بدھ، 30 نومبر، 2016

کامیابی کی قیمت


انسان جتنی بڑی کامیابی کی طرف جاتا ہے اسے اتنی بڑی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے وہ قیمت سٹریس ہے۔ قیمت ادا کیے بغیر کامیابی نہیں ملتی  لو گ تھوڑی سی قیمت  ادا کر کے بڑی کامیابی کی تمنا  کرتے ہیں ۔ حد تو یہ  ہے جس نے فیل ہونا  ہوتا ہے وہ بھی  ٹاپ کی توقع لگا کر بیٹھا ہوتا ہے  یہ دھوکہ ہے۔ انسان سب سے بڑا دھوکہ اپنے آپ کو دیتا ہے اور اس میں اس کا کوئی قصور نہیں ہے  یہ اس کے مزاج میں ہے۔ انسان شروع میں کمزور تھا آندھی آتی اسے اڑا کے لے جاتی تھی ، سانپ آتا  اسے مار کر چلا جاتا ، شیر کھا لیتا ، سیلاب  بستیاں اجاڑ دیتااور جو لباس  اس نے زیب تن   کیا ہوتا وہ تازہ پتوں  کا ہوتا جس  کو جانور  کھا جاتایہ وہ سارے مسئلے تھے  جن  کا انسان کو سامنا تھا  کیو نکہ  وہ کمزور تھا ۔
صوفی  انسان کی نفسیات کو بہت اچھی طرح جانتا ہوتا ہے  اسی وجہ ان کے ذریعے اسلام پھیلا ۔ صوفی  کو پتا ہوتا ہے کہ اگر میں انسانوں کو ترازو میں تولوں گا تو  میری جیب خالی رہے گی  اسے پتا ہوتا ہے کہ میں کھوٹا جیب میں ڈالوں  گا کچھ عرصہ بعد  وہ کھر ا ہو جائے گا یہ ایک آرٹ ہے۔  حضرت میاں محمد بخش ؒ  کے ایک شعر کا مفہوم ہے کہ " جو ماڑا ہوتاہے اس کا زور نہیں چلتا  اس کے پاس صرف دو آپشن ہوتےہیں پہلا بھا گ جاؤ اور دوسرا  معافی مانگ لو" اس لیے شروع کے انسان  یہ دونوں کام بہت کیے ہیں  سیلا ب آتا  تو علاقہ چھوڑ دیتے پہاڑوں پر چڑھ جاتے۔ انسان کی بنیا دی نفسیات میں ہے کہ جب بھی اس کی اوقات  سے باہر کا مسئلہ ہوتا ہے  یا وہ بھا گ جاتا ہے  یا پھر مان جاتا ہے ۔ انسان کی جینز میں ایک بات چھپی تھی کہ  بھاگ جانا، تھک جانا، معافی مانگ لینا ، ہار مان لینا لیکن آج کا انسان ترقی کرتے کرتے آخر کار جس مقام پر پہنچا ہے  اسے سمجھ آ گئی ہے  ہمت بھی کوئی چیز ہے ، کھڑے ہو جانا قیمت ہے ، لڑنا ایک قیمت ہے  اس کے بغیر عزمت نہیں ہے ۔عزمت کے مناروں کی کتابیں پڑیں ، دنیا کے جتنے بڑےنام ہیں  اس کی زندگی کو پڑھیں تو پتا لگتا ہے  ان  کی عزمت کے پیچھے قیمت ہے۔ حضرت امیر خسروؒ  تاریخ کی ایسی کمال شخصیت ہیں جن کے اشعار کی تعدا د  ساڑھے تین لاکھ ہے  سوچنے کی بعد   بات  ہے کہ جہاں سے شعر آتے ہیں  وہ درد کہاں سے آتا ہے  کیونکہ بنانا مشکل نہیں ہوتا  وہ جو بنانے والا ہوتا ہے وہ بڑی تکلیف میں ہوتا ہے۔
دوسری انسانی نفسیات یہ ہے کہ الزام لگانا، بچ جانا، برا بھلا کہنا، انگور کھٹے ہیں یہ نفسیات بھی شروع سے ہے۔انسان کوشش کرتا تھا  لیکن ہوتا نہیں تھا  اور کہتا تھا کہ ایسا نہیں ہو سکتا اس میں  بھی اس کا کوئی قصور نہیں ہے یہ اس کی جبلت میں ہے ۔ جس طرح کھانا کھانا اور پیدا ہونا  اور ایک وقت آنے پر چلنے لگ پڑنا ایک عمر کے بعد بلوغت کا آ جانا  ، بالوں کا سفید ہو جانا  ، بوڑھا ہو جانا ، دانتوں کا اتر جانایہ اس کی جنیز میں فیڈ ہے۔ اسی طرح انسان کے  مزاج کا ایک حصہ  اس کی فطرت ہے  اور وہ بھی اس کے جینز میں  فیڈ ہے  دنیا کے ہر مزاج کا انسان  ہر کام میں تھوڑا بہت ضرور بھاگے گا  وہ پہلے بچنے کی کوشش کرے گا ۔منور صابر صاحب کہتےہیں عام بندہ لوگوں  کو نہیں کھول سکتا  لیکن جس کا کام ہوتا ہے  لوگ اس کے سامنے خود کھل جاتےہیں ۔انسانی نفسیات کو کتابو ں سے پڑھنے کے بعد جب آپ انسانوں کو پڑھتےہیں تو آپ کو سمجھ آتی ہے کہ دنیا  کے بڑے نام بڑے  تیز تھے وہ صحیح دانشور لوگ تھے ان کو سمجھ آ گئی تھی ، انہوں نے دلوں کو فتح کرنے کا راز پا لیا تھا ، انہیں پتا لگ گیا تھا کہ انسان سوچتا کیوں ہے ، اس کے سوچنے کے سبب کیا ہیں، انسان کس صورتحال  میں کس طرح کا رویہ اپناتا ہے ۔ باڈی لینگونج ایک پور ی سائنس ہے  کتابیں پڑھنے سے  اس کا پتا تو لگ جاتا ہے مگر آتی نہیں ہے ۔
عزمت کے سفر میں انسانی مزاج کو سمجھنا بہت ضروری ہے ۔ انسان کا المیہ ہے کہ  وہ  جب بھی عظمت کی طرف  جاتا ہے  تو سب سے  پہلے وہ کام پر فوکس کرتا ہے ۔جب بندہ پوری یکسوئی کے ساتھ ایک  کام کو شروع کرتا ہے  تو پھر قدرت بھی انعام کے  طور پر  اسے  منزل عطا کر دیتی ہے ۔ مثال کے طور پر قائد اعظم محمدعلی جناحؒ نے پاکستان بنایا  اگر آپؒ پاکستان کے بنانے کے ساتھ اور کام  بھی کررہے ہوتے  تو یہ ممکن نہیں تھا  کہ وہ کسی ایک منزل  پر پہنچ پاتے۔ ذرا غور کریں کہ قائداعظمؒ  کیسے بنے تھے جس طر ح پاکستان بننے کا عمل تھا بلکل اسی طرح جناح سے قائداعظمؒ   بننے کا عمل تھا ۔ایک بندہ اگرایک کروڑ  روپیہ  کمائے  تو ایک کروڑ اتنا قیمتی نہیں ہوگا جنتا کمانے والا ہوگا کیو نکہ تخلیق کا یہ  اصول ہے  کہ مخلوق  ہمیشہ  خالق کے سامنے عاجز  رہتی  ہے۔ اصول ہے کہ جس مشین  سے جو چیز بن کے نکلے گی وہ   چیز اہم نہیں ہوگی  بلکہ مشین اہم ہو گی  کیو نکہ چیز دوبارہ بن سکتی ہےاس طرح جو ایک بار کامیاب ہو سکتا ہے وہ دوبارہ بھی کامیاب ہو سکتا ہے، جس کو ایک بار عزمت  کا ذائقہ ملا ہے  وہ دوبارہ بھی حاصل کر سکتا ہے۔
فوکس کامیابی کا کلیہ ہے  فوکس کے بغیر کامیابی ممکن نہیں ہے  ۔ فوکس کا مطلب ہےکہ تن، من ،دھن لگا دینا، اپنی  بے شمار خواہشات کو ذبح کر دینا اور ذبح کر نے کے بعد فقط ایک چیز کو پکانا۔  سابق وزیر اعلی ٰحنیف رامے  میں کئی خصوصیات تھیں وہ سیاستدان  تھے ، شاعرتھے ، مصور تھے ان کے علاوہ ان کے پاس اور بڑا ہنر تھا ایک دفعہ وہ  حضرت واصف علی واصفؒ  کے پاس  گئے  اور ان سے  کہا کہ کوئی نصیحت فرمائیں آپ ؒ نے جواب دیا آپ ایک کام کریں  جس طرح ہانڈی میں ایک چیز پکتی ہے اسی طرح آپ کے پاس جتنے ہنر  ہیں  ان میں سے ایک کو ہانڈی میں ڈالیں  باقیوں کو چولہے میں ڈال دیں۔  انہوں نے اس بات  اس وقت تو نہ سمجھا  مگر  جب بات سمجھ آئی  تو کہا کہ مجھے میانی صاحب   کے قبرستا ن میں دفن  کرنا   پوچھا گیا کیوں  تو انہوں نے جواب دیا  کہ یہاں پر  بہت بڑا آدمی دفن ہے۔بعض اوقات آپ نصیحت کو سننے کے بعدفوری طور  نہیں  مانتے لیکن بندے کو مان جاتے ہیں۔بعض اوقات  نصیحت فوری  اثر نہیں کرتی  اس نے کچھ عرصہ بعد  اثر کرنا ہوتا ہے لیکن جس نے نصیحت  کی ہوتی ہے اس کا پتا لگ جاتا ہے۔ عزمت کے لیے سب سے اہم چیز فو کس ہے  اور فوکس آنے کے بعد دن اور رات کا پتا نہیں  چلتا۔ سچی کامیابی کا راستہ کمانےکا راستہ نہیں ہے  بلکہ لگانے کا راستہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آج تک  نہ کسی کی محنت  اور نہ کسی کی محبت ضائع کی ہے ۔ محبت کا دوسرا نام شوق ہے کیو نکہ محبت حاصل نہیں ہوتی بلکہ  محبت سے فوکس ملتاہے۔بھارت میں  لوگ فوکس حاصل کر نے کے لیے چالیس دن   کے اوشو کو جوائن کرتے ہیں جس میں دس دن بے لباس رہنا پڑتا ہے ، دس دن مانگ کر کھانا پڑتا ہے ، دس دن خاموشی ہوتی ہے  جبکہ آخری دس دن نصیحت ہوتی ہے۔ کسی نے گرو سے کہا کہ چالیس  دن کا کوئی شارٹ کٹ ہے  گرو نے  جو  اب دیا  بڑا آسان شارٹ کٹ ہے اگر تجھے سچی محبت ہوئی ہے  اور محبت ملی نہیں ہے تو وہ چالیس دن کے اوشو  کا جو انجام ہے  وہ تمہیں مل جائے گا۔ اس  نے کہا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ  جو درد چالیس  دن بعد پیدا ہوتا ہے   وہ بندے کو مل جاتا ہے ۔ کتناعجیب ہے  دس دن خاموش رہنا  جیسے ہی بولنے کا خیال آئے تو فورا ذہن میں آئے کہ نصیحت ہے بولنا نہیں ہے ، دس دن بغیر لباس کے  رہنا  کیونکہ خیال لباس سے جڑاہوتا ہے ۔
فوکس کے بعد اگلا کام  قربانی ہے  کیو نکہ فوکس قربانی کی طرف لے جاتا ہے  اس کی وجہ ہے  کہ  منزل نظر آ رہی ہوتی ہے جس کی وجہ سے بندہ موجود چیزوں کو نظر انداز کر دیتا ہے ۔نفسیات میں  فوکس بندے کو ایک ابنارمل رویے کی طرف لے جاتا ہے  بندے کو تکلیف میں راحت کا احساس ہوتا ہے ۔ حضرت علامہ اقبال ؒ فرماتے ہیں "خدا کرے زخم دور ہی نہ ہو کبھی ۔۔۔بڑا مزہ ہے کلیجے پہ تیر کھانے  میں "۔بندے کو جو آنسو  اور اضطراب چاہیے ہوتا ہے  وہ ٹوٹے ہوئے برتن سے پیدا ہوتا ہے  اس سے پہلے پید ا ہی نہیں ہوتا ۔ فوکس کی وجہ سے تھوڑا  ابنارمل  رویہ  بھی مل جاتا ہے  اور وہ   ابنارمل  رویہ یہ ہوتا ہے  کہ سب کچھ لگا دینا ہے ۔ دنیا کے جتنے بڑے  لوگ ملیں گے وہ تھوڑے  سے ابنارمل نظر آئیں گے  بڑے لوگوں سے  مراد  وہ لوگ   جو پروسس سے نکل کر بڑے بنے ہیں  اس میں وہ  لوگ شامل نہیں ہیں  جنہیں اللہ تعالیٰ نے منتخب کیا ہوتا ہے ۔ حقیقی فوکس  نفع  اورنقصان  کے تصور کر ٹچ کرتا ہے  اگر نفع اور نقصان کا تصور بدلا نہیں ہے  تو پھرفوکس نہیں ہے۔فوکس کا مطلب ہے  کہ پہلے آپ کھا کر خوش ہوتے تھے  اب کھلاکر خوش ہوتے ہیں  پہلے حاصل کا نام کمائی تھی اب دینے کا نام کمائی ہے ۔ حضور اکرم ﷺ گھر تشریف لاتے ہیں  اور ام المومنین  حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھتے ہیں کہ آج گھر میں کیا بچا ہے  اس دن بکری ذبح ہوئی ہوتی ہے   جس کے چند ٹکڑے بچ گئے ہوتے ہیں باقی بانٹ  دیئے   ہوتے ہیں آپ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں آج یہی بچا ہےآپﷺ نے فرمایاجو بانٹ دیا  وہ بچا ہے۔ حضرت صوفی برکت علی  ؒ فرماتے ہیں "مال رکھنے کے لیے دنیا کی سب سے محفوظ جگہ  غریب کی جیب ہے"آپ رکھ کر دیکھیں دس گنا واپس آئے گا ہم مال کو ان تجوریوں میں رکھتے ہیں  جہاں پر وہ چوری ہونا  ہوتا ہے۔
نفع اور نقصان کے تصور بدلنے کے  بعد بسا اوقات ایک چیز   کی گروتھ  بہت  زیادہ ہوجاتی ہے  جس کیوجہ سے باقی تمام چیزیں  دھب  جاتی ہیں ۔ مثال کے طور پر  جوپروفیشنل باڈی بلڈر ہوتا ہے  اس  کا جسم تو بہت اچھا بن  جاتا ہے  مگر اس  کا آئی۔ کیو اچھا نہیں ہوتااس کیوجہ ہے کہ اس کا سار ا فوکس  اپنے جسم  بنانے کی طرف تھا۔ جس طرح جسم کو ورزش کی ہوتی ہے اسی طرح ذہن کو بھی ورزش کی ضرورت ہوتی ہےاورذہن کی ورزش نیا سوچنا ، سوچنے پر مجبور کرنا ۔مائیکل انجیلو جب مجسمہ بناتا تو اس  کووقت کااحساس  نہیں رہتاتھا  جب مجسمہ  بن جاتا تو پتا چلتا کہ پندرہ دن گزر چکے ہیں کئی دفعہ و ہ جب اپنے بوٹ اتارتا تو اس  کی ساتھ کھال بھی اتر جاتی تھی یہ فوکس کی انتہاتھی  ۔ بعض اوقات انسان کسی چیز  کے بنانے میں اتنا گم ہوتا ہے  اور جب وہ  چیز بنا لیتا ہے تو حیران ہوتا ہے کہ یہ تو میرے گمان میں نہیں تھا ،میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا  اتنا خوبصورت نظارہ بن جائے گا۔  کہاجاتا ہے دنیا کی ہر چیز دو بار بنی ہے ایک بار انسانی دماغ میں  اور دوسری بار دنیا میں ۔دنیا  کی سب سے مشکل تخلیق  میوزک  بنانا ہے  کیو نکہ  موسیقی  بنانے سے پہلے یہ دماغ میں نہیں ہوتی   ۔ صرف سات راگ ہیں اور انہیں  راگوں سے  اربوں گانے تخلیق  ہوئے  ہیں اور ہو رہے ہیں۔
دنیا کے بڑے دماغ  دنیا  کو کئی سالوں تک اپنی بات سمجھا نہیں سکے حضرت علامہ اقبال ؒ  کا خودی   کا تصور کئی سال تک سمجھ  نہیں  آسکا  جس کی وجہ  سے ان پر فتوی ٰ لگا ۔جب آپ عزمت کے سفر میں آگے جاتے ہیں  تو پھر زمانہ  آپ سے متفق نہیں ہوتا ، عزمت  نتیجہ یہ دیتی ہے کہ   بندہ تنہائی کاشکار ہوجاتا ہے ۔ جب یہی عزمت حضرت خواجہ غلام فرید ؒ کو ملتی ہے تو وہ فرماتےہیں " کی سناواں حال دل دا ۔۔۔کوئی محرم راز نہ ملدا"حضرت واصف علی واصف ؒ فرماتے ہیں "سن واصف شیشہ کی کیندا ۔۔۔۔توں وی کلا میں  کلا"۔یہ وہ احساس ہے جب آپ عزمت میں بہت آگے چلے جاتےہیں  اور کہتے  ہیں  کہ  میں اب کس سے بات کروں  پھر  لوگوں کو سمجھانے کے لیے  اس سطح سے نیچے آنا پڑتا ہے ۔
تنہائی کے بعد  الزامات اور تہمتیں  لگنا شروع  ہو جاتی ہیں  ۔ عزمت کے نتیجے میں  وہ انگلی  اٹھتی ہے  جس کو سمجھ نہیں آئی  ہوتی  یا جس کا  بس  نہیں چلتا  یہ کامیابی  کی سب  سے بڑی قیمت ہے ۔زمانہ ہمیشہ  وقت کے دانشور سے تھوڑا سا پیچھے ہوتا ہے  اس لیے عزمت کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ  عزمت بغیر قیمت کے نہیں ملتی  اور جو بغیر قیمت کے ہوتی ہے  وہ عزمت نہیں ہوتی وہ دکھاوا ہو سکتا ہے۔ سقراط کے سامنے جب زہر کا پیالہ رکھا گیا  تو وہ مسکرانے لگا  اور  کہا  کہ  یہ مجھے مار دیں گے   لیکن میرے افکار  کو  نہیں مار سکتے عزمت  کے لیے انسان  موت کو بھی گلے لگا  لیتا ہے۔  حضرت واصف علی واصف ؒ فرماتے ہیں "عزمت کے سفر کا کمال یہ ہے کہ موت انسان کو مار دیتی  ہے اور بڑے انسا ن کی  موت  اس کواور بڑا بنا دیتی ہے ۔"حضرت امام زین العابدین رضی اللہ عنہ جب دنیا سے  چلے گئے  جب ان کی کمر کودیکھا گیا تو اس  پر جو نشان  تھے  وہ اس   اناج کے بوجھ  اٹھانے  کے  تھے جو آپ  کئی لوگوں  کے گھر وں  میں پہنچاتے تھے  جبکہ اس  را ت  کسی کو آٹا نہیں ملا تھا ۔ موت بھی آئے تو عزمت اور عظیم  ہو جاتی ہے ۔
(Weekly Sitting topic “The Real Price of Success” Syed Qasim Ali Shah)

