انسان جتنی بڑی
کامیابی کی طرف جاتا ہے اسے اتنی بڑی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے وہ قیمت سٹریس ہے۔
قیمت ادا کیے بغیر کامیابی نہیں ملتی لو گ
تھوڑی سی قیمت ادا کر کے بڑی کامیابی کی
تمنا کرتے ہیں ۔ حد تو یہ ہے جس نے فیل ہونا ہوتا ہے وہ بھی ٹاپ کی توقع لگا کر بیٹھا ہوتا ہے یہ دھوکہ ہے۔ انسان سب سے بڑا دھوکہ اپنے آپ کو
دیتا ہے اور اس میں اس کا کوئی قصور نہیں ہے
یہ اس کے مزاج میں ہے۔ انسان شروع میں کمزور تھا آندھی آتی اسے اڑا کے لے
جاتی تھی ، سانپ آتا اسے مار کر چلا جاتا
، شیر کھا لیتا ، سیلاب بستیاں اجاڑ دیتااور
جو لباس اس نے زیب تن کیا ہوتا وہ تازہ پتوں کا ہوتا جس کو جانور
کھا جاتایہ وہ سارے مسئلے تھے
جن کا انسان کو سامنا تھا کیو نکہ
وہ کمزور تھا ۔
صوفی انسان کی نفسیات کو بہت اچھی طرح جانتا ہوتا
ہے اسی وجہ ان کے ذریعے اسلام پھیلا ۔
صوفی کو پتا ہوتا ہے کہ اگر میں انسانوں
کو ترازو میں تولوں گا تو میری جیب خالی
رہے گی اسے پتا ہوتا ہے کہ میں کھوٹا جیب
میں ڈالوں گا کچھ عرصہ بعد وہ کھر ا ہو جائے گا یہ ایک آرٹ ہے۔ حضرت میاں محمد بخش ؒ کے ایک شعر کا مفہوم ہے کہ " جو ماڑا
ہوتاہے اس کا زور نہیں چلتا اس کے پاس صرف
دو آپشن ہوتےہیں پہلا بھا گ جاؤ اور دوسرا
معافی مانگ لو" اس لیے شروع کے انسان
یہ دونوں کام بہت کیے ہیں سیلا ب
آتا تو علاقہ چھوڑ دیتے پہاڑوں پر چڑھ
جاتے۔ انسان کی بنیا دی نفسیات میں ہے کہ جب بھی اس کی اوقات سے باہر کا مسئلہ ہوتا ہے یا وہ بھا گ جاتا ہے یا پھر مان جاتا ہے ۔ انسان کی جینز میں ایک
بات چھپی تھی کہ بھاگ جانا، تھک جانا، معافی
مانگ لینا ، ہار مان لینا لیکن آج کا انسان ترقی کرتے کرتے آخر کار جس مقام پر
پہنچا ہے اسے سمجھ آ گئی ہے ہمت بھی کوئی چیز ہے ، کھڑے ہو جانا قیمت ہے ،
لڑنا ایک قیمت ہے اس کے بغیر عزمت نہیں ہے
۔عزمت کے مناروں کی کتابیں پڑیں ، دنیا کے جتنے بڑےنام ہیں اس کی زندگی کو پڑھیں تو پتا لگتا ہے ان کی
عزمت کے پیچھے قیمت ہے۔ حضرت امیر خسروؒ
تاریخ کی ایسی کمال شخصیت ہیں جن کے اشعار کی تعدا د ساڑھے تین لاکھ ہے سوچنے کی بعد
بات ہے کہ جہاں سے شعر آتے
ہیں وہ درد کہاں سے آتا ہے کیونکہ بنانا مشکل نہیں ہوتا وہ جو بنانے والا ہوتا ہے وہ بڑی تکلیف میں
ہوتا ہے۔
دوسری انسانی نفسیات
یہ ہے کہ الزام لگانا، بچ جانا، برا بھلا کہنا، انگور کھٹے ہیں یہ نفسیات بھی شروع
