قدرت کے ہر چیز
کے متعلق قوانین
ہیں اسی طرح
کامیابی کے بھی قوانین ہیں ۔ جب بھی کسی قانون کی پیروی
کی جائے تو اس کے نتائج ملنا
شروع ہو جاتےہیں ۔جو لوگ کامیاب ہوتے ہیں وہ شعوری یا لاشعوری طور پر فطرت کے قوانین کی پیروی کررہے ہوتے ہیں ۔ دنیا میں ناکام ہونے والے لوگوں
کی تعداد کامیاب ہونے والے
لوگوں سے بہت زیادہ ہے۔
جتنے بھی ناکام لوگ ہوتے ہیں ان کو فطرت
کے ان اصولوں اور ضوابط
کا پتا نہیں ہوتا جن کی
وجہ سے کامیا بی ملنی
ہوتی ہے ۔ناکامی اور کامیابی دونوں موضوعات
انسان کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔کامیابی ایک سائنس
ہے جس پر کام ہو رہا ہے ، کتابیں لکھی جا رہی ہیں، تحقیق
ہو رہی ہے وجوہات کا پتا لگایا
جا رہا ہے۔ دنیا میں 500 Fortune کا
لفظ استعمال کیا جاتا ہے
۔ یہ ایک رسالہ ہے جو ہر سال دنیا
کی پانچ سو بڑی کمپنیوں کی
فہرست بناتا ہے اور بتاتا ہے کہ ان کی ترقی
کی کیا وجوہات ہیں ۔ جوادارے ناکام
ہوتےہیں ان کی بھی فہرست بنتی
ہے ان کی بھی وجوہات
تلاش کی جاتی ہیں ۔ ادارے ، افراد،
اقوام یا ملک کامیاب ہوں یا ناکام
ہوں ان کے پیچھے کوئی نہ کوئی وجہ
ضرور ہوتی ہے ۔
دنیا میں
جو لوگ ناکام ہوتےہیں
ان کی اکثریت تذکرہ کرتی نظر آتی ہے کہ میری قسمت اچھی نہیں ہے ، میرے
نصیب ٹھیک نہیں ہیں ، میرے نصیب سوئے
ہوئےہیں وہ یہ سب
باتیں اپنے آپ کو تسلی دینے
کے لیے کرتے ہیں ۔ جس طرح ہر سوئی
ہوئی چیز جاگ جاتی ہے اس طرح سویا ہوا نصیب بھی
جگایا جا سکتا ہے ۔ جن لوگوں نے اپنے نصیب
کو جگایا اور ترقی کی اگر
ان سے ان کی ترقی کے متعلق پوچھا جائے تو وہ
بتائیں گے کہ ترقی کرنا
کوئی مشکل نہیں ۔ کامیابی
کے لیے پہلے سیکھنا پڑتا ہے پھر
قوانین کو اپنے اوپر لاگو کیا جاتا ہے ،رہنمائی لی جاتی ہے ، مستقل مزاجی دکھانا
پڑتی ہے تب جا کر کامیابی ممکن ہوتی ہے ۔ اگر کامیابی
میں قسمت کا کردار ہوتو ہمیں اللہ تعالیٰ کے
سامنے جواب دہ نہ ہونا پڑے جواب دہ ہونے
کا مطلب ہی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو
اختیار دیا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ نے انسان کو عقل سے، شعور سے، سمجھ سے ،
طاقت سے ،فہم سے اور دانش سے نوازہ
ہے تو پھرایک دن اس نے ان کا حساب بھی لینا ہے۔ رجحان بدلنے سے قسمت بدل جاتی ہے ،زندگی میں اچھے لوگوں
کے آنے کی وجہ سے قسمت
پر اثر پڑتا ہے۔ بعض لوگ ایسے
ہوتےہیں جو نصیب کو اجاڑ دیتےہیں جبکہ بعض لوگ ایسے
ہوتےہیں جو نصیب بنا دیتےہیں ۔بعض
واقعات اتنی عقل دے دیتےہیں کہ نصیب جاگ جاتا ہے جبکہ بعض
واقعات ایسے ہوتےہیں جن کی وجہ
