۔ ارفع کریم نے دبئی کے فلائنگ کلب میں صرف 10 سال کی عمرمیں ایک طیارہ اڑایا اورطیارہ اڑانے کا سرٹیفکیٹ بھی حاصل کیا۔ انہیں 22 دسمبر 2011 کو مرگی کا دورہ پڑنے پر لاہور کے اسپتال میں منتقل کیا گیا جہاں وہ کچھ  روزکوما میں رہنے کے بعد 14 جنوری 2012 کو خالق حقیقی سے جا ملیں۔
کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جومرکر بھی امرہوجاتے ہیں، ارفع کریم رندھاوا نے بھی جہان فانی سے جہان ابدی کی جانب کوچ کیا تو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے زندۂ جاوید ہو گئیں۔ ارفع نے فاطمہ جناح گولڈ میڈل، سلام پاکستان یوتھ ایوارڈ، پرائیڈ آف پرفارمنس ایوارڈ سمیت کئی اعزازات بھی حاصل کیے۔ اگرزندگی وطن عزیز کے اس گوہر نایاب سے وفا کرتی تونہ جانے کتنے ہی کارنامے سرانجام دیتیں اورکتنے ہی اعزازات ان کی جھولی میں آ گرتے۔
ارفع کے والد بیٹی کے دنیا سے جانے کو دکھ نہیں سمجھتے کیونکہ ان کے نزدیک وہ تو قوم کی بیٹی تھی، ارفع کریم کوعظیم کارنامے پر حکومت کی طرف سے بطور اعزاز ارفع کریم آئی ٹی ٹاورتعمیر کیا گیا۔
روزنامہ ایکسپرس


جمعہ، 13 جنوری، 2017

محرومیوں کوکامیابی میں بدلیں


انسان کادنیامیں ہونا، کام کرنااس بات کی علامت ہےکہ قدرت کاجوکارخانہ چل رہا ہےاس میں اس کاکردارہے۔جس طرح ایک گاڑی بہت ساری چیزوں کا مجموعہ ہوتی ہے، ہرچیزکا اپنا کردارہوتا ہے،چیزاپنی جگہ پرفٹ ہوتی ہےاسی طرح انسان بھی قدرت کے نظام میں کہیں نہ کہیں فٹ ہےاوراس کا اہم کردارچاہے وہ کردارچھوٹا ہی کیوں نہ ہو۔ اگرکوئی محرومی کے ساتھ پیدا ہوا ہے تو وہ محرومی بے وجہ نہیں ہوسکتی اس میں بھی قدرت کی کوئی نہ کوئی حکمت ہے، محرومی کے حوالے سے بہترین مثال نک وجیجک ہے وہ ایسا شخص ہے جس کے نہ بازو ہیں اورنہ ہی ٹانگیں لیکن اس کے باوجود وہ کام کررہا ہےاس کا کہنا ہے اگرمحرومی کے باوجود میرااس دنیا میں کردار ہےتو یہ کیسےممکن ہےکہ جو شخص صحیح سلامت ہےاس کا کردار نہ ہو۔
نک وجیجک جب اپنی زندگی سے تنگ آگیا تو اس نے پہلی دفعہ آٹھ بر س کی عمرمیں خود کشی کرنےکی کوشش کی جس میں وہ ناکام ہو گیااس کے بعد پھراس نےدوبارہ کوشش کی جب دوسری بار بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تواس نے سوچاکہ ضرورکچھ نہ کچھ ایسا ہے جس کی وجہ سے مجھے ناکامی ہورہی ہےاورضرورمیرا دنیا میں آنے کا کوئی نہ کوئی مقصد ہے اس کے بعد اس نے فیصلہ کیا کہ میں نے جینا ہے، پھر وہ تعلیم حاصل کرنےلگا ، تعلیم کے دوران اسے دنیا کی باتوں کا سامنا بھی کرنا پڑا لیکن اس کے باوجود اس نے خوشی سے اپنی زندگی کوقبول کرلیاوہ کہتا ہے کہ "کیونکہ مجھےزندگی سے محبت ہےاس لیے میں خوش ہوں"۔ ایک لیکچر کے دوران نک نے کہا کہ میں محروم ہوں لیکن اس کے باوجود ایک نارمل شخص کی طرح زندگی گزاررہاہوں اورخوش ہوں،کیا کوئی لڑکی مجھے قبول کرے گی اسی لیکچرمیں ایک خوبصورت لڑکی نےاس کے ساتھ شادی کا فیصلہ کرلیا۔خوشی کے لیے پہلی شرط یہ ہے کہ آپ کو زندگی سے محبت ہونی چاہیے ۔