منگل، 29 نومبر، 2016

کدھر چلا (ڈائریکشن)


 ہم مسافت  طے کرنے کے لیے ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر کرتےہیں ۔ زندگی ایک سمت ہے  ہم بعض  اوقات  کامیابیوں پر ہوتےہیں   اوربعض اوقات ناکامیوں  پر پہنچ جاتےہیں اسی طرح  ہم ناکامیوں  سے نکلتے ہوئے  کامیابیوں پر پہنچ جاتےہیں ۔ بعض لوگوں کی زندگی صفر سے شروع ہوتی ہے  اور ایک وقت آتا ہے وہ امیرترین  لوگوں میں شمار ہونے لگ پڑتےہیں۔ بعض ایسے کمال کے لوگ  ہوتے ہیں  جن کی زندگی گناہوں کی دلدل  میں ہوتی ہے  لیکن پھر وہ توبہ کرتے ہیں اور    اللہ تعالیٰ ان کی ایسی توبہ  قبول کرتا ہے   اور ان کو ایسا راستہ  ملتا ہے  کہ پھر وہ ولی اللہ بن جاتےہیں ۔ 
ہم  زندگی  کی کسی بھی سمت کی طرف جا رہے  ہوں لیکن سوال یہ ہے کہ وہ کونسی چیزیں ہوتی ہیں جو ہمیں   لے کر جا رہی ہوتی ہیں ۔  انسان کچھ چیزوں کا مجموعہ ہے  تاریخ انسانیت میں پہلی بار حضرت امام غزالی ؒ نے  اپنی کتاب "کمیائے سعادت " میں بات کی کہ ہم روح بھی ہیں اور جسم بھی۔ ۔ ہم ایک ہی وقت میں جسم کو سنوارنے کے لیے  بہت کچھ رہے ہوتےہیں  لیکن جسم کے ساتھ ذہن بھی ہماری زندگی میں بڑی اہمیت رکھتا ہے  ہم نے یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ اس میں بہتری آ رہی ہے یا یہ ضائع ہو رہا ہے ۔ روح کے ساتھ ایک نفس ہوتا ہے جس کی تین قسمیں ہیں  جنہیں  نفس لوامہ ،نفس مطمئنہ اور نفس عمارہ کہا جاتا ہے ۔ انسان کا چھوٹے سے چھوٹے عمل کے پیچھے کوئی نہ کوئی  محرک ہوتا ہے  اور وہ محرک ہم نے تلاش کرنا ہوتاہے ۔ہم نے یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ  کیا یہ میری ذہانت نے کام کروایا  یا میری جبلت نے کروایا  یا  میرے جسم نے مانگا  مثال کے طور پر  جسم پر کرنٹ لگے تو فور ی طور ہاتھ  پر پیچھے چلا جاتا ہے   ہمیں یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ ہمارے اندر  ایسی کونسی چیز ہے جو ہمارے سوچنے سے بھی پہلے  فیصلہ کرواتی ہے  کہ ہاتھ پیچھے کرنا ہے ۔  اس پر غور کریں  تو پتا چلے گا کہ ہمارے اندر ایک ایسی چیز ہے جو ہمیں  بقا کی طرف لے کر جاتی ہے  وہ ہر نقصان  سے پیچھے کرتی ہے ، زخم  لگنے سے بچاتی ہے، بلندی پر جاتے ہیں  ہمارے سانس تیز ہو جاتےہیں، ٹرین گزرنے  دل  کی دھڑکن بدل جاتی ہے یہ بقا کی جنگ اندر ہی جاری رہتی ہے ۔ یہ جبلت دنیا کے ہر انسان کے اندر پائی جاتی ہے  اور اسی جبلت کی وجہ سے انسان زندہ رہنا چاہتا ہے  اسی جبلت کی وجہ سے انسان آخری سانس تک چاہتا ہے  کہ اس کی موت واقع نہ ہو۔
بعض ایکشن  یا سوچیں ایسی ہو تی ہیں جو ہم سے فیصلے کرواتی ہیں  اور جب ایک عرصہ کے بعد  ہم پیچھے دیکھتے ہیں  اور تلاش کرتےہیں  تو پتا چلتا ہے یہ ہماری ذہانت ہے مثال کے طور پر ہم سمجھ داری سے پیسہ اکھٹا کرتےہیں اور پھر سمجھ داری سے استعمال کرتےہیں  یہ سارا عمل  اس بات کی علامت ہے کہ جوہمیں اس کام کو ہمارا ذہن  چلا رہا ہے۔ بعض معاملات  یا کام ایسے ہوتےہیں  جن سے پتا چلتا ہے  کہ ان کے پیچھے ہمارا نفس ہے  مثال کے طور پر لالچ  ہم اپنی ضرورت سے بہت زیادہ چاہتے ہیں ، ہم چاہتے ہیں کہ کسی کے پاس کچھ نہ رہے  ساری بادشاہت ہمیں مل جائے یہ کام نفس لوامہ کرواتا ہے۔ نفس لوامہ کی وجہ سے ہماری جبلت جانوروں  جیسی  ہو جاتی ہے ۔ بعض کاموں کے بعد  ہمیں شرمندگی کا احساس  ہوتا ہے  ہم سوچتے ہیں کہ ہم نے بڑی غلطی کی ، ہمیں ایسا نہیں کرنا چاہیے  جب اس پر غور کیا جاتا ہے تو پتا چلتا ہے ہمارے اندر نفس عمارہ ہے   جو  پشیمانی دیتا ہے ، ندامت دیتا  ہے، عاجز  بناتا ہے ، سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔ ایک اور چیزجو  ہمارے اندر ہوتی  ہے  جو کہتی ہے  یہ میرا  ہے  کیوں نہ  میں اسے دوسروں کی راہ میں لگا دوں ، اس کو کیوں نہ نثار کردوں ، ہمارا وقت دوسروں کی خاطر استعمال ہونا چاہیے ، ہماری انرجی دوسروں کے کام آنی چاہیے ،ہمارے پیسوں سے کسی کا بھلا ہونا چاہیے ، ہماری عقل دوسروں کے کام آئے جب اس پر غور کیا جاتا ہے تو پتا چلتا ہے ہمارے اندر نفس مطمئنہ ہے  جو ہر حال پر مطمئن رہنے کو کہتا ہے ۔
ہمارے ہر شعبے کی سمت  مختلف ہے اس کی وجہ ہے کہ ہمارے اندر  بہت سارے ہائی جیکر ہیں  جو ہماری سمت کو متعین کرتے ہیں مثال کے طور پر ایک طیارہ فقط پندرہ منٹ کی فلائیٹ پر ہوتا  ہےایک سواری اٹھتی ہے  ہتھیار نکالتی ہے  پائلٹ کے پاس جاتی ہے  اور اسے کہتی ہے کہ جہاں پر میں چاہتا ہوں  جہاز کو وہاں  پر لے کر جاؤ  دوسری سواریوں کو کہہ دیا جاتا ہے اگر کسی  نے بھی ہلنے کی کوشش کی  تو جہاز کو تباہ کر دیا جائے گا اس کے بعد آواز آتی ہے  کہ طیارہ اغوا  ہو گیا۔ جس طرح طیارہ اغوا ہوتا ہے  بلکل اسی طرح ہم زندگی میں اچھے خاصے  جا رہے ہوتےہیں اندر سے سواری اٹھتی ہے  جس کا نام نفس لوامہ  ہوتا ہے  وہ ہمیں بھلا  دیتا ہے  کہ کسی کو  معاف  بھی  کر دینا چاہیے   وہ نفس لوامہ  ہمیں اغوا کرتا ہے  غصہ آتا ہے  فیصلہ ہوتا ہے اور دوسرے بندے کو شوٹ کر دیتا ہے اور یوں زندگی کا طیارہ کریش ہو جاتا ہے ۔ اس  نفس لوامہ  کی وجہ سے  لوگوں کے بہترین طیارے تباہ جاتےہیں اس کی وجہ  یہ ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی  کے ہائی جیکر مینج  نہیں کیے ہوتے ۔ ہر انسان  درست سمت کی طرف جانا چاہتا ہے ، وہ اڑنا چاہتا ہے ، فلائی کرنا چاہتا ہے ، کامیاب  ہونا چاہتا ہے  لیکن   ان سب سے پہلے ہائی جیکر کو مینج کرنا بہت ضروری  ہوتا ہے ۔
 ہائی جیکر  کئی قسم کے ہوتے ہے  جیسے لالچ ، لالچ ہمیشہ اس شخص میں ہوگا جو اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھتا ہے   وہ اپنی غلطیوں  اور نالائقیوں کی وجہ سے ہوتاہے  یا پھر معاشرے کی وجہ ہوتی ہے  جیسے پاکستا ن  میں کرپشن بہت ہے  کبھی اس بات پر غور نہیں کیا گیا  یہ کرپشن کیوں ہے  ہم سمجھتےہیں  اس موضوع پر سمینار کرنے سے  کر پشن ختم ہو جائے گی اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے  کہ پانی لیک  ہو رہا ہو اس کی جگہ تلاش کر  لی جائے  لیکن کسی اور جگہ  پر ٹھیک   کرنا شروع کر دیں۔ جہاں پر کرپشن کم ہوتی ہے  وہاں  پر لوگ اپنے آپ کو محفوظ سمجھتےہیں  انہیں پتا ہے کچھ ہو بھی جائے حکومت ہماری بچوں  کو سنبھالے گی  کیونکہ یہ اس کی ذمہ داری ہے ۔  جتنی جلدی  ممکن ہو سکے  اپنے غیر محفوظ ہونے کو ختم کریں اس کے دو طریقے ہیں  یا تو محنت کر کے  ساری چیزیں  جیسے پیسہ ،گاڑی  اور آسانیاں  لے کر آئیں  اور سمجھ جائیں  یہ ہماری ضرورت ہیں  دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اپنے اندر توکل پیدا کریں ہر حال میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں جو کچھ ہے  اس پر راضی  رہیں جیسے ہی آپ راضی ہوتےہیں آپ اپنے آپ کو محفوظ سمجھنا شروع کر  دیتےہیں  کیونکہ اللہ تعالیٰ جب بھی راضی ہوتا ہے  انسان اپنے آپ کو محفوظ سمجھنا شروع کر دیتا ہے ۔