سے عقل چھن جاتی ہے ۔
کامیابی
کے اپنے اصول و ضوابط ہیں نپولین
ہل کے مطابق کامیاب لوگوں کے پاس
جنون ہوتا ہے وہ صرف خواہش پر نہیں جیتے ۔
شوق اور جنون والے لوگ کامیاب ہوتےہیں جو
لوگ ناکام ہوتے ہیں وہ جمود کا
شکار ہوتےہیں ۔ ناکام لوگوں کے پاس جینے کا جوازنہیں ہوتا ، بھاگنے کی وجہ نہیں ہوتی ،
کچھ کرنے کا جذبہ نہیں ہوتا ۔ ان کے دن یونہی مہینوں میں، مہینے سالوں میں اور سال آخر کار قبر میں جاکر ہی ختم ہوتے ہیں۔ نپولین ہل کہتا ہے کہ وہ
لوگ زیادہ کامیاب ہوتےہیں جن کے
پاس واضح مقصد ہوتا ہے ۔ ناکام لوگوں کے پاس
کوئی مقصد نہیں ہوتا، ان کے پاس
کوئی خواب نہیں ہوتے ، ان کے پاس قوت ارادی نہیں ہوتی۔ جب کرنے کی کوئی وجہ نہ ہوتو پھر صرف دن
ہی پورے ہو تے ہیں ۔ کامیاب لوگوں میں مستقل مزاجی ہوتی ہے ناکام
لوگ مستقل مزاج نہیں ہوتے وہ کام کو درمیان
میں چھوڑ دینے کے عادی ہوتے ہیں ۔ ان کی
سوچ یہ ہوتی ہے کہ جب
مر ہی جانا ہے تو پھر کامیاب ہونے کا کیا فائدہ۔ اس میں
کوئی شک نہیں کہ سب
نے مر جانا ہے لیکن کچھ کر کے دکھانا،
اپنے آپ کوثابت کرنا ، مرنے کے بعد
میں لوگوں کے دلوں میں زندہ رہنا اصل زندگی
ہے۔ناکام لوگ اپنے اندر تبدیلی
نہیں لانا چا ہتے جب تک اپنے اندر تبدیلی نہ لائی جائے تب تک باہر تبدیلی
نہیں آسکتی۔ بے شمار لوگ مذہبی
ہوتے ہیں لیکن اندر کسی قسم
کی کوئی تبدیلی نہیں ہوتی ان کا
حلیہ مذہبی ہوتا ہے لیکن ان کے اندر مذہب نہیں ہوتا۔ وہ تمام
لوگ جو اپنے اندر تبدیلی لے کر
آتے ہیں
وہ زیادہ کامیاب ہوتے ہیں ۔
ناکام لوگوں
کی زندگی مقصد سے خالی ہوتی ہے۔
زندگی کے بارے میں پتا ہونا چاہیے کہ میری
زندگی کس سمت میں جا رہی ہے ، میں نے کیا کرنا ہے ، میں نے جانا کہاں ہے ، میں
نے کہاں پہنچنا ہے، میں نے کیابننا ہے، میری شناخت کیا
ہوگی ۔ مقصدکے بغیر زندگی زندگی
نہیں ہوتی ۔ حیوان اور انسان کی
زندگی کے درمیان فرق ہی
مقصد کا ہوتا ہے حیوان کی زندگی
میں مقصد
نہیں ہوتا جبکہ انسان کی زندگی میں مقصد ہوتا ہے۔ مقصد انسان کو مقامِ
انسانیت تک لے جاتا ہے ۔مقصد کی تلاش بڑی اہم چیز ہے لوگوں
کو پتا ہی نہیں ہوتا کہ انہوں نے کیا کرنا ہے جب پتا
نہیں ہوتا کہ کرنا کیا ہے
تو پھر وہ سارے کام وہ کرتے
ہیں جو
نہیں کرنے والے ہوتے۔ جب پتا ہوتا
ہے کہ کیا کرنا ہے تو پھر
وہ سارے کام چھوڑ دیئے جاتےہیں جن کا
کوئی حاصل نہیں ہوتا، جن کا کوئی نتیجہ نہیں
ہوتا ۔ مقصد ذہن میں تصویر بناتا ہے ، مقصد بندے کو
بتاتا ہے کہ میں آج یہاں ہوں
پانچ سال بعد کہاں ہونا ہے ۔ مقصد