سے ہے۔انسان کوشش کرتا تھا لیکن ہوتا نہیں
تھا اور کہتا تھا کہ ایسا نہیں ہو سکتا اس
میں بھی اس کا کوئی قصور نہیں ہے یہ اس کی
جبلت میں ہے ۔ جس طرح کھانا کھانا اور پیدا ہونا
اور ایک وقت آنے پر چلنے لگ پڑنا ایک عمر کے بعد بلوغت کا آ جانا ، بالوں کا سفید ہو جانا ، بوڑھا ہو جانا ، دانتوں کا اتر جانایہ اس کی
جنیز میں فیڈ ہے۔ اسی طرح انسان کے مزاج
کا ایک حصہ اس کی فطرت ہے اور وہ بھی اس کے جینز میں فیڈ ہے
دنیا کے ہر مزاج کا انسان ہر کام
میں تھوڑا بہت ضرور بھاگے گا وہ پہلے بچنے
کی کوشش کرے گا ۔منور صابر صاحب کہتےہیں عام بندہ لوگوں کو نہیں کھول سکتا لیکن جس کا کام ہوتا ہے لوگ اس کے سامنے خود کھل جاتےہیں ۔انسانی
نفسیات کو کتابو ں سے پڑھنے کے بعد جب آپ انسانوں کو پڑھتےہیں تو آپ کو سمجھ آتی
ہے کہ دنیا کے بڑے نام بڑے تیز تھے وہ صحیح دانشور لوگ تھے ان کو سمجھ آ
گئی تھی ، انہوں نے دلوں کو فتح کرنے کا راز پا لیا تھا ، انہیں پتا لگ گیا تھا کہ
انسان سوچتا کیوں ہے ، اس کے سوچنے کے سبب کیا ہیں، انسان کس صورتحال میں کس طرح کا رویہ اپناتا ہے ۔ باڈی لینگونج
ایک پور ی سائنس ہے کتابیں پڑھنے سے اس کا پتا تو لگ جاتا ہے مگر آتی نہیں ہے ۔
عزمت کے سفر میں انسانی مزاج کو سمجھنا بہت ضروری ہے ۔ انسان کا المیہ
ہے کہ وہ جب بھی عظمت کی طرف جاتا ہے تو سب سے
پہلے وہ کام پر فوکس کرتا ہے ۔جب بندہ پوری یکسوئی کے ساتھ ایک کام کو شروع کرتا ہے تو پھر قدرت بھی انعام کے طور پر اسے منزل عطا کر دیتی ہے ۔ مثال کے طور پر قائد اعظم
محمدعلی جناحؒ نے پاکستان بنایا اگر آپؒ
پاکستان کے بنانے کے ساتھ اور کام بھی
کررہے ہوتے تو یہ ممکن نہیں تھا کہ وہ کسی ایک منزل پر پہنچ پاتے۔ ذرا غور کریں کہ قائداعظمؒ کیسے بنے تھے جس طر ح پاکستان بننے کا عمل تھا
بلکل اسی طرح جناح سے قائداعظمؒ بننے کا
عمل تھا ۔ایک بندہ اگرایک کروڑ روپیہ کمائے تو
ایک کروڑ اتنا قیمتی نہیں ہوگا جنتا کمانے والا ہوگا کیو نکہ تخلیق کا یہ اصول ہے
کہ مخلوق ہمیشہ خالق کے سامنے عاجز رہتی ہے۔ اصول ہے کہ جس مشین سے جو چیز بن کے نکلے گی وہ چیز اہم نہیں ہوگی بلکہ مشین اہم ہو گی کیو نکہ چیز دوبارہ بن سکتی ہےاس طرح جو ایک بار
کامیاب ہو سکتا ہے وہ دوبارہ بھی کامیاب ہو سکتا ہے، جس کو ایک بار عزمت کا ذائقہ ملا ہے وہ دوبارہ بھی حاصل کر سکتا ہے۔
فوکس کامیابی کا کلیہ ہے