سائنس جتنی بھی ترقی کر لے مگر یہ نہیں ہو سکتا کہ والدین بدل جائیں، یہ نہیں ہو سکتا کہ سانسوں میں اضافہ ہوجائےاور یہ نہیں ہو سکتا کہ موت کا وقت بدل جائے۔ انسان اپنی شکل کو نہیں بدل سکتا لیکن اپنی عقل، سمجھ اورفہم کوبدل سکتا ہے۔ جن چیزوں کو بدلا جا سکتا ہے ان میں رویہ، سوچنے کا اندازاورردعمل ہے۔ زندگی ایک عمل ہےاورزندگی کے بعد کا وقت ردعمل ہے جیسے آخرت کہا جاتا ہےآخرت میں انسان اپنےعمل کو کیش کرتا ہےاگرزندگی میں اس کا عمل صحیح رہا تو بہترین اجرملےگا نہیں تو سزا کا مستحق ٹھہرے گا۔
اس کائنات میں اللہ تعالیٰ کی ذات سب سے بڑی ٹیچر ہےوہ ہرلمحہ انسان کو سکھاتی ہے ۔ قدرت جس کو سکھانا چاہتی ہےاس کے ساتھ ایک عمل کو اتنی باردہراتی رہتی ہےجب تک انسان سیکھ نہیں جاتا لیکن انسان غورنہیں کرتا جس کی وجہ سے اس کے ساتھ ایک ہی عمل بار بار ہوتا ہے۔ قدرت انسان کے ساتھ یہ معاملہ اس لیے کرتی ہے کہ وہ زندگی کو قبول کرتا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ "تم میرا شکر ادا کرومیں تمہیں اوردوں گا"شکرکا مطلب ہے ہمیں جو کچھ ملا ہے ہم اس کو قبول کر لیں گلےشکوے نہ کریں۔ نک کہتا ہےکہ "کامیابی یہ نہیں ہے کہ میں کھڑا ہوں بلکہ کامیابی یہ ہے کہ میں اپنا کام خود کرتا ہوں"
حضرت شیخ سعدی ؒ کہیں جا رہے تھے پاؤں میں جوتی نہیں تھی دل میں خیال آیا کہ میرے پاؤں میں جوتی نہیں ہے جب تھوڑا آگے گئے تو دیکھا ایک شخص کے پاؤں ہی نہیں تھے آپؒ فورا سجدے میں گر گئے اور اللہ تعالیٰ کا شکرادا کیا کہ ائے باری تعالیٰ میں تیرا شکر ادا کرتا ہوں کہ میں صحیح سلامت ہوں کیا ہوا اگر پاؤں میں جوتی نہیں ہے۔انسان جس مقام پر گلہ کرتا ہےاصل میں وہی شکرکامقام ہوتا ہے۔ کمی اس بات کی علامت ہوتی ہےکہ اللہ تعالیٰ کا خاص برتاؤ ہے ورنہ جن لوگوں کے پاس سب کچھ ہوتا ہےلیکن اس کے باجود ان کااللہ تعالیٰ کےساتھ تعلق نہیں ہوتا۔امریکہ میں ایک شخص حادثےکی وجہ سےکومے میں چلا گیا انیس دن بعد جب اسے ہوش آیا تواس نے رونا شروع کردیااورکہا کہ ائےاللہ اگر یہ جسم کام میں نہیں آ سکتا تھا تو پھر تو نے مجھے زندہ کیوں رکھا اس سے تو بہتر ہے کہ تو مجھے اٹھا لے اسی دوران اسے آواز آئی کہ جس زبان سے تم یہ شکوہ کر رہے ہو اس سے شکر بھی ادا کر سکتے تھے اس آواز کے بعد اس نےغورکیا اور سوچاکہ اس زبان سے تو میں ہزاروں کام لےسکتا ہوں اس کے بعد اس نےان کاموں کی فہرست بنائی جن کو وہ کر سکتا تھااورکام شروع کردیا پھرایک دن وہ بھی آیا کہ وہ امریکہ کا سب سے بیسٹ موٹیویشنل سپیکراورٹرینربن گیااوراس کے لیکچر کی مہنگی ٹکٹیں فروخت ہونا شروع ہو گئیں۔نک کہتا ہے کہ "معجزے کی تلاش میں نہ رہو بلکہ خود معجزہ بنو۔"
نک مزید کہتا ہے:
"میں نےآج تک کسی شکر گزارانسان کو پریشان نہیں دیکھا اورمیں نےآج تک پریشان کو شکر گزار نہیں دیکھا"
"اس دنیا میں سب سے بڑا جھوٹ یہ ہے کہ تم نہیں کر سکتے"
"ہاتھو ں اور اور بازوؤں سے زیادہ طاقتورچیزآپ کا ولولہ اور جو ش ہوتا ہے"