ہماری زندگی میں ایک اور بہت بڑا ہائی جیکر ہوتا ہے جس کو ہم نے مینج ہی نہیں کیا ہوتا  اور وہ ہائی جیکر ہے عادت۔ بہت سارے لوگ اپنی عادات کی وجہ  ہائی جیک ہو جاتےہیں۔زیادہ تر عادات لاشعوری طور پر بنتی ہیں  لیکن شعور کے آتےہی عادات کو آپشن مل جاتی ہے  کہ وہ شعوری بنیں۔ کئی لوگوں  کی شاندار شخصیت ہوتی ہے  لیکن ان کی عادتیں ٹھیک نہیں ہوتیں ۔ باپ بہت نام ہوتا ہے  لیکن بیٹے میں بڑوں والی عادتیں نہیں  ہوتیں ، بعض لوگ  بہت اچھے ہوتےہیں لیکن وہ اپنے ملازموں کے ساتھ اچھے  نہیں ہوتے۔  بعض عادتیں  نسلوں تک  چلتی رہتی ہیںبعض لوگوں پر اللہ تعالیٰ یہ کرم کرتا ہے کہ ان میں بادشاہوں  والی عادتیں پیدا  کر دیتا ہے ۔ عادات بندے کو بنا کر رکھ دیتی ہیں  یا پھر تباہ کر کے رکھ دیتی ہیں ۔عادات کو ہم خود بناتےہیں بعد میں عادات ہمیں بناتی ہیں ۔
ہائی جیکروں  میں جذبات بہت اہم ہیں  یہ انسان کو کہیں کا نہیں چھوڑتے ۔ بعض اوقات انسان کے جذبات کا اظہار وقت پر نہیں ہوتا  اور وہ ایک عمر گزرنے کے بعد ظاہر ہوتےہیں  لیکن اس وقت سوائے  عزت کو خا ک میں ملانے میں اور کچھ نہیں ملتا   جیسے  ایک بہت بڑے سیٹھ تھے سب کچھ ٹھیک تھا لیکن عمر کے آخری میں حصہ میں جذبات  کے ہاتھوں تنگ آ کر شادی کر لی حالانکہ انہوں نے کوئی غیر شرعی کام نہیں کیا تھا  اس وقت اس کی اولاد  کی عمر  اس کی بیوی ہو چکی تھی  جتنی ہو چکی تھی  نتیجہ بچو ں کے ساتھ لڑائی رہنے لگ پڑی اور  لوگ بھی بات کرنے لگ پڑے اور یوں انہوں نے اپنی عزت  اپنے جذبات کے  ہاتھوں گنوا دی ۔
اپنی سمت درست رکھنے کے لیے  اپنے ہائی جیکروں کو مینج کرنے کی کوشش کریں۔کتابیں  بندے کی سمت بدل دیتی ہیں  بعض اوقات آپ کتاب کا اتنااحترام کر تےہیں کہ کتاب سے فیض ملنا شروع ہو جاتا ہے ۔آپ قرآن مجید  پڑھتےہیں  آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتےہیں  اس  تقدس و احترام کی وجہ سے زندگی میں  ہدایت آ جاتی ہے۔وہ لوگ بڑے بدبخت ہوتےہیں جو اپنے آپ کو مکمل سمجھتےہیں  جو اپنے آپ کو عقل کل سمجھتےہیں  جب بھی یہ احساس  آئے گا   آپ زیرو ہو جائیں گے۔ طلب اور تلاش ہی کامیابی ہے ، چلتے رہنا ہی کامیابی ہے  کامل ہونا کامیابی نہیں ہے  کیو نکہ کوئی کامل نہیں ہو سکتا کامل تو صرف رسول کریمﷺ کی ذات مبارک ہے ۔حضرت بابافرید گنج شکر نے ؒ  اپنی زندگی میں بہت کم روٹی کھائی  کسی نے پوچھا اتنی کم کیوں کھائی  انہوں نے جواب دیا کہ میں نے اندازہ لگا یا حضور اکرمﷺ نے اتنی گندم کھائی تھی  تو میر ی کیا مجال کہ  میں اس گندم سے زیادہ کھاؤں  یہ ادب کی انتہاء ہےکہاںسورج کہاں چراغ یہ عشق رسولﷺ ہے۔
اللہ تعالیٰ جب کرم کرتا ہے تو زندگی میں اچھے لوگ آنا شروع ہو جاتےہیں اور وہ اچھے بندے سوچ کو مثبت  کر دیتےہیں ۔ اچھے بندے کی نشانی یہ ہے کہ اس  کے پاس جو چیز زیادہ ہوگی وہ  دوسروں کو بھی  دے گا  اگر اس میں اچھائی ہے  وہ اچھائی دوسروں کو ملنے لگ پڑے گی ۔ لالچی انسان کے پاس لالچ اتنا ہوتا ہے کہ  پھر اس کے ساتھ والے سارے  لوگ لالچی ہو جاتےہیں ۔ اچھا بندہ  اچھی عادات دیتا ہے  اس سب سے بڑی خوبصورتی یہ ہوتی ہے کہ وہ آپ کو خاموشی سے نصیحت کر  دیتا ہے  خاموشی سے نصیحت  کا مطلب یہ ہے کہ وہ آ پ کے ساتھ رویہ اتنا اچھا  اپناتا ہے کہ آپ اچھے ہو جاتےہیں ۔اپنی زندگی میں ہمیشہ گنجائش رکھیں  تاکہ اچھے لوگ زندگی میں شامل ہو سکیں ۔بعض  لوگ جب ملتےہیں تو اندر کی کمینگی جاگ جاتی ہے  جبکہ  بعض لوگ ملیں تو روحانیت جاگ جاتی ہے بعض لوگوں کے زندگی میں داخل ہونے سے حیا آ جاتی ہے حضرت واصف علی واصف ؒ فرماتےہیں "ایک شخص اچھی زندگی نہیں گزار رہا تھا ایک دم نیک ہو گیا  کسی نے پوچھا کیا ہوا اس نے جواب دیا  میری زندگی میں پیر صاحب آ گئے ہیں  اس نے کہا ان پیر صاحب سے ہمیں بھی ملاؤاس نے جواب دیا میرے پیر صاحب  کا نام  ہے" بیٹی"جن کے پاس  بیٹی  ہے مگر حیا نہیں پھر تو بڑا عذاب ہے پھر ایسے لوگ قابل رحم ہیں ۔
حضرت واصف علی واصف ؒ فرماتےہیں "اچھے لوگوں کی زندگی میں موجودگی  اچھے مستقبل کی ضمانت ہے "جب تک اپنے ساتھ جڑے ہوئے علم اور ادب کو اللہ تعالیٰ کا فضل کہیں گے قائم رہے گا ، جب تک اپنے علم اور  عزت کو اللہ تعالیٰ کا کرم  کہیں گے یہ قائم رہے گی جب بھی آپ یہ سمجھیں گے کہ یہ میرا کمال ہے  تو پھر سمجھیں تباہی ہے ۔ اس کی نگاہ میں ہو تو عزت ہے  وہ جگہ جگہ سے عزت کروا دیتا ہے ، کسی کے دل میں ڈال دیتا ہے ۔اگر کرم کی نگاہ نہ ہو تو   جتنی مرضی اسلام کی تبلیغ ہو گھر  کے اپنے لوگ ہی گالیاں نکالتے  رہتےہیں۔ استاد کے لیے کم از کم شرط یہ ہے کہ اس کے لیکچر  میں اس کے بچے بیٹھ کر  اس کا لیکچر سنیں۔
حضوراکرم ﷺ کی ذات گرامی سب سے بڑے رول ماڈل ہیں آپﷺ نے سب سے پہلے اپنوں اکھٹا کر کے دعوت دی  اور کہا اگر میں کہوں  کہ پہاڑ کےپیچھے دشمن کا لشکر ہےجواب میں  انہوں نے کہا ہماری جانیں آپﷺ پر نثار آپﷺ سچے ہیں، صادق وامین ہیں ان میں  ایک شخص ایسا تھا جس  کا نام عمر بن حشام  (ابوجہل )تھا اٹھا اور چل پڑا آپﷺ نے آواز دی  اور کہا  کہ آپ نہیں  اس بات کو مانو گے اس نے کہا کہ میں تلوار لینے جا رہا ہوں  مجھے آپﷺ پر اتنا یقین ہے کہ اگر اس پہاڑ کی پیچھے لشکر ہے تو  تلوار لاتا  ہوں گردنیں  اڑا دوں گا  مجھے تحقیق کی ضرورت نہیں ہے۔ اگلی بات حضور اکرمﷺ نے فرمائی  اگر میں لاالہ اللہ کہوں  تو پھر ابوجہل نے  کہا  کہ معذرت ہے میرے جو باپ دادؤں  کا جو دین  ہے وہ یہ نہیں  ہے ایک خدا کو نہیں مان سکتا  لیکن اسی محفل میں نو سال کا بچہ کھڑا ہوتاہے   اور کہتا ہے میں مانوں  گا ، اس کے بعد دوست کھڑا ہوتا ہے اور کہتا ہے  میں مانوں گا ،گھر کے لوگ کہنے لگ پڑتے ہیں  ہم مانے گے ۔ عزمت کی انتہاء یہ ہے کہ آپ کے اپنے مانیں آپ کے اندر سیلف اپروول نہیں ہے  تو پھر دنیا آپ کو نہیں مانے گی ۔ ہمارے اندر سے آواز  آ رہی ہوتی ہے کہ تم ٹھیک نہیں ہو  جبکہ ہم تقاضا کر رہے ہوتے ہیں  کہ ساری دنیا ٹھیک ہو جائے۔
جو بندہ آرام آرام سے چل رہا ہے ، رینگ  رہا ہے ، تکلیف میں  بھی ہے  لیکن اس کی منزل ٹھیک ہے تو   وہ صحیح ہے  زیادہ اچھا ہے اس بھاگنے والے شخص سے جس کی سمت ٹھیک نہیں ہے ۔اپنی زندگی کو سمت دیں یہ ایک بار ملی ہے ، یہ اللہ تعالیٰ کا انعام ہے ،یہ عطیہ ہے۔ جو ایک بار آگیا پھر نہیں آئے گا  نام انہیں لوگوں کا زندہ رہے گا جو اچھے کام کرے گا  اس لیے دلوں میں زندہ رہنے والے کام کریں ۔ اپنے اندر سوال پیدا کریں میں کدھر چلا، میں اللہ تعالیٰ کی طرف  سے آیا ہوں  کیا اللہ تعالیٰ کی طرف جا رہا ہوں ، کیا اللہ تعالیٰ کےلیے جی رہا ہوں۔ اگر یہ سوال آپ  کے دل میں آگیا تو پھر یہ زندگی  زندگی نہیں رہے گی عبادت بن جائے گی ۔ اگر وہم ہے کہ  ایسا نہیں ہے تو پھر دن گزریں گے ، ہفتے گزریں گے ،مہینے گزریں گے زندگی بھی گزر جائے گی  لیکن اس کی سمت کوئی نہیں ہوگی اور آخر میں صرف ایک چیز ہو گی  اور وہ ہوگی کاش ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ تعالی ہمیں اس کاش اور افسوس سے بچائے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔آمین

(Weekly Sitting topic “Choose the right Direction in Life” Syed Qasim Ali Shah)

پیر، 28 نومبر، 2016

اپنی سوچ کے بہت جلد بدلنے کے منفی اثرات سے اگاہ رہیں

 زیادہ سے زیادہ ذہنی سکون کے حصول کے لیے ایک طاقتور تکنیک یہ ہے کہ ہم اس بات سے آگاہ رہیں کہ ہماری غیر محفوظ اور منفی سوچ کتنی جلدی کنٹرول سے باہر ہو سکتی ہے۔کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ جب آپ اپنی ایسی سوچوں میں الجھے ہوتے ہیں تو آپ کس قدر پریشان ہوتے ہیں؟اور ان سوچوں کو دبانے کے لیے آپ جتنا زیادہ ان میں گم ہوتے ہیں دراصل یہ احساسات اتنے ہی بڑھتے جاتے ہیں۔ایک خیال سے دوسرا خیال جنم لیتا ہے دوسرے سے تیسرا اور یہ سلسلہ طویل ہی ہوتا جاتا ہے حتیٰ کہ ایک مخصوص مقام پر آکر آپ کی برداشت کی حد بھی ختم ہونے لگتی ہے۔
                مثال کے طور آدھی رات کو آپ کی آنکھ کھلتی ہے اور آپ کو یاد آتا ہے کہ آپ نے کل ایک فون کال کرنی ہے اور یہ سوچ کر آپ کو تھوڑی راحت ہوتی ہے کہ آپ کو وقت پر یاد آگیا۔لیکن اس کے بعد آپ اگلی صبح کرنے والے دیگر کاموں کے بارے میں سوچنے لگتے ہیں۔آپ آئندہ صبح اپنے باس سے ہونے والی گفتگو کی ایک ریہرسل کرتے ہیں اور مزید پریشان ہوجاتے ہیں۔پھر جلد ہی آپ خود سے یہ کہتے ہیں کہ میں بہت زیادہ مصروف ہوں،مجھے روزانہ کوئی پچاس آدمیوں کو فون کرنا ہوتے ہیں،اتنی مصروف زندگی بھلا کس کی ہو سکتی ہے؟بہت سے لوگوں کے لیے منفی خیالات کے ان حملوں کی کوئی حد نہیں ہوتی۔درحقیقت،مجھے میرے کلائنٹس نے بتایا ہے کہ ان کی بہت سی راتیں اوردن ایسے ہی خیالات کی ریہرسل کرنے میں برباد ہوتے ہیں۔اس امر کو بیان کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ ایسے معاملات اور پریشانیوں کے نتیجے میں ذہنی طور پر پُرسکون رہنا ایک ناممکن کام ہے۔
اس کا حل یہ ہے کہ آپ کے منفی خیالات جب تحریک پکڑتے ہیں تو اس سے پہلے یہ سوچا جائے کہ آپ کے دماغ میں کیا چل رہا ہے۔آپ جتنا جلدی اپنے ذہن میں پلنے والے ان منفی خیالات کو قابو کرتے ہیں،اتنا ہی جلد آپ کو سکون کی دولت بھی نصیب ہوتی ہے۔ہماری یہاں بیان کی گئی مثال میں آپ کی منفی سوچ اس وقت شروع ہوئی جب آپ نے اگل صبح کیے جانے والے کاموں کو سوچا۔پھر آپ شعوری طورپر اس سوچ سے چمٹے رہنے کے بجائے خود سے کہتے ہیں کہ وا!!! میں پھر وہی ہوں اور آپ اس صورت حال کو وہیں ختم کر دیتے ہیں۔آپ اپنے خیالات کی گاڑی کو اسٹیشن چھوڑے سے پہلے ہی روک لیتے ہیں۔پھر آپ اس بات پر اپنی توجہ کو مرکوز کرسکتے ہیں،منفی معنوں میں نہیں،بلکہ مثبت معنوں میں کہ شکر ہے مجھے اتنے لوگوں سے فون کر کے معاملات طے کرنے ہیں۔اگر یہ آدھی رات کا وقت ہے تو آپ اسے کاغذ پر لکھیں اور پھر سو جائیں۔ایسی صورت حال کے پیش نظر آپ پہلے سے ہی اپنے بیڈ پرایک کاغذ اور قلم بھی رکھ سکتے ہیں۔
                آپ بلاشبہ ایک بہت مصروف شخص ہو سکتے ہیں۔لیکن یاد رکھیے کہ ان باتوں سے اپنے دماغ کو بھرنے سے آپ اپنی پریشانیوں اور تلخیوں میں اضافہ ہی کرتے ہیں نہ کہ آپ انہیں کم کرتے ہیں۔آئندہ کبھی آپ کو ایسی صورتحال درپیش ہو تو آپ اس مشق کو استعمال میں لائیں۔آپ واقعی حیران ہوں گے کہ یہ کتنی کارآمد ہے۔