فوکس کے بغیر کامیابی ممکن نہیں ہے
۔ فوکس کا مطلب ہےکہ تن، من ،دھن لگا دینا، اپنی بے شمار خواہشات کو ذبح کر دینا اور ذبح کر نے
کے بعد فقط ایک چیز کو پکانا۔ سابق وزیر
اعلی ٰحنیف رامے میں کئی خصوصیات تھیں وہ
سیاستدان تھے ، شاعرتھے ، مصور تھے ان کے
علاوہ ان کے پاس اور بڑا ہنر تھا ایک دفعہ وہ حضرت واصف علی واصفؒ کے پاس گئے اور
ان سے کہا کہ کوئی نصیحت فرمائیں آپ ؒ نے
جواب دیا آپ ایک کام کریں جس طرح ہانڈی
میں ایک چیز پکتی ہے اسی طرح آپ کے پاس جتنے ہنر
ہیں ان میں سے ایک کو ہانڈی میں
ڈالیں باقیوں کو چولہے میں ڈال دیں۔ انہوں نے اس بات اس وقت تو نہ سمجھا مگر جب
بات سمجھ آئی تو کہا کہ مجھے میانی صاحب کے قبرستا ن میں دفن کرنا
پوچھا گیا کیوں تو انہوں نے جواب
دیا کہ یہاں پر بہت بڑا آدمی دفن ہے۔بعض اوقات آپ نصیحت کو
سننے کے بعدفوری طور نہیں مانتے لیکن بندے کو مان جاتے ہیں۔بعض
اوقات نصیحت فوری اثر نہیں کرتی
اس نے کچھ عرصہ بعد اثر کرنا ہوتا
ہے لیکن جس نے نصیحت کی ہوتی ہے اس کا پتا
لگ جاتا ہے۔ عزمت کے لیے سب سے اہم چیز فو کس ہے اور فوکس آنے کے بعد دن اور رات کا پتا نہیں چلتا۔ سچی کامیابی کا راستہ کمانےکا راستہ نہیں
ہے بلکہ لگانے کا راستہ ہے۔ اللہ تعالیٰ
نے آج تک نہ کسی کی محنت اور نہ کسی کی محبت ضائع کی ہے ۔ محبت کا دوسرا
نام شوق ہے کیو نکہ محبت حاصل نہیں ہوتی بلکہ
محبت سے فوکس ملتاہے۔بھارت میں لوگ
فوکس حاصل کر نے کے لیے چالیس دن کے اوشو
کو جوائن کرتے ہیں جس میں دس دن بے لباس رہنا پڑتا ہے ، دس دن مانگ کر کھانا پڑتا
ہے ، دس دن خاموشی ہوتی ہے جبکہ آخری دس
دن نصیحت ہوتی ہے۔ کسی نے گرو سے کہا کہ چالیس
دن کا کوئی شارٹ کٹ ہے گرو نے جو اب
دیا بڑا آسان شارٹ کٹ ہے اگر تجھے سچی
محبت ہوئی ہے اور محبت ملی نہیں ہے تو وہ
چالیس دن کے اوشو کا جو انجام ہے وہ تمہیں مل جائے گا۔ اس نے کہا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو درد چالیس
دن بعد پیدا ہوتا ہے وہ بندے کو
مل جاتا ہے ۔ کتناعجیب ہے دس دن خاموش
رہنا جیسے ہی بولنے کا خیال آئے تو فورا
ذہن میں آئے کہ نصیحت ہے بولنا نہیں ہے ، دس دن بغیر لباس کے رہنا
کیونکہ خیال لباس سے جڑاہوتا ہے ۔
فوکس کے بعد اگلا کام
قربانی ہے کیو نکہ فوکس قربانی کی
طرف لے جاتا ہے اس کی وجہ ہے کہ
منزل نظر آ رہی ہوتی ہے جس کی وجہ سے بندہ موجود چیزوں کو نظر انداز کر