"مقصد والی زندگی میں خود ترسی نہیں ہوتی"
"شائد ممکن ہے آپ کو راستہ نظرنہ آ رہا ہو لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہےکہ راستہ ہے ہی نہیں ہے "
"زندگی کے بعض غم چوٹیں، تکلیفیں اور پریشانیاں آپ کوفائدہ دے کر جاتی ہیں "
"اگرمیں خدا کا کوئیا ور نام رکھوں تومحبت رکھوں"
"دنیا میں جن کی وجہ سے فرق پڑتا ہے وہ برا نہیں مناتےاور جو برا مناتےہیں ان کی وجہ سے فرق ہی نہیں پڑتا"
"تبدیلی کا انتظار چھوڑ کر خود تبدیلی بن جاو "
"دنیا میں تم ایک بارآئے ہو یہ ایک بار بھی کافی ہےاگر تم کچھ کرکےدکھا دو "
ہم نےاپنی محرمیوں اور خامیوں کے باوجود ثابت کر نا ہوتا ہےاس لیے اپنی خامیوں کو قبول کر یں جو چیزیں تبدیل نہیں ہو سکتیں انکو چھوڑدیں اورجو تبدیل ہوسکتی ہیں ان کو تبدیل کرنے کی کوشش کریں۔خامیوں کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہےکہ یہ خود اعتمادی میں کمی پیدا کردیتی ہیں بندہ زندگی کا سامنا کرنے کی بجائے دوسرے ذرائع تلا ش کر ناشروع کردیتاہے۔ جو جوخامیاں ہیں ان کی فہرست بنائیں اوراس طرح کے لوگ تلاش کریں جن لوگوں میں یہ خامیاں تھیں اورانہوں نے کیسےان خامیوں پر قابو پا کر کامیابی حاصل کی ۔ انسان دنیا کی واحد مخلوق ہے جو اپنی ناکامیوں کوکامیابیوں میں بدل لیتی ہے سو بار ناکام ہونا اس کو ناکام نہیں کرتا اگر وہ ناکام ہونا نہ چاہے ۔
اپنی زندگی میں شکر گزاری کو شامل کریں، شکر گزاری کا مطلب یہ نہیں ہےکہ صرف زبان سے کہہ دیا کہ شکر ہےبلکہ شکر حرکات سے بھی نظر آئے۔ جو شخص شکرگزار ہوتا ہے اس سے مثبت شعاعیں نکلتی اور کائنات میں بکھر جاتی ہیں اس کے بدلے میں اسے بھی مثبت شعاعیں ملنا شروع ہوجاتی ہیں جس کے نتیجے میں اس کی زندگی میں کامیابی کے زیادہ ذرائع پیدا ہونا شروع جاتے ہیں۔ حدیث کا مفہوم ہے کہ"جو شخص انسانوں کا شکر گزار نہیں ہے وہ اللہ تعالیٰ کا بھی شکر گزار نہیں ہے" جو شخص لوگوں کا شکر ادا کرتا ہے درحقیقت وہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کر تا ہے ۔
حضرت واصف علی واصف ؒ فرماتے ہیں " پہاڑ پر جانے کے سو راستے ہوتےہیں لیکن تمہارے لیے ایک راستہ ہوتا ہے جس پر تم چل رہے ہوتے ہو، تم اپنا راستہ واضح کرو کہ تم نے کس راستے پر چل کر منزل پر پہنچنا ہے "ہر بڑے انسان کو اپنے حال سے نفرت ہوتی ہے وہ تبدیلی چاہتا ہے یہ مادہ جتنا زیادہ ہوتا ہے اتنی جلدی تبدیلی آ تی ہے۔ کسی نے انتھونی رابنز سے پوچھا تم اتنے ٹرینرر کیسے بن گئے اس نے کہا لوگوں نے جو کام سالوں میں کیا میں نے وہ دنوں میں کیا ۔ آج سے اپنی زندگی کو اس طرح دیکھیں جس طرح ایک ہیرو دیکھتا ہے، جس طرح ایک کامیاب شخص دیکھتا ہے ۔
اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ ائے اللہ میرا ہاتھ دینے والا بنا دے ۔ اللہ پاک ہمیں آسانیاں عطا کرے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا کرے ۔۔۔آمین
(Don’t Waste Time on Your Weakness, Syed Qasim Ali Shah)