 تحریر :    زوہیب یاسر

اپنی کمزوریوں کی وجہ سے وقت ضائع نہ کریں


اس سارے نظام میں ہماری موجودگی درحقیقت اس بات کا ثبوت ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے متعلق سوچتا ہے اگر  وہ سوچ نہ رہا ہوتا  تو ہم نہ ہوتے۔ہمارا اس وقت دنیا میں ہونا ، کام کرنا اس بات کی علامت ہے کہ قدرت کاجو  پورا کارخانہ چل رہا ہے اس قدرت کے کارخانے میں ہمارا کہیں نہ کہیں کردار ہے۔جس طرح ایک گاڑی  بہت ساری چیزوں کا مجموعہ ہوتی  ہے  اور اس میں ہر چیز  کا اپنا کردار ہوتا ہے  کسی ایک چیز کے بغیر  بھی گاڑی مکمل نہیں ہوتی اسی طرح اگر اللہ تعالیٰ نے ہمیں پیدا کیا ہے  تو اس  قدرت کے نظام میں کہیں نہ کہیں ہم فٹ ہیں ، ہمارا کردار ہے  چاہے وہ چھوٹا ہی کیوں نہ ہو ۔ اگر اس دنیا میں کوئی محرومی کے ساتھ پیدا ہوتا ہے  تو وہ محرومی بے وجہ نہیں ہوتی  اس کی ایک بہتری مثال نک ہے  جس کے نہ بازو ہیں  اور نہ ہی ٹانگیں  لیکن اس کے باوجود  وہ کام  کر رہا ہے اس کا کہنا  ہے اگر  محرومی کے  باوجود میرا  اس دنیا میں کردار ہے  تو یہ  کیسے ممکن ہے کہ جو صحیح سلامت  اس کا کردار نہ ہو۔
نک نے پہلی خودکشی آٹھ بر س کی عمر میں  کی جس میں  کی جس میں وہ ناکام ہو گیا  جب دوسری  خود کشی کرنے لگا تو خیال آیا کہ میرے والدین کا کیا بنے گا۔ دوسری خود کشی کی ناکام کے  بعد اس نے منصوبہ بنایا کہ اب میں نے جینا ہے  اس فیصلے کے بعد اس نے اپنی تعلیم مکمل کی اس  دوران  اسے دنیا کی باتوں کا سامنا کرنا پڑا  لیکن اس کے باوجود اس نے زندگی کو  قبول کر لیا  وہ کہتا ہے کہ "کیونکہ مجھے زندگی سے محبت ہے اس لیے میں خوش ہوں"۔ خوشی کے لیے پہلی شرط یہ ہے کہ آپ کو زندگی سے محبت ہونی چاہیے ۔ زندگی میں دو حصے ہوتےہیں  جس میں کچھ چیزیں بدل  سکتی ہیں کچھ نہیں ۔ ساری دنیا کی سائنس بھی ترقی کر لے  یہ نہیں  ہو سکتا کہ ہمارے والدین بدل جائیں ، یہ نہیں ہو سکتا کہ ہماری سانسوں میں اضافہ ہو  جائے  موت کا وقت مقرر ہے۔ہماری شکل تھوڑی بہت تبدیلی ساتھ  بدلتی ہے  پھر نہیں مرتے دم تک نہیں بدل سکتی  ہم شکل کو نہیں بدل سکتے لیکن ہم عقل کو بدل سکتےہیں ، ہم اپنی سمجھ کو بدل سکتےہیں،ہم اپنا فہم بدل سکتےہیں ۔ ہم اپنی زندگی کا یہ پہلو دیکھ سکتےہیں کہ اگر ہم زندگی کو قبول کر  جاتےہیں  تو ان چیزوں فہرست بن جاتی ہے  جن کو بدلا جا سکتا ہے اور وہ چیزیں جن کو بدلا جا سکتا ہے ان کا ہمارے ساتھ تعلق ہوتا ہے ان میں ہمارا  رویہ ، سوچنے کا انداز ، کسی چیز کو قبول کرنے کا انداز، ردعمل۔ زندگی  بذات خود ایک عمل ہوتی ہے اور زندگی کے بعد کا وقت ردعمل ہوتا ہے ہم اس زندگی کے عمل کو کیش کرتےہیں  جسے آخرت کہا جاتا ہے۔
اس کائنات میں اللہ تعالیٰ کی ذات سب سے بڑی ٹیچر ہے  اس لیے وہ ہمیں سکھاتی ہے۔ قدرت ہمیں جو سکھانی چاہتی ہے اس وقت  تک وہ عمل دہراتی رہتی ہے جب تک ہم سیکھ نہیں جاتے۔ ہم اس عمل سے سیکھتے  نہیں ہیں جس کی وجہ  ہمارے ساتھ  بار بار ایک ہی معاملہ ہو رہا ہوتا ہے۔ایک لیکچر کے دوران  نک نے کہا  کہ میں تو اس قابل بھی نہیں ہوں  کوئی لڑکی مجھے قبول کرے  اسی  لیکچر میں ایک خوبصورت لڑکی نے اس کے ساتھ شادی کا فیصلہ کر  لیا  اور شادی ہو گئی ۔ قدر ت نے یہ معاملہ اس کے ساتھ اس لیے کیا  کیو نکہ اس نے  زندگی  کو قبول کر لیا  اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ "تم میرا شکر ادا کرو میں تمہیں اور دوں گا"شکر کا مطلب ہے  ہمیں جو کچھ ملا  ہے ہم اس کو قبول کر لیں گلے شکوے نہ کریں۔ نک  کہتا ہے  کہ "کامیابی یہ نہیں ہے کہ میں کھڑا ہوں  سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ میں اپنا کام خود کرتا ہوں"   محرومی کا ہونا اس بات کی علامت ہے کہ زندگی میں ہیرو کا کردار ہے کیو نکہ محرومی کے ساتھ  کچھ کر کے دکھانا ہوتا ہے ۔
جو آپ کا کمزور  ایریا ہے اسے مضبوط بنائیں،  آپ میں محرومی اللہ تعالیٰ کی عنایت کی علامت ہے ۔حضرت شیخ سعدی ؒ  کہیں جا رہے تھے پاؤں میں جوتی نہیں تھی دل میں خیال آیا کہ  میں اتنا بڑا ولی  اللہ ہوں  لیکن پاؤں میں جوتی نہیں ہے جب تھوڑا آگے گئے تو دیکھا ایک شخص کے پاؤں ہی  نہیں تھے   آپؒ فوری طور پر سجدے میں گر گئے  اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا جس مقام پر ہم گلہ کر رہے ہوتےہیں  دراصل وہ شکر کا مقام ہوتا ہے۔آپ کی کوئی اصلاح کر دے  اور دل میں گلہ آ جائے  تو فوری  طور پر اس گلے کو  شکر میں بدلیں ۔ ایک بندہ غریب  کے گھر میں پیدا  وہ شکوہ کرتا ہے  لیکن اسے پتا نہیں  کہ غربت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے کتنا نوازنا ہے ۔ کمی اس بات کی علامت  ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ سے خاص  برتاؤ کرنا ہے۔امریکہ میں ایک  شخص حادثے  کی وجہ سےکومے میں چلا گیا  انیس دن بعد جب اسے ہوش  آیا  تو اس نے رونا شروع  کردیا  اور کہا کہ ائے اللہ اگر یہ جسم کام میں  نہیں آ سکتا تھا تو پھر تو نے مجھے زندہ کیوں رکھا  اس سے تو بہتر تھا کہ تو مجھے مار دیتا  اوپر سے آواز آئی جس زبان سے  تم یہ شکوہ کر رہے ہو اس زبان سے پہلے شکر کر تیرا شکوہ کرنا نہیں بنتا  اس نے غور کیا  اور سوچا  کہ اس سے تو میں ہزاروں کام کر سکتا ہوں اس نے اپنے کاموں کی فہرست بنائی اور کام کرنا شروع کر دیا  اور ایک دن امریکہ  کا سب سے بیسٹ موٹیویشنل سپیکر  اور ٹرینر بنا  اور اس  کے لیکچر کی بہت مہنگی ٹکٹیں بکیں ۔نک کہتا ہے کہ "معجزے کی تلاش  چھوڑو بلکہ خود معجزہ بنو، جب لوگ ڈھونڈیں  تو کہیں کہ دیکھو  کس غریب کا بچہ  کیسے  کوشش کرتا ہوا یہاں تک پہنچ گیا"۔ہم معجزوں کی تلاش کر رہے ہوتےہیں  جبکہ  ہمیں خود معجزہ بننا ہوتا ہے  اس لیے معجزوں کی تلا ش چھوڑ دیں ۔
نک کہتا ہے:
"میں نے آج تک کسی شکر گزار  انسان کو پریشان نہیں دیکھا اور میں نے  آج تک  پریشان کو  شکر گزار نہیں دیکھا"
 "اس دنیا میں سب سے بڑا جھوٹ  یہ ہے کہ تم نہیں کر سکتے"
"ہاتھو ں اور اور بازوؤں سے زیادہ طاقتور چیز آپ کا ولولہ  اور جو ش ہوتا ہے"
"مقصد والی زندگی میں خود ترسی نہیں  ہوتی"
"شائد ممکن ہے آپ کو راستہ نظر نہ آ رہا ہو لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے  کہ راستہ ہے ہی نہیں"
"زندگی کے بعض غم چوٹیں ، تکلیفیں ،پریشانیاں  آپ  کو بہت بڑا فائدہ دے کر جاتی ہیں "
"خدا کا اگر کوئی اور نام رکھوں  تو  محبت رکھوں"
"دنیا میں جن کی وجہ سے فرق پڑتا  ہے وہ برا نہیں مناتے اور جو برا مناتےہیں ان کی وجہ سے فرق ہی نہیں پڑتا"
"تبدیلی کا انتظار چھوڑ کر خود تبدیلی بن جائیے "
"دنیا میں تم ایک بار آئے ہو یہ ایک بار بھی کافی ہے اگر تم کچھ کر کے دکھا دو "
آپ نے دنیا میں ثابت کرنا ہوتا ہے کہ  میں اس دنیا میں آیا تھا اور آپ کو اپنی خامیوں  کے ساتھ ثابت کرنا پڑے گا۔ اس لیے اپنی خامیوں کو قبول کر لیں  جو چیز تبدیل نہیں ہو سکتی اس کو چھوڑ دیں جو تبدیل  ہو سکتی ہے اس   کو تبدیل کرنے کی کوشش کریں ۔خامیوں کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ یہ آپ میں خود اعتمادی   کی کمی پیدا  دیتی ہیں  یہ  طبیعت میں مکاری پیدا کرتی ہے  بندہ زندگی کا سامنا کرنے کی بجائے دوسرے ذرائع تلا ش کرتا ہے حضر ت علی المرتضی  رضی اللہ عنہ فرماتےہیں "پیچھے سے حملہ کرنا بزدل کی نشانی ہے " اس  لیے کمزور بندہ جڑیں کاٹے گا ، تنقید کرےگا۔پہلے آپ یہ  دیکھیں کہ آپ  کن کن چیزوں میں کمی محسوس کرتےہیں  ان کی فہرست بنائیں اور اس طرح کے لوگ تلاش کریں جن لوگوں  میں  خامیاں تھیں اور انہوں نے ان خامیوں  پر قابو پا کر کامیابی حاصل کی ۔
اپنی زندگی میں شکر گزاری کو شامل کریں  یہ زبان سے ادا نہیں ہوتا  یہ حرکات  سے ادا ہوتا ہے۔ شکر گزار بندے کی شعاعیں  مثبت ہوتی  ہیں  جب وہ بکھرتی ہیں  تو اس کے بدلے میں بھی اس کو مثبت  شعاعیں ملتی ہیں  جس کے نتیجے میں اس  کی زندگی میں ذرائع  پیدا ہوتے ہیں۔ ہم جہاں پر ہوتے ہیں اس کے شکر گزار نہیں ہوتے جب اس کے شکر گزار نہیں ہوتے  تو پھر اس کو دھیمک کھانے لگ  پڑتی ہے ۔ شکر گزاری کا مطلب ہے ماننا  کہ جس زمین پر میں کھڑا ہوں یہ اللہ تعالیٰ نے مجھے دی ہے ، اللہ تعالیٰ نے کسی کو ذریعہ بنایا ہے ۔حدیث کا مفہوم ہے "جو شخص انسانوں کا شکر گزار نہیں ہے وہ اللہ تعالیٰ کا بھی شکر گزار نہیں ہے"بندہ  لوگوں کا شکر ادا کر رہا ہوتا ہے درحقیقت  وہ  اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کر رہا ہوتا ہے ۔انسان دنیا کی واحد مخلوق ہے جو اپنی ناکامیوں کو  کامیابیوں  میں بدل لیتی ہے سو بار ناکام ہونا اس کو ناکام نہیں کرتا اگر وہ ناکام ہونا نہ چاہے ۔
دنیا کا ہر انسان مشکل حالات سے نکل رہا ہوتا ہے حضرت واصف علی واصف ؒ فرماتے ہیں " پہاڑ پر جانے کے سو راستے ہوتےہیں  لیکن تمہارے لیے ایک راستہ ہوتا ہے جس پر تم چل رہے ہوتے ہو تم اپنا  راستہ واضح کر و تم نے کس راستے پر چل کر  منزل پر پہنچنا ہے "ہر بڑے انسان کو اپنے حال سے نفرت ہوتی ہے وہ تبدیلی چاہتا ہے یہ مادہ جتنا زیادہ ہوتا ہے اتنی جلدی تبدیلی آ تی ہے۔ کسی نے انتھونی رابنز سے پوچھا تم اتنے ٹرینرر کیسے بن گئے اس نے کہا لوگوں نے جو کام سالوں میں کیا  میں نے وہ دنوں میں  کیا ۔جو بندہ مہینے کا  کام دن میں نہیں کرتا وہ بڑا کام نہیں کر سکتا اگر آپ کے پاس کاموں کی فہرستیں نہیں ہیں ، مثبت سٹریس نہیں ہے  تو پھر آپ بڑے انسان  نہیں بن سکتے۔  اپنی خامیوں پر قابوں پانے کے لیے اپنی خامیوں  کو واضح کریں جو  بدلی نہیں جاسکتیں ان کو سینے سے لگائیں  او ر جو بدلی جا سکتی  ان کو بدلیں ۔جب آپ کامیاب ہو جاتےہیں  آپ کی شخصیت جیسی بھی  ہو قبول ہو جاتی ہے۔آج سے اپنی زندگی  کو اس دیکھیں جس طرح ایک ہیرو دیکھتا ہے، جیسے کو ئی کامیاب دیکھتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ سے دعا کریں  کہ ائے اللہ میرا ہاتھ دینے والا بنا دے جب یہ دعا کریں گے  تو کامیابی ہی کامیابی ہو گی۔