دیتا ہے ۔نفسیات میں فوکس بندے کو ایک
ابنارمل رویے کی طرف لے جاتا ہے بندے کو
تکلیف میں راحت کا احساس ہوتا ہے ۔ حضرت علامہ اقبال ؒ فرماتے ہیں "خدا کرے
زخم دور ہی نہ ہو کبھی ۔۔۔بڑا مزہ ہے کلیجے پہ تیر کھانے میں "۔بندے کو جو آنسو اور اضطراب چاہیے ہوتا ہے وہ ٹوٹے ہوئے برتن سے پیدا ہوتا ہے اس سے پہلے پید ا ہی نہیں ہوتا ۔ فوکس کی وجہ
سے تھوڑا ابنارمل رویہ
بھی مل جاتا ہے اور وہ ابنارمل
رویہ یہ ہوتا ہے کہ سب کچھ لگا
دینا ہے ۔ دنیا کے جتنے بڑے لوگ ملیں گے
وہ تھوڑے سے ابنارمل نظر آئیں گے بڑے لوگوں سے
مراد وہ لوگ جو پروسس سے نکل کر بڑے بنے ہیں اس میں وہ
لوگ شامل نہیں ہیں جنہیں اللہ
تعالیٰ نے منتخب کیا ہوتا ہے ۔ حقیقی فوکس
نفع اورنقصان کے تصور کر ٹچ کرتا ہے اگر نفع اور نقصان کا تصور بدلا نہیں ہے تو پھرفوکس نہیں ہے۔فوکس کا مطلب ہے کہ پہلے آپ کھا کر خوش ہوتے تھے اب کھلاکر خوش ہوتے ہیں پہلے حاصل کا نام کمائی تھی اب دینے کا نام
کمائی ہے ۔ حضور اکرم ﷺ گھر تشریف لاتے ہیں
اور ام المومنین حضرت عائشہ رضی
اللہ عنہا سے پوچھتے ہیں کہ آج گھر میں کیا بچا ہے اس دن بکری ذبح ہوئی ہوتی ہے جس کے چند ٹکڑے بچ گئے ہوتے ہیں باقی
بانٹ دیئے ہوتے
ہیں آپ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں آج یہی بچا ہےآپﷺ نے فرمایاجو بانٹ دیا وہ بچا ہے۔ حضرت صوفی برکت علی ؒ فرماتے ہیں "مال رکھنے کے لیے دنیا کی
سب سے محفوظ جگہ غریب کی جیب ہے"آپ
رکھ کر دیکھیں دس گنا واپس آئے گا ہم مال کو ان تجوریوں میں رکھتے ہیں جہاں پر وہ چوری ہونا ہوتا ہے۔
نفع اور نقصان کے تصور بدلنے کے
بعد بسا اوقات ایک چیز کی گروتھ بہت زیادہ ہوجاتی ہے جس کیوجہ سے باقی تمام چیزیں دھب
جاتی ہیں ۔ مثال کے طور پر
جوپروفیشنل باڈی بلڈر ہوتا ہے اس کا جسم تو بہت اچھا بن جاتا ہے مگر اس
کا آئی۔ کیو اچھا نہیں ہوتااس کیوجہ ہے کہ اس کا سار ا فوکس اپنے جسم
بنانے کی طرف تھا۔ جس طرح جسم کو ورزش کی ہوتی ہے اسی طرح ذہن کو بھی ورزش
کی ضرورت ہوتی ہےاورذہن کی ورزش نیا سوچنا ، سوچنے پر مجبور کرنا ۔مائیکل انجیلو
جب مجسمہ بناتا تو اس کووقت کااحساس نہیں رہتاتھا
جب مجسمہ بن جاتا تو پتا چلتا کہ
پندرہ دن گزر چکے ہیں کئی دفعہ و ہ جب اپنے بوٹ اتارتا تو اس کی ساتھ کھال بھی اتر جاتی تھی یہ فوکس کی
انتہاتھی ۔ بعض اوقات انسان کسی چیز کے بنانے میں اتنا گم ہوتا ہے اور جب وہ