میں اتنی کشش ہوتی ہے کہ کسی ابنارمل شخص کو اگر مقصد دے دیا جائے تو وہ نارمل ہو جاتا ہے ۔ جو لوگ منفی ہوتےہیں ان کے پاس واضح مقصد نہیں ہوتا، مقصد بندے کو
منفی نہیں ہونے دیتا، چاہتے نہ چاہتے
بندہ مثبت رہتا ہے ۔
ناکامی سے سیکھنے والی اور کوئی چیز نہیں ہو سکتی اتنی کتا بیں نہیں سکھا تی جتنی ناکامیاں سکھاتی ہیں ۔ کامیاب
لوگ بڑی ناکامیوں کے بعد کامیاب ہو تےہیں۔ جو بندہ پہلی کوشش میں کامیاب ہو جائے اس کے
لیے کامیابی کو سنبھالنا مشکل ہوتاہے ۔ جن لوگوں کی
لاٹری نکلتی ہے ان میں اکثریت کچھ عرصہ بعد دوبارہ اسی پوزیشن میں ہوتی ہےاس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے پاس
پیسہ تو آجاتا ہے لیکن اس کا
استعمال نہیں آتا۔ کارو بار ایک دم نہیں چلتا
کارو بار جیسے جیسے چلتا ہے ویسے ویسے بندہ غلطیاں کرتا ہے
اور پھر ان غلطیوں سے سیکھتا ہے۔غلطیوں کی
وجہ سے بندے میں احساسِ ذمہ داری پیدا ہوتی ہے۔ غلطی اور ناکامی سکھاتی
ضرور ہے برا وقت آتا ہے اور چلا
جاتا ہے لیکن برا وقت جو
کچھ سیکھا کر جاتا ہے بندہ وہ ساری زندگی نہیں بھولتا۔ ناکامیاں بہت فائدہ
مند ہیں بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ ناکامیوں کے
بغیر کامیابی ممکن نہیں ۔
بہت سی ناکامیوں کے بعد بندہ
کامیاب ہوتا ہے اور جب وہ کامیاب ہوتا ہے تو پھر اس کو وہ
کامیابی اچھی بھی لگتی ہے اور اس میں کشش بھی ہوتی ہے ۔
جتنے
بھی ناکام لوگ ہوتےہیں وہ اپنی ذات پر کام نہیں
کرتے ۔دنیا کا سب سے
مشکل کام اپنی ذات پر کام کرنا ہے یہ بلکل ایسے ہی ہے جیسے اپنا اپریشن
کرنا ہو۔ اپنے آپ پر تب ہی کام ہوتا
ہے جب اپنی غلطیوں کے بارے میں پتا ہو ۔
حدیث شریف کا مفہو م ہے کہ "اللہ
تعالیٰ جس پر مہربان ہوتا ہے اس کا باطن
اس کے سامنے آشکار کر دیتا ہے"۔ جب بندے کو اپنی غلطیوں کا پتا
لگنا شروع ہو جاتا ہے تو اس میں
بہتری آنا شروع ہو جاتی ہے ۔غلطیوں کو
تلاش کرنے لیے سب سے پہلے ضروری ہے کہ سب سے پہلے غلطیوں کی فہرست بنائی جائے ۔ اس کے بعد اپنی کمزوریوں کی فہرست بنائی جائے ان
کمزوریوںمیں ہو سکتا ہے کہ بات
چیت کرنا نہ آتی ہو، جذبا ت کو منظم کرنا نہ
آتا ہو،جلد غصہ آجاتا ہو، ٹیم بنانی نہ آتی ہو۔ ون مین شو
کامیاب نہیں ہوتا تر قی کے لیے ٹیم
کی ضرورت ہوتی ہے اور ٹیم کےلیے مزاج اور حوصلہ چاہیے
ہوتا ہے اگر مزاج اور حوصلہ نہیں ہے
تو پھر کامیابی
ممکن نہیں ہوگی۔اپنی غلطیوں کو ختم کرنے
کےلیے کسی مینٹور کے پاس جائیں ، کتابیں پڑھیں ، کسی ماہر کے پاس جائیں اس سے کونسلنگ
لیں اس سے غلطیاں دور ہونے لگ پڑیں
گی ۔ اگر زندگی کی گاڑی کو آگے بڑھانا ہے تو