(Don’t Waste Time on Your Weakness, Syed Qasim Ali Shah)

فتح قسطنطنیہ


سلطنت عثمانیہ کے ساتویں حکمران سلطان محمد فاتح نے 1453ء میں استنبول فتح کیا۔یہ شہر ویٹی کن سٹی کے بعد عیسائیوں کا مقدس ترین شہر تھا آیا صوفیہ عیسایئوں کا دوسرا مقدس ترین چرچ تھا۔ استنبول قسطنطنیہ کہلاتا تھا اور ہزار سال سے ناقابل تسخیر تھا اس کی بڑی وجہ اس کا جغرافیہ تھا یہ شہر دوسمندروں کے درمیان پہاڑ کی چوٹی پر آباد تھا شہر تک پہنچنے کا واحد راستہ باسفورس تھا اور باسفورس سے نکلا ہوا گولڈن ہارن تھا یہ پانی کی ساڑھے سات کلومیٹر لمبی باریک پٹی ہے یہ بلندی سے سینگ کی طرح نظر آتی ہے اس لیے اسے گولڈن ہارن کہا جاتا ہے۔ استنبول کے بازنطینی حکمرانوں نے یہاں ایک مضبوط لو ہے زنجیر بچھا رکھی تھی وہ اس کو کھینچ دیتے اور جہاز وہیں رک جاتے بعد ازاں وہ پانی میں آتش گیر مواد ڈال دیتے اور اس کو آگ لگا دیتے اور یوں جہاز تباہ ہو جاتے۔
حضور اکرم ﷺ نے فرمایا تھا :میری امت کا جوشخص قسطنطنیہ فتح کرے گا وہ جتنی ہوگا ترک یہ سعادت حاصل کرنا چاہتے تھے ۔ سلطان محمد نے 1453ء میں استنبول کا محاصرہ اور دنیا کی تاریخ میں عجیب کمال کردیا اس نے ہزاروں درخت کٹوائے ان کے تختے بنوائے ان پر جانوروں کی چربی چڑھائی بحری جہاز تختوں پر چڑھائے ہزاروں لوگ جہازوں کو کھینچتے ہوئے پہاڑ کے اوپر سے دھکیل کر سمندر تک لے آئے، استنبول کے لوگ صبح جاتے تو وہ گولڈن ہارن میں جہاز دیکھ کر حیران رہ گئے ۔ سلطان نے 29 مئی1453ء کو شہر فتح کیا اور تاریخ میں ان کا نام سلطان محمد فاتح بن گیا۔استنبول میں آج بھی سلطان فاتح اور اس کی بیگم گل بہار کا مزار موجود ہے۔
(تاریخ کی مہک سے معطر بورسا، جاوید چوہدری)

ادب


سلطان عبدالمجید اول نے مسجد نبویﷺ کی توسیع کا کام کیا ۔ توسیع کے لیے پوری اسلامی دنیا سےاعلیٰ ترین معمار اکٹھے کیے گئے، معماروں کو ترکی کے شاندار اور خوبصورت ترین حصوں میں آباد کیا، دنیا جہاں کی مراعات دیں،معماروں کے بیٹے پیدا ہوئے تو ان تمام بیٹوں کا حافظ قرآن بنایا اور بزرگ معماروں سے درخواست کی آپ ان حافظ قرآن بیٹوں کا اپنا فن سکھائیں۔ یہ بچے جب فن اور قرآت میں یکتا ہو گئے تو سلطان انہیں مدینہ لے گئے اور مسجد نبویﷺ کی توسیع کا فریضہ سونپ دیا۔بارگاہ رسالت ﷺ کی توسیع کے صرف تین اصول تھے۔ یہ تمام معمار 24 گھنٹے وضو میں رہیں گے ہر لمحہ قرآن مجید کی تلاوت کریں گے اور مسجد کی حدود میں کوئی چیز کسی دوسری چیز کے ساتھ ٹکرائیں گے نہیں، پتھر کا کوئی ٹکڑا اگر چھیلنا، تراشنا، یا توڑنا پڑتا تھا تو وہ لوگ یہ ٹکڑا مدینہ منورہ سے چھ کلومیڑ باہر لے جاتے، وہ ٹکڑا وہاں تراشہ جاتا اور پھر دوبارہ مسجد نبویﷺ میں لاکر مقررہ جگہ پر نصب کر دیا جاتا۔ یہ اہتمام صرف سماعت رسول ﷺ کو غیر ضروری آوازوں سے محفوظ رکھنے کے لیے کیا گیا۔
(تاریخ کی مہک سے معطر بورسا، جاوید چوہدری)

اتوار، 27 نومبر، 2016

فڈرل کاسترو


فڈرل کاسترو کا نام گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں درج ہے، دنیا میں سب سے زیادہ جان لیوا حملے فڈرل کاسترو پر ہوئے جن کی تعداد 638 ہے ان مختلف قسم کے حملوں میں سگار میں زہر، بیس بال میں بم جیسے حملے بھی شامل ہیں ۔ ١٩٧٦ء سے لے کر دو ہزار آٹھ تک فڈرل کاسترو کمیونسٹ پارٹی کے سربراہ اور کیوبا کے صدر رہے اسکے بعد خرابی صحت کی بنا پر انہوں نے اپنے بھائی راول کاسترو کو صدر نامزد کر دیا جو اس سے پہلے بھی ملک کے اہم عھدوں پر رہ چکے تھے ۔ کاسترو نے ایک امیر خاتون سے شادی کی اور وہ بعد میں کیوبا کی خواتین کمیونسٹ جماعت کی سربراہ بنیں ، اس ساٹھ سالہ بادشاہی نظام میں کیوبا میں غربت اور انسانی حقوق کا استحصال ہوتا رہا مگر سوشلسٹ نظام کے نام پر ایک خاندان کی حکمرانی رہی۔
فیدل کاسترو کے ساتھ ایک قول منسوب کیا جاتا ہے، "اگر اقدامات قتل سے بچنا ایک اولمپک واقعہ ہوتا تو میں اس میں طلائی تمغہ پا لیتا"۔
صدائے روس " آر یو وی آر " کی ایک رپورٹ کے مطابق۔۔۔
کیوبا کے رہنما درحقیقت 638 قاتلانہ حملوں سے بچے ہیں جن میں سے بیشتر کا اہتمام سی آئی اے کی مدد سے کیا گیا تھا۔ امریکہ نے ہمیشہ ہی کیوبا کے انقلاب کے نتائج کی مخالفت کی تھی۔ اس کی وجہ محض امریکی کاروبار کو قومیانا ہی نہیں تھی بلکہ امریکہ سوویت یونین کے ایک نزدیکی اتحادی کو اپنی دہلیز پر برداشت نہیں کر سکتا تھا۔
مگر دنیا کی اولین معیشت اس ضمن میں کچھ بھی نہیں کر پا سکی تھی۔ خلیج کا ناکام حملہ، کیوبا میں میزائلوں کی موجودگی سے متعلق بحران اور اس کے بعد سفارتی تعلقات توڑ دیے جانے سے ہوانا کے امریکہ کے ساتھ بندھن یکسر ٹوٹ گئے تھے یوں کیوبا پر اس کا اثر بہت زیادہ کم ہو گیا تھا۔
ان حالات میں کاسترو کی موت ایک حل ہو سکتی تھی چنانچہ کاسترو سے نجات پانے کے غیر رسمی راستوں کی خاطر سی آئی اے نے جیمز بانڈ کے خالق آیان فلیمنگ سے بھی رجوع کیا تھا۔ دونوں کینیڈی برادران جیمز بانڈ ناولوں کے معترف تھے اور 1960 میں "جان کینیڈی نے فلیمنگ سے پوچھا تھا کہ کیوبا کے رہنما فیدل کاسترو کا تختہ کیسے الٹا جا سکتا ہے جو ریاستہائے متحدہ کے پہلو میں مسلسل ایک گلے کی ہڈی بنا ہوا ہے" یونیورسٹی آف واروک میں یو ایس نیشنل سیکیورٹی کے اسسٹنٹ پروفیسر کرسٹوفر موران نے لکھا تھا۔ برطانوی دستاویزی فلم "کاسترو کو مارنے کے 638 طریقے" میں کچھ بہت ہی الجھاؤ بھرے قاتلانہ اقدامات کا ذکر کیا گیا تھا اور یہ مہلک کوششیں ویسی ہی تھیں جیسی کا ذکر جیمز بانڈ سے متعلق ناولوں میں ہے۔
مثال کے طور پر سی آئی اے نے فیدل کی گہری غواصّی (یعنی غوطہ خوری) کے شوق کو استعمال کرنا چاہا تھا کہ انہیں زہر بھرا لباس برائے غواصی پہنوا دیا جائے۔ ایک اور طریقہ یہ سوچا گیا تھا کہ جہاں کاسترو غواصی کرتے ہیں وہاں دھماکہ خیز مواد سے بھرا بھڑکدار رنگوں والا گھونگا رکھوا دیا جائے، لیکن ان سب کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا تھا۔
کاسترو کی سیگار نوشی ان کی جان لے سکتی تھی۔ ذہین سائنسدانوں نے ان کے مرغوب سیگار کو زہر سے آلودہ تو کر دیا تھا لیکن کسی بھی طرح ان میں سے ایک کاسترو کو پلا نہ پائے تھے۔
رومان کا ایک سلسلہ بھی مہلک ثابت ہو سکتا تھا۔ سی آئی اے نے کاسترو کی عاشق ماریتا لورینز کو ان کی زندگی کی ڈور توڑنے پر مامور کیا تھا لیکن عین آخری لمحے وہ ایسا نہ کر پائی تھی۔
کیوبا کے رہنما کو جسمانی طور پر ختم کرنا اتنا آسان نہیں تھا جتنا انہوں نے سوچا تھا چنانچہ سی آئی اے نے ان کے عوامی تاثر کو زک پہنچانے کا سوچا۔ اگر آدمی نہیں تو اس کی داڑھی ہی سہی، ہے ناں؟ جاسوسوں نے کم ازکم ایک بار ان کے جوتوں میں ایسا زہر رکھنے کی کوشش کی تھی جس سے ان کے بال یکسر اڑ جاتے۔
لیکن سب سے مضحکہ خیز تصور ٹی وی سٹوڈیو میں کاسترو کی براہ راست تقریر سے پہلے ایل ایس ڈی کا سپرے کیا جانا تھا۔
کیوبا کی خفیہ ایجنسی کے سابق سربراہ فابیان ایسکالانتے کے مطابق کاسترو کی زندگی لینے کے کم از کم 638 رجسٹرڈ واقعات ہوئے۔
یہ تعداد بہت زیادہ تصور کی جا سکتی ہے لیکن اس امر کو پیش نظر رکھتے ہوئے کہ کاسترو نے تن تنہا، فلوریڈا سے کچھ میل دور، نصف صدی تک، امریکہ مخالف حکومت چلائی تھی