چیز بنا لیتا ہے تو حیران ہوتا ہے کہ یہ تو میرے گمان میں نہیں تھا ،میں
سوچ بھی نہیں سکتا تھا اتنا خوبصورت نظارہ
بن جائے گا۔ کہاجاتا ہے دنیا کی ہر چیز دو
بار بنی ہے ایک بار انسانی دماغ میں اور
دوسری بار دنیا میں ۔دنیا کی سب سے مشکل
تخلیق میوزک بنانا ہے
کیو نکہ موسیقی بنانے سے پہلے یہ دماغ میں نہیں ہوتی ۔ صرف سات راگ ہیں اور انہیں راگوں سے
اربوں گانے تخلیق ہوئے ہیں اور ہو رہے ہیں۔
دنیا کے بڑے دماغ
دنیا کو کئی سالوں تک اپنی بات
سمجھا نہیں سکے حضرت علامہ اقبال ؒ کا
خودی کا تصور کئی سال تک سمجھ نہیں
آسکا جس کی وجہ سے ان پر فتوی ٰ لگا ۔جب آپ عزمت کے سفر میں
آگے جاتے ہیں تو پھر زمانہ آپ سے متفق نہیں ہوتا ، عزمت نتیجہ یہ دیتی ہے کہ بندہ تنہائی
کاشکار ہوجاتا ہے ۔ جب یہی عزمت حضرت خواجہ غلام فرید ؒ کو ملتی ہے تو وہ
فرماتےہیں " کی سناواں حال دل دا ۔۔۔کوئی محرم راز نہ ملدا"حضرت واصف
علی واصف ؒ فرماتے ہیں "سن واصف شیشہ کی کیندا ۔۔۔۔توں وی کلا میں کلا"۔یہ وہ احساس ہے جب آپ عزمت میں بہت
آگے چلے جاتےہیں اور کہتے ہیں
کہ میں اب کس سے بات کروں پھر
لوگوں کو سمجھانے کے لیے اس سطح سے
نیچے آنا پڑتا ہے ۔
تنہائی کے بعد
الزامات اور تہمتیں لگنا شروع ہو جاتی ہیں
۔ عزمت کے نتیجے میں وہ انگلی اٹھتی ہے
جس کو سمجھ نہیں آئی ہوتی یا جس کا
بس نہیں چلتا یہ کامیابی
کی سب سے بڑی قیمت ہے ۔زمانہ ہمیشہ وقت کے دانشور سے تھوڑا سا پیچھے ہوتا ہے اس لیے عزمت کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ عزمت بغیر قیمت کے نہیں ملتی اور جو بغیر قیمت کے ہوتی ہے وہ عزمت نہیں ہوتی وہ دکھاوا ہو سکتا ہے۔ سقراط
کے سامنے جب زہر کا پیالہ رکھا گیا تو وہ
مسکرانے لگا اور کہا
کہ یہ مجھے مار دیں گے لیکن میرے افکار کو
نہیں مار سکتے عزمت کے لیے
انسان موت کو بھی گلے لگا لیتا ہے۔
حضرت واصف علی واصف ؒ فرماتے ہیں "عزمت کے سفر کا کمال یہ ہے کہ موت
انسان کو مار دیتی ہے اور بڑے انسا ن
کی موت
اس کواور بڑا بنا دیتی ہے ۔"حضرت امام زین العابدین رضی اللہ عنہ جب
دنیا سے چلے گئے جب ان کی کمر کودیکھا گیا تو اس پر جو نشان
تھے وہ اس اناج کے بوجھ
اٹھانے کے تھے جو آپ
کئی لوگوں کے گھر وں میں پہنچاتے تھے جبکہ اس
را ت کسی کو آٹا نہیں ملا تھا ۔
موت بھی آئے تو عزمت اور عظیم ہو جاتی ہے
۔
(Weekly Sitting topic
“The Real Price of Success” Syed Qasim Ali Shah)