جتنے بھی غیرضروری بوجھ ہیں ان کو
چھوڑ دیں ۔
بہت
سے لوگ اپنی ناکامیوں کی وجہ سے ڈیپریشن میں چلے جاتےہیں
جس کی وجہ سے ان کی
کارکردگی پر فر ق آتا ہے ۔ڈیپریشن بندے کو اندر ہی اندر کھاتی رہتی ہے۔ جب بندہ اپنے مسائل کو
مینج نہیں کرتا تو پھر
وہ ڈیپریشن کا شکار ہو جاتا ہے ۔ کامیابی کے سفر میں مسائل کا سا
منا رہتا ہے دنیا میں اگر رہنا
ہے تو پھر مسائل کو
مینج کرنا چاہیے ۔ڈیپریشن کو مینج
کرنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ جو مسئلے بار بار آتے ہیں ان کی فہرست
بنائیں اور ان کی وجہ تلاش کریں ۔اپنی زندگی میں مثبت اپروچ لے کر آئیں
اپنی عادت میں ایسی تبدیلی
لے کر آئیں جو صحت پر
مثبت اثرات لے کر آئے وہ چاہے
صبح کی واک ہی کیوں نہ ہو۔ ایک
شوق بنائیں وہ کوئی
کھیل بھی ہو سکتا ہے ، وہ ڈرائیو ہو سکتی ہے وہ کچھ بھی ہو سکتا ہےیہ شوق نارمل
رکھنے میں بہت معاون
ہوگا۔ ان چیز وں کی فہرست
بنائیں جن سے موٹیویشن
پیدا ہوتی ہے کئی لوگوں کو میوزک اچھا
لگتا ہے، کئی لوگوں کو واک
اچھی لگتی ہے، کئی
لوگوں کو دوستی اچھی لگتی ہے ۔ جب
تک ڈیپریشن بندے کے پاس رہتی
ہے اس کی شدت زیادہ ہوتی ہے لیکن اس کے
بارے میں اپنے دوست سے تذکرہ
کیا جائے تو تو اس کی شدت میں کمی
آ جاتی ہے۔
ناکام لوگ شارٹ کٹ
کی تلاش میں رہتے ہیں جبکہ حقیقت
یہ ہے کہ
کامیابی کے لیے کوئی شارٹ
کٹ نہیں ہے۔ اگر شارٹ کٹ کے
ذریعے کامیا بی مل بھی جائے
تو وہ زیادہ دیر
قائم نہیں رہتی ۔ اگر گوبھی بوئی
جائے تو وہ چند دن میں تیار ہو جا
تی ہے لیکن اگر درخت
لگایا جائے تو اس کو تیار
میں ہونے میں سالوں درکار ہوتے ہیں ۔ چھاؤں اور پھل دینے
والا درخت بننے
میں وقت درکار ہوتا ہے ۔ گاجر مولیاں بنتی بھی جلدی ہیں
اور ان کا وجود بھی جلد ختم ہو جاتا ہےدرخت سالوں میں بنتا ہے اور سالوں قائم رہتا ہے وہ ختم ہو جانے
کے بعد بھی ایندھن کی صورت
میں کام آتا ہے ۔ شارٹ کٹ
شارٹ ٹرم کےلیے ہوتا ہے اس لیے
تھوڑی دیر کے لیے تو کچھ ہو سکتا ہے لیکن طویل
مدتی کامیابی کے
لیے پلان بھی طویل ہوتا
ہے اور اس کی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے جو کہ وقت اور صبر کی شکل میں ہوتی ہے۔ بے شمار لوگ بے صبرے ہوتے ہیں حضرت
میاں محمد بخشؒ فرماتےہیں:
صبر
دا پھل میٹھا ہونداتے بے صبرا پھل کوڑا
منزل نو او
پا نہیں سکدا جیڑا پے جاندا ائے سوڑا
منزل
کو پانے کے لیے ضروری ہوتا ہے
کہ بندے میں صبر ہو ، وقت کی
قیمت ادا کرے
اور پھر کامیاب ہوں۔
May Allah help us to understand and use it in practical life. Golden Words :)
جواب دیںحذف کریں