گوت لب ل ٹیز


گوت لب ل ٹیز ہنگری کا رہنے والا تھا بوڈاپسٹ اس کا شہر تھا وہ یہودی تھا والدین جرمنی سے ہنگری آباد ہوئے،اللہ تعالیٰ نے اسے زبانیں سیکھنے کا ملکہ دے رکھا تھا وہ جو لفظ سنتا اسے حفظ کر لیتا تھا وہ لہجوں کی نکالی کا بھی ماہر تھا ۔ وہ نو سال کی عمر یورپ کی تمام بڑی زبانیں بول لیتا تھا۔ وہ ترکی گیا وہاں اس نے اسلامی تاریخ، قرآن مجید اور حضور اکرمﷺ کی حیات مبارک کا مطالعہ کیا یہ مسلمان اور اسلام دونوں سے متاثر ہو گیا۔ اس نے ترکی اور عربی زبان سیکھی اور مسلمان ہو گیا۔یہ برطانیہ گیا وہاں اس نے کنگز کالج جوائن کیا اور وہاں کا ڈین بن گیا۔ وہاں اس نے مسلمان طالب علموں کے ایک پرائیویٹ ہاسٹل بنایا ہاسٹل میں ایک مسجد بھی بنوائی۔ انگریز نے 1849ء میں پنجاب کو فتح کیا اور 1858ء میں گورنمنٹ کالج کی بنیاد رکھی۔ وہ 1864ء میں لاہور آیا اور یہاں گورنمنٹ کالج کا پرنسپل بن گیا۔اس نے آتے ہی دو کام کیے پہلا یہ یہ کالج جو صرف امراء کے لیے بنا تھا اس کو ختم کر کے پورے پنجاب کا کالج بنا دیا اور دوسراآرٹس کے سائنس کے مضامیں بھی شروع کرائے۔وہ لاہور میں یورپ کے معیار کی یونیورسٹی بنانا چاہتا ہوں ۔ وہ یہ آیئڈیا لے کر گورنر کے پاس گیا مگر اس نے اسے مایوس کیا مگر اس نے ہمت نہ ہاری اور برطانیہ کے مخیر حضرات سے چندہ اکٹھا کی جو 35 ہزار پونڈ ہوا۔ اس نے اس سے پرانی انار کلی کے پاس پنجاب یونیورسٹی کی بنیاد رکھی یہ اس کا رجسٹرار بن گیا پھر اس نے پنجاب بھر میں شہروں اور قصبوں میں سرکاری سکول قائم کئے۔ اتنا کچھ کرنے کا باوجود تاریخ میں گم ہوگیا لیکن اس کے قائم کردہ سکول اور یونیورسٹی آج بھی قائم ہے۔
(کاش کوئی تین لاکھ اینٹیں خرید لے، جاوید چوہدری)

قطب الدین ایبک (Success Story)


وہ ترکستان کا رہنے والا تھا ، بچپن میں غلام بنا کر اس کو نیشاپور لایا گیا، غلاموں کی منڈی میں کھڑا کیا گیا ۔ قاضی فخرالدین وہاں سے گزرے وہ حضرت امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کی اولاد میں سے تھے۔ قاضی صاحب کی نظر اس بچے پر پڑی انہوں نے اس کی قیمت ادا کی اور اس کو گھر لے آئے اور اس کا نام قطب الدین رکھا اور اس کی بیٹوں کی طرح پرورش شروع کر دی۔قاضی صاحب ضعیف تھے اور علیل بھی وہ جلد انتقال کر گئے ۔ قاضی صاحب کے انتقال کے بعد ان کے بیٹے نے اس بچے کو منڈی میں جا کر ایک سوداگر کے ہاں بیچ دیا اور وہ بچہ ایک مرتبہ پھر غلام بن گیا۔ وہ سوداگر اسے غزنی لے گیا اس وقت غزنی میں شہاب الدین غوری کی حکومت تھی ۔ شہاب الدین غوری کی کوئی نرینہ اولاد نہیں تھی اس نے اس کا حل غلاموں کی شکل میں نکالا وہ غلام خریدتا اور ان کی شاہانہ تربیت کرتا پھر انہیں مختلف علاقے اور شعبے سونپ دیتا۔ شہاب الدین کے یہ غلام آگے چل کر خاندان غلاماں کہلائے۔ سوداگر شہاب الدین کی اس عادت سے واقف تھا لہذا وہ قطب الدین کو لیکر شہاب الدین کے پاس چلا گیا ، شہاب الدین کو قطب الدین پسند آگیا اس نے اسے اپنے غلاموں میں شامل کر لیا۔قطب الدین باصلاحیت تھا وہ جلد ہی بادشاہ کے قریب ہو گیا۔شہاب الدین غنی تھا اور وہ مانگنے والوں کو کبھی مایوس نہیں کرتا تھا اسے پتا چلا کہ قطب الدین اس سے بڑا غنی ہے یہ اپنے تصرف میں ہر چیز محل کے خادموں میں تقسیم کر کے سوتا ہے۔بادشاہ کو یہ عادت پسند آئی اور اس نے اسے اپنا بیٹا بنا لیا۔ جب دہلی اور اجمیر فتح ہوئے تو یہ دونوں شہر قطب الدین کے حوالے کردیے گیے اس کے ہندوستان میں فتح کا سلسلہ شروع ہوا یہاں تک کہ قطب الدین کی جاگیرسمانا،میرٹھ،ہانسی ، بنارس، گوالیار،گجرات، کالنجر، مہوہ ، برایوں، ملتان اور لاہور اس کی ملکیت بن گئے اور یوں وہ ہندوستان کا مختار کل بن گیا ۔ اس کے باوجود وہ اپنے آقا کو کبھی نہیں بولا ۔قطب الدین نے تاج الدین یلدوز کو شکست دے کر غزنی پر بھی اپنی حکومت قائم کر لی .1210ء میں قطب الدین لاہور قلعے کے باہر چوگان کھیل رہا تھا وہ اچانک گھوڑے سے گرا ، گھوڑے کی کاٹھی اس کی چھاتی پر گر گئی، پسلیاں ٹوٹ کر اس کے پھیپھڑوں اور دل میں پوست ہو گئیں اور یوں اسی وجہ سے اس کا انتقال ہو گیا اور اس کو چوگان کے میدان میں ایک کونے میں دفن کردیا گیا۔
قطب الدین کے ایک ہاتھ کی چھوٹی انگلی ٹوٹی ہوئی تھی، جب وہ شہاب الدین غوری کے محل میں داخل ہوا تو دوسرے غلاموں نے ٹوٹی ہوئی انگلی کی وجہ سے اسے ایبک کہنا شروع کر دیا یہ لفظ اس کی چھیڑ تھا لیکن شائد اللہ تعالیٰ کو اس کی سخاوت پسند آگئی باری تعالیٰ نے اس کی اس چھیڑ کو اس کا اعزاز بنا دیا۔ چنانچہ آج تاریخ جب تک قطب الدین کو ایبک نہ کہہ لے اس وقت تک خود کو مکمل نہیں سمجھتی۔
(رات آہستہ آہستہ اتر رہی تھی، جاوید چوہدری)

ذہن کی خوف سے لاشعوری تربیت

پاکستان سمیت دنیا بھرمیں لاتعداد افراد ایسے ہیں جو شعوری یا لاشعوری حوالے سے کسی نے کسی خوف میں مبتلا ہوتے ہیں جنہیں نفسیات کی زبان میں ’’فوبیا‘‘ کہتے ہیں۔
اس نئی تکنیک میں فوبیا کے شکار نفسیاتی مریضوں کو لاشعوری طور پر ان کے خوف کے بارے میں سوچنے پر مجبور کرکے اس سے لاتعلق بنا کر مختلف فوبیا سے چھٹکارا دلا کر ان کی زندگی پرسکون بنائی جاسکتی ہے۔
اس کے علاج کا ایک مروجہ طریقہ ’’ایکسپوژر تھراپی‘‘ ہے جس میں مریض کو ایک محفوظ ماحول میں وہی اشیا دکھائی جاتی ہیں جن سے وہ  خوف کھاتا ہے اور نفسیاتی معالج ( سائیکائٹرسٹ) اسے یقین دلاتا ہے کہ اس سے کوئی نقصان نہیں ہوتا لیکن بسا اوقات یہ طریقہ الٹا اثر کرتا ہے اور خوف کھانے والا تناؤ کا شکار ہوکر علاج سے دور ہی چلا جاتا ہے۔
اب یونیورسٹی آف کیلیفورنیا ، لاس اینجلس کے ماہرین نفسیات کے مطابق یہ سب عمل ایسے انجام دیا جاسکتا ہے کہ مریض کو اس کا احساس نہیں ہوتا کیونکہ یہ سب لاشعوری طور پر ہوتا ہے اور اسطرح خوف سے نجات مل جاتی ہے۔ ماہرین کی ٹیم نے ایک سافٹ ویئر استعمال کیا جو ایف ایم آر آئی اسکینر کو دیکھتے ہوئے کسی خاص شے یا ایسے منظر کی جانب اشارہ کرتا ہے جس کے بارے میں مریض لاشعوری طور پر سوچ رہا ہوتا ہے اس سافٹ ویئر انسانی آنکھ سے دماغ تک آنے والے منظر’’بصری قشر‘‘ یا وژول کارٹیکس کو نوٹ کرتا ہے۔
اس کے بعد ماہرین نے شرکا سے کہا کہ وہ اپنے خوف یا ہیبت ناک اشیا کے متعلق سوچیں۔ اس کے لیے مریضوں کو 40 ایسی اشیا دکھائی گئیں جن سے وہ خوف کھاتے ہیں تھے، مثلاً مکڑی اور کتے بلی وغیرہ۔ اس کے بعد انہیں کہا گیا کہ وہ ایف ایم آر آئی کے متعلق بھی سوچیں اور انہیں انعام میں کچھ رقم دی جائے گی۔
جیسے ہی لاشعوری طور پر کسی شخص کی سوچ ان خوفناک اشیا سے ملتی تو اسے پوزیٹو فیڈ بیک کا نام دیا گیا اور اسے انعام دیا گیا۔ اسے نیوروفیڈ بیک ٹریننگ میں مریضوں کو زیادہ سے زیادہ ان اشیا کے بارے میں سوچنے کو کہا گیا جو انہیں بہت زیادہ ڈراتی ہیں اور ہر بار اس کی تصدیق سافٹ ویئر نے کی اور انہیں انعام دیا گیا۔ مریضوں کو معلوم نہیں ہوا کہ وہ ایسا کیوں کررہے ہیں، وہ سمجھتے رہے کہ وہ رقم کے لیے ایسا کررہے ہیں لیکن دھیرے دھیرے ان کا خوف جاتا رہا۔
اسی طرح بلند فوبیا میں مبتلا افراد کو خوف والی اشیا سوچنے پر ہلکا کرنٹ بھی دیا گیا ہے۔ پیسے اور کرنٹ کی 3 گھنٹے کی ٹریننگ کے بعد ان کے فوبیا میں نمایاں کمی واقع ہوئی اور یہ سب کچھ لاشعوری طور پر ہوا۔ اس کے بعد ایک اور تجربہ کیا گیا جس میں 30 مریضوں کو 40 تصاویر میں سے کوئی دو خوفناک تصاویرانتخاب کرنے کو کہا اس دوران انہیں تصاویر دکھائی گئیں اور ان کے دماغ میں خوف کو ظاہر کرنے والے ایک مقام ’’ایمگڈالا‘‘ کا جائزہ لیا جاتا رہا، بار بار تصاویر کے انتخاب کے بعد ان کا خوف کم سے کم تر ہوتا ہے۔
روزنامہ ایکسپرس

ہفتہ، 26 نومبر، 2016

تقریر


کرسی پر بیٹھ کر فقط تیس منٹ میں تقریر گھڑنے کی کوشش نہ کریں،مچھلی کے قتلے کی طرح تقریر کو بھونا نہیں جا سکتا، اسے پھولنا پھلنا چاہیئے،ہفتے کی آغاز میں کوئی موضوع تلاش کر کے سارا ہفتہ جب بھی وقت ملے اس پر غور کریں، دوستوں میں اس کا تذکرہ کریں، اسے گفتگو کا موضوع بنائیں۔اس سے متعلق اپنے آپ سے ہر ممکن سوال کریں، جو نیا خیال ذہن میں آئے اسے کاغذ کے کسی پرزے پر لکھ لیں اور نئے خیالات کے کھوج میں رہیں، جب آپ نہا رہے ہوں، یا بازار میں جا رہے ہوں، ناشتے کے انتظار میں ہوں تو نئے نئے خیالات، تجاویز اور مثالیں خود بخود ذہن میں آنے لگیں گی، یہ ابراہم لکن کا طریقہ تھا، تمام کامیاب مقروں کا یہی طریقہ ہوتا ہے۔
)گفتگو اور تقریر کا فن، ڈیل کارنیگی(

جمعہ، 25 نومبر، 2016

جینے کی خواہش

کیمبرج یونیورسٹی کے ماہرین کی ایک تحقیق میں یہ انکشاف ہوا ہے کہ زندگی کے آخر میں لوگ عموماً ایک سال مزید جینے کی خواہش میں 11ہزار ڈالرز(تقریباً11لاکھ روپے) اپنے علاج معالجے پر خرچ کرتے ہیں۔ یعنی لوگ اپنی زندگی میں ایک سال اضافے کی قیمت اوسطاً 11لاکھ روپے ادا کرتے ہیں۔ تحقیقاتی رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ بڑھاپے میں لوگ ہسپتال کی بجائے اپنے گھر میں مرنے کو ترجیح دیتے ہیں اور اس مقصد کے لیے 20ہزار ڈالرز (تقریباً20لاکھ روپے) اضافی رقم خرچ کرتے ہیں۔
کیمبرج یونیورسٹی کے ماہرین نے اپنی رپورٹ میں مزید بتایا ہے کہ آخری عمر میں لوگ سب سے زیادہ رقم مختلف تکالیف سے نجات کے لیے خرچ کرتے ہیں۔ اوسطاً ایک بوڑھا شخص اس مقصد کے لیے 43ہزار ڈالر(تقریباً43لاکھ روپے) خرچ کرتا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں صحت کے لیے مختص بجٹ کا بڑا حصہ زندگی کے آخری حصے میں پہنچ چکے افراد کے علاج پر خرچ ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر امریکہ میں علاج کے لیے اوسطاً500ارب ڈالر (تقریباً 500 کھرب روپے)مختص کیے جاتے ہیں جن کا 30فیصد بوڑھے افراد کے علاج پر صرف ہوتا ہے۔ برطانوی نیشنل ہیلتھ سروس بڑھاپے میں مریضوں پر 1ارب 30کروڑپانڈز(تقریباً 1کھرب 97کروڑ روپے) خرچ کرتی ہے۔

کامیاب کہانی بنائیے

یہ سوال ہماری ابتدائی زندگی میں نہیں اٹھایا جاتا ہے کہ اصل میں ہمیں کرنا کیا ہے ۔ مثال کے طور ہر جب میں نے یہ سوچا کہ مجھے کرنا کیا ہے تو مجھے بعد میں ایم ایس سی سائیکولوجی اور ہیومن ریسورس کرنا پڑا۔سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اس سوال کو کیری کیجیے ، کیری کا مطلب یہ ہے کہ اس سوال کو سنبھال کر رکھنا ہے کہ اصل میں مجھے کرنا کیا ہے۔ہم لوگوں میں سے بالخصوص وہ لوگ جن میں تڑپ ہے لگن ہے اور بے سبب آنسو ہیں اور جن کی زندگی اضطراب میں گزر رہی ہے وہ زیادہ ترقی کر سکتا ہے۔
یہ ساری علامات ہیں کہ ایسے شخص میں کچھ کرنے کی ایک آگ ہے ۔ یہ ساری علامات اس بات کا ثبوت ہیں کہ قدرت نے اس سے کچھ کام لینا ہے۔ اس سے اگلی بات یہ ہے کہ کام کرنا کیا ہے اس سوال کو بھی کیری کیجیے کہ اگر آپ دل سے اس سوال کو اٹھاتے ہیں تو نیچر اس کا جواب دیتی ہے یعنی قدرت اس سوال کا ضرور جواب دے گی۔ اس بارے میں دو تین کتابیں بہت مشہور ہیں” الکیمسٹ” ناول ہے اور پچھلے سال ایک کتاب آئی ہے اس کا نام ہے ‘”دی ہیرو”یہ ر ہونڈا بائرن کی کتاب ہے اوراسے دارالشعورنے شائع کیا ہے اس میں بیان کیا گیا ہے کہ دنیا کے جتنے بڑے آدمی ہیں انہیں قدرت نے وقت سے پہلے اشارے دینے شروع کر دئیے تھے کہ تم یہ کام کرو تو ایکسل کر جائوگے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ کون اس پر کان دھرتا ہے اور کون فیصلہ کرتا ہے اور جرات کر کے آگے نکل جاتا ہے یہ اس شخص پر منحصر ہے۔
سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ قدرت ہمیں کچھ کہہ رہی ہوتی ہے اور ہم سن نہیں رہے ہوتے۔ ہم اپنی والدہ ، والد ، دوستوں اور اس بیج کو سن رہے ہوتے ہیں جن کے ساتھ ہم پڑھتے ہیں اپنی منگیتر کو سن رہے ہوتے ہیں لیکن اللہ کو نہیں سن رہے ہوتے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہم جرات کا مظاہرہ نہیں کرتے تو بعد میں وہ چیز زندگی کا پچھتاوا بن جاتی ہے۔
میری عادتوں میں ایک اچھی عادت یہ ہے کہ میں انٹرویو بہت دیتا ہوں اور میں ریڈیو کے ایک چینل پر انٹرویو کرتا ہوں پاکستان میں ایسے لوگوں پر جو زیرو سے ہیرو تک گئے ہیں جیسے کہ آئی ٹی کے شعبہ میں سلیم غوری صاحب ایسے تمام مہمان میں نے بلا کر دیکھے ہیں جن میں اطمینان اور جذبہ ہے اور یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے جرات کا مظاہرہ کیا ہے ۔
سلیم غوری صاحب نے مجھے بتایا کہ میں سٹی بینک میں ٹاپ کی جاب کر رہا تھا اور ساتھ میں اپنا ایک چھوٹا سا کاروبار بھی کر رہا تھا آسٹریلیا میں۔ وہ بتاتے ہیں کہ میرے باس نے مجھے کہا کہ یا تم یہ بڑی سی جاب کر لو جس میں گھر گاڑی بنگلہ سب کچھ مل رہا ہے یا یہ چھوٹا سا کاروبار کر لو جس میں سے کچھ بھی نہیں مل رہا۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے اسی وقت فیصلہ کیا کہ میں نے ایک کامیاب کہانی بننا ہے مجھے پیسے نہیں کمانےاور میں نے ریزائن کر دیا۔ گھر جا کر میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ گھر خالی کر دو اور گاڑی چھوڑ دو ہم نے کوئی بڑا کام کرنا ہے کہ نوکری کے لیےمیں پیدا نہیں ہوا۔
یعنی جب انسان جرات کا مظاہرہ کرے تو اپنے قدم اٹھا لیتا ہے لیکن اگر جرات ہی نہ ہو اور اتنا پریشر بلٹ کیا ہو اور میرا یہ فقرہ یاد رکھیے گا کبھی یہ مت بتائیں کہ میں کیا کر رہا ہوں بلکہ پہلے کر کے دکھائیں کہ میں نے کیا ،کیا ہے۔
ایسی بے شمار کہانیاں میری زندگی میں آئی ہیں جن لوگوں سے میں ملا ہوں اور میرے لیپ ٹاپ میں بے شمار آڈیو ویڈیوز پڑی ہوئی ہیں جو لوگ اندھے تھے اور کامیاب ہوئے ہیں جو بہرے تھے کامیاب ہوئے ہیں۔ ایسے بہت سے لوگ ہیں جن کے پاس کوئی وسائل نہیں تھے اور وہ کامیاب ہوئے ہیں ۔
ملک ریاض پر ایک وقت وہ بھی تھا کہ جب اس کی بیٹی بیمار ہو گئی اور اسے گھر کے برتن بیچنے پڑے اور ایک وہ وقت بھی آیا کہ اس نے کہا اب بہت ہو گئی اور اس نے اپنی سمت بدل لی کہاں وہ گھروں کے رنگ کے ٹھیکے لیتا تھا اور کہاں اب کا ملک ریاض۔
ہمارے اساتذہ مارکیٹ کو نہیں جانتے یہ انکا قصور نہیں ہے میں اساتذہ کو ڈی گریڈ نہیں کر رہا لیکن مارکیٹ میں وہ شخص کامیاب ہے جو اپنی فیلڈ میں بلا کا ماہر ہو یا کمبی نیشن ڈگری میں ہو۔ کئی انجینئر ایسے ہیں جنہوں نے ایم بی اے ساتھ کیا وہ جلدی آگے نکل جاتے ہیں وجہ یہ ہے کہ انہیں پروڈکشن سے نکال کر ایڈ منسٹریشن کی سیٹ پر بٹھا دیا جاتا ہے اور وہ آگے نکل جاتے ہیں۔
میرا ایک اسٹوڈنٹ ہے جوانجنیئر ہے اور ہنڈا پلانٹ پر انٹرویو کے بعد اس کی سیلکشن ہوئی تو انٹرویو کرنے والے نے بعد میں پوچھا کہ تمہیں مارکیٹ کا اندازہ کہاں سے ہوا اور اسٹیفن آر کوے کو تم کیسے جانتے ہو؟ تو اس نے جواب دیا کہ یہ میرے استاد نے ایف ایس سی کے دوران مجھے بتا دی تھیں۔
جب آپ کی بنیاد میں علم ہو ، کارپوریٹ مارکیٹ ہو بزنس ہو ساری چیزیں آپ کے سامنے پڑی ہوئی ہوں تو آپ کا عمل کچھ اور ہو گا۔ انٹرن شپ ہمارے ہاں برڈن سمجھی جاتی ہے کیونکہ یہ یونیورسٹی کی طرف سے فارمیلیٹی کے طور پر لی جاتی ہے ۔ میں نے بہت کم لوگ ایسے دیکھے ہیں جنہوں نے اپنی انٹرن شپ کو انجوائے کیا ہے۔ انہوں نے پریکٹیکل کو انجوئے کیا اور سسٹم کو سمجھا۔ ہمیں پندرہ سولہ سال سٹڈی کے دوران کتابیں پڑھنے کی اتنی عادت پڑ جاتی ہے کہ ہمیں اگر یہ کہا جائے سلفیورک ایسڈ اتنے ٹن بنانا ہے تو ہم یہ چاہتے ہیں کہ صرف کاپی پر بنا دیا جائے عملا کچھ نہ کرنا پڑے۔
جب آپ فیلڈ میں جاتے ہیں تو آپ کو پتہ چلتاہے کہ پروفیشنل رویہ کیا ہے؟ اس وقت جتنی ٹاپ کی کمپنیاں اور ٹاپ کے گورنمنٹ کے ڈیپارٹمنٹ ہیں۔ میں جوڈیشری میں ججز کو پڑھا رہا ہوں اور بیورو کریٹس کو پڑھا رہا ہوں اور کارپوریٹ سیکٹر میں ڈیسکون اور کتنے اداروں کو پڑھا رہا ہوں۔ میں نے دیکھا ہے کہ ہر جگہ پر پروفیشنل ایٹی ٹیوڈ پڑھایا جا رہا ہے۔ ایتھکس ، مارل اور کیمیونیکشن سکل اس لئے پڑھا رہے ہیں کیونکہ انجنیئ گونگا ہوتا ہے۔ اس کے اندر لیڈر شپ کوالٹی نہیں ہوتی اسے ٹیم بنا کر ٹاسک پورا کرنا نہیں آتا۔ اسے کتابوں میں پڑھنا آتا ہے لیکن عملی طور پر انسانوں سے ڈیل کرنا نہیں آتا۔
لہذا میرا مشورہ یہ ہے کہ محض انجینئر ہونا کافی نہیں ہے اس کے ساتھ ضروری ہے کہ اپنی سکلز بہتر کیجیے ۔ جب آپ سکلز بہتر کرتے ہیں تو پھر آپ ایکسل یعنی ترقی کرنے لگ پڑتے ہیں۔
میں اپنی مثال دیتا ہوں کہ جب میں یو ای ٹی میں پڑھتا تھا تو ہمارا وژن یہ تھا کہ پندرہ یا بیس ہزار کی سیلری کی جاب لگ جائے یہ ہمارا میکسمم وژن تھا۔ دو ہزار تین کا میں پاس آوٹ ہوں اور میرا جونیر آ کر مجھے یہ کہہ رہا ہے کہ میں سوا لا کھ روپے تنخواہ لے رہا ہوں تو میرے لیے بڑی ناکامی کی بات ہے۔ لیکن اگر مجھے آ کر کوئی کہے کہ میری بارہ لاکھ روپے تنخواہ ہے تو میں اس کو درست کہوں گا لیکن معذرت کے ساتھ مجھے ایک شخص بھی ایسا نہیں ملا۔

سید قاسم علی شاہ